ق
قاسمی
خوش آمدید
مہمان گرامی
[/color]
اللہ کے نیک بندوں کے دل محض انوارِ الٰہی ہو تے ہیں۔ ان کی مجلسیں عرفانِ حقیقت اور فیضانِ محبت کی مروارید سے تابندہ ہو تی ہیں ان کی ذات مرجع خلائق اور ان کا طرزِ عمل اسوہ نبویؐ کا پر تو ہو تا ہے ان کی دنیا استعنیٰ کی دنیا، ان کی دولت ایمان ویقین کی دولت ، اعلاء کلمۃ اللہ ان کا مقصد اور خدمتِ خلق
درد تھے اس پورے گروہ کی ترجمانی اس شعر میں کی ہے۔
احقر العباد
نور احمد بیگ عفی عنہ
چیرمین الماس ایجو کیشنل ٹرسٹ بنگلور
حقیقتِ عبدیت اور عبدیت کے آثار:
فرمایا یہ بند
ۂمومن تو اللہ تعالیٰ کا عبد اور غلام ہے ،اس کی رعیت ہے ، یہ بند
ۂمومن جو اپنے اندر عبدیت کاملہ لئے ہوئے ہے غلام ہوتے ہوئے بھی بادشاہ ہے جس قوم کی حکومت ہوتی ہے اس قوم کا یہ فرد اپنے کو بادشاہ سمجھتا ہے ،لہذا یہ مومن جو عبد ہے اس ذاتِ باری تعالیٰ کا بہ نسبت ایمان بادشاہ ہے، خدا کرے ہمار ی سمجھ میں آجائے،عبدیت سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی نظرمیں مطلوب نہیں ہے،کوئی شخص نمازپنجوقتہ پڑھتا ہے،تہجد پڑھتا ہے ،وظیفے پڑھتا ہے،لیکن اسکے اندر عبدیت نہیں ہے جیسا کہ ہونا چاہیے تو وہ صحیح معنیٰ میں عبد کہاں ہے ،وہ صحیح معنیٰ میں غلام کہاں ہے
ہاں فی الحال ہے عبدیت کی تو کچھ شان ہے ہی اور ہوتی ہے جس کے اندر آئی ہوئی ہے وہ بند
ۂمومن تمام احکام صالحہ ظاہرہ وباطنہ کو انجام دے رہا ہے اورسمجھ رہاہے کہ محض میری سعی کی کوئی طاقت نہیں ہے، جب تک توفیق الٰہی شاملِ حال نہ ہو،اللہ تعا لیٰ کی طرف اس کی نسبت کررہا ہے اور کسی وقت کمی ہوجاتی ہے اپنی طرف منسوب کرتا ہے ایسا بند
گھر کے باہر کے کام کرنا خلافِ شان نہیں ہے :
فرما یا کہ شان یہ ہے کہ رسول کی طرح حالت ہوجائے آج کل گھر کے کام اور بازار کے کام خلافِ شان سمجھے جاتے ہیں، وجہ یہ کہ حقیقی شان سمجھی ہی نہیں کہ کیا ہے ، محض ٹیپ وٹاپ کو شا ن سمجھتے ہیں ،حضور اکرم ﷺ گھر اور باہر کے سب ہی کام کرلیتے تھے ، تو کیا یہ خلافِ شان تھا مسلمانوں کو حضورﷺ کی طرح حالت بنانا چاہیے۔
شیخ کی جگہ کا بھی ادب ہے:
فرمایا کہ شیخ کے مقام کا بھی ادب رکھنا چاہئے۔ ایک مرید کا واقعہ ہے کہ بازار کسی کام سے گئے وہاں سپاہیوں نے کسی جرم کی وجہ سے پکڑ لیا اور جیل خانہ لے جاکر ان کے پیر میں بیڑی ڈال دی گئی ، اب یہ متحیر ہیں او ر حق تعالیٰ سے عرض کر رہے ہیں یا اللہ میں نے تو ایسا جرم نہیں کیا کہ پیر میں بیڑی ڈال دی جائے ، وارد ہوا یاد کرو اس وقت کو کہ تم نے اپنے شیخ کے مصلّے پر پاؤں رکھا تھا اور اب تک متنبہ ہو کر توبہ نہیں کی یہ اس کی سزا ہے۔ گھبر ا گئے اور فوراََ استغفار اور توبہ میں لگ گئے ،فوراََ حکم آیا کہ اصل مجرم مل گیا ہے ،جن کو گرفتا کیا گیا بے قصور ہیں ، لہذا ان کو رہا کردیا جائے۔ اب یہ شبہ ہوتا ہے کہ جان کر پیر نہیں رکھا تھا ، بلا قصدپڑ گیا ، اس پر سزا کیوں ہوئی جواب یہ ہے کہ قلتِ اہتمام کی وجہ سے سزا ہوئی کہ مرید عظمت کا اہتمام کرنے والے سے ایسی بے عظمت کی بات صادر ہی کیوں ہوئی ، اس پر تنبیہ تھی جیسا کہ حضرت والا مولانا تھانویؒ کی خدمت میں کوئی حاضر ہوتا اور غلطی کرتا اور حضرت کو اس سے تکلیف ہوتی اور حضرت فرماتیتمہاری بات سے تکلیف ہوئی اور وہکہتا کہ میں نے جان کر تکلیف نہیں پہونچائی تو حضرت فرماتے توبہ توبہ کسی مسلمان کی نیت پر حملہ کرنا کہاں درست ہے میں یہ کب کہتا ہوں کہ تم نے جان کرتکلیف پہنچائی ، میں یہ کہتا ہوں کہ تم نے اس کا اہتمام کیوں نہیں کیاکہ تکلیف نہ ہو۔عاجزی اولیاء اللہ کے دل میں پیوست ہوتی :
فرمایا۔ ا رے دوستوں کے ساتھ دوستی کا اظہار کیا تو کیا کیابات تو جب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی دوستی کا اظہار کرو ،بڑوں کے ساتھ اور بزرگوں کیساتھ عاجزی کا اظہارکرو ، یہ اصل عاجزی ، ان اولیا ء اللہ کے دل میں تو عاجزی پیوست ہوتی ہے ، جانتے ہو پیوست ہونا کسے کہتے ہیں پیوند لگ گیا ہے ان حضرات کے اندر انتہائی درجہ تحمل ہوتا ہے ، بہت زیادہ رواداری ہوتی ہے ، عجیب ان کے اندر حوصلہ ہوتا ہے ،ان حضرات کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی عظمت سمائی ہوئی ہے اور اسکی بڑائی اور کبریائی ان کے قلوب میں راسخ ہوچکی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ مجھکو نہ میری زمین سماسکتی ہے اور نہ میرا آسمان اور مجھکو میرے مومن بندہ کا دل جسمیں ترقی اور اطمنان کی صفت ہے سمو لیتا ہے (التَّشَرْفُ بِمَعْرِفَتِہٖ اَحاَدِیْثُ التَّصَوُفّ صفحہ۸۹) تَباَرَکَ الَّذٍیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ، سمائے ہیں اس مومن کے دل میں کسی دوسرے کے گنجائش کہاں ہوسکتی ہے اور اگر دوسرے کی گنجائش ہے تو اسکے دل کے اندر ایک گونہ شرک موجود ہے ۔ شر ک کی بھی مختلف قسمیں ہیں ، جس طرح سب کفر برابر نہیں ہے، اسی طرح سب شرک بھی برابر نہیں ہو تے ۔ بخاری شریف میں ’’ کفر دون کفر شرک دون شرک‘‘ کا باب موجود ہے ،مومن جس کے دل میں ذاتِ باری تعالیٰ ہوتے ہیں اسمیں کسی بھی قسم کاشرک ہو تو پھر توحید خالص کہاں ہوئی ، اخلاص کامل کہاں ہو
دوسروں کے عیوب کی فکر میں پڑنا تعلّی (بڑائی) ہے:
فرمایا۔ مومن کو ہر وقت اپنے دل کو خدا کی یاد میں مشغول رکھنا چاہیے ، غیر خدا کی طرف التفات اور توجہ کیسی اور پھر خصوصاً دوسروں کے عیوب کی فکر میں پڑنا اور لوگوں کے سامنے بیان کرنا اور اپنی طرف سے غفلت برتنا کیا
ہاں ! اگر بغرض اصلاح کسی شخص کے باپ یا استاذ سے کہدیں تو اور بات ہے کہ وہاں مقصود اصلاح ہے اور جو شخص محض دوسروں کی برائی کرنے کی غرض سے بیان کر رہا ہے اسکے اندرّ تعلّی کا مرض ہے ،وہ اپنے کو بہتر اور اچھا سمجھ رہاہے اور جس کی غیبت کر رہاہے اس کی تحقیر کر رہاہے،یاد رکھ! ائے غیبت کرنیوالے تجھ سے وہ گنہگار اچھا ہے جس کی تو غیبت کر رہاہے، کیونکہ اگر واقعی وہ گناہ اسکے اندر موجود بھی ہے پھر بھی وہ شخص جسکی تو غیبت کر رہا ہے ، تجھ سے اچھا ہے، چونکہ وہ شخص اپنے آپ کوگنہگار خیال کئے ہوئے ،تذلل اور عاجزی اس کے اندر موجودہے، اور تو ائے، غیبت کرنیوالے اپنے اندر اورتعلّی لئے ہوئے ہے، یہ باریک چور موجود ہے اور یہ تعلّی شرک نہیں تو اور کیا کھائیں گے گھی سے و ر نہ جائینگے جی سے: فرمایا کہ کسی بزرگ سے اصرار نہیں کرنا نہیں چاہیے اور اپنے شیخ سے تو اصرار کرنا ہی نہ چاہئے، اس میں ضرر کا اندیشہ ہے۔ فرمایا کہ میں نے ڈاھبیل کے وعظ میں کہا تھا کہ بعض علماء یہ کہدیتے ہیں کہ اصلاح تو واقعی ضروری ہے مگر اب پہلے جیسے اشخاص ہیں کہاں؟ جن سے اصلاح کرائی جائے، تو مجھے معاف رکھا جائے طالب علم بھی یوں کہہ سکتے ہیں کہ اب پہلے جیسے علماء غزالی،رازی وغیرہ ہیں کہاں؟ تو پھر یہ مدارس کیوں کھول رکھے ہیں اور اگر آپ یوں کہیں کہ غزالی اور رازی جیسے علماء اگرچہ نہیں ہیں مگر آج کل کے طلباء کی سیرابی کیلئے کافی ہے ، اسی طرح اگرچہ جنید وشبلی اور حاجی امداداللہ جیسے مشائخ نہیں مگر آج کل کے طالبین کے سیرابی کیلئے کافی ہے ورنہ تو وہی مثل صادق آئیگی کہ’’ کھائیں گے گھی سے ورنہ جائیں گے جی سے‘‘
توبہ کی مثال پانی جیسی ہے:
فرمایاکہ توبہ کی مثال پانی جیسی ہے، جس طرح پانی ناپاکی ظاہری کو دھو کر پاک کردیتا ہے، اسی طرح توبہ کا پانی باطنی نجاست کی صفائی کیلئے ہے ۔ جب نجاست ظاہری کیلئے پانی استعمال کرتے ہیں تو گناہ کی ناپاکی د ور کرنے کیلئے توبہ کو کیوں نہیں استعما ل کرتے؟
ارے ہو سکتا ہے کہ نجاست ایسی مضبوط لگی ہوئی ہو کہ پانی سے نہ دھلے اور کپڑا پاک نہ ہو، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ توبہ کی جائے اور گناہ کی نجاست سے انسان پاک نہ ہو، ضرور پاک ہو گا اور اس طرح پاک ہو گا کہ جس نامہ اعمال میں گناہ لکھ دیا گیا ہے اس سے بھی مٹ جائیگا.
اور جناب! جس طرح نامۂ اعمال سے مٹ جائیگا اس طرح کراماً کاتبین فرشتوں کے حافظہ سے بھی مٹ جائیگا کہ اگر وہ یاد کرنا چاہیں تو یاد نہیں آسکتا تو پھر ایسی اکسیر چیز’’توبہ‘‘ سے کیوں اعراض کیا جاتا ہے. یہ شیطانی خیال ہے کہ توبہ کیا ہو گا، توبہ کرکے کیا ہوگا؟ چونکہ شیطان نے خود توبہ نہیں کی، اسلئے مسلمان کو بھی توبہ نہیں کرنے دیتا، اسلئے ضرور توبہ کرنا چاہئے اور شیطان کا کہنا ہرگز نہیں ماننا چاہے۔
بلا خانقاہ کے علم کا رنگ نہیں چڑھتا :
فرمایا حدیث شریف میں آیا ہے مَنْ حَسَنَ اِسْلاَ مُ الْمَرْءِ تَرَکَہ‘ مَالاً یَعْنِیْہِ’’آدمی کے حسن ِ اسلام سے ہدایات ہے کہ لایعنی باتوں کو چھوڑدے مگر لایعنی نہیں چھوڑتا کیونکہ پڑھنے کا رنگ نہیں چڑھا اور رنگ اسلئے نہیں چڑھا کہ کسی رنگنے والے شیخ کے پاس نہیں گئے، رنگنا خانقاہ میں ہوتا ہے، مجھے معاف فرمایا جائے بلا اس کے رنگ نہیں چڑھ سکتا، کیونکہ شیخ کے یہاں عمل ہی کی تعلیم ہوتی ہے،وہ حکایات میں شکایات میں مختلف طریقوں سے علمِ شریعت پر عمل کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔
تربیت کا طریق حکیمانہ ہونا چاہیے :
فرمایا کہ ایک مرتبہ مولانا محمد الیاسؒ امیرِ تبلیغ جماعت تھانہ بھون تشریف لائے ، ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ مسجد کے درمیں سے کھڑے ہوئے وہ حضرت والا تھا نویؒ کو گھور رہے تھے، تھوڑی دیر توقف کیا کہ شاید اتفاقاً دیکھ رہے ہوں ، توقف کے بعد جو دیکھا تو پھر گھور رہے ہیں، بھائی نیاز صاحب ! ملازم سے فرمایا کہ دیکھو! یہ کون صاحب ہیں جو مجھے گھور رہے ہیں، بھائی نیاز نے آکر کہا مولانا الیاس صاحب ہیں! حضرت نے فرمایا کہ اپنے ہوکر اور ایسی بات،آپ ان سے جاکر کہیں کہ آپ مجھے گھور رہے ہیں اس سے انکار نہیں لیکن کیا کروں میرے مثانہ میں اس قدر ضعف سا آگیا ہے کہ جب کوئی مجھے گھور کر دیکھتا ہے تو پیشاب کا قطرہ آنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔دیکھئے! طریقِ تربیت کیسا عمدہ اختیار فرمایا حا لانکہ کسی کو دیکھنے میں دل پر بوجھ پڑتا ہے جو معاشرت کے خلاف ہے ،مولانا الیاس صاحب چونکہ بڑے تھے اسلئے ان کی تربیت کیسی حکمت سے فرمائی تربیت کا طریقہ سیکھنا چاہیے۔ سب کو ایک لکڑی سے نہیں ہانکنا چاہیے۔
معذورین نہ ماجور ہوتے ہیں نہ مازور:
فرمایا کہ تنافس جس کا فَلْیَتَنَا فَسِ الَمُتَناَ فِسُوْنَ میں حکم ہے ،اس کا حکم ہے کہ کسی کو دینی ترقی کا کام کرتے ہوئے دیکھے تو یہ خواہش کرے کہ میں بھی ایسا ہی کام کروں ،تاکہ دینی ترقی ہو ، اگر یہ نہیں ہوتا یَاَ اَیُّھَاا لَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْاللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتْمْ مْسْلِمُوْنَ کیوں فرمایا یعنی ائے میرے ماننے والو! تم نے مجھے محبت سے مانا ہے ، ابتدائی رنگ جو میرے ماننے کا آیا ہے محبت سے آیا ہے کیونکہ ایمان لانا اکثر مسلمان کا خوف وخشیت سے نہیں ، کسی نے ڈرایا تھا ،یہ سب کچھ محبت کی وجہ سے ہے ،اپنے دل میں محبت پیدا کرلو ،فطری چیز ہے۔ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ (کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ) کہتے ہی بلیٰ(کیوں نہیں) کہنا شروع کردیا ، بلا سوچے سمجھے اور بلاء سر لے لی ،کیونکہ میدانِ عشق میں آتے ہی بے انتہا،بلاؤں کا نزول ہوتا ہے ۔جبکہ عشق مجازی میں بلائیں ہیں تو عشق حقیقی میں تو کس قدر بلائیں ہونگی ۔ جب آتا ہے فرمائش ہوجاتی ہے کل کو رومال لے آنا، رومال لایا بہت ہی چھانٹ کر دہلی بمبئی سے تلاش کرکے ،مگر جب لایا تو اس میں نقص نکال دیا ۔فرہاد کوہ کن شہزادی پر عاشق ہوگیا ، نکاح کا پیغام دیدیا،چونکہ بڑے بڑے ہی ہوتے ہیں، صراحتاََمنع نہیں کرتے ، بلکہ تدبیر سے ٹالا کرتے ہیں، چنانچہ بادشاہ نے یہ شرط کی کہ ہمارے محل تک دودھ کی نہر لے آؤ، ہم شادی کردیں گے ۔ اب نہر اور وہ بھی دودھ کی کسطرح لائے گا ،لیکن میدانِ عشق میں مشقتیں کافور ہوجاتی ہیں نہر کھودنا شروع کردی اور دودھ بہانا شروع کردیا جب محل سے کچھ فاصلہ پر نہر رہ گئی اور بادشاہ کو اندیشہ ہوا کہ یہ تو کامیاب ہو جائیگا اور حسب وعدہ شادی کرنا پڑے گی تومشہور کردیا کی شیریں کا انتقال ہوگیا شدہ شدہ یہ خبر فرہاد تک پہونچ گئی ،سنتے ہی جس کدال سے نہر کھود کر لارہا تھا فوراََ سر پر مار کر مرگیا۔اب رہا یہ سوال کہ بخشا جائے گا یا نہیں تو یہ لوگ معذور ہو تے ہیں ، ماجور نہیں ہو تے اور(مازور) گنہگار بھی نہیں ہو تے ، بلکہ معذور ہو نے کیوجہ سے بخشے جائیں گیمگر درجات نہیں ملیں گے ، کیونکہ درجات تو عمل پر ملتے ہیں اور نہرکھودنا کوئی عمل خیر نہیں تو معذوری کی وجہ سے یہ خود کشی معاف ہو گی۔
بسم اللہ الر حمٰن الر حیم
اَلَحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعٰلَمیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرْ سَلِیْنَ عَلیٰ آلِہٖ وَاصْحَابِہٖ اَجْمَعَیْنَ ۔اللہ کے نیک بندوں کے دل محض انوارِ الٰہی ہو تے ہیں۔ ان کی مجلسیں عرفانِ حقیقت اور فیضانِ محبت کی مروارید سے تابندہ ہو تی ہیں ان کی ذات مرجع خلائق اور ان کا طرزِ عمل اسوہ نبویؐ کا پر تو ہو تا ہے ان کی دنیا استعنیٰ کی دنیا، ان کی دولت ایمان ویقین کی دولت ، اعلاء کلمۃ اللہ ان کا مقصد اور خدمتِ خلق
ان کاشیوہ ہو تا ہے وہ
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل وپاکباز
کی صحیح تصویر ہو تے ہیں ۔حوادث کے تیز تند جھونکے ان کے پائے ثبات کو بھی متزلزل نہیں کرسکتے ، ماحول کی برہمی اور حالات کی ناساز گاری سے کبھی وہ کبیدہ خاطر نہیں ہوتے ، زمانے کی خونخوار نگاہیں ان کی راہوں میں سدِّ آہن نہیں بنتی، وہ ہمیشہ نڈر ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر اعتماد کرتے ہو ئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل وپاکباز
ہوا ہے گو تند وتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیا ہے اندازِ خسروانہ
محب الامت عارف با للہ حضرت اہل اللہ صاحب دامت برکاتہم۔ انھیں کاملین میں سے ہیں ۔جنھیں قدرت کے فیاض ہاتھوں سے علم ومعرفت وآگہی توکل واعتماد، ایثاروقربانی، جانبازی وجاں سپاری، اولو العزمی رحمدلی ، محبت اور خدمتِ خلق کا بھر پور حصہ ملا ہے آپ کی ذات اس ظلمت کدۂ گیتی میں روشن چراغ کے مثل ہے ۔ حقیقت میں اہلِ دل کے کلام میں جوغیر معمولی حلاوت اور دل میں قوت ہے وہ ان کی روح کی لطافت وقلب کی پا کیز گی اور اندرونی کیفیت وسر مر متی کا نتیجہ ہے اور اس کے لئے وہ کسی خارجی مدد اور مقام یا وقت کے محتاج نہیں ہوتے ، ان کی خوشی وسر متی کا سر چشمہ اور ان کی دولت کا خزانہ ان کے دل میں ہو تا ہے خواجہ میر درد نے جو خود صاحبِ دل اور صاحب ِ وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیا ہے اندازِ خسروانہ
درد تھے اس پورے گروہ کی ترجمانی اس شعر میں کی ہے۔
جائیے کس واسطے اے درد میخانے کے بیچ
کچھ عجب مستی ہے اپنے دل کے پیمانے کے بیچ
آپ کی مبارک مجلس میں بہت ہی کم حاضری کا موقع ملا ۔اس مختصر صحبت ہی میں ایسا سکون وسرور حاصل ہوا بندہ اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر ہے ۔لیکن عاجز نے آپ کی مجلس میں ذوق وشوق کیف ومستی اور وجدانی کیفیات کا غلبہ طاری پایا۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ آپ شب وروز محبت وعقیدت کے دریا میں غوطہ زن رہتے ہیں شیخِ طریقت حضرت اقدس شاہ محمد مسیح اللہ خان صاحب ؒ کی محبت ، روح وقلب پر اس انداز سے چھائی رہتی ہے کہ کبھی حضرت تھانویؒ کے ارشادات اور کبھی حضرت مسیح الامتؒ کے ارشاداتِ عالیہ سے بات شروع کرتے ہیں آپ کے مریدین ومعتقدین ایسی محویت سے سنتے ہیں گویا یہ آپ کے شیخ محترمؒ یاحضرت تھانویؒ ہی کی مبارک مجلس ہے ۔کچھ عجب مستی ہے اپنے دل کے پیمانے کے بیچ
وہی آبلے ہیں وہی جلن کوئی سوزِ دل میں کمی نہیں
جو آگ تم تھے لگا گئے وہ لگی ہو ئی ہے بجھی نہیں
حضرت والا اپنے اکابر کا ذکرِ خیر بڑی عقیدت ومحبت سے کرتے ہیں لوگوں کے دلوں میں آپ کی عقیدت ومحبت کے ساتھ ساتھ آپ کے اکابر کی محبت وعقیدت دل میں جاں گزیں ہوتی ہے آپ ظاہری وباطنی طور پر اپنے شیخ ومرشد کا کامل نمونہ ہیں فرموداتِ مسیح الامت ؒ ایک ایسا پیارا مجموعہ ہے کہ اس کو پڑھ کر اپنی باطنی اصلاح ضرور کرے گا اس مجموعہ میں حضرت مسیح الامت ؒ نے مسلمانوں کے باطنی جتنے امراض ہیں واقعی ان تمام امراض کی مسیحائی فرمائی ہے اس میں علم وعرفان روحانی تعلیم ورموزِ تصوف کو اس اَحْسَنْ انداز میں پیش فرمایا ہے اس کتاب کا قاری انشاء اللہ عشق ومحبت کی آگ کو اپنے اندر سمو کر اپنے دل کا تزکیہ کرکے ایک صالح ومتقی بن جائیگا بشرطِ کہ ان فرمودات کو اپنی اصلاح کی غرض سے پڑھے۔یہ سرسری مطالعہ کرنے کی کتاب نہیں ہے بلکہ دل ودماغ کی یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کریں انشاء اللہ فائدہ ہوگا سلوک وتصوف کی پُرْ پیچ اور تکمیل انسانیت کی وادیوں کے مسافرین خصوصیت کے ساتھ استفادہ فرماکر راہِ سلوک کی منازل طأ کریں اللہ تعالیٰ ہم کو اور سب مسلمانوں کو حضرت والا کے فرمودات کے فیوض وبرکات سے نفع عطاء فرمائے اور اللہ تعالیٰ قبولیت کے شرف سے مشر ف فرمائیں۔اللہ تعالیٰ حضرتِ والا کو صحت وعافیت عطاء فرماکر آپ کے سایۂ عاطفت کو تادیر ہمارے سروں پر قائم فرمائے اور آپ کے فیوضِ روحانی سے ہمیں مستفیض ہو نے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔جو آگ تم تھے لگا گئے وہ لگی ہو ئی ہے بجھی نہیں
احقر العباد
نور احمد بیگ عفی عنہ
چیرمین الماس ایجو کیشنل ٹرسٹ بنگلور
حقیقتِ عبدیت اور عبدیت کے آثار:
فرمایا یہ بند
ۂمومن تو اللہ تعالیٰ کا عبد اور غلام ہے ،اس کی رعیت ہے ، یہ بند
ۂمومن جو اپنے اندر عبدیت کاملہ لئے ہوئے ہے غلام ہوتے ہوئے بھی بادشاہ ہے جس قوم کی حکومت ہوتی ہے اس قوم کا یہ فرد اپنے کو بادشاہ سمجھتا ہے ،لہذا یہ مومن جو عبد ہے اس ذاتِ باری تعالیٰ کا بہ نسبت ایمان بادشاہ ہے، خدا کرے ہمار ی سمجھ میں آجائے،عبدیت سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی نظرمیں مطلوب نہیں ہے،کوئی شخص نمازپنجوقتہ پڑھتا ہے،تہجد پڑھتا ہے ،وظیفے پڑھتا ہے،لیکن اسکے اندر عبدیت نہیں ہے جیسا کہ ہونا چاہیے تو وہ صحیح معنیٰ میں عبد کہاں ہے ،وہ صحیح معنیٰ میں غلام کہاں ہے
ہاں فی الحال ہے عبدیت کی تو کچھ شان ہے ہی اور ہوتی ہے جس کے اندر آئی ہوئی ہے وہ بند
ۂمومن تمام احکام صالحہ ظاہرہ وباطنہ کو انجام دے رہا ہے اورسمجھ رہاہے کہ محض میری سعی کی کوئی طاقت نہیں ہے، جب تک توفیق الٰہی شاملِ حال نہ ہو،اللہ تعا لیٰ کی طرف اس کی نسبت کررہا ہے اور کسی وقت کمی ہوجاتی ہے اپنی طرف منسوب کرتا ہے ایسا بند
ۂمومن پورے اھتمام کے ساتھ کوشش کرتا ہے کہ میری ذات سے کسی بھی شخص کو کسی قسم کی کوئی تکلیف، کوئی نقصان نہ پہو نچے، کسی کا دل نہ دکھے ،یہ ہیں عبدیت کے آثار، ۔اور یہ بھی عبدیت ہی کے آثارہیں کہ بندۂمومن کسی حال میں ہو،تندرستی کی حالت ہو یا بیماری کی،فقر وفاقہ کی حالت ہو یا امیری کی ،یا مصائب غیراختیاریہ کا وقوع ہو، ہر حال میں وہ اعمال ظاہرہ وباطنہ کا پورا پورا اہتمام کرتا ہے خواہ بشاشت اور طبیعت کھلی ہوئی ہو یا نہ ہو، ہر حال میں عبدیت کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے کہ صحت کی حالت میں جو بشاشت ہوتی ہے وہ درد کی حالت میں کہاں، لیکن یہ بند�ۂمومن قلباََ وروحاََ جس طرح صحت وقوت کی حالت میں تھا،اعزاز کی حالت میں تھا، اس وقت تھا جبکہ دوسروں کی طرف سے مصائب سے بچا ہوا تھا، مرض کی حالت میں بھی ویسا ہی ہے افلاس میں بھی ویسا ہی ہے دوسروں کی طرف سے ذلت کے پیش آجا نے پر بھی ویسا ہی ہونے کا کیا مطلب ؟ یہ کہ جس طرح عبدِ مومن اپنے کو سب سے کمتر سمجھے ہوئے تھا، اب بھی اس کے دل کا وہی حال ہے، پہلے بھی کسی پر اسکی نگاہ حقارت کی نہیں تھی ،اب بھی نہیں ہے۔ حتی الامکان اسکے ا وراد وظائف اور اس کے معمولات اب بھی نہیں چھوٹے۔ یہ عبدیت فراخ دستی میں تو اور طرح سے تھی اور تنگدستی میں اور طرح سے ہے، قلب کی کیفیت کے لحاظ سے گو جسم پر اثر دوسرا ہوگا ۔
ادائے حقوق ہو، مطالبہ حقوق نہ ہو :
فرمایا عبدیت یہ کہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا پورا پورا اہتمام رہے اور اپنے حقوق کی طبیعت کے اندر طلب نہ رکھو کہ اپنے کو اس کے مطالبہ کے اندر کھپادو ، حالانکہ اپنے حقوق کا مطالبہ جائز ہے لیکن وہ عبد کامل تو نائب رسولﷺ بدرجہ ولایت ظاہراََ وباطناََ ہے پھر وہ اپنے حقوق کے لئے دوسروں سے اس درجہ طالب کس طرح ہوتا ہے ، پس اس کی طرف سے تو ہمیشہ عفو ودر گذر کا معاملہ ہے ،اس کے اندر شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت بھی آگئی ہے ، شریعت کے تمام احکام کوصحیح طریقہ پر اخلاص اور صدق کے ساتھ انجام دے رہاہے ، بس یہی ہے ’’ شریعت بطریق سلوک ‘‘اس کو کہا گیا ہے اللہ تعا لیٰ ہم کو ہر حال کے اندر اپنے فضل وکرم سے نوازیں جو بھی طاعتِ کاملہ اعمالِ ظاہرہ وباطنہ کے ساتھ ہو رہا ہے وہ سب توفیق الٰہی سے ہو رہا ہے ، اس کے فضل سے ہو رہا ہے ، اپنا کما ل نہیں ، اسلئے اپنے پر نظر نہیں، اپنی طرف سے نسبت نہیں جو کچھ ہے ان کا فضل ہے اور اگر خدا نخواستہ کبھی اتفاقاََ خلا ف ہو گیا اسکی نسبت اپنی طرف ہے ، نہ کہ ذاتِ باری تعا لیٰ کی طرف ہے یہ ہے عبدیت ۔ ا للہ تعا لیٰ ہمیں اپنے فضل وکرم سے اپنی توفیق سے عبدیت کے جو آثار ہیں اعمال ظاہرہ وباطنہ کی پوری پوری پابندی عطا فرما ئیں اور اپنی عبدیتِ کاملہ کیساتھ اپنے فضل وکرم سے موت کے وقت تک نوازیں آمین یا رب العلمین۔ ادائے حقوق ہو، مطالبہ حقوق نہ ہو :
گھر کے باہر کے کام کرنا خلافِ شان نہیں ہے :
فرما یا کہ شان یہ ہے کہ رسول کی طرح حالت ہوجائے آج کل گھر کے کام اور بازار کے کام خلافِ شان سمجھے جاتے ہیں، وجہ یہ کہ حقیقی شان سمجھی ہی نہیں کہ کیا ہے ، محض ٹیپ وٹاپ کو شا ن سمجھتے ہیں ،حضور اکرم ﷺ گھر اور باہر کے سب ہی کام کرلیتے تھے ، تو کیا یہ خلافِ شان تھا مسلمانوں کو حضورﷺ کی طرح حالت بنانا چاہیے۔
شیخ کی جگہ کا بھی ادب ہے:
فرمایا کہ شیخ کے مقام کا بھی ادب رکھنا چاہئے۔ ایک مرید کا واقعہ ہے کہ بازار کسی کام سے گئے وہاں سپاہیوں نے کسی جرم کی وجہ سے پکڑ لیا اور جیل خانہ لے جاکر ان کے پیر میں بیڑی ڈال دی گئی ، اب یہ متحیر ہیں او ر حق تعالیٰ سے عرض کر رہے ہیں یا اللہ میں نے تو ایسا جرم نہیں کیا کہ پیر میں بیڑی ڈال دی جائے ، وارد ہوا یاد کرو اس وقت کو کہ تم نے اپنے شیخ کے مصلّے پر پاؤں رکھا تھا اور اب تک متنبہ ہو کر توبہ نہیں کی یہ اس کی سزا ہے۔ گھبر ا گئے اور فوراََ استغفار اور توبہ میں لگ گئے ،فوراََ حکم آیا کہ اصل مجرم مل گیا ہے ،جن کو گرفتا کیا گیا بے قصور ہیں ، لہذا ان کو رہا کردیا جائے۔ اب یہ شبہ ہوتا ہے کہ جان کر پیر نہیں رکھا تھا ، بلا قصدپڑ گیا ، اس پر سزا کیوں ہوئی جواب یہ ہے کہ قلتِ اہتمام کی وجہ سے سزا ہوئی کہ مرید عظمت کا اہتمام کرنے والے سے ایسی بے عظمت کی بات صادر ہی کیوں ہوئی ، اس پر تنبیہ تھی جیسا کہ حضرت والا مولانا تھانویؒ کی خدمت میں کوئی حاضر ہوتا اور غلطی کرتا اور حضرت کو اس سے تکلیف ہوتی اور حضرت فرماتیتمہاری بات سے تکلیف ہوئی اور وہکہتا کہ میں نے جان کر تکلیف نہیں پہونچائی تو حضرت فرماتے توبہ توبہ کسی مسلمان کی نیت پر حملہ کرنا کہاں درست ہے میں یہ کب کہتا ہوں کہ تم نے جان کرتکلیف پہنچائی ، میں یہ کہتا ہوں کہ تم نے اس کا اہتمام کیوں نہیں کیاکہ تکلیف نہ ہو۔عاجزی اولیاء اللہ کے دل میں پیوست ہوتی :
فرمایا۔ ا رے دوستوں کے ساتھ دوستی کا اظہار کیا تو کیا کیابات تو جب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی دوستی کا اظہار کرو ،بڑوں کے ساتھ اور بزرگوں کیساتھ عاجزی کا اظہارکرو ، یہ اصل عاجزی ، ان اولیا ء اللہ کے دل میں تو عاجزی پیوست ہوتی ہے ، جانتے ہو پیوست ہونا کسے کہتے ہیں پیوند لگ گیا ہے ان حضرات کے اندر انتہائی درجہ تحمل ہوتا ہے ، بہت زیادہ رواداری ہوتی ہے ، عجیب ان کے اندر حوصلہ ہوتا ہے ،ان حضرات کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی عظمت سمائی ہوئی ہے اور اسکی بڑائی اور کبریائی ان کے قلوب میں راسخ ہوچکی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ مجھکو نہ میری زمین سماسکتی ہے اور نہ میرا آسمان اور مجھکو میرے مومن بندہ کا دل جسمیں ترقی اور اطمنان کی صفت ہے سمو لیتا ہے (التَّشَرْفُ بِمَعْرِفَتِہٖ اَحاَدِیْثُ التَّصَوُفّ صفحہ۸۹) تَباَرَکَ الَّذٍیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ، سمائے ہیں اس مومن کے دل میں کسی دوسرے کے گنجائش کہاں ہوسکتی ہے اور اگر دوسرے کی گنجائش ہے تو اسکے دل کے اندر ایک گونہ شرک موجود ہے ۔ شر ک کی بھی مختلف قسمیں ہیں ، جس طرح سب کفر برابر نہیں ہے، اسی طرح سب شرک بھی برابر نہیں ہو تے ۔ بخاری شریف میں ’’ کفر دون کفر شرک دون شرک‘‘ کا باب موجود ہے ،مومن جس کے دل میں ذاتِ باری تعالیٰ ہوتے ہیں اسمیں کسی بھی قسم کاشرک ہو تو پھر توحید خالص کہاں ہوئی ، اخلاص کامل کہاں ہو
دوسروں کے عیوب کی فکر میں پڑنا تعلّی (بڑائی) ہے:
فرمایا۔ مومن کو ہر وقت اپنے دل کو خدا کی یاد میں مشغول رکھنا چاہیے ، غیر خدا کی طرف التفات اور توجہ کیسی اور پھر خصوصاً دوسروں کے عیوب کی فکر میں پڑنا اور لوگوں کے سامنے بیان کرنا اور اپنی طرف سے غفلت برتنا کیا
ہاں ! اگر بغرض اصلاح کسی شخص کے باپ یا استاذ سے کہدیں تو اور بات ہے کہ وہاں مقصود اصلاح ہے اور جو شخص محض دوسروں کی برائی کرنے کی غرض سے بیان کر رہا ہے اسکے اندرّ تعلّی کا مرض ہے ،وہ اپنے کو بہتر اور اچھا سمجھ رہاہے اور جس کی غیبت کر رہاہے اس کی تحقیر کر رہاہے،یاد رکھ! ائے غیبت کرنیوالے تجھ سے وہ گنہگار اچھا ہے جس کی تو غیبت کر رہاہے، کیونکہ اگر واقعی وہ گناہ اسکے اندر موجود بھی ہے پھر بھی وہ شخص جسکی تو غیبت کر رہا ہے ، تجھ سے اچھا ہے، چونکہ وہ شخص اپنے آپ کوگنہگار خیال کئے ہوئے ،تذلل اور عاجزی اس کے اندر موجودہے، اور تو ائے، غیبت کرنیوالے اپنے اندر اورتعلّی لئے ہوئے ہے، یہ باریک چور موجود ہے اور یہ تعلّی شرک نہیں تو اور کیا کھائیں گے گھی سے و ر نہ جائینگے جی سے: فرمایا کہ کسی بزرگ سے اصرار نہیں کرنا نہیں چاہیے اور اپنے شیخ سے تو اصرار کرنا ہی نہ چاہئے، اس میں ضرر کا اندیشہ ہے۔ فرمایا کہ میں نے ڈاھبیل کے وعظ میں کہا تھا کہ بعض علماء یہ کہدیتے ہیں کہ اصلاح تو واقعی ضروری ہے مگر اب پہلے جیسے اشخاص ہیں کہاں؟ جن سے اصلاح کرائی جائے، تو مجھے معاف رکھا جائے طالب علم بھی یوں کہہ سکتے ہیں کہ اب پہلے جیسے علماء غزالی،رازی وغیرہ ہیں کہاں؟ تو پھر یہ مدارس کیوں کھول رکھے ہیں اور اگر آپ یوں کہیں کہ غزالی اور رازی جیسے علماء اگرچہ نہیں ہیں مگر آج کل کے طلباء کی سیرابی کیلئے کافی ہے ، اسی طرح اگرچہ جنید وشبلی اور حاجی امداداللہ جیسے مشائخ نہیں مگر آج کل کے طالبین کے سیرابی کیلئے کافی ہے ورنہ تو وہی مثل صادق آئیگی کہ’’ کھائیں گے گھی سے ورنہ جائیں گے جی سے‘‘
توبہ کی مثال پانی جیسی ہے:
فرمایاکہ توبہ کی مثال پانی جیسی ہے، جس طرح پانی ناپاکی ظاہری کو دھو کر پاک کردیتا ہے، اسی طرح توبہ کا پانی باطنی نجاست کی صفائی کیلئے ہے ۔ جب نجاست ظاہری کیلئے پانی استعمال کرتے ہیں تو گناہ کی ناپاکی د ور کرنے کیلئے توبہ کو کیوں نہیں استعما ل کرتے؟
ارے ہو سکتا ہے کہ نجاست ایسی مضبوط لگی ہوئی ہو کہ پانی سے نہ دھلے اور کپڑا پاک نہ ہو، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ توبہ کی جائے اور گناہ کی نجاست سے انسان پاک نہ ہو، ضرور پاک ہو گا اور اس طرح پاک ہو گا کہ جس نامہ اعمال میں گناہ لکھ دیا گیا ہے اس سے بھی مٹ جائیگا.
اور جناب! جس طرح نامۂ اعمال سے مٹ جائیگا اس طرح کراماً کاتبین فرشتوں کے حافظہ سے بھی مٹ جائیگا کہ اگر وہ یاد کرنا چاہیں تو یاد نہیں آسکتا تو پھر ایسی اکسیر چیز’’توبہ‘‘ سے کیوں اعراض کیا جاتا ہے. یہ شیطانی خیال ہے کہ توبہ کیا ہو گا، توبہ کرکے کیا ہوگا؟ چونکہ شیطان نے خود توبہ نہیں کی، اسلئے مسلمان کو بھی توبہ نہیں کرنے دیتا، اسلئے ضرور توبہ کرنا چاہئے اور شیطان کا کہنا ہرگز نہیں ماننا چاہے۔
بلا خانقاہ کے علم کا رنگ نہیں چڑھتا :
فرمایا حدیث شریف میں آیا ہے مَنْ حَسَنَ اِسْلاَ مُ الْمَرْءِ تَرَکَہ‘ مَالاً یَعْنِیْہِ’’آدمی کے حسن ِ اسلام سے ہدایات ہے کہ لایعنی باتوں کو چھوڑدے مگر لایعنی نہیں چھوڑتا کیونکہ پڑھنے کا رنگ نہیں چڑھا اور رنگ اسلئے نہیں چڑھا کہ کسی رنگنے والے شیخ کے پاس نہیں گئے، رنگنا خانقاہ میں ہوتا ہے، مجھے معاف فرمایا جائے بلا اس کے رنگ نہیں چڑھ سکتا، کیونکہ شیخ کے یہاں عمل ہی کی تعلیم ہوتی ہے،وہ حکایات میں شکایات میں مختلف طریقوں سے علمِ شریعت پر عمل کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔
تربیت کا طریق حکیمانہ ہونا چاہیے :
فرمایا کہ ایک مرتبہ مولانا محمد الیاسؒ امیرِ تبلیغ جماعت تھانہ بھون تشریف لائے ، ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ مسجد کے درمیں سے کھڑے ہوئے وہ حضرت والا تھا نویؒ کو گھور رہے تھے، تھوڑی دیر توقف کیا کہ شاید اتفاقاً دیکھ رہے ہوں ، توقف کے بعد جو دیکھا تو پھر گھور رہے ہیں، بھائی نیاز صاحب ! ملازم سے فرمایا کہ دیکھو! یہ کون صاحب ہیں جو مجھے گھور رہے ہیں، بھائی نیاز نے آکر کہا مولانا الیاس صاحب ہیں! حضرت نے فرمایا کہ اپنے ہوکر اور ایسی بات،آپ ان سے جاکر کہیں کہ آپ مجھے گھور رہے ہیں اس سے انکار نہیں لیکن کیا کروں میرے مثانہ میں اس قدر ضعف سا آگیا ہے کہ جب کوئی مجھے گھور کر دیکھتا ہے تو پیشاب کا قطرہ آنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔دیکھئے! طریقِ تربیت کیسا عمدہ اختیار فرمایا حا لانکہ کسی کو دیکھنے میں دل پر بوجھ پڑتا ہے جو معاشرت کے خلاف ہے ،مولانا الیاس صاحب چونکہ بڑے تھے اسلئے ان کی تربیت کیسی حکمت سے فرمائی تربیت کا طریقہ سیکھنا چاہیے۔ سب کو ایک لکڑی سے نہیں ہانکنا چاہیے۔
معذورین نہ ماجور ہوتے ہیں نہ مازور:
فرمایا کہ تنافس جس کا فَلْیَتَنَا فَسِ الَمُتَناَ فِسُوْنَ میں حکم ہے ،اس کا حکم ہے کہ کسی کو دینی ترقی کا کام کرتے ہوئے دیکھے تو یہ خواہش کرے کہ میں بھی ایسا ہی کام کروں ،تاکہ دینی ترقی ہو ، اگر یہ نہیں ہوتا یَاَ اَیُّھَاا لَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْاللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتْمْ مْسْلِمُوْنَ کیوں فرمایا یعنی ائے میرے ماننے والو! تم نے مجھے محبت سے مانا ہے ، ابتدائی رنگ جو میرے ماننے کا آیا ہے محبت سے آیا ہے کیونکہ ایمان لانا اکثر مسلمان کا خوف وخشیت سے نہیں ، کسی نے ڈرایا تھا ،یہ سب کچھ محبت کی وجہ سے ہے ،اپنے دل میں محبت پیدا کرلو ،فطری چیز ہے۔ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ (کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ) کہتے ہی بلیٰ(کیوں نہیں) کہنا شروع کردیا ، بلا سوچے سمجھے اور بلاء سر لے لی ،کیونکہ میدانِ عشق میں آتے ہی بے انتہا،بلاؤں کا نزول ہوتا ہے ۔جبکہ عشق مجازی میں بلائیں ہیں تو عشق حقیقی میں تو کس قدر بلائیں ہونگی ۔ جب آتا ہے فرمائش ہوجاتی ہے کل کو رومال لے آنا، رومال لایا بہت ہی چھانٹ کر دہلی بمبئی سے تلاش کرکے ،مگر جب لایا تو اس میں نقص نکال دیا ۔فرہاد کوہ کن شہزادی پر عاشق ہوگیا ، نکاح کا پیغام دیدیا،چونکہ بڑے بڑے ہی ہوتے ہیں، صراحتاََمنع نہیں کرتے ، بلکہ تدبیر سے ٹالا کرتے ہیں، چنانچہ بادشاہ نے یہ شرط کی کہ ہمارے محل تک دودھ کی نہر لے آؤ، ہم شادی کردیں گے ۔ اب نہر اور وہ بھی دودھ کی کسطرح لائے گا ،لیکن میدانِ عشق میں مشقتیں کافور ہوجاتی ہیں نہر کھودنا شروع کردی اور دودھ بہانا شروع کردیا جب محل سے کچھ فاصلہ پر نہر رہ گئی اور بادشاہ کو اندیشہ ہوا کہ یہ تو کامیاب ہو جائیگا اور حسب وعدہ شادی کرنا پڑے گی تومشہور کردیا کی شیریں کا انتقال ہوگیا شدہ شدہ یہ خبر فرہاد تک پہونچ گئی ،سنتے ہی جس کدال سے نہر کھود کر لارہا تھا فوراََ سر پر مار کر مرگیا۔اب رہا یہ سوال کہ بخشا جائے گا یا نہیں تو یہ لوگ معذور ہو تے ہیں ، ماجور نہیں ہو تے اور(مازور) گنہگار بھی نہیں ہو تے ، بلکہ معذور ہو نے کیوجہ سے بخشے جائیں گیمگر درجات نہیں ملیں گے ، کیونکہ درجات تو عمل پر ملتے ہیں اور نہرکھودنا کوئی عمل خیر نہیں تو معذوری کی وجہ سے یہ خود کشی معاف ہو گی۔
Last edited by a moderator: