حضرت مولانا الیاس ؒ اور انکی تبلیغی تحریک
( اقتباس تاریخ ندوۃ العلما لکھنؤ)
مولانا (سید عبد العلی صاحب ؒ ) آگے لکھتے ہیں "اس سفر میں ہم نے جو سب سے حیرت انگیز چیز دیکھی اور جس سے ہم کو لازوال مسرت اور روحانی شادمانی حاصل ہوئی وہ میوات کے علاقہ میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کا تبلیغی کام اور نظام ہے ، ہم نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ وہ بیسویں صدی عیسوی کا منظر نہ تھا ، بلکہ پہلی صدی ہجری کا نقشہ معلوم ہوتا تھا ، عہد بعثت کی اصلاح اور انقلاب حال اور قرون اول کے نو مسلموں کے جوش وجذبہ اور تبلیغ کے ذوق وشوق کے جو قصے ہم نے سیرت اور تاریخ اسلام میں پڑھے تھے ، گوڑ گانوہ کی جامع مسجد اور قصبہ نوح اور شاہ پو ر کی گلیوں میں اس کا نمونہ دیکھا ، واقعہ یہ ہے کہ یہ چشتی درویش اور مجددی عالم ، قدیم غیاث پور ( حال بستی نظام الدین ) میں حضرت نظام الدین اولیاؒ کے پہلو میں بیٹھ کر حضرت معین الدین چشتی ؒ کی اشاعت اسلام اور حضرت مجدد سر ہندیؒ اور حضرت شہید رائے بریلوی کی حفاطتِ اسلام کی سنت زندہ کر رہا ہے "۔( اقتباس تاریخ ندوۃ العلما لکھنؤ)
مولانا نے تبلیغ میں مسلمانوں کو عملی شرکت کی دعوت دیتے ہوئے ایک اور شمارے ( الندوہ ،مارچ ۱۹۴۰ءمیں تحریر فر مایا:۔
" ان تمام لو گوں کے لئے جو دین کا ذوق اور فہم رکھتے ہیں ،اور اس زمانہ کی ہنگامہ آرائیوں سے اکتا چکے ہیں ،اور جن کے نزدیک طریقِ نبوت ہی عمل کا راستہ ہے ، نیز اُن لوگوں کے لئے جو اپنے زمانہ کی دینی ویرانی پر حسرت کرتے ہیں ، مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ دہلی بستی نظام لدین میں مولانا محمد الیاس صاحب کی خدمت حاضر ہوں اور ان کے ساتھ کچھ وقت صرف کریں اور میوت میں جاکر تبلیغ کا کام اور اس کا نظام دیکھیں اور اس کے اثرات ملاحظہ فر مائیں ۔
تعجب ہے کہ لوگ تاریخ کے آثار قدیمہ ، بادشاہوں کی منہدم عمارتیں اور شکستہ مقبرے دیکھنے دور دور جاتے ہیں ، لیکن قرون اول کے زندہ نمونے اور اسلام کی جیتی جاگتی تصویریں دیکھنے کا شوق نہیں ہوتا اور اس کے لئے سفر کی زحمت گوارا کرنے والے بہت کم ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ معاصرت بڑا حجاب ہے ۔