فرمودات مسیح الامتٌ ۔جامع فرمودات حضرت شاہ محمد اہل اللہ صاحب

  • موضوع کا آغاز کرنے والا قاسمی
  • تاریخ آغاز
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
[/color]
بسم اللہ الر حمٰن الر حیم
اَلَحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعٰلَمیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرْ سَلِیْنَ عَلیٰ آلِہٖ وَاصْحَابِہٖ اَجْمَعَیْنَ ۔
اللہ کے نیک بندوں کے دل محض انوارِ الٰہی ہو تے ہیں۔ ان کی مجلسیں عرفانِ حقیقت اور فیضانِ محبت کی مروارید سے تابندہ ہو تی ہیں ان کی ذات مرجع خلائق اور ان کا طرزِ عمل اسوہ نبویؐ کا پر تو ہو تا ہے ان کی دنیا استعنیٰ کی دنیا، ان کی دولت ایمان ویقین کی دولت ، اعلاء کلمۃ اللہ ان کا مقصد اور خدمتِ خلق

ان کاشیوہ ہو تا ہے وہ
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل وپاکباز
کی صحیح تصویر ہو تے ہیں ۔حوادث کے تیز تند جھونکے ان کے پائے ثبات کو بھی متزلزل نہیں کرسکتے ، ماحول کی برہمی اور حالات کی ناساز گاری سے کبھی وہ کبیدہ خاطر نہیں ہوتے ، زمانے کی خونخوار نگاہیں ان کی راہوں میں سدِّ آہن نہیں بنتی، وہ ہمیشہ نڈر ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر اعتماد کرتے ہو ئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔
ہوا ہے گو تند وتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیا ہے اندازِ خسروانہ
محب الامت عارف با للہ حضرت اہل اللہ صاحب دامت برکاتہم۔ انھیں کاملین میں سے ہیں ۔جنھیں قدرت کے فیاض ہاتھوں سے علم ومعرفت وآگہی توکل واعتماد، ایثاروقربانی، جانبازی وجاں سپاری، اولو العزمی رحمدلی ، محبت اور خدمتِ خلق کا بھر پور حصہ ملا ہے آپ کی ذات اس ظلمت کدۂ گیتی میں روشن چراغ کے مثل ہے ۔ حقیقت میں اہلِ دل کے کلام میں جوغیر معمولی حلاوت اور دل میں قوت ہے وہ ان کی روح کی لطافت وقلب کی پا کیز گی اور اندرونی کیفیت وسر مر متی کا نتیجہ ہے اور اس کے لئے وہ کسی خارجی مدد اور مقام یا وقت کے محتاج نہیں ہوتے ، ان کی خوشی وسر متی کا سر چشمہ اور ان کی دولت کا خزانہ ان کے دل میں ہو تا ہے خواجہ میر درد نے جو خود صاحبِ دل اور صاحب ِ
درد تھے اس پورے گروہ کی ترجمانی اس شعر میں کی ہے۔

جائیے کس واسطے اے درد میخانے کے بیچ
کچھ عجب مستی ہے اپنے دل کے پیمانے کے بیچ
آپ کی مبارک مجلس میں بہت ہی کم حاضری کا موقع ملا ۔اس مختصر صحبت ہی میں ایسا سکون وسرور حاصل ہوا بندہ اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر ہے ۔لیکن عاجز نے آپ کی مجلس میں ذوق وشوق کیف ومستی اور وجدانی کیفیات کا غلبہ طاری پایا۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ آپ شب وروز محبت وعقیدت کے دریا میں غوطہ زن رہتے ہیں شیخِ طریقت حضرت اقدس شاہ محمد مسیح اللہ خان صاحب ؒ کی محبت ، روح وقلب پر اس انداز سے چھائی رہتی ہے کہ کبھی حضرت تھانویؒ کے ارشادات اور کبھی حضرت مسیح الامتؒ کے ارشاداتِ عالیہ سے بات شروع کرتے ہیں آپ کے مریدین ومعتقدین ایسی محویت سے سنتے ہیں گویا یہ آپ کے شیخ محترمؒ یاحضرت تھانویؒ ہی کی مبارک مجلس ہے ۔
وہی آبلے ہیں وہی جلن کوئی سوزِ دل میں کمی نہیں
جو آگ تم تھے لگا گئے وہ لگی ہو ئی ہے بجھی نہیں
حضرت والا اپنے اکابر کا ذکرِ خیر بڑی عقیدت ومحبت سے کرتے ہیں لوگوں کے دلوں میں آپ کی عقیدت ومحبت کے ساتھ ساتھ آپ کے اکابر کی محبت وعقیدت دل میں جاں گزیں ہوتی ہے آپ ظاہری وباطنی طور پر اپنے شیخ ومرشد کا کامل نمونہ ہیں فرموداتِ مسیح الامت ؒ ایک ایسا پیارا مجموعہ ہے کہ اس کو پڑھ کر اپنی باطنی اصلاح ضرور کرے گا اس مجموعہ میں حضرت مسیح الامت ؒ نے مسلمانوں کے باطنی جتنے امراض ہیں واقعی ان تمام امراض کی مسیحائی فرمائی ہے اس میں علم وعرفان روحانی تعلیم ورموزِ تصوف کو اس اَحْسَنْ انداز میں پیش فرمایا ہے اس کتاب کا قاری انشاء اللہ عشق ومحبت کی آگ کو اپنے اندر سمو کر اپنے دل کا تزکیہ کرکے ایک صالح ومتقی بن جائیگا بشرطِ کہ ان فرمودات کو اپنی اصلاح کی غرض سے پڑھے۔یہ سرسری مطالعہ کرنے کی کتاب نہیں ہے بلکہ دل ودماغ کی یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کریں انشاء اللہ فائدہ ہوگا سلوک وتصوف کی پُرْ پیچ اور تکمیل انسانیت کی وادیوں کے مسافرین خصوصیت کے ساتھ استفادہ فرماکر راہِ سلوک کی منازل طأ کریں اللہ تعالیٰ ہم کو اور سب مسلمانوں کو حضرت والا کے فرمودات کے فیوض وبرکات سے نفع عطاء فرمائے اور اللہ تعالیٰ قبولیت کے شرف سے مشر ف فرمائیں۔اللہ تعالیٰ حضرتِ والا کو صحت وعافیت عطاء فرماکر آپ کے سایۂ عاطفت کو تادیر ہمارے سروں پر قائم فرمائے اور آپ کے فیوضِ روحانی سے ہمیں مستفیض ہو نے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔
احقر العباد
نور احمد بیگ عفی عنہ
چیرمین الماس ایجو کیشنل ٹرسٹ بنگلور
حقیقتِ عبدیت اور عبدیت کے آثار:
فرمایا یہ بند
ۂمومن تو اللہ تعالیٰ کا عبد اور غلام ہے ،اس کی رعیت ہے ، یہ بند
ۂمومن جو اپنے اندر عبدیت کاملہ لئے ہوئے ہے غلام ہوتے ہوئے بھی بادشاہ ہے جس قوم کی حکومت ہوتی ہے اس قوم کا یہ فرد اپنے کو بادشاہ سمجھتا ہے ،لہذا یہ مومن جو عبد ہے اس ذاتِ باری تعالیٰ کا بہ نسبت ایمان بادشاہ ہے، خدا کرے ہمار ی سمجھ میں آجائے،عبدیت سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی نظرمیں مطلوب نہیں ہے،کوئی شخص نمازپنجوقتہ پڑھتا ہے،تہجد پڑھتا ہے ،وظیفے پڑھتا ہے،لیکن اسکے اندر عبدیت نہیں ہے جیسا کہ ہونا چاہیے تو وہ صحیح معنیٰ میں عبد کہاں ہے ،وہ صحیح معنیٰ میں غلام کہاں ہے
ہاں فی الحال ہے عبدیت کی تو کچھ شان ہے ہی اور ہوتی ہے جس کے اندر آئی ہوئی ہے وہ بند
ۂمومن تمام احکام صالحہ ظاہرہ وباطنہ کو انجام دے رہا ہے اورسمجھ رہاہے کہ محض میری سعی کی کوئی طاقت نہیں ہے، جب تک توفیق الٰہی شاملِ حال نہ ہو،اللہ تعا لیٰ کی طرف اس کی نسبت کررہا ہے اور کسی وقت کمی ہوجاتی ہے اپنی طرف منسوب کرتا ہے ایسا بند

ۂمومن پورے اھتمام کے ساتھ کوشش کرتا ہے کہ میری ذات سے کسی بھی شخص کو کسی قسم کی کوئی تکلیف، کوئی نقصان نہ پہو نچے، کسی کا دل نہ دکھے ،یہ ہیں عبدیت کے آثار، ۔اور یہ بھی عبدیت ہی کے آثارہیں کہ بندۂمومن کسی حال میں ہو،تندرستی کی حالت ہو یا بیماری کی،فقر وفاقہ کی حالت ہو یا امیری کی ،یا مصائب غیراختیاریہ کا وقوع ہو، ہر حال میں وہ اعمال ظاہرہ وباطنہ کا پورا پورا اہتمام کرتا ہے خواہ بشاشت اور طبیعت کھلی ہوئی ہو یا نہ ہو، ہر حال میں عبدیت کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے کہ صحت کی حالت میں جو بشاشت ہوتی ہے وہ درد کی حالت میں کہاں، لیکن یہ بند�ۂمومن قلباََ وروحاََ جس طرح صحت وقوت کی حالت میں تھا،اعزاز کی حالت میں تھا، اس وقت تھا جبکہ دوسروں کی طرف سے مصائب سے بچا ہوا تھا، مرض کی حالت میں بھی ویسا ہی ہے افلاس میں بھی ویسا ہی ہے دوسروں کی طرف سے ذلت کے پیش آجا نے پر بھی ویسا ہی ہونے کا کیا مطلب ؟ یہ کہ جس طرح عبدِ مومن اپنے کو سب سے کمتر سمجھے ہوئے تھا، اب بھی اس کے دل کا وہی حال ہے، پہلے بھی کسی پر اسکی نگاہ حقارت کی نہیں تھی ،اب بھی نہیں ہے۔ حتی الامکان اسکے ا وراد وظائف اور اس کے معمولات اب بھی نہیں چھوٹے۔ یہ عبدیت فراخ دستی میں تو اور طرح سے تھی اور تنگدستی میں اور طرح سے ہے، قلب کی کیفیت کے لحاظ سے گو جسم پر اثر دوسرا ہوگا ۔
ادائے حقوق ہو، مطالبہ حقوق نہ ہو :
فرمایا عبدیت یہ کہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا پورا پورا اہتمام رہے اور اپنے حقوق کی طبیعت کے اندر طلب نہ رکھو کہ اپنے کو اس کے مطالبہ کے اندر کھپادو ، حالانکہ اپنے حقوق کا مطالبہ جائز ہے لیکن وہ عبد کامل تو نائب رسولﷺ بدرجہ ولایت ظاہراََ وباطناََ ہے پھر وہ اپنے حقوق کے لئے دوسروں سے اس درجہ طالب کس طرح ہوتا ہے ، پس اس کی طرف سے تو ہمیشہ عفو ودر گذر کا معاملہ ہے ،اس کے اندر شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت بھی آگئی ہے ، شریعت کے تمام احکام کوصحیح طریقہ پر اخلاص اور صدق کے ساتھ انجام دے رہاہے ، بس یہی ہے ’’ شریعت بطریق سلوک ‘‘اس کو کہا گیا ہے اللہ تعا لیٰ ہم کو ہر حال کے اندر اپنے فضل وکرم سے نوازیں جو بھی طاعتِ کاملہ اعمالِ ظاہرہ وباطنہ کے ساتھ ہو رہا ہے وہ سب توفیق الٰہی سے ہو رہا ہے ، اس کے فضل سے ہو رہا ہے ، اپنا کما ل نہیں ، اسلئے اپنے پر نظر نہیں، اپنی طرف سے نسبت نہیں جو کچھ ہے ان کا فضل ہے اور اگر خدا نخواستہ کبھی اتفاقاََ خلا ف ہو گیا اسکی نسبت اپنی طرف ہے ، نہ کہ ذاتِ باری تعا لیٰ کی طرف ہے یہ ہے عبدیت ۔ ا للہ تعا لیٰ ہمیں اپنے فضل وکرم سے اپنی توفیق سے عبدیت کے جو آثار ہیں اعمال ظاہرہ وباطنہ کی پوری پوری پابندی عطا فرما ئیں اور اپنی عبدیتِ کاملہ کیساتھ اپنے فضل وکرم سے موت کے وقت تک نوازیں آمین یا رب العلمین۔
گھر کے باہر کے کام کرنا خلافِ شان نہیں ہے :
فرما یا کہ شان یہ ہے کہ رسول کی طرح حالت ہوجائے آج کل گھر کے کام اور بازار کے کام خلافِ شان سمجھے جاتے ہیں، وجہ یہ کہ حقیقی شان سمجھی ہی نہیں کہ کیا ہے ، محض ٹیپ وٹاپ کو شا ن سمجھتے ہیں ،حضور اکرم ﷺ گھر اور باہر کے سب ہی کام کرلیتے تھے ، تو کیا یہ خلافِ شان تھا مسلمانوں کو حضورﷺ کی طرح حالت بنانا چاہیے۔
شیخ کی جگہ کا بھی ادب ہے:
فرمایا کہ شیخ کے مقام کا بھی ادب رکھنا چاہئے۔ ایک مرید کا واقعہ ہے کہ بازار کسی کام سے گئے وہاں سپاہیوں نے کسی جرم کی وجہ سے پکڑ لیا اور جیل خانہ لے جاکر ان کے پیر میں بیڑی ڈال دی گئی ، اب یہ متحیر ہیں او ر حق تعالیٰ سے عرض کر رہے ہیں یا اللہ میں نے تو ایسا جرم نہیں کیا کہ پیر میں بیڑی ڈال دی جائے ، وارد ہوا یاد کرو اس وقت کو کہ تم نے اپنے شیخ کے مصلّے پر پاؤں رکھا تھا اور اب تک متنبہ ہو کر توبہ نہیں کی یہ اس کی سزا ہے۔ گھبر ا گئے اور فوراََ استغفار اور توبہ میں لگ گئے ،فوراََ حکم آیا کہ اصل مجرم مل گیا ہے ،جن کو گرفتا کیا گیا بے قصور ہیں ، لہذا ان کو رہا کردیا جائے۔ اب یہ شبہ ہوتا ہے کہ جان کر پیر نہیں رکھا تھا ، بلا قصدپڑ گیا ، اس پر سزا کیوں ہوئی جواب یہ ہے کہ قلتِ اہتمام کی وجہ سے سزا ہوئی کہ مرید عظمت کا اہتمام کرنے والے سے ایسی بے عظمت کی بات صادر ہی کیوں ہوئی ، اس پر تنبیہ تھی جیسا کہ حضرت والا مولانا تھانویؒ کی خدمت میں کوئی حاضر ہوتا اور غلطی کرتا اور حضرت کو اس سے تکلیف ہوتی اور حضرت فرماتیتمہاری بات سے تکلیف ہوئی اور وہکہتا کہ میں نے جان کر تکلیف نہیں پہونچائی تو حضرت فرماتے توبہ توبہ کسی مسلمان کی نیت پر حملہ کرنا کہاں درست ہے میں یہ کب کہتا ہوں کہ تم نے جان کرتکلیف پہنچائی ، میں یہ کہتا ہوں کہ تم نے اس کا اہتمام کیوں نہیں کیاکہ تکلیف نہ ہو۔عاجزی اولیاء اللہ کے دل میں پیوست ہوتی :
فرمایا۔ ا رے دوستوں کے ساتھ دوستی کا اظہار کیا تو کیا کیابات تو جب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی دوستی کا اظہار کرو ،بڑوں کے ساتھ اور بزرگوں کیساتھ عاجزی کا اظہارکرو ، یہ اصل عاجزی ، ان اولیا ء اللہ کے دل میں تو عاجزی پیوست ہوتی ہے ، جانتے ہو پیوست ہونا کسے کہتے ہیں پیوند لگ گیا ہے ان حضرات کے اندر انتہائی درجہ تحمل ہوتا ہے ، بہت زیادہ رواداری ہوتی ہے ، عجیب ان کے اندر حوصلہ ہوتا ہے ،ان حضرات کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی عظمت سمائی ہوئی ہے اور اسکی بڑائی اور کبریائی ان کے قلوب میں راسخ ہوچکی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ مجھکو نہ میری زمین سماسکتی ہے اور نہ میرا آسمان اور مجھکو میرے مومن بندہ کا دل جسمیں ترقی اور اطمنان کی صفت ہے سمو لیتا ہے (التَّشَرْفُ بِمَعْرِفَتِہٖ اَحاَدِیْثُ التَّصَوُفّ صفحہ۸۹) تَباَرَکَ الَّذٍیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ، سمائے ہیں اس مومن کے دل میں کسی دوسرے کے گنجائش کہاں ہوسکتی ہے اور اگر دوسرے کی گنجائش ہے تو اسکے دل کے اندر ایک گونہ شرک موجود ہے ۔ شر ک کی بھی مختلف قسمیں ہیں ، جس طرح سب کفر برابر نہیں ہے، اسی طرح سب شرک بھی برابر نہیں ہو تے ۔ بخاری شریف میں ’’ کفر دون کفر شرک دون شرک‘‘ کا باب موجود ہے ،مومن جس کے دل میں ذاتِ باری تعالیٰ ہوتے ہیں اسمیں کسی بھی قسم کاشرک ہو تو پھر توحید خالص کہاں ہوئی ، اخلاص کامل کہاں ہو
دوسروں کے عیوب کی فکر میں پڑنا تعلّی (بڑائی) ہے:
فرمایا۔ مومن کو ہر وقت اپنے دل کو خدا کی یاد میں مشغول رکھنا چاہیے ، غیر خدا کی طرف التفات اور توجہ کیسی اور پھر خصوصاً دوسروں کے عیوب کی فکر میں پڑنا اور لوگوں کے سامنے بیان کرنا اور اپنی طرف سے غفلت برتنا کیا
ہاں ! اگر بغرض اصلاح کسی شخص کے باپ یا استاذ سے کہدیں تو اور بات ہے کہ وہاں مقصود اصلاح ہے اور جو شخص محض دوسروں کی برائی کرنے کی غرض سے بیان کر رہا ہے اسکے اندرّ تعلّی کا مرض ہے ،وہ اپنے کو بہتر اور اچھا سمجھ رہاہے اور جس کی غیبت کر رہاہے اس کی تحقیر کر رہاہے،یاد رکھ! ائے غیبت کرنیوالے تجھ سے وہ گنہگار اچھا ہے جس کی تو غیبت کر رہاہے، کیونکہ اگر واقعی وہ گناہ اسکے اندر موجود بھی ہے پھر بھی وہ شخص جسکی تو غیبت کر رہا ہے ، تجھ سے اچھا ہے، چونکہ وہ شخص اپنے آپ کوگنہگار خیال کئے ہوئے ،تذلل اور عاجزی اس کے اندر موجودہے، اور تو ائے، غیبت کرنیوالے اپنے اندر اورتعلّی لئے ہوئے ہے، یہ باریک چور موجود ہے اور یہ تعلّی شرک نہیں تو اور کیا کھائیں گے گھی سے و ر نہ جائینگے جی سے: فرمایا کہ کسی بزرگ سے اصرار نہیں کرنا نہیں چاہیے اور اپنے شیخ سے تو اصرار کرنا ہی نہ چاہئے، اس میں ضرر کا اندیشہ ہے۔ فرمایا کہ میں نے ڈاھبیل کے وعظ میں کہا تھا کہ بعض علماء یہ کہدیتے ہیں کہ اصلاح تو واقعی ضروری ہے مگر اب پہلے جیسے اشخاص ہیں کہاں؟ جن سے اصلاح کرائی جائے، تو مجھے معاف رکھا جائے طالب علم بھی یوں کہہ سکتے ہیں کہ اب پہلے جیسے علماء غزالی،رازی وغیرہ ہیں کہاں؟ تو پھر یہ مدارس کیوں کھول رکھے ہیں اور اگر آپ یوں کہیں کہ غزالی اور رازی جیسے علماء اگرچہ نہیں ہیں مگر آج کل کے طلباء کی سیرابی کیلئے کافی ہے ، اسی طرح اگرچہ جنید وشبلی اور حاجی امداداللہ جیسے مشائخ نہیں مگر آج کل کے طالبین کے سیرابی کیلئے کافی ہے ورنہ تو وہی مثل صادق آئیگی کہ’’ کھائیں گے گھی سے ورنہ جائیں گے جی سے‘‘
توبہ کی مثال پانی جیسی ہے:
فرمایاکہ توبہ کی مثال پانی جیسی ہے، جس طرح پانی ناپاکی ظاہری کو دھو کر پاک کردیتا ہے، اسی طرح توبہ کا پانی باطنی نجاست کی صفائی کیلئے ہے ۔ جب نجاست ظاہری کیلئے پانی استعمال کرتے ہیں تو گناہ کی ناپاکی د ور کرنے کیلئے توبہ کو کیوں نہیں استعما ل کرتے؟
ارے ہو سکتا ہے کہ نجاست ایسی مضبوط لگی ہوئی ہو کہ پانی سے نہ دھلے اور کپڑا پاک نہ ہو، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ توبہ کی جائے اور گناہ کی نجاست سے انسان پاک نہ ہو، ضرور پاک ہو گا اور اس طرح پاک ہو گا کہ جس نامہ اعمال میں گناہ لکھ دیا گیا ہے اس سے بھی مٹ جائیگا.
اور جناب! جس طرح نامۂ اعمال سے مٹ جائیگا اس طرح کراماً کاتبین فرشتوں کے حافظہ سے بھی مٹ جائیگا کہ اگر وہ یاد کرنا چاہیں تو یاد نہیں آسکتا تو پھر ایسی اکسیر چیز’’توبہ‘‘ سے کیوں اعراض کیا جاتا ہے. یہ شیطانی خیال ہے کہ توبہ کیا ہو گا، توبہ کرکے کیا ہوگا؟ چونکہ شیطان نے خود توبہ نہیں کی، اسلئے مسلمان کو بھی توبہ نہیں کرنے دیتا، اسلئے ضرور توبہ کرنا چاہئے اور شیطان کا کہنا ہرگز نہیں ماننا چاہے۔
بلا خانقاہ کے علم کا رنگ نہیں چڑھتا :
فرمایا حدیث شریف میں آیا ہے مَنْ حَسَنَ اِسْلاَ مُ الْمَرْءِ تَرَکَہ‘ مَالاً یَعْنِیْہِ’’آدمی کے حسن ِ اسلام سے ہدایات ہے کہ لایعنی باتوں کو چھوڑدے مگر لایعنی نہیں چھوڑتا کیونکہ پڑھنے کا رنگ نہیں چڑھا اور رنگ اسلئے نہیں چڑھا کہ کسی رنگنے والے شیخ کے پاس نہیں گئے، رنگنا خانقاہ میں ہوتا ہے، مجھے معاف فرمایا جائے بلا اس کے رنگ نہیں چڑھ سکتا، کیونکہ شیخ کے یہاں عمل ہی کی تعلیم ہوتی ہے،وہ حکایات میں شکایات میں مختلف طریقوں سے علمِ شریعت پر عمل کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔
تربیت کا طریق حکیمانہ ہونا چاہیے :
فرمایا کہ ایک مرتبہ مولانا محمد الیاسؒ امیرِ تبلیغ جماعت تھانہ بھون تشریف لائے ، ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ مسجد کے درمیں سے کھڑے ہوئے وہ حضرت والا تھا نویؒ کو گھور رہے تھے، تھوڑی دیر توقف کیا کہ شاید اتفاقاً دیکھ رہے ہوں ، توقف کے بعد جو دیکھا تو پھر گھور رہے ہیں، بھائی نیاز صاحب ! ملازم سے فرمایا کہ دیکھو! یہ کون صاحب ہیں جو مجھے گھور رہے ہیں، بھائی نیاز نے آکر کہا مولانا الیاس صاحب ہیں! حضرت نے فرمایا کہ اپنے ہوکر اور ایسی بات،آپ ان سے جاکر کہیں کہ آپ مجھے گھور رہے ہیں اس سے انکار نہیں لیکن کیا کروں میرے مثانہ میں اس قدر ضعف سا آگیا ہے کہ جب کوئی مجھے گھور کر دیکھتا ہے تو پیشاب کا قطرہ آنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔دیکھئے! طریقِ تربیت کیسا عمدہ اختیار فرمایا حا لانکہ کسی کو دیکھنے میں دل پر بوجھ پڑتا ہے جو معاشرت کے خلاف ہے ،مولانا الیاس صاحب چونکہ بڑے تھے اسلئے ان کی تربیت کیسی حکمت سے فرمائی تربیت کا طریقہ سیکھنا چاہیے۔ سب کو ایک لکڑی سے نہیں ہانکنا چاہیے۔
معذورین نہ ماجور ہوتے ہیں نہ مازور:
فرمایا کہ تنافس جس کا فَلْیَتَنَا فَسِ الَمُتَناَ فِسُوْنَ میں حکم ہے ،اس کا حکم ہے کہ کسی کو دینی ترقی کا کام کرتے ہوئے دیکھے تو یہ خواہش کرے کہ میں بھی ایسا ہی کام کروں ،تاکہ دینی ترقی ہو ، اگر یہ نہیں ہوتا یَاَ اَیُّھَاا لَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْاللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتْمْ مْسْلِمُوْنَ کیوں فرمایا یعنی ائے میرے ماننے والو! تم نے مجھے محبت سے مانا ہے ، ابتدائی رنگ جو میرے ماننے کا آیا ہے محبت سے آیا ہے کیونکہ ایمان لانا اکثر مسلمان کا خوف وخشیت سے نہیں ، کسی نے ڈرایا تھا ،یہ سب کچھ محبت کی وجہ سے ہے ،اپنے دل میں محبت پیدا کرلو ،فطری چیز ہے۔ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ (کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ) کہتے ہی بلیٰ(کیوں نہیں) کہنا شروع کردیا ، بلا سوچے سمجھے اور بلاء سر لے لی ،کیونکہ میدانِ عشق میں آتے ہی بے انتہا،بلاؤں کا نزول ہوتا ہے ۔جبکہ عشق مجازی میں بلائیں ہیں تو عشق حقیقی میں تو کس قدر بلائیں ہونگی ۔ جب آتا ہے فرمائش ہوجاتی ہے کل کو رومال لے آنا، رومال لایا بہت ہی چھانٹ کر دہلی بمبئی سے تلاش کرکے ،مگر جب لایا تو اس میں نقص نکال دیا ۔فرہاد کوہ کن شہزادی پر عاشق ہوگیا ، نکاح کا پیغام دیدیا،چونکہ بڑے بڑے ہی ہوتے ہیں، صراحتاََمنع نہیں کرتے ، بلکہ تدبیر سے ٹالا کرتے ہیں، چنانچہ بادشاہ نے یہ شرط کی کہ ہمارے محل تک دودھ کی نہر لے آؤ، ہم شادی کردیں گے ۔ اب نہر اور وہ بھی دودھ کی کسطرح لائے گا ،لیکن میدانِ عشق میں مشقتیں کافور ہوجاتی ہیں نہر کھودنا شروع کردی اور دودھ بہانا شروع کردیا جب محل سے کچھ فاصلہ پر نہر رہ گئی اور بادشاہ کو اندیشہ ہوا کہ یہ تو کامیاب ہو جائیگا اور حسب وعدہ شادی کرنا پڑے گی تومشہور کردیا کی شیریں کا انتقال ہوگیا شدہ شدہ یہ خبر فرہاد تک پہونچ گئی ،سنتے ہی جس کدال سے نہر کھود کر لارہا تھا فوراََ سر پر مار کر مرگیا۔اب رہا یہ سوال کہ بخشا جائے گا یا نہیں تو یہ لوگ معذور ہو تے ہیں ، ماجور نہیں ہو تے اور(مازور) گنہگار بھی نہیں ہو تے ، بلکہ معذور ہو نے کیوجہ سے بخشے جائیں گیمگر درجات نہیں ملیں گے ، کیونکہ درجات تو عمل پر ملتے ہیں اور نہرکھودنا کوئی عمل خیر نہیں تو معذوری کی وجہ سے یہ خود کشی معاف ہو گی۔
 
Last edited by a moderator:
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
توبہ کا پانی گناہوں کی نجاست کیلئے اکسیر ہے:
فرمایاکہ توبہ کی مثال پانی جیسی ہے، جس طرح پانی ناپاکی ظاہری کو دھو کر پاک کردیتا ہے، اسی طرح توبہ کا پانی باطنی نجاست کی صفائی کیلئے ہے۔ جب نجاست ظاہری کیلئے پانی استعمال کرتے ہیں تو گناہ کی ناپاکی د ور کرنے کیلئے توبہ کو کیوں نہیں استعما ل کرتے؟ ارے ہو سکتا ہے کہ نجاست ایسی مضبوط لگی ہوئی ہو کہ پانی سے نہ دھلے اور کپڑا پاک نہ ہو، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ توبہ کی جائے اور گناہ کی نجاست سے انسان پاک نہ ہو، ضرور پاک ہوگا اور اس طرح پاک ہو گا کہ جس نامہ اعمال میں گناہ لکھ دیا گیا ہے اس سے بھی مٹ جائیگا.اور جناب! جس طرح نامۂ اعمال سے مٹ جائیگا اس طرح کراماً کاتبین فرشتوں کے حافظہ سے بھی مٹ جائیگا کہ اگر وہ یاد کرنا چاہیں تو یاد نہیں آسکتا تو پھر ایسی اکسیر چیز’’توبہ‘‘ سے کیوں اعراض کیا جاتا ہے. یہ شیطانی خیال ہے کہ توبہ کیا ہو گا، توبہ کرکے کیا ہوگا؟ ۔
چونکہ شیطان نے خود توبہ نہیں کی اس لئے وہ مسلمان کو بھی توبہ نہیں کرنے دیتا، اس لئے ضرورتوبہ کرنا چاہئے اور شیطان کا کہنا ہرگز نہ ماننا چاہئے، حبیب عجمیؒ ایک بزرگ گذرے ہیں، بہت سود خوار تھے روٹی گھر پکتی تھی اور سالن مقروضوں کے یہاں سے سود میں لاتے تھے، ایک مرتبہ سالن لینے ایک مقروض کے پاس گئے، مرد گھر پر نہ تھا عورت سے کہا مجھے سالن چاہئے، عورت نے جواب دیا اورتوکچھ ہے نہیں، بچے فاقہ سے ہیں تھوڑا سا گوشت کہیں سے حاصل ہوا ہے اس کو پکاکر بچوں کو بہلاؤں گی، حبیب نے کہاں وہی دیدو، حبیب خالی واپس نہیں جاتا ہے، چنانچہ گوشت لیکر واپس گھر آرہے تھے، راستہ میں بچے کھیل رہے تھے، ایک بچہ نے کہا راستہ سے ہٹ جاؤ کہیں حبیب کا سایہ ہم پر نہ پڑجائے اورہم جہنمی ہوجائیں، یہ سن کر دل پر ایک چوٹ لگی اور گھرچلے گئے، بیوی سے کہاں میں نہاکر آتا ہوں تو اس گوشت کو پکا، جب نہاکر واپس آئے اور بیوی سے کھانے کا مطالبہ کیا تو دیکھا ہانڈی میں بجائے گوشت کے خون جماہوا ہے، حبیب عجمیؒ کے دل پر اک چوٹ لگی کہ تو اس طرح لوگوں کا خون کھارہا ہے، بس اٹھے اور توبہ کی غرض سے حضرت حسن بصریؒ کی خدمت میں چل دئے، توبہ کے عزم کا یہ اثر ہوا کہ وہی بچے جو کھیلتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ راستہ سے ہٹ جاؤ یہ کہنے لگے آؤ آؤ، حبیب کو لپٹ جائیں ان کی برکت سے ہماری بھی بخشش ہوجائیگی، الغرض شیخ حسن بصریؒ کی خدمت میں پہنچے توبہ کی، جن لوگوں سے سود کھایا تھا واپس کیا اور معافی چاہی اور پھر ایسے ہوگئے کہ ایک مرتبہ تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے حسن بصریؒ بھی ان کے پاس پہنچے اور چاہا کہ تہجد میں ان کے ساتھ شریک ہوجائیں جب وہ قریب پہنچے تو سناکہ قرأت میں الحمد، حاءؔ کی بجائے الہمد، ہاءؔ سے پڑھ رہے ہیں، پیچھے ہٹ گئے شریک تہجد نہ ہوئے بات آئی گئی ہوگئی، کچھ دن کے بعد حضرت حسن بصریؒ نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا عرض کیا کہ اپنے قرب ورضا کا خاص راستہ عطافرما، ارشاد ہوا وہ وقت آیا تو تھا مگر تم نے قدر نہ کی، گھبراکرپوچھا، کب آیا تھا؟ ارشاد ہوا حبیب عجمیؒ کے پیچھے نماز پڑھنا، تم نے ان کے ظاہر کو تو دیکھا کہ الہمدؔ پڑ رہے ہیں وہ تو معذور تھے عجم کے رہنے والے ہیں لیکن ان کے دل کو نہ دیکھا کہ کس دل سے اور لگن سے پڑھ رہے ہیں، تو دیکھا آپ نے کہ توبہ کا پانی کیسا اکسیر ہے کہ کیسا سود خوار کیسا پاکیزہ ہوگیا، الحاصل توبہ کسی حال میں نہ چھوڑ نا چاہئے۔
طالب علم کو اظہارِ حال ضروری ہے:
طالب علم کو اظہارِ حال ضروری ہے ، اس بات پر نہیں رہنا چاہئے کہ شیخ کو ہمارے سب حال کی خبر رہتی ہے اول تو یہ خیال ہی صحیح نہیں، علم غیب تو سوائے اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ کو بھی نہیں ہے ، اور اگر بالفرض خبر بھی ہوجاتی ہو تو پھر بھی اپنا اظہارِحال تو کرنا ہی چاہئے نیز اگر طالب علم کی ، مرید کی ، دوست کی کوئی بات پیر کے دل میں آبھی گئی تو اجمال ہوگی تفصیل تو معلوم نہ ہوگی تو چاہے اجمالی معلوم ہو چاہے تفصیلی ، مگر جب اصلاح کا طالب ہو تو اسکی کچھ طلب بھی ظاہر کرنی چاہئے ، پیر کے علم پر رہنا بہت بھاری اور بڑی غلطی ہے ، اور اسکے غلط ہونے کی دلیل بلکل صاف ہے ، دیکھئے ذاتِ باری تعالیٰ کو ہر ایک مخلوق کا مکمل علم ہے تو پھر انسان بالخصوص مسلمان کی ہر حالت کیا حق تعالیٰ کو معلوم نہیں ہے؟ تو پھر اسی پر رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو تو سب معلوم ہے میں کیا کہوں؟ کیا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جواپنی خدمت میں درخواست دینے کا حکم نہیں دیا ؟ کیا یہ فرمادیا ہے کہتمہیں کہنے کی ضرورت نہیں ، مجھے تمھاری ضرورتیں سب معلوم ہیں ، میں سب ضرورتیں پوری کرتا رہوں گا ، کیا ایسا ہے ؟ ایسا نہیں ہے ، بلکہ حکم دیا کہ مجھ سے مانگو ، بھکار ی بنو، ہمارے دربار میں درخواست دو ،اپنی طلب کا اظہار کرو ، اور اگر نہیں کرتا اور نہیں کہتا تو اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتے ہیں کہ اوہو! مستغنی ہوگیا ، بڑا بے نیاز ہوگیا تو دیکھئے ذاتِ مومن باری تعالیٰ (مومن اسمائے حسنیٰ میں سے بھی ہے) مومن بندے سے چاہ رہے ہیں کہ وہ اظہارِ احتیاج کرے۔
مخلوق سے بے نیازی اور خالق کے سامنے نیاز :
فرمایا مخلوق سے تو استغناء کا حکم ہے لیکن ذاتِ حق سے استغناء ممنوع ہے، اگر نہ مانگتے تو حضور اکرم ﷺ سید الکونینؐ نہ مانگتے لیکن ہم سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے وہ مانگتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو مجھ سے کتنی محبت ہے اور لقب بھی ذاتِ باری تعالیٰ نے ان کو حبیبؐ کا دیدیا، جس کے معنیٰ ہیں محبوب تر ، سیدنا ابراہیم ؑ کو تو خطاب دیا خلیل اللہ، جس کے معنیٰ ہیں محب کے اور حضورﷺ کو خطاب دیا حبیب اللہ کا، جس کے معنیٰ ہیں محبوب کے لیکن اس کے باوجود کہ آپ محبوب ہیں حضور اکرم ﷺ جگہ جگہ دعا مانگ رہے ہیں اور یوں کہہ رہے ہیں اَلّٰلھُمّ َ ھَذَالدُّعَاءُ وَعَلَیْکَ الْاِجاَبَۃَ(ائے اللہ یہ جو میں آپ سے سوال کررہاہوں میری دعا ہے لیکن، وَعَلَیْکَ الْاِجَابَۃَ َ قبول کرنا آپ ہی کا کام ہے، میں تو آپ سے مانگ رہاہوں جیسی مصلحت ہوگی ، جیسا مناسب ہوگا جس میں میری سلامتی ہو گی جسمیں آپ کی حکمت میرے شاملِ حال ہوگی، اس اعتبار سے آپ قبول فرمائیں گے ۔
قبولِ دعا ء کے دو معنیٰ :
فرمایا قبول کے دومعنیٰ ہیں، ایک تو یہ کہ درخواست کو لے لیا، اور جب حاکم نے درخواست کے الفاظ بھی بتلادیے ہوں کہ ان الفاظ سے درخواست لکھ کر لاؤ تو پہلے ہی سے معلوم ہوگیا کہ درخواست قبول ہوگئی، چنانچہ حکم ہے کہ کہو ’’ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَانْتَ خَیْرُالرّٰحِمِیْنَ اور یوں کہو رَبَّناَ لَا تُوَا خِذْنَا اِن نَّسِیناَ اَوْ اَخْطَأنَا ‘‘ اور یوں کہو رَبَّنَا اِٰ تنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِحَسَنَۃً وَّقِناَ عَذَابََ النَّاِر‘‘ جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے آداب والقاب بھی بتلادئے اور اپنے ماں باپ کیلئے یوں کہو ’’ رَبِّ الرْحَمْھُمَاکَمَا رَبَّیٰنِیْ صغیراً تو دیکھئے االلہ تعالیٰ نے درخواست کے الفاظ بھی جگہ جگہ بتلا دئیے اب انھیں الفاظ سے جو درخواست دی جائیگی تو کیا قبول نہیں ہوگی ؟ ضرور قبول ہوگی، لیکن کیا حرام چیز کی دعا ہونی چائیے کیا نا جائز کی دعا ہونی چاہیے؟ اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،بلکہ اپنی جائز ضرورت اور حاجت جو اس کو پیشِ نظر ہے اس کی درخواست کرے گا تو وہ قبول ہوگی۔ہمیشہ یاد رکھو، قبول تو اسی وقت ہوگی جب درخواست دی ہے اور قبول کیلئے پہلے معنیٰ ہیں اب اس قبولیت کا ظہور کب ہوگا ؟ اور کس طرح ہوگا ؟ کہاں ہوگا؟ یہ تین لفظ ہوئے اس میں تفویض ہے جس کو انجام کہتے ہیں۔
شدّتِ محبت کا تقاضا ہمہ وقت ذکر کا ہے:
فرمایا مومن کے اشد محبت کا تقاضا ہمہ وقت ذکر کا ہے . اس کے لئے وقت کا تعین نہیں،طہارت کا تعین نہیں، سمت (قبلہ رخ ہونے کا) تعین نہیں، آدابِ مجلس کا تعین نہیں،جب چاہو جس وقت چاہو ، جس طرح چاہو ، جتنا چاہو کلام کرلو جب کہتمہاری صحت پراثر نہ ہوتمہیں صعوبت (دشواری) نہ ہو۔دیکھو! ہاتھ دو، پیر دو، اور بھی اعضاء دو دو ہیں، اور زبان اور دل ایک ایک ، اور’’ اللہ‘‘ ایک تو بدلالتِ التزامی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ میں ایک، زبان ایک، تو زبان میرے ذکر کے لئے ہے اور میں ایک، دل ایک، تو میری یاد کے واسطے ہے،لہدا زبان ودل ذاتِ باری تعالیٰ کے لئے مخصوص ہوگئے ’تو زبان کبھی ذکر سے خالی نہ رہے‘ اور دل کبھی اس کے دھیان سے خالی نہ رہے اسی لئے حق تعالیٰ نے بلسانِ رسول ﷺ صاف فرمادیا کہ جو شخص، اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہے وہ جب کلام کرے تو کلامِ خیر تو وہ عبادت ہوگیا،ورنہ خاموش رہے ، تو بولنا بھی عبادت اور خاموشی بھی عبادت کیونکہ ان کے حکم کے تحت بول رہا ہے اور ان کے حکم کے تحت سکوت کررہا ہے، زبان پر اسی کا نام اوردل میں اس کا دھیان ’’اَلَّذِیْنَ اٰ مَنُوْااَشَدُّحُبًّالِلّٰہِ ‘‘ کا یہ تقاضا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے اس کی توفیق ارزانی کے نوازیں ‘ آمین یا رب العٰلمین۔
یہ سلوک وتصوف کیا چیز ہے :
لوگ کہتے ہیں یہ سلوک وتصوف کیا چیز ہے؟ معلوم نہیں مشکوٰۃ شریف پڑھی تھی کہ نہیں پڑھی تھی؟ جو خیرِ اعظم ہے ، بدوں اسکے ایمان واسلام ہے تو، لیکن بدوں سلوک وتصوف کے اندیشہ ہے کہ نا معلوم کس وقت نماز چھوڑدے، نہ معلوم کس وقت ایمان کے اندر کمزوری آجا ئے . الامان الحفیظ پس یہ اندیشہ ’’ فَاذْ کُرُو الِلّٰہِ قِیَاماً وَّقُعُوْدً اوَّعَلی جُنُوْبِکُمْ‘‘ اور ’’ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ‘رسول ﷺ کو ہے تو نا ئبِ رسول ﷺکو بھی ہے تاویلیں نہیں چلیں گی، اور جب صحت بھی ٹھیک ہے، اور سہولت بھی ہے کہ کسی ضروری کام میں حرج نہیں ہے تو تقا ضۂ محبت کیا کہتا ہے کہ تہجد کردو ؟یا عمل کرنے کو کہتا ہے اور وہ بھی دائمی ہمیشہ۔
حضرت خواجہ باقی باللہ کی حکایت:
مجدد الفِ ثانی کے شیخ ؒ حضرت باقی باللہؒ کے پاس حجام آگیا ، وہ خط بنا رہا ہے ، لب بنانے کی بھی نوبت آگئی تو ذکر کی وجہ سے لب (ہونٹ) ہل رہے ہیں نائی نے کہا حضور تھوڑی دیر کے لئے ذکر کو قطع فرما دیجئے ورنہ لب قطع ہو جائیگا، تو خواجہ باقی باللہ صاحب نے فرمایا کہ لب کا قطع ہونامنظور لیکن ذکر کا قطع کرنا منظور نہیں۔
دیکھا ! یہ ہے سلوک کا اثر ، کیا شریعت میں تَرْ ذکر ممنوع تھا؟ اے نا ئبِ رسول خاص کر سالکین، یہ ہے سلوک، آج سلوک کا نام رہ گیا ہے بس وظیفوں کے پڑھنے کا نام سلوک رہ گیا ، سلوک کا موضوع تو اخلاق ہے ،اخلاقِ رزیلہ ، ذمیمہ کا ازالہ، لوگ (یعنی صوفیہ) اس کو امالہ کہتے ہیں لیکن میں تو ازالہ کہتا ہوں، کیونکہ جب بخل وحسد وغیرہ اخلاقِ رزیلہ عمل میں نہیں آرہے ہیں تو زائل ہی ہیں، اس لئے میں تو اِمالہ کو ازالہ کہتا ہوں ۔۔۔ اگر باقی باللہ ؒ ذکر بند کردیتے تو کیا عذاب نازل ہوتا، عتاب ہوتا؟ لیکن اندر جو جز ہے وہ ذکر قطع نہ کرنے پر مجبور کررہی ہے، اور وہ چیز ہے ’’ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّاِ ﷲِ‘‘ کہ مومن کے دل میں ذاتِ باری تعالیٰ کی اشدِّّ ِ محبت ہونا چاہیے اشدِّ محبت کا تقاضا محبوب کو بھولنا ہے یا یاد رکھنا سرمد ؒ فرماتے ہی
سرمد گلہ اختصار می باید کرد
ایک کارِازیں دوکار می باید کرد
ترجمہ اے سرمد شکوہ شکایت چھوڑدے، تم کس جھگڑے میں پڑگئے ،
شکوے شکایت چھوڑ دو ، دو کاموں میں سے ایک کام کرو، کیا کام کرو ؂
یا تن برضائے دوست می باید داد ، یا قطع نظر زیار می باید
یا اپنی جان کو اس کی رضا میں اسکے سپرد کردو، اوراگریہ بات نہیں ہے ، تو یہ دوطرفہ بات کیسی ہے ؟ کہ کبھی مخلوق کی طرف مخلوق کی رضاء میں، اور کبھی خالق کی رضاء میں، یہ شرک کی بات کیسی ہے، تو پھردوست حقیقی سے قطع نظر کرلو، بس قصہ ختم ہو، یہ دوغلاپن کیا؟۔۔۔ اور اگر یہ کہاجائے کہ ہر وقت اللہ کی یاد کیسے کریں؟ ہماری بھی کچھ طبعی ضرورتیں ہیں تو موقع بے موقع خود ہی اللہ تعالیٰ رخصتیں فرمارہے ہیں اور رخصت پر عمل کرنا بھی عبادت ہے، مثلاً علالت کی رخصت ہے تو اس وقت جس طرح عبادت ممکن ہے وہ بھی عبادت برضاء دوست ہی ہے، پھر سوچنے کی کیا بات ہے؟ اور بعض رخصتیں تو درجہ وجوب میں ہیں، جب شرعی مسافت ہو تو چار فرض کی جگہ دو فرض پڑھو اس طرح جو مقدار وجوباًمقرر ہے اس سے زیادہ پڑھنا بھی ناجائز ہے اللہ تعالیٰ نے حسبِ موقع ومحل بہت ہی زیادہ فضل وکرم اپنے بندوں کے حال پر فرمایا ہے ۔
ذکر کے معنیٰ ہیں یاد:
فرمایا میدانِ جہاد کے اندر نماز بھی اپنے وقت سے معاف بھی ہو سکتی ہے، اور غزو�ۂخندق میں ہو ئی ہے لیکن ذکر معاف نہیں کیونکہ اگر دل کے اندر اللہ تعالیٰ کی یاد اور دھیان نہ رہے تو میدانِ جہاد میں اپنے شوق کو پورا کر بیٹھے گا کہ مقا بلہ میں دشمن ہے جس طرح چاہے اس کے ساتھ معاملہ کرلو اور جب خلافِ شریعت شوق پورا کرلیا تو وہ عبادت ہے یا غیر عبادت کیوں بنا؟ اس لئے کہ دل میں ذکر نہ تھا؟ اسی لئے کہا گیا ہے کہ دنیا لکھ پتی کروڑ پتی ہونے کا نام نہیں بلکہ ع چیست دنیا از خدا غافل بدن، کسی نے پوچھا،دنیا کیا ہے؟تو جواب دیا کہ بس دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غفلت نہ ہو ، چاہے چاندی سونے کا ڈھیر لگالو اور ہیرے جواہرات کے ڈھیر لگالو ، دیکھا آپ نے ذکر کا مقام ایھا السالکون؟ طالبانِ تزکیہ ! اب تو سمجھے دنیا کی حقیقت ، لکھ پتی کروڑ پتی ہونے سے تو اللہ تعالیٰ منع کرتے نہیں اور یہ نہ ہو بلکہ غربت پر غربت ہو اور دل میں غفلت ہے تو اس غریبی سے وہ باد شاہی بدرجہا بہتر ہے۔
قطب الدین بختیا رؒ کا کی کا واقعہ ہے کہ قطب الدین بختیارؒ کا کی کاا نتقال ہوا ، انھوں نے وصیت کی تھی کہ میرے جنازہ کی نمازوہ شخص پڑھائے جو ہمیشہ باوضو ہو، جسکی تکبیر تحریمہ کبھی نہ چھوٹی ہو، جس نے غیر محرم پر نظر نہ ڈالی ہو، جس کی عصر سے پہلی کی سنت کبھی نہ چھوٹی ہو، یہ چار وصیت کی، جنازہ آگیا، وصی نے وصیت کا اعلان کیا اب کوئی آگے نہیں بڑھتا حالانکہ خلفاء موجود ہیں یہ الگ بات ہے کہ خلفا کا درجہ اونچا ہومگر خلیفہ ہونے سے پہلے ان میں تین باتیں نہ ہو، تین دفعہ بلند آواز سے اعلان کیا . سلطان شمش الدین التمش کا زمانہ تھا، بادشاہ آگے بڑھا اور کہا ’’ شُکْرًالِلّٰہِ حَمْدًا لِلّٰہِ‘‘ میں ہوں ایسا ’’ وَاَمَا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ‘‘ تحدیث بالنعمہ کے طور پر کہہ رہا ہوں ، کون تھے وہ؟ غریب یا بادشاہ؟ بادشاہ ہوکر فقیر اور یہاں فقیر ہو کر تکبر نہیں جارہا ہے. خیال فرمایا۔ یا ایہالسالکون ،ایہا العلماء الکرام والعظام والمدرسون کہ چیست دنیا از خدا غافل بدن، تو معلوم ہو کہ خلاصۂ زندگی اللہ کی یاد ہے۔
ہدیہ میں صرف محبت کی نیت ہو:
فرمایا کہ ایک صاحب نے ایک اونٹ رسول ﷺ کو دیا آپ ﷺ نے دودیدئیے ، ان صاحب نے کہا کہ بس دوہی؟ میں نے سنا تھا آپؐ بہت بڑے سخی ہیں ، یہ طمع لے کر آیا تھا کہ بہت کچھ دیں گے ۔ حضور اکرمﷺ کو اس کا کہنا معلوم ہوگیا تو فرمایا لوگوں میں حوصلہ نہیں ہے . میں اب ہر ایک کا ہدیہ قبول نہیں کروں گا. نیز ارشاد ہے تھادّوا تحابّوا، ہدیہ لو دو آپس میں محبت پیدا کرو اس سے معلوم ہوا ہدیہ صرف محبت کی نیت سے ہونا چاہئے ، نہ دعا کی نیت ہو دعا کے لئے بھی ہدیہ کے بعد نہ کہے ، نہ ثواب کی نیت ہو ، حق تعالیٰ خود ثواب دیں گے تو نے کیوں نیت کی نہ برکت کی نیت ہو، حق تعالیٰ خود دیدیں گے تونے کیوں نیت کی۔
نفس لوّامہ کی حقیقت اور اس کی حیثیت:
فرمایا ۔حق تعالیٰ نے ایک جگہ نفسِ لوّامہ کی قسم کھائی ہے. لَااُقْسِمُ بِیَوْ مِ الْقِیَامَۃِ وَلَا اُقْسِمُ باِلنَّفْسِ الَّوَّامَۃِ. میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں اور نفس لوامہ کی بھی قسم کھاتا ہوں کہیں نفس مطمئنہ کی بھی قسم کھائی ہے تو نفس لوامہ سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں لیکن لوامہ جب ہی کہلائے گا کہ جب اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو شرمانے لگے اللہ کے سامنے محجوب ہونے لگے تو اللہ اس سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ مجھے دیکھا بھی نہیں اور مجھے علیم وقدیر اور ایسا مانتا ہے تب ہی تو اپنے کو لعن وطعن کر رہا ہے کچھ ایسی نشانیاں اورشواہد میرے ہیں جن کو دیکھ کر ایسا یقین ہوگیا کہ گویا مجھے دیکھ رہا ہے اس لئے انابت کر رہا ہے ،عاجزی کررہاہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے بہت خوش ہوتے ہیں حدیث قدسی میں ہے کہ اے مومنو! تم میں سے ہر ایک خطاکار ہے اچھا تم اپنے آپ کو عبادت کے لائق سمجھتے ہو تو یہ عجب کیسا؟ تکبر کیسا؟ اچھا تم اس کوانتہائی کمال سمجھتے ہو ، اچھا تم ان برائیوں سے بچنے کے اندر ، اچھے کام کرنے کے اندر تم سلب کا اندیشہ نہیں سمجھتے تو تکبرکیسے آگیا اور عجب خود پسندی اس لئے آگئی کہ اپنے پر نظر اور دوسرے پرحقارت کی نظر بھی آگئی تو تکبر آگیا ، اپنی کوتاہی پر نظر نہیں ڈالتا ، خود کو ملامت نہیں کرتاایسے سے اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں اس لئے حضور ﷺ فرماتے ہیں تم میں سے ہرایک خطاکا ر ہے لیکن بہترین خطاکار وہ ہے جو توبہ کرلے ، ابھی اشرار میں سے تھا ابھی ابرار میں ہو گیا ، ابھی محل قہر تھا ابھی محل مہر ہو گیا تو معلوم ہوا کہ اللہ کی نظر میں یہ بڑی چیز ہے کیونکہ توبہ کرنیوالا نفس لوامہ والا ہے اس لئے تو حق تعالیٰ قسم کھارہے ہیں تو مومن نفس لوامہ والا قابلِ قدر ہے۔
مومنوں کی قوتوں کا صحیح استعمال
فرمایا ۔لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِکی خلقت عادت میں تبدیلی نہیں ہے جو ایسے مومن کے ساتھ پہلے میری عادت تھی وہی ایسوں کے ساتھ اب بھی ہے ، تم ایسے نہیں رہے اس لئے تمہارے ساتھ عادت تبدیل ہو گئی مگراب اگر تمہارے اندر تبدیلی آجائے جیسی کہ مومن قوی کی۔۔۔تو میری عادت تمھارے ساتھ اب بھی وہی ہے ، البتہ اپنے پر اور اپنے اسباب پر نظر نہ ہو، حکم تو ہے زمانہ کے اعتبارسے ا سباب جمع کرنے کا لیکن باجود اس کے تم مومن قوی ہو، اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم کو نہ اپنے پر نظر چاہیے نہ اسباب پر نظر چاہیے بس مجھ( اللہ) پر نظر تویہ شبہ کہ پہلے طریقِ حرب ( جنگ، لڑائی)اور تھا اس لئے غالب ہوتے تھے اب دوسرا طریق’’ہوائی‘‘ (ایرفورس) ہے، تو حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے تم سے کب کہاتھا کہ جب زمانہ حرب ہوائی کا ہو اس کو اختیار مت کرنا، ان آلات واسباب کو جمع مت کرنا ان کو استعمال مت کرنا بلکہ میں نے کہا تھا کہ جس زمانہ میں جو اسباب حرب ہوں انکو جمع کرنا جس درجہ کے تم جمع کرسکتے ہو، کار خانے لگاؤ سامان جمع کرو اور رکھو، حق تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے ایسازہد مطلوب نہیں، بلکہ وہ زہدمطلوب ہے جو ہلا دینے والا ہو ، اس لئے فرمایا ہے کہ مومن قوی، مومن ضعیف سے بہتر ہے، لہذا اسباب اختیار نہ کرو، ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جاؤ، مجھے ایسا زہد، ایسی بے رغبتی ، ایسا تنفر مطلوب نہیں،بلکہ یہ اسباب کہ اسبابِ جامع موجود ہوں، اور ان پر نظر نہ ہو، یہ زہد مطلوب ہے اور اسی کا نام ہے صحیح توکل کہ اسباب خیر سارے جمع ہوں مگر بھروسہ اس پر، جیسا کہ اللہ کے حبیب ﷺ نے سارے اسباب خیر جمع فرماتے ہوئے کہا اَلّٰلھُمَّ ھٰذَالْجُھْدُمِنِّیْ وَعَلَیْکَ التُکْلاَنِ اے اللہ! یہ تو میری کوشش ہے لیکن بھروسہ آپ پر ہی ہے زہد حقیقی اور یہ ہے توکل حقیقی۔
اسی لئے ذاتِ باری تعالیٰ نے مومن کی مجموعی قوت کی بحالی کے لئے اور زیادہ قوت کے لئے صریح اور واضح طور پر یہ ارشاد فر مایا ہے ولا تنا زعو! اے مسلمانو! آپسی نا اتفاقی کے رہنا چھوڑ دو . آپس میں جھگڑتے ہوئے نہ رہو، سوال ہوا کہ اگر تنا زع ( لڑ جھگڑ کر) رہیں تو کیا حرج ہے؟ ارے تم مومن ہوکر ایسا سوال کرتے ہو ، فَتَفْشَلُوْا ، تمھاری ہمتیں پست ہو جائینگی جب ہمتوں میں ڈھیلا پن آگیا تو کیا کام ہوگا ،دوسری تعبیر میں یوں سمجھوکہ تمھاری چول چول ہل جائیگی پست ہمت ہو جا ؤگے ، پھر سوال ہوا کہ پست ہمت ہو گئے تو کیا نقصان ؟ ارے فَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ تمھاری ہوا اکھڑ جائیگی تم ھباءًً منثوراً ہوجاؤگے ، یعنی تمھارا رعب جاتا رہیگا اور جب رعب جاتا رہا تو دوسراتم پر غالب اور تم مغلوب ہوگئے تو تم مرعوب ہوگئے کیا مقابلہ کر سکو گے ، تو حق تعالیٰ فر ما رہے ہیں کہ دشمن کے غالب آنے کے لئے رعب کی ضرورت ہے اور رعب کے لئے مجموعی قوتِ اتفاقی کی ضرورت ہے اور اسکے لئے تنازع ( اختلاف ، لڑائی جھگڑا ) سے ہٹ کر رہنے کی ضرورت ہے . جب کہ تنا زع نہیں ہوگا تو تمھارے اندر قوت وبلند ہمتی ہو گی اور جب بلند ہمتی ہو گئی تو دوسرے پر تمھارا رعب طاری ہوگا، اور یہی کامیابی کے اسباب عادیہ میں سے سبب ہے اور تم نے وہ اسباب عادیہ چھوڑ دیئے تو دوسرا غالب ہوگا تم مغلوب، اس کا رعب طاری ہوگا،تم مرعوب ، پھر کوئی وجہ نہیں کہ تمھیں کا میابی ہو، تم نے نا کامیابی کے اسباب من حیث القوم خود اختیار کئے ہیں۔
قواعد انتظاماً ہو تے ہیں:
فرمایا کہ اعلیٰ حضرت مولانا تھانوی ؒ کی خانقاہ میں کچھ قواعد مقرر تھے،بعض لوگ ان قواعد پر اعتراض کرتے تھے، تو یہ اعتراض بیجا ہے ، ایسا تو انتظاماً اکابر متقدمین سے بھی ثابت ہے، بعض مشائخ کے یہاں ملاقات کے بہت قواعد مقرر تھے حضرت والا کے یہاں تو ان کے مقابلہ میں کچھ بھی نہ تھے دروازہ پر دربانی رہتا تھا، وہ اول شیخ سے اجازت لیتا تھا، جب اجازت مل جاتی تھی تو ملاقات ہوتی تھی ایک ایسے ہی شیخ کا واقعہ ہے کہ ان سے بادشاہ ملنے آیا، دربان نے روک دیا کہ اول اجازت لے کر آؤ ں، خادم اندر گیا اور بادشاہ کے آنے کی اجازت چاہی،شیخ نے اجازت دی بادشاہ اس رکاوٹ سے جھلا گیا جب شیخ کی بارگاہ میں پہونچا تو ایک فارسی مصرع پڑھا ع’’ درِ درویش را دربانی نیابد، یعنی درویش کے دروازہ پر دربانی نہ چاہیے، شیخ نے بر جستہ جواب دیا۔ع’’ بیاید تا سگ دنیا نہ آید‘‘ ضرور چاہیے تاکہ دنیا کا کتا نہ آئے، حضرت والا کے یہاں تو کوئی دربان نہ تھا. ایک مرتبہ ایک حادثہ (وہ حادثہ یہ پیش آیا تھا کہ تحریکِ آزادی کے زمانہ میں حضرت مجددتھانویؒ کانگریس میں شریک نہ تھے اس پر حضرت کو قتل وغیرہ کی دھمکی دی جاتی تھی، ایک دن گرمیوں کی دوپہر کو حضرت والا پردے ڈالے ہوئے قیلولہ فرما رہے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اورحضرت کا گلہ دبانا شروع کردیا، حضرت گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور شور مچایا، ادھر ادھر سے اہلِ خانقاہ جمع ہوگئے اس کو پکڑ لیا گیا مولانا شبیر علی صاحب حضرت کے بھتیجے اور دیگر حضرات کی رائے تھی کہ اس کو پولیس کے حوالہ کردیا جائے مگر حضرت نے اس کو یہ کہہ کر چھٹوادیا کہ نہ معلوم پاگل ہے کون ہے؟میرا کچھ نہیں بگڑا، پولیس میں جا ئیگا یہ کہیں ہوگا ،اس کے بچے کہیں ہونگے، لہذا اس کو چھوڑ دیا جائے اس کے بعد سے خدام نے دربانی مقرر کرنے کی فرمائش کی لیکن حضرت والا نے منظور نہیں فرمایا . مولانا عقیل الرحمٰن مد ظلہ العالی نے یہ واقعہ پیش آنے پر خدام نے دربان مقرر کرنا چاہا تب بھی حضرت والا نے منظور نہ فرمایا .بس بعض قواعد انتظاماً طرفین کی راحت کے لئے مقرر تھے۔
حضرت تھانویؒ کے انتظام پر اور اس کا جواب :
فرمایا کہ حضرت والا (حضرت تھانویؒ ) کے نظام وانتظام کو دیکھ کر ایک معترض صاحب نے کہا تھا کہ وہاں کا دربار ہی نرالا ہے، وہاں کی کیا پوچھتے ہو حضرت والا نے سن کر فرمایا ارے میرا دربار کیا نرالا ہوتا،تم ہی نرالے ہو، نئی نئی باتیں ایجاد کرلی ہیں اسلئے نرالا معلوم ہوتا ہے، الحمدﷲ یہاں تو وہی طریقہ ہے جو تیرا سو برس پہلے تھا۔
ہر سو سائٹی لائقِ اتباع نہیں:
فرمایا کہ حق تعالی نے فرمایا کہ یَا اَیُّھَاا لْذِیْنَ اٰمَنُواادْخُلُوْ فِی السِّلْم کَافَّۃً (مسلمانو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو) تو یہ حکم قیامت تک لئے ہے ، تو پھر سو سائٹی اور زمانہ کے ساتھ چلنے کا کیا مطلب ہے ؟ آگے ارشاد ہے وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطَانِ ( شیطان کے قدم بقدم مت چلو ) تو جو شخص سوسائٹی کے ساتھ ہو گیا، سو سائٹی کے رنگ میں رنگ گیاتو وہ متبع شیطان ہے، لوگ کہتے ہیں کہ یہ مولوی لوگ ابھی تک پیچھے کی طرف دوڑ رہے ہیں ،یہ دقیا نوسی ہیں، کنویں کے مینڈک ہیں مسجد کے مینڈھے ہیں، نا معلوم کیا کیا عنوان مقرر کر رکھے ہیں ( آجکل بنیاد پرست کی اصطلاح ایجاد ہوئی ہے) اور خود کو روشن دماغ کہتے ہیں،یہ سب شیطانی خیالات اور اتباع شیطان ہیں،نیز دوسری آیت میں ہے یَا اَیُّھَا ا لَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ وَمَنْ ضَلَّ اِذَاھْتَدَیْتُمْ ۔ اے مسلمانو! اپنے نفسوں کو مضبوط پکڑے رہو تم کو گمراہ شخص کچھ مضر نہ ہوگا جب تم ہدایت پر ہو تو حق تعالیٰ سوسائٹی کی نفی کر رہے ہیں، اور تم کو مضبوط بنا رہے ہیں تم ہدایت پر ہو تو سو سائٹی اور ماحول کچھ مضر نہیں ہے یا د رکھو سوسائٹی سے کچھ ضرر نہیں ہوتا، جب اہلِ سوسا ئٹی دیکھتے ہیں کہ یہ تو پختہ ہے تو پھرکچھ نہیں کہتے، یہ تجربہ ہے اول اول کچا بنانے کے لئے چھیڑتے ہیں، جب دیکھتے ہیں کہ پختہ ہے تو پھر کچھ نہیں کہتے۔
مجلس میں دوڑ کر داخل ہوناخلافِ وقارہے:
فرمایا کہ اندر ( مجلس خانہ میں )بھاگ دوڑ کر نہ آنا چاہیے وقا ر کا شریعت میں بہت خیال رکھا ہے. مسئلہ شرعیہ ہے کہ جماعت نماز کی کھڑی ہوگئی ہو تو بھاگ کر نہ آؤبلکہ اس طرح آؤ کہ تم پر سکون وسکینہ ہو ، یہ تمام باتیں حلم میں داخل ہیں صرف حلم یہی نہیں ہے کہ کسی نے گالی دیدی اوربرداشت کرلیا یہ وقار بھی حلم میں داخل ہے ، یہ شیر کا حلم ہی تو ہے کہ دوسرے اس کو چھیڑتے ہیں ابتداءً کچھ نہیں کہتا آخر میں بھی ذرا سی آنکھیں دکھاتا ہے، میں جب دیو بند پڑھنے گیا تو ایک جگہ نو درا میں چند طالب علم سرحدی پٹھان جیسے قبے والے تکرار کر رہے تھے ، میں جا کر بیٹھ گیا انھوں نے مجھے چھیڑنا شروع کیا، میں خاموش رہا تیسری مرتبہ انھوں نے پھر چھیڑا میں پھر خاموش رہا چوتھی مرتبہ ان سرحدیوں نے کہا تم کیسے پتان ( پٹھان) ہو ہم نے تم کوچند مرتبہ چھیڑا تمکو بالکل غصہ نہیں آیا ، تم کیسے پتان ہو چونکہ سرحدیوں سے ٹھا ،نہیں نکلتی ، اس لئے پٹھان کو پتان تاء کے ساتھ بولتے تھے، میں نے کہا میں شیروانی پٹھان ہوں،شیر وانی پٹھان ہوں شیر کو غصہ نہیں آیا کرتا ، یہ سن کر وہ ہنس دئیے ۔
تمرین سے مشقت آسان ہو جاتی ہے :
فرمایا ۔مشق وتمرین سے طبیعت ایسی بن جاتی ہے کہ بہت مشقت کا کام بھی آسان ہوجاتا ہے، حضرت والا فرمایا کرتے تھے کہ اس ضعف وعلالت کے زمانہ میں بھی ہر وہ کام جو میں خود کرسکتا ہوں اپنے گھر میں سے بھی نہیں لیتا اس پر بعض خدام نے عرض کیا کہ اب اس ضعف کے عالم میں اس میں کسی قدر توسع فرمایا جائے، کیونکہ ایسی حالت میں اگر تعب برداشت کرکے کوئی کام کیا گیا تو اس تعب کا اثرروح پر پڑے گا جو سخت مضرصحت ہوگا۔
مدار س کی تنخواہ حبسِ نفس کی اجرت ہے تعلیم کی اجرت نہیں:
فرمایا ۔مدرسہ کی تنخواہ حبسِ نفس کی اجرت ہے، اگر ایک طالب علم بھی مدرسہ میں پڑھنے آئے تو مدرس کو درسگاہ ہی میں رہناضروری ہے جیسے بیوی کا نفقہ حبسِ نفس کی اجرت ہے، اگر شوہر صحبت نہ بھی کرے تب بھی نفقہ واجب ہوگا یادرکھیے! مدرسہ کے اوقات میں اپنا ذاتی کام کرنا بالکل جائز نہیں ۔
فرمایا اے سالکین ! اپنے قلب کو توجہ الی اللہ کے لئے فارغ رکھنا چاہیے اپنے قلب کو بلا ضرورت غیر اللہ میں مشغول رکھنا ہر گز درست نہیں ، اسی طرح اے طلبا! تم کو اپنے قلب کو کتب بینی کے لئے فارغ رکھنا چاہئے ، بھلا طالب علم کو کہاں فرصت کہ یہ طالب علم اسکے کمرہ میں جائے اور یہ طالب علم اسکے کمرہ میں آئے ، یکسوئی سے طلبِ علم میں لگنا ضروری ہے۔
سالک کو پریشان کن باتوں سے علٰحدہ رہنا چاہیے:
فرمایا کہ جو سالکین یہاں افریقہ، لندن وغیرہ سے اہل حال آتے ہیں ان سے کہدیا جاتا ہے کہ آپ یہاں داد ودہش کا دروازہ نہ کھولیں اس سے بڑی تشویش پیدا ہوتی ہے ، سائلین حضرات آتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں اور اہل حاجت کا یہ حال ہے کہ جس کو ایک مرتبہ دیدیا جائے وہ بار بار اسی مقدار کو چاہتے ہیں ، مجھے تو رات دن اس کا تجربہ رہتا ہے اسلئے یہاں رہنے والوں کو ہر قسم کی تشویش سے جدا رہنا چاہئے ، اسیطرح طلباء مدرسہ میں علم حاصل کرنے آئے ہیں ، تعلقات قائم کرنے نہیں آئے ، تمام اہل تعلق بہن، بھائی، دوست، احباب ، عزیز رشتے دار کو چھوڑ کرآئے ہیں تو نئے تعلقات مدرسہ میںآکر قائم کرنا کس طرح جائز ہوگا،بعض طلباء قرض دیدیتے ہیں ، پھر وصول نہیں ہوتا، اس سے پریشان ہو تے ہیں ، بعض دوسروں کا قرض لے لیتے ہیں ، اسی مدرسہ کے طلباء کا یہ حال نہیں بلکہ دوسرے مدرسے کے بعض طلباء کا یہ حال ہے پھر میرے پاس ادائیگی قرض کی فرمائش کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں کی بھائی اس مدرسہ کے مہتمم صاحب سے کہئے وہ ادا کرادیتے ، لیکن ایسا کون کرتا ہے ،چونکہ میری طبیعت ذرا کمزور ہے اسلئے میں دیدیتا ہوں لیکن نصیحت ضرور کردیتا ہوں کہ آپ طالب علم ہیں آپ کو ہر گز قرض نہ کرنا چاہئے ، حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں ہندوستان کے ایک نواب صاحب مکہ معظمہ رہنا چاہتے تھے تو فرمایا کہ آپ ریاست کا انتظام کرکے خالی الذہن ہو کر آئیں حتیٰ کہ اہل مکہ کی دادودہش بھی اپنے ذمہ نہ رکھیں ، اس کا انتظام بھی ہندوستان ہی میں کرکے آئیں تا کہ آپ یہاں سکون سے رہیں۔
انوارِ رحمانی اور شیطانی کی پہچان:
فرمایا کہ ایک شیخ کے مرید کو انوار نظر آنے لگے مرید نے اپنے شیخ سے ذکر کیا ، شیخ کے بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ نورِ رحمانی ہے یا شیطانی ، انھوں امتحان کے لئے مرید سے کہا کہ فلاں اصطبل سے بلا اجازت ایک تنکا اٹھا لاؤ، وہ اٹھا لایا ، شیخ نے پوچھا اب بھی وہ انوار نظر آتے ہیں ؟ عرض کیا حضرت اب تو نظر نہیں آتے ، فرمایا جاؤ تنکا اصطبل میں واپس کر آؤ، معلوم ہو گیا کہ الحمدﷲ یہ انوارِ رحمانی ہیں ، شیطانی نہیں ، کیونکہ خلافِ شریعت عمل کرنے سے غائب ہو گئے ، اگر شیطانی ہو تے تو غائب نہ ہوتے بلکہ ان میں زیادتی ہو جاتی ،یہ شبہ نہ ہو کہ ایک تنکا متقوم شئے نہیں ہے پھر اس کا لیناخلافِ شریعت کیوں ہے؟
خلافِ شریعت ایسی چیز لینا ہے جو متقوم ہو، جواب اس کا یہ ہے جو سلوک وطریقت طئے کرتا ہے ، اس کو ایسی چیز سے بچنا بھی ضروری ہے ، کیونکہ گو اس میں کوئی گناہ نہیں ہوتا لیکن حق تعالیٰ کا جو خصوصی معاملہ ہوتا ہے وہ بدل جاتا ہے ، جیسے یہ انوار ذکر وتقویٰ کے ثمرہ تھے وہ بلا اجازت تنکا اٹھانے سے سلب ہو گئے ، گو ان کا سلب ہو نا گناہ نہیں۔


خاکساری ہی تمھارے کام آئے گی:
فرمایا:فلک کے معنیٰ آسمان ، افلاک کئی آسمان، عرش وکرسی کے علاوہ ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ؂
جاگنا ہے جاگ لے افلاک کے سایہ تلے
حشر تک سونا پڑیگا خاک کے سائے تلے
جب انتقال ہوجاتا ہے، سب مٹی کے نیچے امّا ( ماں) کے پاس پہونچ جاتے ہیں ، ہم کاہے سے پیدا ہوئے بتاؤں ؟ انسان کس چیز سے پیدا ہوا؟ مٹی سے ، اور آگ ،پانی ،ہوا میں سے ہر ایک وہ تومٹی کو پہنچایا گیا تھا تیار کرنے کے لئے جیسے کمھارگھڑا بناتا ہے مٹی کا توپہلے پانی ڈالتا ہے ،پھر برتنوں کی شکل بنانے کیلئے چاک پر گھمائے گا، گھڑاگھڑیا کی شکل میں بن گئی،رکھدیا نکال کر اب ہوا آرہی ہے، ہوا اور دھوپ لگ رہی ہے اس دھوپ سے کیا ہوا؟خشک ہو گیا، ہوا آئی دھوپ آئی خشک ہو گیا مگر اس کوپکانا بناناپکا کرنا ہے کھن کھن بولے اسلئے آوے میں رکھے گا اس میں کہیں گوبربھی ہے ، کہیں لید بھی ہے ، کہیں پتے بھی ہیں، کہیں گھاس بھی ہے ، کہیں کیا ہے کہیں کیا ہے ؟ گھڑے بناکر اس میں رکھ دیئے پھر اس کے اوپر اور رکھ دیئے آگ لگا دی اب آگ لگا کر سات دن، آٹھ دن ، دس دن جو کچھ وقت مقرر ہو تو آگ پہنچا ئی اس کو ، اس کوپکا کیا اسی طرح آدم علیہ السلام کی تخلیق میں حق تعالیٰ فرماتے ہیں وَخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ ہم نے کھنکناتی مٹی سے انسان کوبنایا تو آدم علیہ السلام کے پتلہ بنانے کیلئے پانی ہوا، آگ کی ضرورت ہوئی اور اصل کیا ہے خاک، جب اصل اسکی خاک ہے تو خاکساری اسکے اندر طبیعت میں ہونا چاہئے یا ریت ہونی چاہئے ؟ خاکساری ہونا چاہئے جس خاکساری کی درخواست حضور پاک ﷺ حق تعالیٰ سے خود کر رہے ہیں اَلّٰلھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْناً . ائے اللہ مجھکو زندہ رکھئے گا خاکسار بنا کر۔شیخ کا ایک وقت مجلس کے لئے ضروری ہے:
اس تربیتِ اخلاق کے ساتھ مشائخ کے یہاں تعلیم بھی ہوتی رہتی ہے بشرطیکہ وہ شیخ صاحبِ فن ہو، فن کی تعلیم جانتا ہوفن با قا عدہ کسی سے سیکھا ہو . ایسے شیخ کو حکم ہے کہ طالبوں کے پاس جم کر بیٹھیں اور ان کو تعلیم دے . ارشاد باری تعالیٰ ہے۔وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِاالُغَدَوٰۃِوَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہُ۔آپ ان کے ساتھ جم کر بیٹھئے جو اپنے رب کو صبح، شام پکارتے ہیں درانحالیکہ ا پنے رب کو ہی چاہتے ہیں ۔ (پ ۱۵ ع ۱۶؂)
تعلیم ذکر ومراقبہ میں شیخ کی ضرورت:
یوں تو قرآن پاک میں ہر وقت ذکر کر نے کا حکم ہے چنانچہ ارشاد ہے فَاذْکُرُ اللّٰہَ قِیاَماًوَقُعُوْدًوَّ عَلیٰ جُنُوْ بُکُمْ ۔ اللہ کا ذکر کھڑے، بیٹھے، لیٹے کرتے رہو لیکن شیخ ذکر ایک خاص ہیئتِ کذایہ کے ساتھ کرتا ہے ایک خاص مقدار کی تعلیم کرتا ہے۔ پھر مقدار کا بھی اندازہ کرکے تعلیم کرتا ہے فرصت اور طاقت اورہمت دیکھ کر شیخ ذکر کی تعلیم کرتا ہے پھر وقت کا تعین بھی کرتا ہے کسی کیلئے کوئی وقت منا سب ہے کسی کیلئے کوئی وقت مناسب ہے . یہ خانقاہ کی تعلیم وتربیت ہے اور سب شریعت کے حدود کی باتیں ہیں ، یہ اشغال ،یہ اذکار، یہ مراقبات دین سے الگ نہیں ہیں ، جو کچھ شیخ تعلیم کر رہا ہے کسی کو آواز سے کسی کو اورذرا آواز سے کسی کو دل ہی دل میں کہ اللہ کا ارشاد ہے واذکر ربک فی نفسک ( اللہ کو دل ہی دل میں یاد کر ) تودرسگاہ میں جو تعلیم ہوتی ہے خانقاہ میں اسی تعلیم کی انطباقیت ہے ، وہ شریعت سے باہر نہیں ہے عنوان بدل جانے حقیقت نہیں بدل جاتی۔
مراقبہ کا ثبوت حدیث سے :
مومن کی زندگی کسی وقت میں بھی عبادت سے خالی نہیں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدْوْنَ (پ ۲۷ ع ۲) میں نے جن وانسان کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے. اس آیت میں حصر کے ساتھ فرمایا جارہا ہے کہ انسانوں کو صرف عبادت کیلئے پیدا کیا ہے تو معلوم ہوا کہ مومن ہروقت عبادت میں ہے. ’’ یہ مقدمہ تسلیم‘‘اور عبادت کا حکم بمراقبہ دیا ہے حدیث شریف میں ہے.اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِن لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ(مشکوٰۃ ص ۱۱ ،۱۲) تو اللہ کی اس طرح عبادت کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے سو اگر تو نہیں دیکھ رہا ہے تو وہ تو تجھکو دیکھ رہا ہے ۔
اس حدیث میں مراقبہ کا بیان ہے کیونکہ یہ دھیان قائم کرنا کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں یا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اسی کو مراقبہ کہتے ہیں الغرض یہ دوسرا مقدمہ بھی ثابت ہو گیا کہ عبادت کا حکم بمراقبہ دیا ہے تو مومن ہر وقت عبادت میں ہے اور عبادت کا حکم بمراقبہ ہے تو معلوم ہوا کہ مومن کی زندگی کسی وقت بمراقبہ عبادت سے خالی نہیں قابلِ غور بات ہے حدیث جبرئیل میں حضرت جبرئیل ؐ نے صحابہ کو احکام سکھلانے کیلئے جہاں مَالْاِیْمَانکہہ کر ایمان سے متعلق سوال کیا اور ممَالْاِسْلَام کہہ کر اسلام سے متعلق سوال کیاپھر رسول اللہ ﷺ نے ہر ایک کا جواب دیا وہیں مَالْاِحْسَان کا سوال کیا (کہ احسان کس، کہتے ہیں؟) تو حضور ﷺ نے کیا جواب دیا اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ، اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ) یا ان نصلی فرمایا نمازپڑھے) یا ان تصوم فرما یا روزہ رکھے)۔
ایک ضروری انتباہ:
یہاںیہ بات سمجھنے کہ حدیث میں دو جملے ارشاد فرمائے پہلا اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ، یعنی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔اور اگر یہ مشکل ہو تو یہ تو ائے مومن تیرا اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ حاضر وناظر ہے لہذا تیری یہ عبادت اس طرح ہو کہ فانہ یراک کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے ، یہ تو آسان ہے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس کو جماؤ۔
انسان کو با اختیار بنا کر بھیجا ہے :
ذاتِ باری تعالیٰ نے اس انسان کو زمین میں با اختیار بنا کر بھیجا ہے۔ مطلب با اختیا ر ہونے کا؟ یعنی اختیارات کی شان اسکے اندر رکھ کر بھیجا ہے کہ جس طرح چاہے جس وقت چاہے اپنے کو موڑ سکتا ہے،پتھر بنا کر نہیں بھیجا ،شجر (درخت ) بنا کر نہیں بھیجا، نباتات میں سے نہیں جمادات میں سے نہیں۔ جو بے اختیار ہے بلکہ اس کو اختیار ہے جب چاہے کھڑا رہے۔ جب چاہے چلے ، جب چاہے دائیں کو چلے، جب چاہے بائیں کو چلے۔
عالی حوصلہ با سکون ہوتا ہے :
بادشاہ ہے ، عالی حوصلہ ہے چھچھورا نہیں ہے ، اس کی طبیعت میں شعلہ انگیزی نہیں ہے با سکون با متانت با سنجیدگی با وقار طبیعت ہے۔ اوباش نہیں ہے۔
وضوء میں نورانی چادر :
حدیث شریف میں ہے کہ جب آدمی وضو کرنے کیلئے بیٹھتا ہے تو چار فرشتے نورانی چادراس وضو کرنے والے کے اوپر تان لیتے ہیں ۔ جب وضوء کرنے والا دنیا کی کوئی بات کرتا ہے تو ایک فرشتہ کونہ چھوڑ کر چلاجاتا ہے دوسری بات کی تو دوسرا چھوڑ کر چلا گیا، تیسری بات کی تو تیسرا چلا گیا، چوتھی بات کی تو چوتھا چلا گیا وہ نورانی چادر چلی گئی. خیال فرمایا ۔ وضو حسی کا تعلق معنوی کہ اگر بات نہ ہوگی تو وضوء نورانی ہوگا۔ اور جب وضوء نورانی ہوگا تو نماز کیا کچھ نورانی ہوگی۔ کیونکہ جیسا واسطہ ہوگا ویسا ذی واسطہ بھی ہوگیا ۔ وضوء میں ضوء ، ضوء میں ضیاء ، ضیاء میں نور تو بوقتِ وضوء، ضوء، ضیاء، نور ، کو اندازہ کرو کہ نماز کیسینْوْرٌ علیٰ نور ہوگی۔ِ
جودوکرم میں فرق:
جود میں اور کرم میں فرق ہے۔جود کے معنیٰ سخاوت کے ہیں اور سخاوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص واقعی صاحبِ حاجت نہ کہ پیشہ ور ، آپ کے پاس آوے اور خالی ہاتھ نہ جائے اسکی ضرورت اپنی حیثیت دیکھ کر پوری کردی جائے۔ بھر پور جاوے خالی ہاتھ نہ جاوے اس کو’’جود وسخاوت‘‘کہتے ہیں اور کرم یہ ہے کہ کسی شخص کا واقعی صاحبِ حاجت ہونا معلوم ہوا یہ شخص اس کی حاجت کو معلوم کرکے اپنے گھر سے کچھ لے کراسکے مکان پر پہنچا اور جاکر اس کو دیدیا کرم ’’ کہتے ہیں جیسے خطبہ میں پڑھتے ہیں کریم جواد ملک رؤف رحیم ، تو اللہ تعالیٰ کریم بھی ہیں ، جواد بھی ہیں زیادہ تر ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف سے کرم ہی ہے اس طرح اہل اللہ کی طرف سے بھی زیادہ تر کرم ہی ہوتا ہے۔
بشر اور بے شر کمال یہ ہے :
ارشاد فرمایا کہ جلوت کے احساسات کچھ اور ہو تے ہیں اور خلوت کے احساسات کچھ اور ہو تے ہیں ؟ اور اگر یہ بشر بشر ہوکر توفیق الٰہی سے بے شر ہوگیا تو اسکے احساسات کچھ اور ہیں، اور اگر یہ بشر با شر ہے تو اس کے احساسات کچھ اور ہیں ۔حضور اکرم ﷺ نے بھی فرمایا ہے اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحیٰ اِلَیَّ تو ملا ئکہ کا بے شر ہونا کوئی ایسی کمال کی بات نہیں ہے .کمال کی بات بشر ہوکر اور بے شرہو نا ہے جو کہ وہ اس بشر کے اندر وجودِ حیوانی کے ساتھ با امتیازِعقلِ مستقیم وفہمِ سلیم رکھا ہے۔
انسان اور جا نور احساسات حیوانی میں شریک ہیں :
ورنہ پھر اس بشر حیوانی میں اور غیرِ بشر حیوانی میں جس کو جانور کہتے ہیں۔ کھانے کا احساس ، پینے کا احساس، سونے کا احساس، رنج کا احساس ، خوشی کا احساس ، صحت کا احساس ، مرض کا احساس مختلف چیزوں کی طرف مختلف میلان کا احساس، قوت غضبیہ کا احساس ، قوتِ شہوانیہ کا احساس، نر ومادہ ہونے کا احساس ،فطرۃِ میلانی نر ومادہ کے احساس کے ساتھ ، اولادیت کا احساس ، پھر اولادیت کے ساتھ طبعی حیوانی احساسات ، محبت کا احساس ، جدائی کا احساس ، پرورش کا احساس دکھن کا احساس ، سلوک کا احساس ،( اس طرح سوچتے چلے جاؤ)
انسا ن اورحیوان میں وجہِ امتیاز عقلِ مستقیم ہے :
آپ نے پڑھا ہوگا کوئی شخص پو چھے ما الانسان ( انسان کی حقیقت کیا ہے) تو اس سوال کا جواب جو حقیقت وماہیئت کاملہ پوری ہے اسی کے ساتھ تو دیا جائے گا کیا یوں کہا جائے گا.’’ حیوان‘‘ یا یوں کہا جائے گا’’ حیوان ناطق عاقل ظاہر ہے حیوان ناطق کہا جائے گا اب اس میں امتیاز حیوان مطلق کے مقابلہ میں آگیا کہ جو احساسات حیوان مطلق کے تھے وہ اس میں ہیں مگر زیادت الفاظ دلالت کرتے ہیں زیادتِ معانی پر وہاں حیوان مطلقاََہے اور یہ حیوان مقید بقید ناطق ہے. لہذا احساس بھی مقید بقید امتیاز ہونگے کہ جو احساسات اس حیوانِ مطلق کے اندر ہیں وہ سارے احساسات اس حیوانِ ناطق بمعنیٰ بشر ہیں لیکن ان احساسات اور ان احساسات میں امتیاز لازمی ہے۔ ؂
سر وسیمینا بصحرا می رویسخت بے مہری کہ بے ما می روی
ائے تماشا گاہ عالم روئے تو توکجا بہرِ تماشا می روی
بطورِ وصیت کے:
فرمایا مرشدی ومولائی حضرت مجدد الملت حکیم الامت نور اللہ مرقدہ فر مایا کرتے تھے کہ (دولفظ ہیں) ایک دھیان، دوسرا دھن۔ دھیان تو یہ ہے کہ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے )اللہ تعالیٰ کا دھیان رہے اور دھن یہ کہ تزکیۂ نفس کی ہر وقت دھن رہے ۔ یہ دونوں بڑی عجیب ہیں ۔ان پر عمل کرتے رہو۔کسی معاملہ میں مت پڑو ، دوسروں کے معاملات سے علیٰحدہ رہو ،یہ شان مشیخیت کے خلاف ہے،کثرتِ ذکر اسیطرح رہے کہ زبان ہر دم ذاکر اور قلب توفیق ذکر وطاعت پر شاکر،لین دین اور معا ملات بالکل صاف رکھو۔اعمالِ حسنہ پر استقامت باالدوام،حسن خلقِ کیساتھ،حسنِ کلام نرم شائستہ الفاظ کے ساتھ جیساکہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے وُقُلْ لِعِبَادِیْ یَقُوْلُ الِلَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حسنِ کلام حسنِ خلق کے ساتھ .جب کبھی کوئی بات طبیعت کے خلاف ہو، ناگوار گزرے ، حسنِ کلام سے نرم الفاظ کے ساتھ ،حسنِ خلق کے ساتھ ٹال جاؤ ،یا حلم کے ساتھ خاموشی سے اعراض کر جاؤ ۔وَاِذَا سَمِعُواللَّغْوَاَعْرَضُوْ عَنْہُ ۔
حسن خلق بڑی چیز ہے :
فرمایا حسن خلق بڑی چیز ہے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا میں تمھیں وہ چیزیں بتا دوں جو کوئی رات بھر عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے ، ایک سال تک وہ چیزیں اس سے بھی افضل ہے ، صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! وہ کیا چیز ہے ، فرمایا حسن خلق ، یہ بہت بڑی چیز ہے پھر فرمایا کہ اس سے افضل چیز بتا دوں ، صحابہ نے سوچا اس سے افضل کو نسی چیز ہوگی ،فرمایا اپنی بیوی کے ساتھ حسنِ خلق نرمی کا برتاؤ ، اپنے عزیزوں، دوستوں حتیٰ کہ دشمنوں سے بھی حسنِ خلق سے پیش آنا چاہئے . پس حسنِ خلق، حسنِ کلام کے ساتھ ، اعما لِ حسنہ کا اہتمام بالدوام برغبت ، اعمالِ سیۂ سے اجتناب بنفرت ، زبان ذاکر ، قلب شاکر ، اصلاح نفس کی دھن، اللہ تعالیٰ کا دھیان ، یہی ہمارے تصوف کا نچوڑ بس اس پر عمل ہوتا رہے۔
خانقاہ میں کس طرح رہنا چاہئے:
دل اڑا اڑا نہ رہے زبان چلی چلی نہ رہے
آ نکھ کھلی کھلی نہ رہے ، کان لگا لگا نہ رہے
بس فجور آگیا اور فجر آگیا . بھایؤ!محبین اور محبوبین حضرات! فجور آگیا اور فجر آگیا۔ مولانا رومی نے اس کو کہدیا ہے ۔ ؂
چشم بند وگوش بند ولب بہ بند
گر نہ بینی نورِ حق برما بخند
اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُءَوادَ کُلٌّ اُولٰءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلًایعنی ہوشیار! آنکھ بند، زبان بند، کان بند، دل بند کہ یہ خلاف حکم نہ چلیں۔سب سے سوال کیا جائیگا اس لئے حضور اکرم ﷺ کا ارشادہے ، اَللّٰھُمَّ لَا تَکِلْنِیْ اِلیٰٰ نَفْسِیْ طَرْ فَۃَ عَیْنِ اللہ اکبر ! حضور ﷺ جو مجسم نور ہیں کہ ؂ بعد از خدا بزگ توئی قصہ مختصر۔کیا فرمارہے ہیں لَا تَکِلْنِیْ اِلیٰٰ نَفْسِیْ طَرْ فَۃَ عَیْنِپلک جھپکنے کے برابر بھی مجھکو میرے نفس کی طرف حوالہ نہ کیجئے اور آنکھ، کان، زبان، دل اسی مجموعہ کا نام نفس ہے اس لئے متقدمین کے یہاں انگلیوں سے ہونٹوں کوکان وآنکھ کو بند کراکے ذکر کرایا جاتا تھا تو نفس نام ہے آنکھ کان زبان دل کے مجموعہ کا تو اس سفر کالسقر میں اس طرح رہنا چاہیے کہ آنکھ بھی بند رہے کان بھی بند رہے زبان بھی بند رہے تا کہ اپنا گھر فجر ہو جائے، جب ہم جائیں تو ہمارا گھر کھلا ہوا فجر کے ساتھ ہو فجور سے ہٹا ہوا ہو، بچا ہوا ہو۔
مقصود اصلی آخرت کے گھر کی درستگی ہے:
جب اس عارضی گھر کو اس طرح بنانے کے لئے بے گھر ہوا ہے تو اصل گھر آخرت کو چھوڑ کر اتنا لمبا سفر کر کے آیا ہے تو یہ پوری عمر کا لمبا سفربھی کا لسقرہے تادمِ آخر تو یہ سالک بزبانِ حال یوں کہہ رہا ہے کہ اپنے گھر سے بے گھر اس لئے ہوئے کہ حقیقی اور اصلی گھر صحیح معنیٰ میں مل جاوے اصلی گھر جہاں ہم دنیا میں آنے سے پہلے تھے. مل جاوے بس جاتے ہی گھر میں جاویں ادھر گئے ادھر وہ گھر ملا جس گھر کا نام اللہ تعالیٰ نے جنت رکھا ہے۔
مقصود اصلی رضاء سے حاصل ہوتا ہے :
حقیقتاََیہ مومن بندہ اس عارضی گھر سے بے گھر اصل گھر کے لئے ہوا ہے اس کی نیت معلوم ہو گئی کہ اس کی طلب سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہے کہ انھوں نے وہاں ا(آخرت میں) اول وہلہ میں اپنی رضاء کے ساتھ رکھا تھا ہم رضاء کے ساتھ رہے یہاں (دنیا میں)بھی انھوں نے اپنی دنیا کے لئے بھیجا ہے ہم راضی راضی چلے آئے کہ مقصود تو ان کی رضاء کے ساتھ چلے جایءں اور ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ کے مصداق ہو جائیں کہ وہ ہم سے راضی اور ہم ان سے راضی۔
نماز میں ذکر ، مراقبہ، شغل تینوں کی تعلیم ہے:
فرمایا نماز کے اندر اللہ اکبر سے لے کر السلام علیکم ورحمۃ اللہ تک ذکر ہے، اور اللہ دیکھ رہا ہے اس کا دھیان یہ مراقبہ ہے اور نظر کو ہر رکن میں ایک خاص جگہ پر جمانا یہ شغل ہے تو نماز میں ذکر کی بھی تعلیم ہے مراقبہ کی بھی تعلیم ہے شغل کی بھی تعلیم ہے، وہی تعلیم جا معیت کے ساتھااکما لاََ واتماماََ خانقاہ میں شیخ کی طرف سے ہے ، یہ ہے وہ خانقاہ جس میں تعلیم بھی ہوتی ہے اورتربیت بھی ہو تی ہے بدرجۂ اکمال ، بدرجۂ اتمام۔
پریشانیوں کا سبب اور اس کا علاج :
فرمایا ۔پریشانیاں اس لئے ہو تیں ہیں، زیادہ تر ، وقتی، طبعی، آن، فان کے علاو
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
پریشانیوں کا سبب اور اس کا علاج :
فرمایا ۔پریشانیاں اس لئے ہو تیں ہیں، زیادہ تر ، وقتی، طبعی، آن، فان کے علاوہ ، کہ دماغ سوچنے پر چلنے لگا. اس نے اپنے کو کسی ذات کے حوالہ نہیں کردیا، میرا گندہ دل ، میرا گندہ حال ہو گیا کیونکہ دماغ اپنی تجویزات کی طرف سوچنے میں لگ گیا تفویض سے کام نہ لیا، تجویز کو اٹھا دیا ہوتا،تفویض سے کام لیا ہو تا ، پریشانیاں دفع ہو گئی ہوتیں اور سکون آگیا ہو تا، پریشانیوں سے حفاظت کا علاج اس سے بہتر کوئی تجویز نہیں ہوسکتی، مومن پورا کا پورا ماشا ء اللہ جمعًا وقلباََ مطیع ہو گیا۔ اس کی نظر تو اس پر بھی نہیں رہی کہ کیا ملے گا جب اس درجہ کی قطعِ نظری ، یہ فنائیت بفناء تام آگئی اپنے سے نظر ہٹتے ہو ئے سعی پر نظر نہ کرتے ہوئے اس طرح فانی بفناء ہوگیا۔
حضوری حق کا طریق:
تقویٰ کا اہتمام برابر کرتے رہنے اور ذکر کی تکثیرکے اندر لگے رہنے سے ذاتِ باری تعالیٰ کی توفیق سے ایسا ہو جاتا ہے کہ اللہ کا تصور اور دھیان بالکل آسان ہو جاتا ہے، عادت اللہ یہی ہے کہ جب سالک کی نظر سب سے ہٹ کر اس ذات کی طرف لگ جاتی ہے توتصور وحضور کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے رہا یہ سوال کہ سب طرف سے نظر کس طرح ہٹے تو اس کا طریق حق تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمایا ہے فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرکمُْْ تم میرا ذکر کرو میں تمھارا ذکر کرونگا. حدیث شریف میں اس کی تفصیل اس طرح آئی ہے کہ اگر بندہ مجھے تنہائی میں یادکرے گا تو میں بھی تنہائی میں یادکرونگا اور اگر بندہ مجھے مجمع میں یاد کرے گا تو میں اس سے بہتر مجمع میں یاد کروں گا۔ یعنی فرشتوں کے مجمع میں، تو سالک کو اس فاذکرونی اذکر کم۔ نے تخصیص کردی، بھڑکا دیا، تخصیص میں تا،حا،بااور صاد یہ حروف ہیں جس کے معنیٰ بھڑکانہ ، رغبت دلانا ہے تو سالک کو بھڑکا دیا، وہ سوچتا ہے کہ میں ذکر کس طرح چھوڑوں، یہ تو بڑی نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے یاد کرتے ہیں، وہ ذات بڑی مستغنی اور غیر محتاج ہے ، بھلا اس مستغنی ذات کو کیا ضرورت پڑی کہ وہ مجھے یاد کرے، یہ اس کی انتہائی مہر بانی ہے کہ وہ مجھکو یاد کرتا ہے. اس تصور سے سالک ذکر پر کمر بستہ ہوجاتا ہے اور دھیرے دھیرے اللہ تعالیٰ کا تصور وخیال جم جاتا ہے اور ذکر اس سالک کے رویءں رویءں میں جم جاتا ہے اور اس کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ ؂
ملنے نہ ملنے کا وہ مختار آپ ہیں
پر تجھکو چاہیے کہ تگ ودو لگی رہے
جب اس کا یہ حال ہے توغفلت کہاں ہے،پس اغوائے شیطانی سے اپنے کو غافل سمجھنا کیسا ؟ اس لئے ایسے تخیلات سے اپنے کو پاک رکھنا ضروری ہے تا کہ دل جمع رہے تازگی باقی رہے بشاشت تازہ رہے
مومن بندہ سے عشق باری تعالیٰ کا مطالبہ:
حق تعالیٰ فرمارہے ہیں وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّاِ ﷲِ (مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ سے اشد محبت ہے ) اور اشد محبت کا نام عشق نہیں ہے تو اور کیا ہے تو مومن کو ذاتِ باری تعالیٰ عاشق ہو نے کی سند دے کر مسندِ عشق پر بٹھا رہے ہیں ، اب مسند کی لاج رکھنا موت کے وقت تک یہ بہت مشکل ہے. تسبیح پڑھنا بہت آسان ہے اشراق پڑھنا آسان ہے، تہجد پڑھنا آسان ہے حالانکہ اصل یہ کہ ائے مومن اپنے عاشق ہو نے کا ثبوت دے۔ جس کو دیکھو معمولی وظیفہ کو لکھ رہا ہے اور حق تعالیٰ مربی حقیقی فرما رہے ہیں کہ تو اپنے عاشق ہو نے کا ثبوت دے ۔عشق اختیار کر ۔ اس آیت میں وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّاِ ﷲِ ایک قسم کی اخبار ہے یعنی خبر دی کہ مومن ایسے ہو تے ہیں اور اخبار کا منشا ء انشاء ہے جیسے قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ (کہدیجئے ائے محمد ﷺ کہ وہ اللہ ایک ہے) یہ اخبار ہو ا تو یہ صرف خبر دینا ہے یا اس خبر دینے میں اپنے وجوب وجودی توحید کو منوانا ہے یعنی مطلب یہ ہے کہ مجھکوایک مانو اسی طرح پررب حقیقی کا اس آیت میں مومن بندہ سے یہ مطالبہ ہے کہ عشق کے ساتھ رہو ، یہ نئی بات سنی ہوگی کہ حق تعالیٰ فرما رہے ہیں میرے عاشق بن کر رہو پھر کسی حکم کی تعمیل میں حکمت وغیرہ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس طرح منہی عنہا سے پرہیز میں بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، غذا کھائیں اور ساتھ ہی کوئی ایسی چیز کھالیں جو دوا کی خاصیت اور اثر کو کمزور کردے یا زائل کردے تو کیا یہ ٹھیک ہے؟ کوئی بھی عقل مند اسے ٹھیک نہیں کہے گا ۔
آج کل طبیعتوں میں فساد آگیا ہے :
فرمایا کہ آجکل طبیعتوں میں فساد اس درجہ آگیا ہے کہ علو اور بلندی کو پستی اور سفل اور پستی کو بلندی سمجھا جاتا ہے دیکھئے اہلِ دنیا اپنی دنیا کو اس میں لگے ،کھپے رہنے کو بلندی اور عمدگی کی چیز سمجھتے ہیں اور اہلِ دین کوجو بظاہر ٹوٹے حال میں رہتے ہیں ان کو پست اور حقیر سمجھتے ہیں ، یہ فسادِ طبیعت و مذاق کی بات ہے جیسے اگر کسی کو سانپ کاٹ لے تو اس کو نیم کے پتہ کڑوے معلوم نہیں ہوتے ہیں تو یہ فسادِ مذاق کی بات ہے کہ کڑوی چیز میٹھی معلوم ہورہی ہے اور جس پر صفرا کا غلبہ ہوتا جاتا ہے اس کو میٹھی چیز کڑوی معلوم ہوتی ہے اسی لئے اہلِ دنیا پر چونکہ دنیا کے صفرے کا زہر چڑھا ہوا ہے وہ دنیا کو میٹھا اور دین کو کڑوا سمجھتے ہیں حالانکہ واقعہ اس کے خلاف ہے۔
تزکیہ نفس سے کیا ہوتا ہے :
فرمایا حب الدنیا جو اصل اصول اور جڑ ہے حُبُّ الدُّنْیَا رَأسُ کُلُّ خَطِیْءَۃٍ (دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے) یہ جڑ جاچکی ہے اورجب یہ جڑجا چکی ہے تو تنہ کہاں رہا ؟ اس تنہ میں جو شاخ میں سے شاخ نکلتی ہے وہ کہا ں رہی کہ جڑ تو ہے ہی نہیں تو حب الدنیا ء، دنیا کی محبت وہ جڑ ہے ا ور وہ چلی گئی اور ایسی چلی گئی کہ اب جڑ جمتی ہی نہیں، آتی ہی نہیں ، اسی کوزوالِ اخلاق رذیلہ بملکۂ تامہ کہتے ہیں، وہ جڑ ایسی ہی چلی گئی کہ اس سے جو سوئی نکلتی ہے پھر وہ تنہ بنتی ہے اور پھرتنے میں سے بڑھ کر شاخیں اور پھر شاخوں میں سے شا خیں نکلتی ہیں تو اب وہ کثیف ، خبیث ذمیم شاخیں کہاں سے آویں جڑ تو ہے ہی نہیں کدھر سے آوے تکبر کہاں سے آوے طمع اور کدھر سے آوے حرص ، کدھر سے آوے بخل ، کدھر سے آوے غصہ ؟ کہ وہ جڑ تو ہے ہی نہیں ۔ توتمام اخلاق رذیلہ کی جڑ حبِ دنیا ہے ذاتِ باقی دل میں ایسی بیٹھی کہ ذواتِ فناء دل میں رہنے کی گنجائش ہی نہیں کیونکہ باقی اور فانی دونوں ضد ہیں اور ضدین ایک جگہ جمع نہیں ہو تی۔
بیوی سے عشق ولایت کا درجہ ہے:
حضرتِ والا (حضرت تھانویؒ ) فرمایا کرتے تھے کہ جس کواپنی بیوی کے ساتھ عشق ہے جس کو عشق کہتے ہیں اس کو ولی ہو نے میں کیا شبہ ہے ؟ کیونکہ ولایت کا دامن عجیب وغریب عفت چاہتا ہے اور بیوی کے ساتھ عشق ہو نے پر غیر کی طرف شہوت نہ ہو گی تو یہ شخص انتہائی در جہ کا عفیف ہوگا تو اس کے ولی ہو نے اس صفت کے ولا یت کا درجہ ہونے میں کیا شبہ ہے حضرتِ والا کا جملہ تو صرف اتنا تھا کہ جس کو اپنی بیوی سے عشق ہو جس کو عشق کہتے ہیں اس کے ولی ہونے میں کیا شبہ ہے اس کی شرح کی گئی جو اوپر مذکور ہے اور بیوی کے ساتھ عشق، عشقِ غیر اللہ نہیں ہے وہ اللہ ہی کے لئے ہے حضور ﷺ کی دعا ہے اَللَّھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ وَحُبَّ مَن یَّنْفَعَنِیْ حُبَّہُ عِنْدَکَ .یعنی ائے اللہ میں آپ کی محبت کا رزق مانگتا ہوں اور اس کی محبت کا جس کی محبت آپ کی محبت میں معین ہو . تو بیوی کے ساتھ ایسی محبت باری تعالیٰ کے ساتھ محبت میں معین ہو گئی تو پھر یہ عشق غیر اللہ کیسے ہوا ؟ ایسا شخص عفت مآب ہوگا جس کی دلیل یہ ہے کہ رسول پاک ﷺ کو ذاتِ باری تعالیٰ کا کس درجہ عشق تھا لیکن اسکے باوجود حضرت عا ئشہ صدیقہؓ کے ساتھ بھی عشق تھا باوجود اس عشق کے حقوق عدلیہ (برابری) سب کے ساتھ تھے. حالتِ مرضِ وفات میں بھی باریک باریک باتیں( حقوق سے متعلق) پوری فرمائی جا رہی ہے لیکن آپ ﷺ عائشہؓ کی باری کا انتظار فرماتے ہیں جب بقیہ بیویوں کا اس کا علم ہو کہ آپ ﷺ عائشہ کی باری کا انتظار فرماتے ہیں ہر ایک کی باری میں تشریف لانے میں آپ کو تکلیف ہوتی ہے تو سب نے اتفاق کرکے کہدیا کہ بس اب آپؐ عائشہؓ کے یہاں ہی رہا کیجئے . تو حضور ﷺ کو حضرت عائشہ سے عشق تھا ، تو بیوی کے ساتھ عشقِ دوام طاعت کے خلاف کیا ہوتا بلکہ دوام طاعت میں داخل ہوتا ہے۔
اپنی سعی پر نظر بھی شرک ہے:
فرمایا دینی سعی پر نظر نہ ہوکہ یہ بھی شرک ہوگیا غور فرماتے رہو کیونکہ پانچوں وقت فرضوں میں اور سنتوں اورنفلوں میں کیا کہہ رہاتھا اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ( ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے مدد مانگتے ہیں) تو یہ عبادت بھی انھیں کی مدد سے ہے پھر اپنی سعی پر نظر کیسی؟ اپنی سعی پر نظر تو نبی کو بھی نہیں ہوتی . بس سعی حکم کی تعمیل میں ہے لیکن اس سعی پر نظر نہیں ۔ حدیث شریف میں ہے ۔ھٰذَ الْجَھْدُ وَعَلَیْکَ التُّکْلَانِ یہ میری جانب سے کوشش ہے، پھر بھروسہ آپ پر ہی ہے یہ حضور اکرم ﷺ فرما رہے ہیں کہ حکم کی تعمیل کوشش کے ساتھ میں نے کردی باقی بھروسہ آپ پر ہی ہے، اس سے پہلے ارشاد ہے اَللَّھُمَّ ھٰذَا لدُّعَا ءُ وَعَلَیْکَ الْاِجاَبَۃُ۔ ائے اللہ یہ میری دعا ہے . الف لام عوض میں مضاف الیہ ہے ۔قبول کرنا آپ کا کام ہے تو دیکھے سعی پر نظر تو نبی کو بھی نہیں، تو سعی پر نظر یہ بھی شرک ہے ، روٹی پکانے کیلئے لکڑی کا اکھٹا کرنا ، چولھے میں لگا کر آگ لگانا ، آٹا لانا،آٹے کا گوندھنا ، پانی ڈال کر پیڑا بنانا ، اس کی روٹی کی شکل بنا کر توے پر ڈال کر پھر گھی میں رکھ کر سینکنا یہ تمام اسباب ہیں لیکن ان سے یہ لازم نہیں آتا کہ ساری روٹیاں پوری طریقے سے سینک کر تیار ہوکر چنگیری میں آبھی جائیں ، بعض جل بھی جاتی ہیں مثلاْ تندور میں نان لگاتے ہیں کوئی نان نیچے گر گیا ، جل گیا ہانڈی جل گئی ، دودھ میں اپھان آگیا ، کٹورہ ہاتھ میں لیا اورگھڑے میں سے پانی لے کر اٹھایا وہ منھ تک نہ پہنو نچا ہاتھ میں سے چھوٹ گیا اور پانی گر گیا ۔اپنی سعی پر نظر یہ تو توحید کے خلاف ہے توحیدہی کونہیں سمجھے ۔
وساوس سے پریشان ہونا حیوانیت کا اثر ہے : فرمایا۔ سنا ہے تجر بہ کاروں سے کہ گھوڑا اپنے سایہ سے بدکتا ہے تو ایسے انسان بھی اپنے متخیلات غیر اختیاریہ سے، اوہام غیر احتیاریہ اور وساوس غیر اختیاریہ سے بدکنے لگے تو حیوان ہے ، جو چیزیں اپنے اختیار سے با لکل با ہر ہیں ان با ہر کی چیزوں سے جن کا نام وساوس ہے ،جن کا نااوہام ہے ، جن کا نام تخیلات ہے ،جن کا نام خیلات ( انسان بھی) بدکنے لگے پریشان ہو نے لگے گھبرانے لگے ، بے چین ہو نے لگے تو آپ بتائیے اس بشرِ حیوان ناطق میں اور حیوان مطلق میں کیا فرق ہے۔
حقیقی فنا :
ایک نقطہ سنو! ارے ! کمال تو یہی ہے کہ یہ شر ہوکر بے شر ہو ، اخلاق رذیلہ سے بھی بے شر ہو اور اعمال ظاہرہ منکرہ سے بھی بے شر ہو، جب یہ ہو پھر کیا ہوگا ؟ ہو فناء ذات میں کہ تو نہ رہے، یہ اس شعر کی شرح ہورہی ہے ۔ ؂
ہو فنا ذات میں کہ تو نہ رہے
تیری ہستی کا رنگ وبو نہ رہے
اخلاص کے معنیٰ :
اعمال میں اخلاص کے یہی معنیٰ ہیں کہ کوئی عمل غیر حق کے لئے نہ ہو، نہ جان کیلئے ہو نہ مال کیلئے ہو خواہ اس عمل کے وقت حق تعالیٰ کی رضاء کے لئے کرنے کا استحضار ہو یا نہ ہو البتہ ابتداعمل میں قصداً حق تعالیٰ کی رضا کا استحضار ہو اسی کو اللہ تعا لیٰ نے فرمایا ہے وَمَا اُمِرُوْ اِلَّا لِیَعْبُدُو اللَّہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاءَ(پ ۳ ع ۲۳) حالانکہ ان لوگوں کویہی حکم ہوا تھا کہ اللہ کی اس طرح عبادت کریں کہ عبادت کو اسی کے لئے خالص رکھیں یکسو ہوکر (بیان) الحاصل تمام انبیاء علیہ السلام کو یہی حکم دیا گیا مخلصین بندے بن کر دین کے اندر یکسو ہوکر رہو جس کو حقیقت سے تعبیر کیا گیا ہے، ارے حنیف! پھر یہ ہوگا کہ چلنا پھرنا تو دنیا میں معلوم ہو تا ہے لیکن فی الحقیقت آخرت کے لئے چل رہا ہے کیونکہ ہر وقت اس فناء نام کے آثار کا ظہور ہوتا رہے گا ۔
کمالِ انسانی فناء وعبدیت ہے :
یہ ہے فناء اور مٹانا یہ ہستی بھی کوئی ہستی ہے جس کا اول بھی عدم آخر بھی عدم، اصل کمالِ انسانی فناء ونیستی ہے۔ طاعات وعبادات اور سلوک ومجاہدات فی الحقیقت غرض یہی ہے میں ذاتِ باری تعالیٰ کا خاصہ ہے یہ تو ذاتِ باری تعالیٰ کی کمالِ قدرت ہے کہ چلتی پھرتی یہ تیری ہستی نظر آتی ہے ورنہ حقیقت میں تیری ہستی ہے کیونکہ فناء تیری ذات میں رکھا ہوا ہے یہ رنگِ ہستی ذات باری تعالیٰ نے ایک عارضی طور پر دے رکھا ہے مگر یہ اپنے آپ کو سمجھتا ہے کہ ہاں میں ہوں ۔
سالکین کے اندر اگر فنا نہیں تو سلوک کے ساتھ بد سلوک ہے :
جب تک یہ بات نہ پیدا ہو جائے سلوک میں داخل ہو نے والو ں کے اندر تب تک سلوک کے ساتھ بد سلوک ہے خواہ بلا بیعت کے داخل ہوں ، سلوک میں اصلاح کے اندر، یا بیعت ہوکر اصلاح میں داخل ہوں فی الحقیقت سلوک معرفت فنا کیساتھ وابستہ ہے اگر فنا نہیں تو یہ سلوک کے ساتھ بد سلوکی ہے کہ اپنے اندر فناتام تو کیا ابھی فنا نہیں ہے
بلا تصوف تعمیلِ شریعت ہو نہیں سکتی :
ایسی فنا ء تام کی شریعت سے آگے نہیں بڑھتا اور شریعت کے آگے نہ بڑھ جانے کا نام کیا ہے ! تصوف ہے اور یہ کب ہوگا جب کہ تصوف کا رنگ چڑھ گیا ،کیا مطلب ؟ یعنی اپنے آپ کو اس نے مٹادیا؟ فنا ء تام اس کے اندر ہوگیا،بلا اسکے شریعت پر صحیح عمل نہیں کرسکتا تو ایمانِ کامل کا پیدا ہونا ہی موقوف ہے کس پر؟ سلوک وتصوف پر‘‘کمالِ ایمان کا حصول موقوف ہے حصولِ تصوف پر ، کیونکہ بلا حصولِ کمالِ تصوف کمالِ شریعت چل نہیں سکتے پورے طریقے سے اس لئے تصوف وسلوک جزء اعظم ہے شریعت کا جس پر عمل پیرا ہوکر حقیقت شناش ہوگیا توفیق الٰہی سے اپنی جدوجہد سے نہیں ،اگر اپنی جدوجہد پر نظر ہے تو ابھی صوفی نہ ہوا اور ابھی سلوک طئے نہ ہواکہ اس کی نظر اپنے پر ہے۔
نسبتِ مع اللہ کے آثار :
حالانکہ نظر اپنے سے اٹھ کر خالقِ پر ہوجاتی ہے چنانچہ حضور ﷺ فرماتے ہیں اَللَّھُمَّ ھٰذَالدُّعَاءُ وَعَلَیَکَ الْاِجَابَۃُ وَھٰذَ الْجَہْدْ وَعَلَیَکَ التُّکْلَانِ۔ ائے اللہ ! یہ ہماری دعا ہے اور تیرے ہی ذمہ (اسکا ) قبول کرنا ہے یہ میری جانب سے کوشش کرنا ہے اور بھروسہ آپ پر ہے۔
سلو ک میں روک ٹوک ہے
شیخ روک ٹوک کرتا ہے جب اس کو واقعی معلوم ہوجاتا ہے مشاہدہ میں آتا ہے، یا وہ طالب اپنا حال بیان کرتا ہے تو مجلس کے اندر روک ٹوک ہوتی رہتی ہے مختلف قسم کی باتیں تصفیہ کی ، تزکیہ ، تخلیہ کی ، تخلیہ، کی آیات سے احادیث سے تعامل اولیاء اللہ کے واقعات سے ،حکایات سے ،سامنے آتی رہتی ہیں ، وہ سنتے رہتے ہیں ، ہر ایک اپنے اپنے درجہ پر سنتا بیٹھتا ہوا اپنے آپ کو پرکھتا رہتا ہے اپنی کمی کو دیکھتا رہتا ہے ، اپنے اندر اچھائی کی توفیق الٰہی سے پاکر اسکے مضبوط کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ برایؤں سے اپنے آپ کو بچانے کی نکالنے کی کوشش اٹھتے بیٹھتے ہوا کرتا ہے اوروہ مطلع ہوتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ اس کے ساتھ کو ئی بد سلوکی کرتا ہے تو وہ کچھ خیال نہیں کرتا ۔
عبادت دنیا کے لئے کرنا جنت کا گھر خالی کرنا ہے:
اتنی نفلیں اور تسبیحیں پڑھنا ایک اونٹنی سی دو اونٹی سی تلاش کرتے رہنابعض لوگ عبادت دنیا کی کمائی کا ذریعہ بنا تے ہیں .نماز روزہ اس لئے پڑھ رہے ہیں کہ دنیا سے گھر بھر جاوے ،مالوں میں مال ، تندرستی میں تندرستی، اولادوں میں اولاد ،عزت میں عزت ، یہ دنیا کی چیزیں ہیں . دین کے کاموں کو اس لئے کرتا ہے کہ دنیا کے سامانوں سے گھر بھر جاوے ، ممکن ہے بھر جاوے مگر آخرت کا گھر جو جنت ہے اس کے لئے تو وہ خالی ہوگا ۔کیونکہ اِنَّمَاالْاَ عَمَالُ بِاالنِّیَاتِ ۔ اعمال تینوں کے ساتھ ہیں تو جنت کا گھر وہ تو خالی ہوگیا اور جب چلا دنیا سے تو دونوں ہاتھ خالی ہیں۔ ولنعم ما قال ؂
ہاتھ خالی میں چلا سرکارمیں
کون پوچھے گا مجھے دربار میں
نماز مومن کیلئے تحفۂ خداوندی ہے :
یہ با ت سمجھئے کہ دیکھو نماز اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے، نماز مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا بطور تحفہ ہے اور جب یہ اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہو ا تحفہ ہے تو اس نعمت کی قدر کیا ہے ؟ اس کی قدر یہ ہے کہ یہ بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا استعمال شروع کردے یہ بندۂ مومن نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت ہی قرب اس کو حاصل ہو گیا ، اسی قرب کو معراجِ مومن کہا گیا ہے الصلوٰۃمعراج المؤمن۔
بیوی کی ایذا پرصبر کرنے کا اثر :
فرمایا کہ بو علی سینا، ایک بزرگ ابو الحسن نوریؒ سے ملنے گئے مکان پر پہونچے دستک دی ، اندر سے بیوی کی آواز آئی کون ہے؟ کہا، میں ہوں بو علی سینا ، ابو الحسن نوریؒ سے ملنا چاہتا ہوں،اندر سے آواز آتی ہے کیوں ملنے آئے ہو؟لٹیرا بزرگ بنا بیٹھا ہے لوگوں کودھوکہ دیتا ہے ایسا ویسا ہے ، بو علی سینا نے کہا جب بیوی ان کو ایسا ویسا کہہ رہی ہے تو وہ کیا بزرگ ہونگے؟بیوی کو گھر کے حال کا بہتر علم ہوتا ہے، افسوس خواہ مخواہ سفر کیا . مگر پھر سوچا کہ جب آہی گیا تو مل کر جانا چاہیے،باہر آکر لوگوں سے ان کے متعلق پوچھا کہ کہاں ملیں گے، لوگوں نے کہا جنگل گئے ہیں، لکڑی کاٹ کر لاتے ہیں اور فروخت کر دیتے ہیں یہی ان کا ذریعہ معاش ہے اپنا اور اہلِ وعیال کا نفقہ اس طرح حاصل کرتے ہیں، اور فروخت کردیتے ہیں یہ سن کربو علی اس سمت جنگل کی طرف چلے جدھر لوگوں نے اشارہ کیا تھا، چلتے چلتے دیکھا کہ ایک بزرگ صورت شخص آرہے ہیں اور ان کے ساتھ ایک شیر ہے اس پر لکڑیاں لدی ہوئی ہیں. بوعلی شیر کو دیکھ کر ڈر گئے کہ یہ انسان کی طبعی بات ہے، ابو الحسن نوری ؒ نے جب دیکھا کہ بو علی ڈر رہے ہیں تو فرمایا کہ بو علی ڈرو نہیں،یہ آدمی کو کچھ نہیں کہتا، آگے بڑھے سلام ومصافحہ کے بعد بو علی ؒ نے کہا. حضرت ایک سوال کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ یہاں تو حال یہ ہے کہ شیر آپ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اور وہاں گھر پر یہ حال ہے کہ بیوی آپ کو برا بھلاکہہ رہی تھی، یہ سمجھ میں نہیں آیا، ابو الحسن نوریؒ جواب دیا کہ اگر ہم اس شیرنی کا بوجھ نہ اٹھاتے تو یہ شیر ہمارا بوجھ کس طرح اٹھاتاہم اس شیرنی کا بوجھ اٹھاتے ہیں کہ ہم کو برا بھلا کہتی ہے، ہم برداشت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس شیر کو ہمارے تابع کردیا یہ ہمارا بوجھ اٹھاتا ہے ، یہ ہے ۔۔۔ ایھاالسالکون! سلوک ،صرف یہی نہیں کہ ذکر اور تسبیح میں لگا رہے اور اخلاقِ حمیدہ حاصل کرنے کی فکر ہی نہ ہو۔
حضرت مجدد ؒ (حضرت تھانویؒ )کا علماء کو ایک پُرْ حکمت مشورہ:
:فرمایا۔کہ میں کیا کروں؟میرے حضرت والا (حضرت تھانویؒ ) تمام علماء اور اولیاء اللہ متقدمین جتنے گذرے ہیں میرے حضرت ان سب کے نچوڑ تھے کیونکہ آخر میں تشریف لائے تھے، اور ایک مرتبہ خصوصی مجلس میں فرمایا بھی تھا کہ متقدمین اولیاء اللہ پر جو جو حالات آئے ہیں وہ تمام حالات مجھ تنہا پر آئے ہیں ایسی ہستی آجکل کی سیاست کے بارے میں فرمایا کرتی تھی کہ ائے علماء آجکل کی سیاست عجیب قسم کی ہے تم اس سیاست میں مت پڑو، لیڈرانِ قوم کو ہی اس میں پڑنے دو، آجکل کی سیاست کی کاٹ یہی لوگ سمجھ سکتے ہیں ، البتہ تم یہ کرو کہ ان سے بے تکلفی پیدا کرکے ان میں گھس کر تبلیغ کرو، اور انھیں تبلیغ کرنے والے معمولی لوگ نہیں ہونگے بلکہ اچھے پڑھے لکھے خاندانی لوگ ہونگے. دیکھو ایک بات سمجھو! امیری اور غریبی کی بات نہیں،بات خاندان کی ہے، دیکھو! بڑا خاندان والا چھوٹے خاندان والے کی طرف جھکنے سے رکتا ہے اسلئے انبیاعلیہم السلام ابتدا میں غریب تو ہوئے ہیں مگر چھوٹے خاندان والے نہیں ہوئے،دیکھئے حضور ﷺ بظاہر غریب تھے مگر خاندان کے اعتبار سے چھوٹے نہیں تھے بلکہ اعلیٰ خاندان کے تھے۔
ذکر وتقویٰ کی مثال :
فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطۂ خصوصی کیلئے اول تقویٰ ہے ، ذکر اسکے جلا (صفائی) کیلئے ہے ،دیکھو! روشنی تو ہو مگر جس چیز کی تلاش ہے اس کی پہچان نہیں ہے تو کیا چیز مطلوب مل جائیگی،ہر گز نہیں ، تقویٰ ایسی ہی چیز ہے ، بلا تعلق خصوصی حاصل ہو نا مشکل ہے ۔
شریعت کا حسن طریقت سے ہے :
فرمایا کہ مثلاََ بیوی ، عدل کا برتاؤ نہیں کرتی ،بے اعتدالی پر چلتی ہے ، اپنی طرف سے ایسی بیوی کے ساتھ عدل نہ چھوٹے اس کو مقامِ عدل کہتے ہیں ، اچھے کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا یہ کون سا کمال ہے ، برے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا یہ کمال کی بات ہے ، یہ حسنِ سلوک ، اس حسنِ سلوک سے شریعت کے اندر حسن آتا ہے ، یہاں حسنِ سلوک سے مراد اصطلاحاََ تصوف ہے ، تو جب تک حسنِ سلوک نہ ہوگا شریعت پر پورا عمل نہیں ہو سکتا اسی لئے شریعت کے ساتھ طریقت لگادی کیونکہ طریقت یہ ہے کہ شریعت نے جو احکام ارشاد فرمائے ہیں ان کے کرنے کے جو طریق ہیں اس طریقہ سے ادا کرنے کو طریقت کہتے ہیں چاہے وہ طریق متعلقہ بالا حکام الظاہر ہوں یا متعلق با لباطنہ۔
تواضع حقیقی کی پہچان:
فرمایا ، بعض موقع عوام کی نظر میں ذلت کا ہوتا ہے مگر حقیقتاًا ذلت کا کام نہیں ہے مثلاً آپ جنگل میں جارہے ہیں وہاں بوڑھا آدمی بیٹھا ہے اس کے سامنے ایک بڑا گٹھر پڑا ہے ، اس نے کہا میاں جی ( ملا جی) نکلے چلے جارہے ہو یہ بھی نہ پوچھا کہ میں یہاں کیوں بیٹھا ہوں؟ بات یہ کہ یہ لکڑی کا گٹھر بھاری ہے، مجھے اندازہ نہ ہوا ، مجھ سے چلنا مشکل ہے، آپ اس کو سر پر اٹھا کر میرے گھر پہنچا دیجئے تو یہ کام بظاہر عوام کی نظر میں ذلت کا ہے گو حقیقتاََ ذلت نہیں ہے تو اگر اس شخص میں حقیقی تواضع نہیں آئی ہے تو اس گٹھر کو اپنے سر پر ہرگز نہیں رکھے گا ، دل میں کہے گا’’ لا یحل لمو من یضل نفسہ ‘‘ ا(مومن کیلئے یہ حلال نہیں کہ اپنے آپ کو ذلیل کرے) اس میں ذلت ہے تو بیچارے نے پڑھ تو لیا مگر سمجھا نہیں، اول تو لفظ میں میاں جی ، ملا جی سے سننے سے ہی گرانی ہو جائیگی پہلے ملا بڑے عالم کو کہتے تھے ملا جامی ملا دو پیازہ وغیرہ لیکن ہمارے اس زمانہ میں یہ لفظ مسجد کے مؤذن کے لئے مخصوص ہو گیا ہے اس لئے نا گواری مولانا صاحب کو اپنے لئے یہ لفظ سن کر ہوتی ہے، لیکن یہ سوچنا چاہیے کہ سفر وغیرہ میں ملا کون کہہ رہا ہے ؟ ایک نا واقف شخص کہہ رہاہے، اس کی بول چال کا یہی طریقہ ہے، حضرت والا کا واقعہ یاد آیا، حضرت والا خانقاہ شریف میں تشریف فرما تھے کہ اتنے میں ایک دیہاتی آیا اور حضرت سے آکر پوچھا اشرف علی کون ہے، حضرت والا نے پوچھا اس سے کیا کام ہے، کہنے لگا کہ اس سے ملنے کو دل چاہ رہا ہے، ملنا ہے، حضرت نے فرمایا کہ میں ہی ہوں، کہنے لگا تو نہیں، حضرت نے فرمایا کیسے سمجھا ، کہنے لگا وہ تو دھورا دھورا (سرخ وسفید)تھا ، حضرت نے پوچھا کب دیکھا تھا؟ کہنے لگا تیئس سال ہوئے وہ پانی پت گیا تھا وہاں وعظ کہا تھا بہت ہی سوہنا (عمدہ )وعظ کہا تھا، فرمایا بھائی تیئس سال ہو گئے وہ جوانی کا زمانہ تھا اب وہ بات کہاں؟ کہنے لگا نا تو نہیں ہے تو جھوٹ بولے ہے حضرت والا اس جملہ پر ناراض نہیں ہوئے اور فرمایااچھا بھائی میں نہیں یہ ہونگے، قریب ہی کتب خانہ میں ایک مولوی صاحب کچھ لکھ رہے تھے مولانا حبیب الرحمٰن کیرانوی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا دیکھ یہ ہونگے کہنے لگا نہ یہ بھی نہیں یہ ڈھیر ڈھورے (گورے) ہیں حضرت نے فرمایا میں بھی نہیں یہ بھی نہیں تو دیکھ وہ سامنے راج ،مزدور کام کر رہے ہیں ان سے پوچھ لے پوچھ کر آیا اور پیروں پر گرنے لگا ،حضرت نے روکا، تو ہی ہے توہی میری کھطا (خطا) معاف کر حضرت نے پوچھا اتنی دور کا کیوں سفرکیا ، کہنے لگا بیٹھے بیٹھے تیرا خیال آگیا ، دیکھنے کو دل چاہنے لگااسلئے دیکھنے چلا آیا ، بس دیکھ لیا جارہا ہوں ، السلام علیکم !
تو دیکھئے بظاہر کیسے ذلت کے الفاظ بول رہا ہے مگر حضرت کو کچھ نا گواری نہیں ہو رہی ہے ،یہ ہے حقیقت شناشی اور حقیقی تواضع ۔ اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مومن اپنے اختیار سے کوئی ایسا طریق نہ اختیا کرے جس میں ذلت ہو اور غیر اختیاری طور پر کوئی بات پیش آجائے تو کوئی ذلت کی بات نہیں ہے جیسے مفتی مظفر حسین ؒ صاحب کا واقعہ ہے کہ کہیں سے چلے آرہے تھے ، کپڑے معمولی تھے ، ایک سپاہی نے اپنا سامان ان پر لاددیا اور تھانہ لے آیا ، تھانے دار مولانا کو جانتا تھا ، دیکھتے ہی سپاہی پر بگڑنا چاہا مگر مولانا نے روک دیا اور کہا کچھ حرج نہیں اگر تم نے اسے کچھ کہا تو اچھا نہیں ہوگا اب بھلا کیا کہتا تو یہ حالت غیراختیاری ہے ، ہاں اللہ نے پیسے د یئے ہیں قلی کر سکتا ہے اور پھر سامان لادے لا رہا ہے ، لوگ جانتے ہیں کہ مولوی صاحب کے پاس پیسے ہیں اور دیکھو یہ سامان لادے جا رہے ہیں یہ ہے ان یذل علیٰ نفسہ، اور وہ گٹھر اٹھانا وہ تو اعانتِ مومن ہے اس میں ذلت نہیں ۔ یہ فرق ہے ، سمجھے یا نہیںیَذِل بابِ افعال سے ہے یعنی اپنے اختیار سے ذلیل کرے۔
آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی عجیب دلیل:
فرمایا کہ آپ ﷺ خاتم النبین ہونے کی جہاں اور دلائل موجود ہیں وہیں یہ بھی دلیل ہو سکتی ہے کہ باوجودیکہ آپ ﷺ کے چار بیٹے طیب، طاہر، قاسم وابراہیم ہوئے ، گو بعض نے کہا ہے کہ طیب وطاہر وقاسم ایک ہی کا لقب ہے مگر بعض چاروں کے مستقل ہونے کی طرف گئے ہیں تو آپﷺ کے چار بیٹے ہوئے مگر کسی کو دنیا میں باقی نہیں رکھا گیاکیونکہ اگر وہ زندہ رہتے تو یا تو وہ نبی بنائے جاتے یا نبی نہیں بنائے جاتے ، اگر بنائے جاتے تو آپ ﷺ کے ختمِ نبوت کے خلاف ہوتا، اور نبی نہ بنائے جاتے تو اور نبیوں کی اولاد نبی ہو اور آپﷺ کے صاحبزادے نبی نہ ہوں یہ آپ ، کی افضلیت کے خلاف ہوتا،اس لئے آپﷺ کے صاحب زادے توہوئے مگر ان کو باقی نہ رکھا گیا یہ ایک مستقل دلیل ہے آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی لہذا قادیانیوں کے مرزا غلام احمد کیلئے نبوت کا دعویٰ کرنا چاہے ظلی ہو یا اور قسم کی باطل ہے۔
وقت اور شرع کا نباہنا :
فرمایا کہ حضرت والا قدس سرہ العزیز (حضرت تھانویؒ ) کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا میں کلیر شریف چلا گیا ، مجھے خبر نہ تھی کہ وہاں عرس ہو رہاہے، میں نے دیکھا کہ بڑے بڑے لٹھیت ( موٹے تازے ہاتھمیں لٹھ لئے ہوئے ) لوگ پھر رہے ہیں ، میں چلا جارہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی او مرغے! او مرغے! ! (مزاروں پر آنے جانے والے فقیر لوگ کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں بالکل آزاد ہوتے ہیں ) ۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک نے کہا ارے تجھ ہی سے تو کہہ رہے ہیں او مرغے! ادھر آ !! میں چلا گیا ، کہنے لگا سن فقیر کا لٹکا (نکتہ) سن، عالمِ ارواح میں جب تمام روحیں جمع تھیں ، ہم فقیروں کی روحیں اللہ تعالیٰ کے قریب کھڑی تھیں اورمولوی کی روحیں بہت دور تھیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ بھنگ بوزہ ‘‘ ہم تو قریب تھے ہم نے صحیح سن لیا جس کا مطلب تھا خوب گھو ٹو اور پیو اور مست رہو اور مولوی دور تھے انھوں نے سمجھا ’’ نماز روزہ‘‘ تو مولویوں نے تماز روزہ پکڑااور ہم بھنگ گھوٹ گھوٹ کر پیتے ہیں ، پس فقیر کا لٹکایا یاد رکھنا ، وہ صاحب رئیس تھے انھوں نے حضرتِ والا (حضرت تھانویؒ ) سے فرمایا کہ حضرت مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن میں نے خیال کیا کہ میں یہاں دوسری جگہ ہوں اورمو ٹے موٹے لٹھیت پھر رہے ہیں ، ڈنڈا ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں۔کسی ایک نے مجھے ماردیا تومیرا تو کام خراب ہو جائیگا ، اب میں وہاں کیسے بولتا ؟ غصہ تو بہت آیا لیکن بولا نہیں ۔کچھ سمجھے تم تو ابھی بچے ہو تمھیں ابھی کیا خبر ؟ ایسے حضرات کو بڑی مشکل پڑ تی ہے، وقت کو نباہنا اور شرع کو بھی نباہنا یہ ہر ایک کا کام نہیں، سن لو میاں، اس بڈھے کو یاد کروگے جیسے ہم حضرت والا (حضرت تھانویؒ ) کو یاد کرتے ہیں۔
انسان مسلمان اپنا محتسب :
ارشاد فرمایا کہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ جب خو د کو اسلام میں داخل کیا ہے تو اپنی مکمل اصلاح کرے ،اب چاہے کسی کو مصلح بنا کر اپنی اصلاح کرائے یا خود ہی اپنا مصلح بنے یہ اسکی خوشی اور صوابدید پر ہے لیکن حسنِ نیت کے ساتھ رضاء الٰہی اور اخلاص ضروری ہے ۔
شیخ مصلح بنانا کوئی فرض تھوڑا ہی ہے االبتہ عادتاً اصلاح کا ایک ذریعہ ہے۔ چنا نچہ حدیث شریف میں ہے ۔ حَاسِبُوْ اَنْفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ تَحَاسِبُ وَوَزَانُوْھَا قَبْلَ اَ نْ تُوْزَنُوْا ( عین کنز العمال عن ابن مبارک) تم خودنفس سے حساب لے لو اس سے قبل کہ تمھارا حساب لیا جاوے اور ا س کو جا نچ لو اس سے پیشتر کہ تمھاری جانچ کی جاوے اور تیاری کرلو خدا کے سامنے بڑی پیشی کی جس دن تم پیش کئے جاؤ گے تمھاری کوئی بات چھپ نہ سکے گی ۔
نیز ارشاد فرمایا۔ اَکْثَرُوْا ذِکَرُوْھَا ذِمَ اللَّذَّاتِ یعنی الموت ( الترغیب والترہیب ص ۱۲۸ ج ۴ ) لذتوں کو توڑنے والی چیز موت کو کثرت سے یاد کرو ۔
فکرِ صحیح کا انجام :
حضرت سلمان فارسیؓ جب گھر سے چلے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہونچے ہیں تو رسول اللہ ﷺ کے پاس پہونچنے سے پہلے بڑے بڑے پادریوں سے ملاقاتیں ہوئیں ، ان کے پاس رہتے ہوئے سہتے ہوئے ، پوچھتے ہوئے ،ٹٹولتے ہوئے ،بڑا لمبا سفر کرکے جب جاکر مدینہ پاک پہونچے ، جب سلمان فارسیؓ نے اپنے ذہن کو ٹٹولا ،فکرِ صحیح سے کام لیا مقصود کو پالیا ۔ قاعدہ مَنْجَدَّ وَجَدَ۔سے جس نے کو شش کی پالیا حضرت سلمان فارسیؓ نے بھی فکرِ صحیح کے ساتھ کو شش کی تو رسول ﷺ کو پالیا جس کی غیب سے یہ صورت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو راہبوں، یا پادریوں کے پاس پہونچادیا ان سے نبی آخر الزماںﷺ کی علامات ونشا نیاں معلوم ہو تی رہیں ، تحقیق کرتے کرتے جب مدینہ پہونچے تو رسول ﷺمیں تمام سنی ہوئی علامتیں مل گئیں لیکن ایک علامت نہیں ملی، وہ تھی مہرنبوت ، پادریوں سے یہ بھی سنا تھا کہ ان کے دونوں کندھوں کے بیچ مہرِ نبوت ہو گی اب یہ شش وپنج میں ہیں کہ مہرِ نبوت کس طرح دیکھوں وہ تو کرتے کے نیچے چھپی ہوئی ہے۔ حضور ﷺ کو ان کی طلب معلوم ہوگئی کہ یہ مہرِ نبوت دیکھنا چاہتے ہیں . رسول ﷺ نے کرتا اٹھا دیا بس پھر کیا تھا مہرِ نبوت وہ بھی دیکھ لیا، بس یہی کسر تھی پوری ہوگئی ، اور دل کی گہرایؤں سے پکار اٹھے کہ یہی ہیں بر حق رسول ﷺ۔ آپ نے فکرِ صحیح کا نتیجہ دیکھا اس فکرِ صحیح کے نتیجہ میں سلمان فارسیؓ کہاں سے کہاں پہونچے اس لائق ہوگئے کہ ان کے مشورہ کو قبول کیا جانے لگا چنانچہ غزوۂ خندق میں انھوں نے ہی خندق کھودنے کا مشورہ دیا تھا۔ حضور ﷺ نے ان کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے خندق کھودنے کا حکم دیدیا تھا ۔
ا ٹھارہ ہزار عالم:
عالم کی دو قسمیں عالمِ دنیا اور عالمِ آخرت ، اور عالمِ دنیا کے بہت جزئیات ہیں کہا جاتا ہے کہ اٹھارہ ہزار عالم ہیں، ’’ ہیزدہ ہزار عالم‘‘ تو اگر مان لو کہ اٹھارہزارعالم ہیں تو ان کی پرورش کون کرے، وہ اتنا قادر وطاقتور ہے۔ جو اتنا قدرت والا ہے جس کے یہاں کن فیکون ہو تا ہے ۔ سب یہ تربیتاََ الہامی چیزیں ہیں۔
اعمال دو قسم کے ہیں :
اعمال دو قسم کے ہیں ظاہرہ اور باطنہ بس جب دوام آیا تو دونوں قسم کے اعمال میں آنا چاہیے کیونکہ فہمِ سلیم اور عقلِ مستقیم کا یہی تقاضا ہے کہ حساب لئے جانے سے پہلے اپنا حساب وکتاب درست کرلے ، اس سے ہمت پیدا ہوئی اور اعمال درست کرلئے یہ ایسا شخص خود اپنا مصلح ہو گیا، اب تمھارا جی چاہے کسی کومصلح بناؤ یا نہ بناؤ ، کسی کو شیخ بناؤ یا نہ بناؤ یہاں تک آزادی دی جارہی ہے۔
مقام کے معنیٰ کیا ہیں:
فرمایا۔ جتنے اخلاقِ حمیدہ، اخلاقِ فاضلہ متعلق بالقلب ہیں جب ان کے اندر جماؤ ،رسوخ، ملکہ ، پختگی ،انتہائی مضبوطی ، کمالِ نہایت کے ساتھ آجاتی ہے اس کا نام مقام ہو تا ہے ۔
مقام کے اقسام :
فرمایا۔ مقام کی بہت سی قسمیں ہیں مقامِ رضاء ،مقامِ توکل، مقامِ صبر، مقامِ قناعت، زہد، مقامِ توحید، یہ سب اسی مقام کی شاخیں ہیں ان سب کو مقامات سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ان مقامات کو تفصیلاً طئے کرتے ہوئے ایک چھوٹی چٹکی پیدا ہو گئی اس چھوٹی سی چٹکی کو فنا کہتے ہیں۔
مجالسِ صوفیا کی حیثیت :
یہ فرمایا ۔ ( مجلس) مطبِ روحانی ہے جیسے طبیب جسمانی کا مطب ہوتا ہے مطب وہ جگہ جہاں پر طبیب مریضوں کی نبض دیکھ کر امراض کی تشخیص اوردوا تجویز کرتا ہے ایسے ہی یہ مجلسِ مطب روحانی (کلینک)کی حیثیت رکھتی ہے مختلف قسم کے مریض آتے ہیں یہاں نبض دیکھی جاتی ہے اور نفس کے امراض کے متعلق باتیں ہوتی رہتی ہیں اسلئے کہ جوروحانی صحت (کامل دینداری) حاصل کرنا چاہتے ہیں تزکیۂ نفس میں لگے ہوئے ہیں ان کو عجیب وغریب باتیں پیش آتی ہیں ان کے آثار ظاہر ہونے پر بہت علوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان علوم کے بیان کیلئے یہ مجلس ہو تی ہے .لہٰذا طالبین تزکیہ، امراض نفسانیہ خود سوچتے رہتے ہیں اپنے کو پرکھتے ہیں اور صحت مند ہو تے ہیں۔
سائل پر احسان نہ جتلانا چاہیے:
فرمایا۔ سائل پر احسان نہ جتاناچاہیے حق تعالیٰ فرمارہے ہیں یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی (پ۳ ع۴) ائے مسلمانو! اپنے صدقات کو احسان جتلاکر اور تکلیف دے کر ضائع مت کرو بلکہ اس کااحسان ماننا چاہیے کہ اس کی وجہ سے ہمیں صدقہ کی توفیق ہو گئی اور حق تعالیٰ سے توفیق مانگتے رہناچاہیے. اَللّٰھُمَّ وَقِّفْنِیْ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضیٰ مِنَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ وَالْفِعْلِ وَالنِّیَۃِ وَالْھُدَیٰ اِنَّّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔ یہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے، تو حق تعالیٰ سے توفیق مانگتے رہنا چاہیے اور سائل کا احسان مند ہو نا چاہیے ورنہ حدیث شریف میں آیا ہے ایک زمانہ ایسا بھی آئیگا کہ مسلمان زکوٰۃ لئے لئے پھرے گا مگر کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملیگا ۔
درویش :
درویش جس کو درویش صحیح معنیٰ میں، اہل اللہ کہتے ہیں ان کا جتنا دل ٹوٹا ہوا ہے اور جتنا کسرِ نفس ان کے اندر انکسا رآیا ہوا ہے، دوسروں کو اتنا نہیں ہے اس لئے کسی بیمار کے منھ سے آپ نے یہ نہیں سنا ہو گا کہ میں کتے اورخنزیر سے بہترہوں اور یہ اللہ والوں کے منھ سے آپ باربا ر سنیں گے کہ میں کتے خنزیر سے بد تر ہوں ۔ عجیب فناء بقاء جمع ہورہا ہے، بقاء بھی ہے فنا ء بھی ہے چوبیس گھنٹے کا ۔ حضرت اصل جاگتا ہے سوتا نہیں۔
معمولات میں صحت وسہولت کا لحاظ رکھے:
فرمایا۔ معمولات میں اوراد میں ہمیشہ صحت اور سہولت مد نظر رکھنا چاہیے اپنے آپ کو خواہ مخواہ تعب میں نہیں ڈالنا چاہئے۔
آخرت کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں:
وہ تین چیزیں کیا ہے جن کو کرتا رہتا ہے ان کے خلاف کا چھوڑتا رہتا ہے من حیث الطبیعت بنجانے کا ہے فرماتے ہیں قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰییہ ایک بات ہو گئی جس میں دو باتیں ہیں ایک تزکیہ، دوسرا تَزکّٰی،با مراد ہوگیا وہ شخص کامیابی کو پہونچ گیا وہ شخص جو تَزَکّٰی والا ہوا ۔
دوسری بات وَذَکَرَسْمَ رَبِّہٖ اور جس نے اپنے رب کے نام کا ذکرکیا یہ دوسری چیز ہو ئی پھر فَصَلّٰیاور نماز پڑھی ۔ یہ تیسری چیز ہو گئی، یہ تین چیزیں ہو گئیں۔پہلی چیز کیا ہوئی؟ تزکیہ، تَزَکّٰی دوسری چیز کیا ہوئی ؟ وَذَکَرَسْمَ رَبِّہٖ۔تیسری چیز کیا ہوئی؟ صلوٰۃ۔
طلبِ حق میں پہلے فہم آتی ہے پھر ہدایت پھر رحمت:
فرمایا کہ قرآن پاک میں طالبِ حق کے لئے تین باتیں فرمائیں ہیں، پہلی بات تو یہ فرمائی کہ طالبِ حق میں فہم درست ہوتا ہے، جو واقعی اخلاص کے ساتھ حق کا طالب ہے حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پہلی بات یہ کہ اس کا فہم درست ہو تا ہے. اگر ایسا نہیں ہے وہ صحیح معنیٰ میں طالبِ حق نہیں ہے. یہ شناختیں ہیں، یہ پہچانیں ہیں،یہ شہادتیں ہیں یہ گو ا ہیاں ہیں درستی فہم کے لئے قرآن پاک کے اندلفظ بَصَاءِرُ آیا ہے۔ ھَذٰا بَصَاءِرُ لِلنَّاسِ وَھُدًوَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْقِنونَ ۔کہ یہ کتاب جو ہم نے نازل کی جو اس کو سمجھ کر پڑھتا ہے یا سنتا ہے طالبِ حق کے ساتھ اسمیں بصیرت آتی ہے جس کی اردو ہے فہم کا درست ہونا ۔ قرآن پاک میں اس کو بصیرت کہہ دیا اور جب فہم کے اندر درستئ بصیرت آجاتی ہے تو احکام پر عمل کرنے کیلئے دل قبول کرتا چلا جاتا ہے، کمربستہ ہوتا چلا جاتا ہے. آمادگی بڑھتی چلی جاتی ہے اس کو قرآن پاک کے اندر لفظِ ہدایت سے تعبیر کیا ہے تو اس میں ہدایت کا طریق من حیث العمل آگیا اس کو ’’ھدی ‘‘کے لفظ سے، تعبیر کیا ہے اگر اسمیں ہدایت نہیں آئی قبولِ احکام امتثا لاًبھی قائم نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ ابھی بصیرت نہیں آئی. یہ تربیت ہے چونکہ ظاہر باطن کا شاہد ہوتا ہے گو ابھی ہدایت جس کو ہدایت کہتے ہیں وہ ٹھیک ہی نہیں آئی تو معلوم ہوا کہ ابھی بصیرت ٹھیک ہی نہیں ہوئی اور جب یہ دونوں باتیں ہوگئی. بصیر ت بھی آئی ہدایت بھی آئی اب اس کا ثمرہ مرتب ہوگا وہ ثمرہ کا ترتب وہ ہے قرب وقبول۔ تو جب یہ دو چیزیں آگئیں طالبِ حق کے اندر تو ثمرہ انجام بخیر قرب و قبول کا ثمرہ ہوگیا اس کو قرآن پاک میں تعبیر کیا ہے رحمت سے اول بصیرت ہے پھر ہدایت ہے اور پھر رحمت چنانچہ قرآن پاک میں موجود ہے ھَذٰ بَصَاءِرُ لِلنَّاسِ وَھُدً وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّوؤقِنُوُنَ ۔ظاہر ہے کہ جب فہم آگیا اور اس کا نتیجہ کیا ہوا ہدایت ہو گیا۔ دونوں چیزیں حاصل ہو گئیں ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت خصوصی متوجہ کیوں نہیں ہوگی۔
مراقبہ موت کا ثبوت :
رسول ﷺ نے فرمایا اَکْثَرُ اَذْکُرُوْھَا ذَمِ الَّذَّاتِ اِلٰی ا لْمَوتِ موت کو کثرت سے یاد کرتے رہنا اور مدتوں کیلئے منصوبے اور سامان نہ کرنا اور نہ سوچنا اسی کو حق تعالیٰ نے فرمایا ہے یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوا اتَّقُو اللّٰہَ وَالْتَنْظُرْنَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(پ ۲۸ ع۴)ائے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ ہر ہر شخص دیکھ بھال لے کہ کل قیامت کے واسطے اس نے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تعالیٰ کو تمھارے اعمال کی سب خبر ہے ( بیان القرآن) اس لئے خلاصہ کہہ دیا مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا ! یعنی مطلب یہ کہ اپنے نفسانی جومتعلقات کی چیزیں ہیں ان کو ایسا بنا لو اور حسبِ ارشاد ذاتِ باری تعالیٰ بتحتِ کلام الٰہی اس کو استعمال کرو چونکہ تم غلام ہو اس کو بحکم الٰہی استعمال کرو تو تم غلام ہواسکو بحکم الٰہی ا ستعمال کرو تو تم غلام ہو ورنہ اگر با حکم الٰہی موت کے وقت تم ترک کردوگے تو غلام نہیں۔
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
برا عمل اور برا ساتھی ساتھی نہیں :
فرما یا ۔ و ہ ساتھی کیسا ! جس سے حق تعالیٰ کی محبت میں کمی آوے ؟ اس کیساتھ اٹھنا بیٹھنا کیا؟ وہاں آنا جانا کیسا تو حضور ﷺ نے برے عمل سے پناہ مانگی ہے ، بری گھڑی سے پناہ مانگی ہے ، اسلئے ’’ لَا اِلٰہَ‘‘ میں لا’’ کے ذریعہ سے ان سب چیزوں کو کاٹ کر نفی کر رہا ہے اور جو چیز ہیں ان کی نفی نہیں کر رہا ہے . اسی میں ’’ سَیِّئاَتِ ‘‘ بھی آگئے ان کو بھی ’’ لا ‘‘ سے کاٹ دیا پھر ’’ سَیِّءَاتْ‘‘کا ارتکاب ہو تا رہنا کیسا؟ یہ جملہ خیال فرمایا ’’ ہوتے رہنا‘‘ جو استمرارکو چاہتا ہے۔ ہاں بتقاضائے بشری ہوگیا ہوگا، جہاں اس کے اند ر من حیث المادۃ اللفظ،( لفظی اعتبار سے) انس ہے وہیں اس میں من حیث المادۃ الخلقیہ ( فطری اور پیدائشی لحاظ سے ) نسیان بھی ہے ، اس لئے گاہے نسیان گاہے شر کا ظہور ہوگیا توباز پرس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،چھوٹی موٹی بات تو ہو ہی جایاکرتی ہے، حق تعالیٰ کا ارشاد اَلَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَ کَبَاءِرَ الْاِثْمَ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا للَّمَمِ (سورہ نجم )اس کا حاصل یہ ہے کہ تم فحش ومنکرات سے بچتے رہو، یوں چھوٹی موٹی بات ہو گئی اس پر اللہ تعالیٰ نظر نہیں کرتے،تمھارا وجود تو ممکنات سے ہے اسلئے برائی کا بھی امکان ہے مگر ’’ سُوْء ‘‘( برائی کا مسلسل اور برابر) ہوتا رہنا کیسا؟ اسی ’’ سوء‘‘ سے ’’ سیئات‘‘ ہے اسی ’’ سوء ‘‘ سے ’’ صاحب السوء‘‘ برا ساتھی ہے، برے دوست ہیں، یہ سب من حیث العمل شرک میں داخل ہیں ، من حیث العقیدہ نہیں۔ ابھی آپ کے سامنے آیت پڑھی تھی ’’ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْ لِقاَءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَل عَمَلاً صَالِحَاً وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا، (یعنی اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے یعنی اس عملِ صالح میں ریا نہ ملنے پائے ریا کی آمیزش سے وہ عمل صحیح معنیٰ میں پورے طریقہ سے صالح نہیں رہے گا بلکہ اس میں تکدر آجائیگا اس آیت کے جزء اول’’ فَمَنْ کاَنَ یَرْجْوْ لِقَاءَ ‘‘ میں ایک خاص نقطہ ہے کہ تم میری ملاقات کے امید وار بھی اور شرک عملی ریاء بھی کرتے ہو ، یہ کس طرح مناسب ہے ؟ اور عملِ صالح میں رضاء کی بھی قیدہے، جس عمل سے حق تعالیٰ راضی ہوں وہ عملِ صالح کہلائے گا اور جس پر ذاتِ باری تعالیٰ کی رضاء مرتب نہ ہو اس کو عملِ صالح نہ کہا جائیگا ، گو دیکھنے میں وہ عملِ صالح ہے مگر جب بقوانین شرعیہ رضاء مرتب نہیں ہوئی تو وہ مرضیات میں سے کہا ں ہے ؟ مثلاََ زوال کے وقت نماز پڑھ رہا ہے یہ عملِ صالح ہے مگر رضاء مرتب نہیں، عید کے دن کوئی روزہ رکھے یہ عملِ صالح مگر رضا نہیں ہے ، رات کو جاگا ، نفل بھی پڑھی ، تلاوت بھی کی ، ذکر بھی کیا لیکن آخر رات میں پڑ کرسو گیا اور صبح کی جماعت چلی گئی تو اس عملِ صالح کے ساتھ’’ سوء‘‘مل گیا کہ ترک جماعت ہو گئی اس سے تو یہ بہتر تھا کہ رات سوتا اذان کے بعد اٹھ کرجماعت کے ساتھ نماز پڑھتا، اس نے نوافل کا ایسا اہتمام کیا کہ جماعت چھوٹ گئی عملِ صالح میں’’ سوء‘‘ شامل ہو گیا ۔
باریک کپڑا اور موٹا کپڑا، اس کا فرق:
فرمایا کہ مشکوٰۃ شریف میں ایک حدیث ہے کہ ایک صحابی نے ایک عمدہ اور باریک کپڑا حضور ﷺ کو ہدیہ میں پیش کیا ، حضور ﷺ نے قبول فرما کر انہیں کو واپس کردیا اور فرمایا کہ آدھا تم استعمال کرو، اور آدھا اپنی بیوی کو دیدینا، جب وہ صحابی چلنے لگے تو فرمایا بیوی سے کہدینا اس کپڑے کے نیچے کوئی دوسرا کپڑا بھی پہنے تا کہ بدن نظر نہ آوے ، اس سے معلوم ہوا کہ باریک کپڑا پہننا خلافِ سنت نہیں، ہاں باریک کپڑے کے نیچے کوئی موٹا کپڑا بھی ہو تا کہ بدن نظر نہ آئے۔
اپنے گھر کے کام کاج کرلیا کرتے تھے
فرمایا جب میں جلال آباد آیا تھا تو تقریباََ سترہ سال کی عمر تھی بعض وقت ایسا ہوا کہ سقہ پانی نہیں لایا ، میں نے دلہن سے کہا کہ کوئی بات نہیں میں لے آؤں گا ، گھڑا اٹھایا اور منی والی مسجد میں پہونچا اور پانی بھر کر لے آیا ، دولھن روٹی پکا رہی ہیں، ہم پاس بیٹھے سیکنے لگے اور چولھے سے نکال نکال کر ڈلیا میں رکھتے رہے، بکری کا دودھ نکال لیا، کپڑا سی لیا، پیوند لگایا،ہم نے سب کام کئے ہیں، آج یہ حال ہے کہ تمام کام بیوی پر ڈال رکھے ہیں، یہ خلافِ فنا باتیں ہیں، جب فنا کی کیفیت آجائے گی تو پھر دوسری حالت ہو گی۔
فرمایا کہ مسلمان کی شان یہ ہیکہ رسول اللہ ﷺ کی طرح حالت ہوجائے ، آجکل گھر کے کام اور بازار کے کام خلافِ شان سمجھے جاتے ہیں وجہ یہ ہیکہ حقیقی شان سمجھی نہیں کہ کیا ہے، محض ٹیپ ٹاپ کو شان سمجھتے ہیں. حضور اکرم ﷺ گھر اور باہر کے سبھی کام کرلیتے تھے تو کیا خلافِ شان تھا؟مسلمانوں کو حضور ﷺ کی طرح حالت بناناچاہئے۔
کسی مسلمان کی نیت پر حملہ کرنا کہاں درست ہے:
فرمایا کہ ،حضرت والا مولانا تھانوی ؒ کی خدمت میں کوئی شخص حاضر ہوتا اور غلطی کرتا حضرت کو اس سے تکلیف ہوتی حضرت فرماتے کہ تمھاری اس بات سے تکلیف ہوئی وہ کہتا میں نے جان کر تکلیف نہیں پہو نچائی تو حضرت فرماتے توبہ توبہ کسی مسلمان کی نیت پر حملہ کرناکہاں درست ہے؟ میں یہ کب کہتا ہوں کہ تم نے جان کر تکلیف پہو نچائی ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ تم نے اس کا اہتمام کیوں نہیں کیا کہ تکلیف نہ ہو۔
فرمایا کہ ایسی تو جہات والے جوخلافِ شریعت ہوں اور باطن پر اثر انداز ہو ان کے پاس جاکر کبھی نہیں بیٹھنا چاہئے . اوریہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ہم پر اثر نہ ہوگا ، ضرور ہو گا اچھے اچھے علماء پر اثر ہوتا ہے حضرت شاہ عبد العزیز ؒ کے زمانہ میں ایک باطل فرقہ تھا جو چاروں ابرو کا صفایہ کیا کرتے تھے سر، بھوں، مونچھ اور داڑھی اور یہ فرقہ ریاضتکش تھا ، ریاضت سے نفسِ ناطقہ میں لطافت پیدا ہو جاتی تھی اور اس لطافت کی وجہ سے نفس کی تاثیر میں قوت ہو جاتی تھی، بعض مختلف شکلیں بدل لیتے تھے جیسے ملائکہ بدل لیتے ہیں بعض اپنی آنکھوں کو سورج سے ملا کر ایسی مشق کرلیتے ہیں کہ آنکھوں میں کشش آجاتی ہے اب اس کا اثر یہ ہو تا ہے کہ جو اس کے سامنے آتا ہے اور یہ کھینچنے کا تصور کرتے ہیں تو مقابل کھنچا چلا آتا ہے، جس طرح بعض سانپ ایسے ہوتے کہ جس پر نظر ڈالتے ہیں وہ کھینچا چلا آتا ہے اور یہ کشش جس طرح آنکھ سے ہو تی ہے زبان سے بھی ہو تی ہے ، خیال سے بھی ہو تی ہے . ایک واقعہ یاد آیا کہ اسی فرقہ کا ایک آدمی ایک مقام پر دہلی کے باہر ایک باغیچہ میں رہتا تھا اس کا نام گلزار تھا، ایک فوجی چھٹی لے کر دہلی آیا اور ٹہلتاہو اس باغیچہ میں پہونچ گیا، گلزار کو جب آہٹ معلوم ہوئی تو اس نے آوازدی، کون؟ فوجی نے جواب دیا’’ نسیم‘‘ اس نے وہیں سے کہا نسیم ہے تو گلزار سے نہیں جاسکتی ۔ اس آواز کا یہ اثر ہوا کہ وہ فوجی وہیں کا ہو گیا اورفوج کے افسر کو استعفیٰ لکھ کر بھیج دیا اور گھر بار چھوڑا چاروں ابرو کا صفایا کرا دیا . حتیٰ کہ گلزار کا چیلا ہو گیا. پھر گلزار کی موت کے بعد گلزار کی جگہ بیٹھ گیا اور مخلوق کو گمراہ کرنا شروع کردیا۔حضرت شاہ صاحب ؒ (شاہ عبد العزیز ؒ ) کے یہاں اس کا تذکرہ ہوا تو بعض علماء نے کہا کہ اس سے مناظرہ کرنا چاہئے تا کہ یہ فتنہ کم ہو، ایک عالم صاحب تیار ہوئے اور ان کو مناظرہ کے لئے نسیم شاہ کے پاس بھیج دیا گیا۔یہ عالم صاحب وہاں پہونچے اورجاکر اپنا مطلوب بیان کیاکہ شاہ صاحب نے مناظرہ کیلئے بھیجا ہے ، تم نے یہ گمراہی پھیلا رکھی ہے نسیم نے کہا کہ ابھی آپ تھکے ہوئے آئے ہیں آرام کر لیجئے پھر دیکھا جائیگا چنا نچہ وہ عالم صاحب سو گئے اور نسیم شاہ نے ان کے سرہانے بیٹھ کر توجہ دینا شروع کی، کافی دیر کے بعد اٹھا اور اپنے چیلوں سے کہا کہ پکوان پکواؤ۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی نیا مرید ہو تا تھا تو پکوان پکا کر مریدوں میں تقسیم کرتا تھا ،مریدوں نے کہا کون سا مرید نیا ہو ا ہے جو پکوان پکوانے کا حکم کر رہے ہیں ۔نسیم نے کہا یہ سونے والا عالم جب اٹھے گا تو پہلا کام اس کا یہ ہوگا کہ یوں کہے گا کہ مجھے اپنا مرید کرلیجئے مریدوں نے عرض کیا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ مناظرہ کرے اور آپ پرغالب آجائے۔ اس نے کہا میں حکم دیتاہوں تم پکوان پکاؤ یہ سوائے مرید ہو نے کے دوسری بات نہیں کریگا اس کو اپنی توجہ پر یقین تھا ۔ الغرض ایسا ہی ہوا انھوں نے اٹھتے ہی یہ کہا کہ مجھے اپنا مرید کرلیجئے ۔ اس نے کہا حضرت آپ تو شاہ صاحب کے بھیجے ہوئے ہیں مناظرہ کرنے کیلئے آئے ہیں ، کہا کہ میں منا ظر ہ وغیرہ نہیں کرتا، مجھے تو آپ مرید کر لیجئے ، اس نے کہا کہ میرے یہاں تو چاروں ابرو کے صفائی کی قید ہے . انھوں نے کہا میں تیار ہوں ، چنانچہ ہاتھ کے ہاتھ چاروں ابرو کا صفایا کر دیا . پھر نسیم نے کہا یہ اچھا نہیں معلوم ہو تا کہ ہم پکوان کھائیں اور حضرت شاہ صاحب (شاہ عبد العزیز ؒ ) تو اس نے کہا کہ یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ ہم پکوان کھائیں اور شاہ صاحب نہ کھائیں لہذا شاہ صاحب کے پاس یہ پکوان لے جاؤ، چنانچہ وہ اس کے لئے تیار ہو گئے اور ایک ہانڈی میں پکوان بھر کے شاہ صاحب کے یہاں لے آئے. شاہ صاحب آخر میں نابینا ہو گئے تھے ، حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا کہ حضرت یہ تو وہی ہیں جن کو نسیم شاہ سے مناظرہ کرنے کے لئے بھیجا تھا وہ تو خود تو چاروں ابرو کا صفایا کر کے آئے ہیں ۔شاہ صاحب نے فرمایا دور ہو میرے سامنے سے وہاں سے ان کو نکالدیا ۔ تو دیکھئے کیسا اثر ہوا اور وہ بھی عالم پر اسلئے یاد رکھو، ایسے لو گوں کے پاس بھٹکنا بھی نہ چاہئے۔ اب یہاں یہ شبہ ہوتاہے کہ شاہ صاحب نے ان کو دھتکار کیوں دیا بلکہ اس کے خلاف توجہ دے کر اس کی توجہ کو زائل فرمادیتے کیونکہ خود شاہ صاحب بھی صاحبِ توجہ تھے ، جواب یہ ہیکہ شاہ صاحب کو منکشف ہو گیا تھا کہ انھیں بدتوجہ کا اسقدر اثر ہوچکا ہے کہ اگر لاکھ بھلائی کی توجہ دی جائے تو اثر نہ ہوگا بعض برا اثر ایسا ہی شدید ہو تا ہے کہ پچھلے عبادات کے تاثرات ختم ہو جاتے ہیں اور آئندہ بھی کو ئی اچھا اثر نہیں ہوتا ، دیکھئے! شیطان جب شیطنت پر آیا تو حق تعالیٰ کے سمجھانے سے بھی بعض نہ آیا ، حق تعالیٰ نے فرمایا اِسْتَکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَکیا تو نے تکبر کیا تو واقعی برے لوگوں میں سے ہے؟ یہ حق تعالیٰ کی جانب سے سمجھانے کی تلقین ہی تھی . اسی طرح بعض بعض شیطنت پر اتر آتے ہیں شیطانی پورا اثر ان پر ہو جاتا ہے تو وہ کسی کے سمجھنے سے نہیں سمجھتے اسی طرح یہاں اثر ہوا تھا ۔
مسلمان کی غذا حلال وطیب ہے:
فرمایا کہ خنزیر کی غذا گندگی اور پاخانہ ہے وہ اس کو کھاکر موٹا تازہ ہو سکتا ہے اور گائے ،بھینس اس کی غذا گھاس دانہ ہے اگر گائے بھینس پاخانہ کھانے لگے تو سوکھ کر کانٹا ہو جائیگی ٹھیک اسی طرح سمجھئے کہ حرام طریقہ سے کمانا سودوغیرہ سے ترقی کرنا تو غیر مسلم کو اس سے ترقی ہو سکتی ہے ، مسلمان کی غذا حلال و طیب ہے اسکی ترقی حلال کمائی سے ہے، اگر مسلمان سود وغیرہ لے گا تو اس کو ترقی نہیں ہوسکتی ہے یہ بھی بالکل موٹی بات ہے لیکن ہم ان باتوں کی طرف خیال نہیں کرتے ، اسلئے باریک ہو گئیں ہیں اسی طرح ہاتھی کی جھول اور طرح کی ہو تی ہے اور گائے بھینس کی جھول اور قسم کی ہے. ہاتھی کی جھول اگر گائے بھینس کو پہنا دی جائے تو کیا زیب دے گی ہر گز نہیں اسی طرح جو لباس انگریز اور ہندو کا ہے وہ اگر مسلمان بھی پہننے لگے تو کیا اس کے لئے مناسب ہوگا؟ ہر گز نہیں ، ان باتوں پر غور کرو اور مسلمانوں کی طرح سادہ زندگی گزارنا چاہیے اور حرام کمائی اور غیروں کے لباس سے بچنا چاہیے ۔
ہماری حالت قابلِ اصلاح ہے:
فرمایا کہ ہم لوگوں کی حالت ضرور قابلِ اصلاح ہے اور جو لوگ گناہوں میں مبتلا ہیں گو کسی ہی کے ساتھ ہوں ان کو بھی اس حالت پر تاسف ہو نا چاہیے اور جن کو تاسف نہ ہو ان کو اس تاسف نہ ہو نے پر تاسف ہونا چاہیے . اور یہ حالت زیادہ خطرناک ہے، خصوصاْ جبکہ یاد دہانی کرائی جائے بعض دفعہ اپنی حالت پر تاسف نہیں ہوتا ، مگر دوسروں کی تنبیہ سے خیال پیدا ہو جاتا ہے، یہ بھی غنیمت ہے، جن لوگوں کو اپنی بد حالی پر تاسف نہیں ہے وہ بھی اپنی بدحالی کے مقر تو ضرور ہیں کہ گنہگار ہونے کا ہر شخص کو اقرار ہے اس سے معلوم ہوا کہ مرض کا احساس تو سب کو ہے مگر کوتاہی یہ ہے کہ علاج کی فکر نہیں، اور ظاہر ہے کہ مرض کا علاج نہ کرنا سخت خطرناک ہے ، اس لئے علاج کی طرف توجہ کرنا ضروری ہوا۔
اللہ تعالیٰ کو کسی حال میں بھی بھولنا نہیں چاہیے :
فرمایا۔ ارشادِ خداوندی ہے فَاَنْسٰھُمْ وَاَنْفُسَھُمْ جب وہ خدا تعالیٰ کو بھول گئے تو خدا تعالیٰ نے بھی انکو بھلا دیا ۔
اس ارشاد میں ایک نقطہ کی طرف اشارہ ہے مگر اس نقطہ کو سمجھنے سے پہلے ایک بات سمجھ لیجئے، وہ یہ ہیکہ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرٍیْدِ (سورہ ق) ہم انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں اب اگر انسان اسکے بعد بھی خدا کو بھول جائے جو کہ انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے تو ممکن نہیں کہ وہ اپنے کویاد رکھے، اس سے معلوم ہوا کہ خدا کو بھولنے والا در حقیقت خود کو بھولا ہواہے، اور جو خدا تعالیٰ کو یاد رکھے گا وہ اپنے کو بھی یاد رکھے گا، مگر مستقلًانہیں بلکہ اس طرح کہ میں خدا کی چیز ہوں’’ خدا تعالیٰ کے ساتھ مجھے تعلق ہے، جو کچھ میرے پاس ہے وہ سب خدا کی امانت ہے وہ کسی چیز کو بلا واسطۂ خدا یاد نہیں کرے گا ، جیسے عاشق کو محبوب کی چیزیں یاد رہتی ہیں اور ان کی یاد حقیقت میں محبوب ہی کی یاد ہو تی ہے اسی طرح وہ اپنے کو اور اپنے متعلقات کو بھی سمجھتا ہے کہ یہ سب محبوب کی چیزیں ہیں۔
اہلِ دنیا اور اہل اللہ میں فرق:
فرمایا۔ اہل اللہ اپنی ذات یا اپنے ہاتھ پاؤں اور اپنے تمام متعلقات کی حفاظت نو کر کی طرح کرتے ہیں، مالک کی طرح نہیں کرتے، ہم تو کھاتے ہیں اپنا پیٹ بھر نے کے لئے اور وہ کھاتے ہیں سرکاری مشین کی حفاظت کے لئے، یہاں سے اس ارشاد باری تعالیٰ لَا تَقْتُلُوْا اَنْفْسَکُمْ مت قتل کرو اپنے نفس کو، کا راز بھی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ خود کشی کیوں ممنوع ہے ، یہ آپ کی جان نہیں کہ جیسا چاہیں تصرف کریں نہیں بلکہ یہ بھی انھیں کی ملک ہے ،اس لئے انھوں نے اپنی چیزیں بلا اجازت تصرف کرنے سے منع فرمایاہے اسی مرثیہ میں حکم ہے کہ
اِنَّ لَجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا تمہا رے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور
اِنَّ لَنَفْسَکَ عَلَیْکَ حَقًّا تمہارے نفس کا بھی تم پر حق
اِنَّ لَعَیْنَکَ عَلَیْکَ حَقًّا او ر تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اسی لئے یہ کس کو یہ حق نہیں کہ ٹھنڈی دوا کھاکر نامرد ہو جائے یاآنکھوں میں، گرم سلائی پھیر کر اندھا ہو جائے اسی لئے عارفین اور اہل اللہ اپنی جان کو سر کاری چیز سمجھ کر اس کی حفاطت کرتے ہیں ، ظاہر بین اپنے پر قیاس کر کے ا س کو تن پروری سمجھتے ہیں حالانکہ وہ اس سے کوسوں دور ہیں ایسے ہی لوگوں کے متعلق کہا ہے ؂
در نیا بد حال پختہ ہیچ خام پس سخن کوتاہ باید والسلام
خام کاروں ( نا واقفوں)کو پختہ کاروں ( عارفوں) کا حال معلوم نہیں ہو سکتا، اس لئے یہاں گفتگو کا مختصر رکھنا ہی بہتر ہے عام لوگ تو ٹھنڈا پانی اس لئے پیتے ہیں کہ مزہ آئیگا ، پیاس کو تسکین ہوگی طبیعت کو بشاشت ہوگی، اور عارف لوگ تو ٹھنڈا پانی اس لئے پیتا ہے کہ ہر بن مو سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا ہو اور اس کی حمد ہو۔
ببیں تفاوتِ راہ از کجاست تا بکجا:
دیکھ لو! راستہ کا فرق کہاں سے کہاں تک ہے۔
واقعی ہم اپنے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہیں ، تو جو خدا کو یاد کرے گا ، وہ اپنے کو بھی یاد رکھے گا ، اور اپنا یاد رکھنا اس طرح پرہوگا کہ اول اس کی نظر خدائے تعالیٰ پر پڑیگی ، پھر اپنے پر ، اور یہ توجہ الیٰ لغیر نہیں جو ممنوع ہو ، اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے ایک حسین شخص کی صورت آئینے میں نظر آرہی ہو ، اور ایک عاشق بھی وہا ں بیٹھا ہوا ہو جو اس محبوب کی طرف رعب وجمال کی وجہ سے نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا ، اس لئے وہ آیئنہ میں اس کی صورت دیکھ رہا ہے اور ایک دوسرا شخص ہے جو عاشق نہیں وہ بھی اس آیئنہ کو دیکھ رہا ہے ، مگر اس نیت سے، کہ دیکھوں آیئنہ کیسا ہے ؟ تو یہ دونوں شخص بظاہر آیئنہ دیکھنے میں یکساں ہیں مگر دونوں کے دیکھنے میں زمین وآسمان کا فرق ہے ، عاشق کی نظر اول محبوب کی طرف پڑے گی گو طبعاََ آیئنہ پر بھی نظر پڑ جائے گی اور غیر عاشق کی نظراولاً آیئنہ پر پڑے گی تو طبعاََحسین کی صورت پر بھی نظر جائے گی ، مگر اس کا مقصد حسین کی صورت دیکھنا نہیں صرف آیئنہ کی خوبی دیکھنا مقصود ہے بعینہ یہی فرق اہل اللہ اور غیر اہل اللہ میں ہے ۔کہ مخلوق کی طرف ان کی نظر بظاہر یکساں ہے مگر حقیقت میں بڑا فرق ہے ۔ اہل اللہ کی نظر اولاََخدا کی طرف پڑتی ہے پھرطبعاََمخلوق بھی اس کے سامنے آجاتی ہے اور ہماری نظر اولاً مخلوق پر ہوتی ہے صمناََحق تعالیٰ کی صفت اور قدرت کا بھی خیال آجاتا ہے۔
خدا تعالیٰ کو یاد رکھنے کے طریقے:
فرمایا۔یہ بات کہ خداتعالیٰ کو یاد کیسے ہو اور اس کا کیا طریقہ ہے تو یاد کے بہت سے طریقے ہیں مثلاًایک یاد ہوتی ہے محبت کی بنا پر، ایک ہوتی ہے خوسے اور ایک ہوتی ہے حیا سے پھر ان کی بھی چند قسمیں ہیں کہ اس محبت کامنشا اسکی ذات ہے ، یا اس سے مقصد ثواب ہے ، اسیطرح خوف کا حال ہے کہ خوف ذات کا ہے یا عقاب کا ، اور یہی حال حیا کا ہے کہ وہ ذات سے ہے یا محسن کے احسانات سے ، اس میں لوگوں کے طبائع اورمذاق مختلف ہو تے ہیں ، بعض ایسے ہوئے ہیں جن میں محبت ذات غالب ہو تی ہے ، یعنی محبوب کی ذات ایسی عظیم الشان ہے کہ مجبوراً اس سے محبت کرنی پڑتی ہے ، نہ وہ جنت حاصل کرنے کے لئے ذکر اور عبادت کرتے ہیں اور نہ دوزخ سے بچنے کے لئے صرف ذاتِ حق کا عشق ان کے لئے ذکر کا باعث بنا ہوا ہے ۔
اور بعض وہ ہیں جنکے ذکر اللہ کا منشاء حصولِ جنت ہے کہ ہم کو اس عمل سے جنت ملے گی ، دوزخ سے نجات ہوگی اس میں بھی کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ مقصود تو ذکر اللہ ہے وہ ہونا چاہیے اگر اس نیت سے ذکر کرتا رہا تو انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن وہ بھی آئیگا کہ اس ذاتِ حق سے عشق ہو جائیگا پھر اس کو بھی ذاتِ محبوب کی رضاء کے سوا کچھ مطلوب نہ ہوگا۔
ذکر مطلوب ہے خواہ عشق ذات کی بنا پر ہو یا محبت ثواب کی بنا پر:
فرمایا۔ جو لوگ ثواب کے لئے یا حصولِ جنت کے لئے عمل کرتے ہیں ان پر بعض غیر محقیقین کیوں اعتراض کرتے ہیں ، اور پھر جب کہ خدا تعالیٰ نے خود جنت کی رغبت دلائی ہے بلکہ اسمیں رغبت کرنے کا امر کیا ہے تو پھر کوئی وجہ اعتراض کی نہیں. چنانچہ ارشاد ہے سَابِقُوْااِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِن رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْاَرضِ ( سورہ حدید) ( تم کو چاہیے کہ ) تم اپنے پرودگا رکی مغفرت کی طرف دوڑو اور نیز ایسی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان وزمین کی وسعت کے برابر ہے۔
پس جنت کے حصول کی نیت سے عمل کرنے کو جو بعضِ معترض ایک گھٹیا اور ادنیٰ قسم کی حالت بتاتے ہیں وہ گویا خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے گھٹیا حالت کی کیوں ترغیب دی ہے، حا لانکہ یہ بلکل غلط ہے ، حق تعالیٰ نے جتنے بھی طریقے تعلیم فرمائے ہیں وہ سب عمدہ اور اعلیٰ ہی ہیں گھٹیا کوئی نہیں ، یہ بات اور ہے کہ ایک حالتِ رفیع اور دوسری ارفع ہو ، مگر محمود دونوں ہیں ، محض رضاء محبوب کے لئے ذکر کرنا مقامِ ارفع ہے مگر طالب جنت کی نیت سے ذکر کرنا بھی رفیع حالت سے کم نہیں بلکہ اس نیت سے ذکر کرنا کہ جنت ملے گی اور جنت کا سوال اس نیت سے کرنا کہ وہ خدا کی چیز ہے خدا کے رضاء کے ثمرہ میں دیدار کی جگہ ہے اور اس کے مانگنے کا حکم فر مایا ہے ، اور خود ہمارے حضور ﷺ نے اس کا سوال کیا ہے تو اس اعتبار سے بھی وہ مقامِ ارفع ہی ہے۔ چنانچہ حدیث میں ارشاد ہے کہ
اَللَّھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ الْجَنَّۃَ وَمَا قَرَّبَ اِلَیْھَا مِنْ قَوْلٍ اَوْعَمَلٍ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ ائے اللہ میں آپ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور ان چیزوں کا جو جنت کے قریب کرنیوالی ہے، وہ خواہ قول ہو یا عمل ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنت کا سوال کرنا کوئی گھٹیا حالت نہیں، اگر یہ گھٹیا حالت ہوتی تو حضورر ﷺ اس کا سوال نہ فرماتے، تو معلوم ہوا کہ یہ بھی ارفع حالت ہے ، اس نیت سے عمل کرنا کہ جنت ملے گی وہ در حقیقت رضاء محبوب کے لئے ہی عمل کرتا ہے عاشق کو تو محبوب کی ادنیٰ ادنیٰ سی چیز سے محبت ہوتی ہے پس حضور ﷺ کا جنت کا سوال کرنا اسی بناء پر تھا کہ وہ خدا کی چیز ہے اور اس کے مانگنے کا حکم فرمایا ہے اور جب محبوب کی یہ خواہش ہو کہ میری چیز مجھ سے مانگو تو اس وقت مانگنا ہی مو جبِ رضاء ہے ۔ ؂
چوں طمع خواہد زمن سلطان دیں
خاک بر فرق قناعت بعد ازیں
جب حق تعالیٰ ہی سے ہم طمع چاہیں تو پھر قناعت پر خاک ڈالو، عارف کامل تو خداتعالیٰ کی ادنیٰ نعمت سے بھی استغناء ظاہر نہیں کرتا ، چہ جا یئکہ جنت سے جو اعلیٰ نعمتوں میں سے ہے استغناء ظاہر کرے، نیز حضور ﷺکا جنت کا سوال اس بناء پر بھی تھا کہ وہ محل دیدار ہے تو درحقیقت یہ جنت کا سوال نہ تھا بلکہ محبوب کے دیدا ر کا سوال تھا، کسی نے خوب کہا ہے ۔ ؂
عاشقاں جنت برائے دوست میدارند دوست
یعنی جو لوگ عاشق ہیں وہ تو جنت اس لئے طلب کرتے ہیں کہ وہاں دوستوں سے ملاقات ہوگی چنانچہ کسی بزرگ کا ارشاد ہے کہ جب مجھکو یہ معلوم ہوا ہے کہ جنت میں دوستوں سے ملاقات ہوگی، اس وقت سے جنت کا شوق ہو گیا ، تو اس نیت سے کسی مومن کا جنت کا سوال کرنا اور اسکی طرف راغب کرنیوالی چیزوں پر عمل کرنا یہ مقامِ ارفع ہی ہے اور ایک بات اس سے بھی زیادہ باریک ہے، وہ یہ ہے کہ بعض دفعہ جنت کی طلب کا منشاء محض یہی نہیں ہوتا کہ وہاں خدا تعالیٰ کا دیدار ہوگا بلکہ اس خیال سے بھی اس کی تمنا کی جاتی ہے کہ ہم اس قابل کہاں کہ دیدار کی تمنا کریںآؤ کم ازکم جائے دیدار ہی کی زیارت کرلیں تو یہ بھی بڑی بات ہے ہمارے دادا پیر حضرت حاجی امد اللہ صاحب مہاجر مکی قدس سرہ کا ارشاد کہ وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جو حضور ﷺ کے دیدار کی تمنا کرتے ہیں، ہم تو اپنے آپ کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ قبہ خضرا ہی کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ سکیں. آہ ؂
مرا اززلفِ تو موئے پسندست
ہوش دادہ مدہ بوئے پسندست
مجھکو تو تیری زلف کا ایک بال بھی کافی ہے ( ائے دل ) ہوس اختیار نہ کر کہ یہاں تو اگر خوشبو بھی میسر آجائے تو بھی غنیمت ہے . اور بعض دفعہ جنت کے سوال کا منشاء غلبۂ توا ضع بھی ہوتا ہے کہ عاشق اپنے کو وصالِ محبوب کے قابل ہی نہیں سمجھتا اس لئے تمنا کرتا ہے کہ میں اس کے دیکھنے لائق ہی نہیں کاش اس کے شہر ہی میں جا رہوں ’’ اور کبھی اپنی احتیاج اور افتقار ظاہر کرنے کے لئے جنت کی تمنا کی جاتی ہے کہ ائے اللہ ! میں آپ کی رضاء کا تو محتاج کیوں نہ ہوتا میں تو جنت تک کا محتاج ہوں . جو کہ رضاء کے مقابلہ میں کہیں ادنیٰ درجہ کی چیز ہے تو غرض مختلف لوگوں کی مختلف نیتیں ہو تی ہیں جنکی وجہ سے جنت کا سوال کیا جاتا ہے اور ان چیزوں پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو اس کے قریب کرنیوالی ہیں مقصود سب کا رضاء الہٰی ہی ہے مگر اس کے حصول کے طریقے مختلف ہیں .یہاں تک تو محبت کی قسموں کا ذکر تھا کہ خوا ہ محبت بلا واسطہ یا بواسطہ ؂
بخت اگر مددکند دامنش آورم بکف
گر بکشد زہے شرف ور بکثم زہے طرب
قسمت نے اگر یا وری کی تو اس کا دامن پکڑ لوں گا ، اگر میں نے اپنی
طرف کھینچ لیا تو اچھا اور اگر اس نے کھینچ لیا تو بہت ہی اچھا ہے۔
حق تعالیٰ سے خوف کی مختلف صورتیں :
فرمایا کہ محبت کی مختلف صورتیں اسی طرح خوف کی بھی مختلف صورتیں ہیں. کسی کو حق تعالیٰ کی ذات کا خوف،اسکی عظمتِ شان اور جلالت کی وجہ سے ہوتا ہے اور کسی کو آخرت کے عذاب وعقاب کا خوف ہوتا ہے، یہ دونوں طریقہ اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں ، چنانچہ حق تعالیٰ نے بھی اپنے عذاب وعقاب سے بندوں کو ڈرایا ہے بعض طبائع پر جلالت وعظمتِ حق کا انکشاف نہیں ہوتا ان کے لئے خوفِ عذاب ہی گناہوں سے مانع بن جاتا ہے بس جو لوگ عذاب کے خوف سے عمل کرتے ہیں ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں اور ان کی یہ حالت گھٹیا نہیں بلکہ رفیع حالت ہے، گو اس سے ارفع اور بلند حالت یہی ہے کہ حق تعالیٰ کی عظمت اور اس کی جلالتِ شان منکشف ہو کر گنا ہوں سے مانع ہو ، پس یہاں تک کی محبت دو قسموں کا بیان ہو۔ جس کا دوسرا نام یادِ الٰہی بھی ہے ، یعنی یاد کی دوقسمیں بیان ہو ئیں کہ ایک یادمحبت کی وجہ سے ہو اور ایک یہ کہ یادخوف کی و جہ سے ہو۔
یادِ الٰہی کی تیسری قسم اور بھی ہے۔جسکو حیا کہا جاتا ہے اور یہ تیسری قسم ان لوگوں کے لئے ہے جن کے طبائع پر حیا کا غلبہ ہے اور اسی غلبۂ حیا کی وجہ سے ذکر اللہ اور اعمالِ صالحہ کرتے ہیں ، ان کو اپنے خالق اور محبوب کی یاد سے غافل ہوئے شرم آتی ہے، خوف یا محبت ان کے لئے ذکر وطاعت کا محرک نہیں بنتا بلکہ محض حیا کی وجہ سے سب کچھ کرتے ہیں،گویہ حضرات محبت سے خالی نہیں ہوتے، البتہ اس کا غلبہ نہیں ہوتا ،غلبہ صرف حیاء ہی کا ہوتا ہے ،غرض،کسی پر خوف کا غلبہ ہے، کسی پر محبت کا ، اور کسی پر حیاء کا ، جس پر جس صفت کا غلبہ ہوا وہی اس کے لئے ذکر وطاعت کا سبب اورداعی بن گیا ۔ اگر کسی میں حیاء غالب ہے تو یہی صفت اس کے لئے ذکر اللہ کا باعث بن جاتی ہے، خواہ یہ حیاء اس کی ذات سے ہو ، یا اسکے انعامات واحسانات کی بنا پرہو۔
ذکر کا کوئی متعین اثر مطلوب نہ ہونا چاہیے:
ذکر کی اتنی صورتیں ہیں اور ان سب کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے اصول الیٰ المطلوب کو کسی طرح مطلوب اور مقصود تک رسائی ہو جائے تو پھر ذکر وشغل کرکے اس بات کے خواہش مند بنو کہ ہم کو خوف یا اس کی محبت درجۂ غالب میں حاصل ہو جائے یا ہم پر فلاں کیفیت طاری ہو جائے، کیونکہ یہ سب چیزیں غیر اختیاری ہیں اور غیر اختیاری امور کا بندہ مکلف نہیں اور یہی وجہ ہے کہ عرصہ تک ذکر کرکے یہ چیزیں حاصل نہ ہوں تو افسوس کرنے لگتے ہیں کہ ہائے ہم پر فلاں کیفیت کیوں نہیں غالب ہو تی ، تم کو کیا خبر ہے کہ تمھارے لئے کون سی کیفیت منا سب ہے اور کونسی نہیں، خوف کا راستہ منا سب ہے یا محبت وحیاء کا وہ کسی کوہنسا کر پہو نچاتے ہیں، کسی کو رلاکر ، اور کسی کو نہ ہنسا تے ہیں اورنہ رلاتے ہیں بلک حسرت اور پریشانی میں مبتلا رکھ کر پہو نچاتے ہیں،
کسی نے خوب کہا ہے ؂
بگوش گل چہ سخن گفتۂ کہ خند ہ ا ست
بعندلیب چہ فر مودۂ نا لاں است
تم نے پھول کے کان میں کیا بات کہدی کہ وہ ہنس رہاہے اور بلبل سے تم نے کیا کہدیا کہ وہ رورہی ہے۔
غرض ، جس کو محبوب کے ہاتھ سے جو بھی مل گیا اسی کو اپنے حق میں بہتر اور اچھا سمجھنا چاہیے اور اس پر راضی رہنا چاہیے جنھوں نے اس راز کو سمجھ لیا وہ ہر حال میں راضی رہتے ہیں، اگر ان پر خوف کا غلبہ ہے تو محبت کے غلبہ کے طالب نہیں ہوتے، اگر کسی پرحیا غالب ہے تو وہ محبت اور خوف کا طالب نہیں ہوتا ، وہ ہر حال میں یہی کہتا ہے ؂
بدر دو صاف ترا حکم نیست دم در کش
کہ آنچہ ساقی ما ریخت عین الطاف است
شراب گدلی ہے یا صاف تم کواس بارے میں رائے زنی کا کوئی حق نہیں، خاموش رہو کہ ساقی نے جو کچھ بھی پیمانے میں ڈالدیا اس کا عین کرم ہے۔
بیعت میں اعتراض فاسد:
فرمایا۔ کوئی اس لئے بیعت ہو گیا کہ تندرستی اچھی ہو جائے ، کوئی اسلئے بیعت ہو گیا کہ گھر میں کچھ برکت ہو جائے ، کوئی اسلئے ہو گیا کہ آمدنی اچھی ہو جائے ،قرضہ ادا ہو جائے ،کوئی اس لئے ہو گیا کہ شیخ سے نسبت ہو جائیگی تو لوگوں کو ہمارے اوپر اعتماد ہو جائے گا ، کوئی اسلئے ہو گیا کہ کہ لوگوں کی رجو عات ہوجائینگی ، لوگ ہم پر اعتماد کر کے اچھا اعتقاد قائم کر لیں گے کہ فلاں کی طرف منسوب ہے ۔یہ سب دنیا داری کی باتیں ہیں اب اصلاح ہو تو کس طرح ہو ، قلب کے اندر تزکیہ آئے تو کس طرح آئے اور خلوت میں اور جلوت میں پاپندی پوری استقامت کے ساتھ کس طرح ہو کہ خلوت اور جلوت یکساں ہو جائے، لیکن دونوں یکساں نہیں ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی نظر مآل ( انجام) پر نہیں ہے اس لئے اعمال میں کو تاہی ہے اگر اس کی نظر مآل پر ذرہ برابر ہو تی تو اسکے دل میں تکبر ہو نے کی ذرہ برابر گنجائش نہ تھی اور جن کی مآ ل پر نظر تھی انھوں نے بقسم کہدیا کہ ہم کتے اور خنزیر سے بھی بدتر ہیں تومآل پر نظر ہونے کی وجہ سے عمل چلا گیا یعنی اس پر نظرنہیں رہی البتہ امل ( امید) رہ گئی کہ اپنے اعمال پر تو نظرنہیں لیکن اللہ کی عطاء کی امید ہے اسی کو یہاں لفظ امل سے عمل کے قافیہ کی لطافت سے ذکر کردیا گیا ہے ورنہ اصطلاح میں طولِ امل لمبی لمبی تمناؤں کوکہتے ہیں ، یہ طولِ امل حرام ہے، یہ باطنی مرض ہے ، اب یہ ہوجائے۔اب وہ ہو جائے اب یہ کروں اب وہ کروں ، بیٹے کی تمنا وہ ہوگیا تو اس کے نکاح کی تمنا ہے نکاح ہو گیا تو پوتے کی تمنا پوتا ہو گیا تو اس کے نکاح کی تمنا ہے وہ بھی دیکھ لوں، یہ طولِ امل آگیا تو عمل چلا گیا . جب لمبی لمبی تمنائیں آرزوئیں، آتی چلی گئیں تو بھلا اعمال وتزکیہ کہاں آوے گا ۔ اگرآبھی گیا تو تمنائیں آنے سے چلا گیا ۔
دین ہمیشہ باقی رہنے والا ہے :
فرمایا۔دنیا خوبی اور کمال کی چیز نہیں ہے بلکہ نقص اور زوال کی چیز ہے ، برخلاف اس کے دین ہمیشہ باقی رہنے والا ہے، دنیا میں بھی کام دینے والا ہے اور آخرت میں بھی ساتھ رہے گا . حدیث پاک میں آیا ہے کہ جب مردہ قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو کبھی عذاب اس کے داہنے جانب سے آیئگا تو نماز آڑے آجائیگی ، کبھی بائیں جانب سے آئے گا تو روزہ آجائے گا کبھی سر کی طرف سے عذاب آئے گا کوئی اوردینی بات آڑ بن جائے گی تو دیکھئے آنکھیں مچتے ہی دنیا اورما فیہا تو یہیں رہ گیا کچھ بھی کام نہ آیا اور اگر آیا تو دین کا م آیا ،پھر جنت میں پہونچ کر ہر قسم کی غیر فانی نعمتیں ہو نگی اور دنیا میں بھی دین کی برکت سے عزت وعظمت حاصل ہو تی ہے، دیکھئے بزرگ اور عالم دین حضرات کے پاس دین کے سوا اور کیا ہے اس کے بادجود بڑے بڑے رؤسا ،امرا ، سلاطین ان کے پاس آکرسر جھکاتے ہیں دیکھ لیجئے حضرت خواجہ معین الدین چستیؒ جو اس وقت حیات بھی نہیں ہیں بلکہ زیرِ زمیں ہیں مگر بڑے بڑے امرا، رؤسا ان کے در پر جا کر سر جھکاتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا ناجائز ہے مگر اس وقت جواز ونا جواز سے بحث نہیں ہے مقصد یہ ہے کہ ان کو یہ مقام کس چیز سے حاصل ہوا ہے .صرف دین کی پابندی سے حاصل ہوا ہے۔
’’ ایک انگریز سیاح عرس کے زمانہ میں اجمیر شریف سیر کرتا ہوا گیا سیر وسیاح سے فارغ ہوکر جب لندن پہو نچا اور اپنا سفر نامہ لکھا تو اس میں لکھتا ہے کہ میں نے ایک مردہ کو دیکھا کہ پورے ہندوستان پر حکومت کر رہا ہے عزیزانِ من یہ خواجہ کی حکومت کس چیز کی بدولت تھی دین ہی کی بدولت تھی اس تمام بیان سے اچھی طرح ثبوت ہو گیا کہ بہتری اورعمدگی اور برتری کی چیز دین ہے نہ کہ دنیا، دنیا تو بہت ا دنی اور ذلت کی چیز ہے اور فانی ہے، فانی نہ طلب کے قابل ہے نہ قدر کے لائق ہے البتہ کسب کے قابل ہے کہ کَسَبُ الْحَلَا لِ فَرِیْضَۃٌبَعْدَالْفَرِیْضَۃِب رہا یہ سوال کہ پھر اس دنیا کے زہر کے رفع ہو نے کا کیا علاج ہے تا کہ اس سے نجات ہو اس کا علاج ذکر اللہ، علمِ دین اور بزرگوں کی صحبت ہے ذکر اللہ سے اللہ کی محبت پیدا ہو گی علمِ دین سے اطاعت کا جذبہ ابھرے گا بزرگوں کی صحبت سے روح میں اطاعت اخلاص پیدا ہوگا اور عمل کی صحت ہو گی یہ تمام چیزیں مل کر اس کام کو انشاء اللہ تعالیٰ بنا دیں گے۔
نکاح کا ایک عجیب واقعہ:
ایک جگہ عجیب واقعہ ہوا کہ ایک باپ نے اپنی بیٹی کیلئے بہت سا مال جہیز تیارکیا اور لڑکے والوں کو دکھا یا ہر قسم کا سامان تھا لیکن لڑکے والے کو اسے دیکھ کر بھی گرانی ہو ئی ۔ جب قاضی نکاح پڑھانے بیٹھے اور جہیز کا نمبر آیا تو لڑکی والے نے بہت اونچا مہر بتلایا لڑکے والے نے کہا یہ تو بہت ہے لڑکی والے نے کہا اگر یہ بہت ہے تو میں نکاح نہیں کرتا جب میں اتنا مال جہیز میں دیا اور تمھاری نظر میں نہیں آیا تو میں اس سے کم پر نکاح کیسے کردوں کیا میں اپنی لڑکی تمھارے یہاں بھیج کر ذلیل کراؤں ۔ چنا نچہ نکاح نہیں ہوا۔
چار چیزیں حاصل ہو گئی دنیا حاصل ہو گئی :
حدیث شریف میں ہے زبان ذاکر ہو ، دل شاکر ہو ،جسم صابر ہو زوجہ ناظر ہو۔ حدیث میں تو دوسرا لفظ ہے میں نے قافیہ کی وجہ سے کہدیا ناظر یعنی انتظام ونگرانی کرنیوالی نا ظر کے معنیٰ یہی ہیں تو زبان کیا ہو ، مومن کی ، ذاکر اور دل شاکر اور جسم صابر اور بیوی ناظر یعنی اپنی بھی نگرانی کرے کہ عفت وعزت سے رہے اور شوہرکے گھر کی چیزوں کی بھی نگرانی اور انتظام کرے تو اگریہ چاروں چیزیں مسلمانو ں کو مل گئیں تو اسی حدیث میں ہے کہ اس کو کل دنیا مل گئی۔ تو جس کو یہ چار چیزیں حاصل ہو ئیں اس نے جنت کا لطف وفیض اٹھا لیا تو صبر میں معیت ہے اور شکر میں زیادتِ رحمت ہے ۔ لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَنَّکُمْ ، اگر تم شکر کروگے تو میں تم کو زیادہ دوں گا اسی لئے کھانے کے بعد کی دعا ہے اَلْحَمْدُِ ﷲِ اَطْعَمَناَ وَسَقاَناَوَجَعَلَناَ مِنَ الْمُسْلِمیْن

اسلام پر شکر کرنا بقاء اسلام پر مہر ہے :
اسی میں وجعلنا من المسلمین، بڑھا دیا تو یہ شکر کرنے سے مہر لگ گئی ، اپنے مسلمان ہو نے پر ، کیونکہ جب اسلام پر شکر کرتا رہے گا تو حسبِ وعدہ اسلام زیادہ ہوتا رہے گا اور آخر دم تک مسلمان بنا رہے گا، یہی مہر لگنا ہے تو اسلام پر شکر کرنے کا خیال رکھنا اور کیسی زحمت ہے کہ کھانے پر شکر کے ساتھ مسلمان ہو نے پر شکر کو ملا دیا کیونکہ کھانے کے بعد طبعی طور پر شکر کیا ہی جاتا ہے تو اسی کے ساتھ اسلام کا بھی شکر ہو جائے گا ، تو حق تعالیٰ نے فرمایازَھْرَۃَالْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَھُمْ فِیْہِ۔ خبر دار ! اس دنیوی زینت، زیبائش ، بہار کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی مت دیکھنا، یہ آزمائش کی چیزیں ہیں اور ان سے بچنے کیلئے ایک چھوٹا سا مراقبہ بھی تعلیم فرمادیادیاکہ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْ . جب باہر نکلو تو یہ سوچو کہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں تمھارے باہر کے چلنے پھر نے کو ، اٹھنے بیٹھنے ، ملنے جلنے کو ، دیکھنے بھالنے کو، بازاروں میں سیر وتفریح کو، بازاروں میں، پہاڑوں میں ، دریاؤں میں، جہازوں میں سفر کرنے کو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں تمھارے چلنے پھرنے کو، اللہ تعالیٰ جانتے ہیں تمھارے گھروں میں رہنے سہنے کو، کیا مطلب! ہو شیار؟ آنکھوں کی حفاظت، زبان کی رکاوٹ ، کانوں کا بہرہ پن، قدم کا سوچ کر اٹھانا، غافل ہوکر نہیں ، مجھکو یاد رکھ کر قدم اٹھانا باہر اور گھر میں یوں مت سمجھنا کہ میں اپنے گھر میں ہوں جس طرح چاہو رہو سہو نہیں! بلکہ گھر میں بھی سوچوکہ بیوی کے ساتھ بات کس طرح ہو رہی ہے اولاد کے ساتھ کس طرح ہو رہی ہے ۔
خانقاہ خواہ مخواہ نہیں :
واہ، خوب، بعض لوگ خانفاہ کو خواہ مخواہ سمجھتے ہیں ارے ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ بلا خانقاہ کے کام نہیں چلتا اور اپنے شیخ کونفع رسانی میں بالکل یکتا سمجھے اگر یہ عقیدہ نہیں ہے تو اپنے گھر جاؤ ،یہاں کیوں آئے تھے۔
شیخ سے کیسی عقیدت ہونا چاہیے:
حضرت والا ؒ (حضرت تھانویؒ ) نے سنایا کہ حضرت مولانا گنگوہیؒ فرماتے تھے کہ اگر کسی مجلس میں حضرت جنیدؒ وشبلیؒ ہوں اور حضرت حاجی صاحبؒ بھی ہوں تو ہم جنیدؒ کی طرف رخ بھی نہ کریں گے حضرت حاجی صاحبؒ کو ہی دیکھیں گے ہاں حضرت حاجی صاحب حضرت جنیدؒ سے حاصل کریں جو کریں کیونکہ ہمارے شیخ حضرت حاجی صاحبؒ ہیں، لا الہ الا اللہ ، یہ ہے اعتقاد شیخ کے ساتھ تو خانقاہ خواہ مخواہ نہیں ہے۔
آپ ﷺ عالمِ اجساد میں بشر اور ابتدائے خلق میں نور ہیں :
یہ الگ بات کہ اس عالمِ اجسام جس کو دنیا کہتے ہیں آپ ﷺ اپنے کو بایں جسم بشر فرما رہے ہیں لیکن ابتدا ء خلق میں آپ ﷺ کیا تھے اس کو آپ ﷺ نے ایک دوسری حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ اول خلق میں اس خالق کی طرف سے میں ’’ نور ‘‘ تھا سیر کی روایت با لمعنیٰ ہے ۔
اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ ۔ پھر وہ نور تقسیم ہوا، حضرت والا ( حضرت تھانویؒ ) نے بھی ’’ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ‘‘ کے اندر رسول پاک ﷺ کے لئے کیا لکھا ہے؟ ’’ نور‘‘ تو کیا ہماری طرف سے انکارِ نور ہوا؟نہیں تو بلکہ اقرارِ نور ہوا باعتقادِ صحیح ، پھر وہ نور ذاتِ باری تعالیٰ نے اس عالم کے اندر بھیجا ، ’’ با لباسِ جسم اس لباسِ جسم کا نام کیا رکھا؟ ’’ بشر‘‘ ۔
مشاہدۂ حق :
اللہ تعالیٰ نے آخرت میں جو یہ روحِ انسانی مشاہدۂ باری تعالیٰ کے اندر تھی ، مشاہدۂ ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ مشغول تھی اسی مشغولی کے لئے تم کو مجاہدہ کے ساتھ اس عالم کے اندربھیجا ہے۔ اس مشا ہدہ کے ساتھ اس عالم میں۔ مجا ہدہ کیلئے بھیجا ہے تا کہ اس مشاہدہ کے اندر چار چاند لگ جاویں اس مشاہدہ کے اندر جو نور ہے ا س عا لمِ ارواح کے اندر یہ اس مجاہدہ کے ساتھ اس عالم میں جاکر نورٌ علیٰ نور ، ہو جاوے تو یہ عالم اس انسان کے اندر جس میں یہ رہتا ہے مجاہدہ کا عالم ہے۔لیکن یہ جد وجہد یہ کوشش ومشقت اس عالم میں ابتدائے عالم کے ساتھ ہے۔اور جب اس ابتدائے عالم کے ساتھ جد وجہد اور مشقت کے اندر لگا رہا تو ہماری زبان میں مشق اس درجہ مشقت کے اندر پڑے رہنے میں ہوگی کہ اب وہ مشقت طبیعت ہو گئی اب وہ مشقت ، مشقت نہ رہی ، وہ مجاہدہ ، مجاہدہ نہ رہا اب تو شیر اور شکر دونوں مل کر ایک ہو گئے. شِیر کے معنیٰ دودھ اور شکر کے معنیٰ میٹھا. جب دودھ نکالا جا رہا تھا تو مشقت تھی اور جب شکربنائی جارہی تھی تو مشقت تھی اور جب بنی بنائی آگئی اب مشقت کا نام ہی نہیں ہے، اب یہ غلامیت ، عبدیت ، عبادت کے ساتھ مشقت سے نکل کر طبیعت بن گئی۔
روح کا مشاہدۂ حق :
عالمِ ارواح کے اندر، عزیزانِ من ! مکرمانے بندہ!! یہ بیکار نہ تھا مشاہدۂ حق کے اندر تھا مگر ترقی سے رکا ہوا تھا اور ترقی تھی موقوف مجاہدہ کے اوپر تو اس عالم کے اندر ذاتِ باری تعالیٰ نے اس انسان کو اس مشاہدہ کے ساتھ جو بھیجا ہے . مجاہدہ کیلئے بھیجا ہے جس کو ذاتِ باری تعالیٰ نے قرآن پاک کے اندر ذکر فرمایا ہے جگہ جگہ۔اب جو اس خیال میں آیت آجاوے. احقر نے پڑھا تھا اَحَسِبَ النَّاسِ اَن یُّتْرَکُو اَن یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا ، تمھارے صرف اٰمنا،کہ ایمان لے آئے کہنے پر آزادچھوڑ دیں اور تم کو آزمایا نہ جاوے ، نہیں ، بلکہ تم کو آزمایا جاوے گا ۔ طرح طرح سے تم کو آزمایا جاوے گا۔ وہ طرح طرح کی باتیں احقر نے پیش کی تھیں کہ کھانہ،پینا وغیرہ وغیرہ جس میں کھیتی، کیاری وغیرہ مزدوری اور ملازمت وغیرہ ساری چیزیں آپ ﷺ سامنے زندگی کے شعبے کی حتیٰ کہ سانس لینا یہ بھی پیش کردی ۔
پاس انفاس:
پاس انفاس بمعنیٰ نفس کے معنیٰ سانس کے ہیں یعنی سانسوں کا لحاظ رکھنا کہ بدون اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد کے سانس کا آنا جانا نہ ہو ۔پاس کے معنیٰ ہے لحاظ سانس کا آنا جانا غفلت کے ساتھ نہ ہو ۔اللہ تعالیٰ کے یاد کے ذکر کے ساتھ ہو بلا تلفظ بلا حروف، بلا حرکتِ لسان۔ اس کے معنیٰ ہیں دھیان، اس کے معنیٰ ہیں یاد اور دل ہی دل کے اندریاد بھی تو ذکراللہ ہی ہے۔ وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ ۔یہ نفس کا مطلب اس میں حرکتِ لسان کہاں ہے تحرک کے ساتھ کہاں ہے۔
ہمہ وقت ربو بیت:
رب العالمین تو ہر وقت تیری تربیت کرتے رہتے ہیں اس سے زیادہ اور کیا احسان ہوگااس سے زیادہ ہر وقت کا شکر کیا واجب ہوگا ۔ ایک جگہ و اذْکُرُو اللّٰہَ ہے اور یہاں پر وَ اذْکُرْ رَبَّکَ ہے۔تربیت کا تعلق اندر سے ہے تیری ہر وقت وہ تربیت کرتے رہتے ہیں۔ تیراذکر توہر وقت رہتا ہے کسی اعتبار سے بھی ہو کسی وجہ سے بھی ہو۔پس اگر خصوصیت کے ساتھ تم اللہ تعالیٰ کی اپنی طرف توجہ خاص چاہتے ہو وہ تو ہر وقت متوجہ ہے ان کی تو ہر وقت توجہ ہے ۔ہر وقت نزولِ رحمت ہے۔
ایمان کا تقاضا ہے وفاداری :
ایمان لاکر تم اسکے ہو گئے اور جب اس کے ہوگئے تو خلاف کرنا یہ وفاداری ہے یا بے وفائی۔اس کو کیا کہیں گے۔بے وفائی۔
ذلت کے کاموں سے بچو:
اور ذلت سے اپنے آپ کو بچانا فرض ہے فرمایا رسول اللہﷺ نے لَا یَنْبَغِیْ لِلْمُوؤ مِنِ اَن یَّذِلّنَفْسَہُ،مومن کی شان سے یہ نہیں ہے کہ وہ ایسا طریقہ اختیار کرے جسمیں لوگوں کی نگاہوں میں ذلت ہو ایسی حرکتوں کو ایسے عملوں کو، ایسے فعلوں کو ایسے کھیلوں کوجن میں ذلت ہے چھوڑدو،مثلاََ اہلِ علم کا طلبہ کا بستی والوں کے ساتھ جوڑ لگانا بستی والوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، محلہ میں،قصبہ میں گھومنا ، چلنا پھرنا یہ کوئی عزت ہے اس کو ذرا سوچو ، یہ کوئی عزت کی بات ہے ، یہ ذلت کی بات ہے دوکانوں پر جاکر بیٹھنا اٹھنا ، عامی لڑکوں کے ساتھ دوستانہ اٹھنا بیٹھنا ، جانا آنا یہ ذلت کی بات ہے یا عزت کی بات ہے اسکو تو چھوڑتا نہیں ہے اور کسی نے کچھ کہہ دیا تو احساسِ کمتری تو جو ذلت کی بات ہیں ان کو چھوڑ دو اس میں کمتری ہوجاتی ہے۔ لوگوں کی نگاہوں کے اندر تم ذلیل ہو تے ہو ، تم ہلکے ہو تے ہو ، تمھارا اعزاز جاتا ہے ، اگر تمھیں کھیلنے کا شوق ہے تو اپنے لڑکوں کے ساتھ کھیل لو یہ بستی والوں کے ساتھ کھیل کیسا ، باہر جاکرباہر والوں کے ساتھ کھیلنا کیسا اور یہ گھروں میں آجکل کیا لگا ہوا ہے، ٹیلی ویژن وہاں اسمیں کھیلیں آرہی ہیں، ان کے گھر جا جاکر دیکھنا کیسا، کیا اس میں تو ہین وذلت نہیں ہے خاص کر طالب علم کے لئے کہ کیا کہیں گے، وہ نماز کا وقت ہے، نماز کے وقت ٹیلی ویژن پر بیٹھا ہوا ہے، طالب علم اور دیکھ رہا ہے سن رہا ہے تو وہ گھر والے کیا خیال کریں گے، یہ دوسری بات ہے کہ کوئی لحاظ کی وجہ سے کچھ نہ کہے یہ ذلت ہے یا نہیں ، اگر ایسا ہی شوق ہے اگرچہ یہ شوق اچھا نہیں ہے مگر خیر آپس ہی میں کھیل لو، بستی والوں کے ساتھ نہ کھیلو ، باہر جاکر نہ کھیلو ، دل بہلا لو ۔اسمیں ہار جیت کا خیال مت کرو کہ روٹھنا شروع کردو، لڑنا شروع کردو کہ میرے تو بارہ رن بنے ہیں اور تو دس ہی کہہ رہا ہے، یہ تو تفریح کیلئے ہے ذرا جسم کھولنے کے لئے ہے، جسم کو بنانے کے لئے ہے اسمیں ہار جیت کی کیا بات ہے جو بگڑتے ہو سکون سے رہو، دوستانہ کے ساتھ رہو، محبت سے رہو۔
جہادِ اکبر بالنفس ہے:
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ اکرامؓ جہاد کفار سے لوٹ کر آئے۔ تو آپ ﷺ نے حوصلہ افزائی اور اہم کی طرف انتقالِ ذہنی کے لئے فرمایا کہ ہم جہاد اصغر سے جہادِ اکبرکی طرف لوٹ آئے ۔ اب یہاں سے یہ سوال ہوتا ہے کہ جب جہاد کفار جہادِ اصغر ہے تو جہادِ اکبر کیا ہے؟ تو اس کا جواب رسول اللہﷺ نے دوسری حدیث میں دیا ہے. آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اَلْمْجَاہِدُ مَنْ جَاہَدنَفْسَہُ ’’ آواز آئی ‘‘ حضور ﷺ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ فرما رہے ہیں جس کا ترجمہ ہے کہ حقیقی مجاہدہ وہ جو اپنے نفس سے جہاد کر ے یعنی جس نفس میں خیر کے مقابل شر رکھا ہوا ہے اس کو زیر کرنے کے لئے ، اس پر پوراقابو پانے کے لئے اس کو پوراماتحت بنانے کے لئے اس کا مقابلہ کر رہا ہے ، یہ ہے جہادِ اکبر۔
مجاہدہ کے بعد بے فکر نہ رہے:
آپ مہاجر بھی ہیں ، آپ مجاہد بھی ہیں اور مجاہد اور مہاجر کا کام کیا ہو نا چاہیے ؟ نفس سے جہاد اور نفس سے ہجرت،جب نفس سے جہاد اور نفس سے ہجرت ہو جائے تو بے فکر نہیں ہونا چاہیے بلکہ نفس کے مقابلہ میں کمر بستہ رہنا چاہیے دشمن کتنا ہی کمزور ہو اس کو قوی جانو اسکو کمزور مت جانو ،وہ اپنے داؤ پر ہے یہ خیال مت لاؤ کہ جو ہوگیا وہ ہوگیا ، ہاں! یہ مت خیال کرو، وہ اپنے داؤ پر ہے کچھ مسدود ہو گیا ہے مرعوب ہو گیا ہے معدوم نہیں ہوا۔
ازالہ اخلاقِ رذیلہ کا علاجِ کلی :
ایک ایک اخلاقِ رذیلہ ذمیمہ کا کہاں تک علاج کرتے رہو گے جب فضلِ الٰہی سے توفیق الٰہی سے اپنے حضرت شیخ مرشد کی برکت سے فنائیت آگئی تو اخلاقِ ذمیمہ ایک ساتھ نکل گئے کیا پھر بھی تکبر رہا کیا پھر بھی حسد رہا ، کیا پھر بھی حرص رہی، کیا پھر بھی طمع ہے، کیا پھر بھی ریا ہے کیا پھربھی طولِ امل ہے یعنی لمبے منصوبے، کیا پھر بھی غضب ہے، کیا پھر بھی کینہ ہے ؟ فنائے حقیقی آئی تو اخلاقِ ذمیمہ کا بھی فنا ہو گیا ایک خلق ذمیم کا علاج کب تک کرتے رہو گے ، اسکے لئے تو عمرِ خضر بھی کافی نہیں۔ یہ سب یک لخت ویکمشت چلے جائیں ایک بات عرض کروں بڑے کام کی ہے کہ بہت سی چیزیں خیالی ہو تی ہیں بس خیال سے خالی ہوجاؤ تو ان چیزوں سے خالی ہوگئے، کہا ں حسد ، کہاں ریا، کہاں تکبر، کہاں غصہ، کہاں بغض وکینہ، یہ سب خیالی باتیں ہیں ، ان سب سے یکلخت خالی ہو جاؤ تو خیالات سے خالی ہو کر یکسو ہو کر ، ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ ؂
یک چشم زدن غافل ازاں شاہ نباشی
شاید کہ نگا ہِ کند وآگاہ نباشی
( آنکھ جھپکنے کی مقدار بھی اس شاہ سے غافل مت ہو کہ شاید نگاہ رحمت فرمادیں اور تو باخبر نہ ہو) رسول اللہؓ ﷺ اپنے واسطے دعا فرمارہے ہیں جو درحقیقت ہمارے واسطے سبق ہے کہ اللھم لا تکلنی الیٰ نفسی طرفۃ عین ( ائے اللہ مجھے آنکھ جھپکنے کی مقدارمجھے میرے نفس کے سپرد نہ فرما ) یہ فنا ہی تو ہے
آنکھ ہر وقت کام کرتی ہے:
آنکھ ہر وقت کام کرتی ہے، اگر تنہا ہے تب بھی کام کرتی ہے اگر کوئی اور ہے تب بھی کام کرتی ہے، گھر سے باہر نکلے تو آنکھیں کام کرینگی ورنہ چلے گا کیسے وہ تو کھلی رہیں گی ، زبان تو نہیں کام کریگی ، کان تو نہیں کام کرینگے ، آنکھ کام کرے گی۔ لہذا میں ایسا اپنی طبیعت کے اندر چیز کو قائم کرو ں اس کو مضبوطی سے قائم کرنے کے بعد آنکھ میری غلطی نہ کرسکے۔
ہر سانس عبادت ہے:
اس عبد کی تو زندگی کا ہر پہلو زندگی کا ہر عمل زندگی کا ہر سانس عبادت ہے یہ نہیں کہ تو عبادت کرے اللہ کی اور نماز پڑھے روزہ رکھے کسی کے پاس مال ہے ، زکوۃ دینے کا موقع ہو یا حج کرنے کا موقع ہو یا قرآنِ شریف کی آیت تلاوت کرنے کا موقع ہو یا کسی کوشوق ہو اللہ تعالیٰ کا نام لینے اور ذکر کرتے رہنے کا۔ کوئی کام اس کا متعین نہیں آپ کو تو سانس کی بھی اجازت نہیں ہے کہ جس طرح چاہیں لے لیں۔ ہم انسان ب
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
ہر سانس عبادت ہے:
اس عبد کی تو زندگی کا ہر پہلو زندگی کا ہر عمل زندگی کا ہر سانس عبادت ہے یہ نہیں کہ تو عبادت کرے اللہ کی اور نماز پڑھے روزہ رکھے کسی کے پاس مال ہے ، زکوۃ دینے کا موقع ہو یا حج کرنے کا موقع ہو یا قرآنِ شریف کی آیت تلاوت کرنے کا موقع ہو یا کسی کوشوق ہو اللہ تعالیٰ کا نام لینے اور ذکر کرتے رہنے کا۔ کوئی کام اس کا متعین نہیں آپ کو تو سانس کی بھی اجازت نہیں ہے کہ جس طرح چاہیں لے لیں۔ ہم انسان بقبولِ ایمان بالخصوص بقولِ شخصے ہمارا بال بال بندھا ہوا ہے جکڑ بند ہے. جب سانس اندر جارہا ہے تو کسی کی بڑائی کے خیال کے ساتھ باہر آرہا ہے تو کسی کی بڑائی کے خیال کے ساتھ اسلئے انسان جو ہے اسکی ہستی غلامیت کے ساتھ ہے ملازمتی حیثیت سے نہیں ہے کہ ایک کام مقرر ہے ۔
اشد سے مراد:
فرمایا کہ اس آیت وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّالِلّٰہِ۔میں اشد سے مراد ( محبت کا اعلیٰ درجہ) عشق ہے اگر یہ عشق ( سالکین کے قلب میں ) سچا ہوگا تو کبھی نہیں نکلے گا ۔
وقت بڑی قابل قدر چیز ہے :
فرمایا۔ وقت کی بڑی قیمت ہے، بڑی قدر ہے جس چیز کی حق تعالیٰ قسم کھالیں وہ اپنے درجہ پر بڑی قابلِ قدر ہے وَالْعَصْرِاِنَّ لْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ زمانہ کی قسم انسان یقیناْ ٹوٹے میں ہے دیکھئے زمانہ کی حق تعالیٰ قسم کھارہے ہیں یقیناْ وقت بڑی عظمت کی چیز ہے ۔
حالات بدلتے ہوئے قدرتِ خداوندی کو دیر نہیں لگتی:
فرمایا ۔ حالات بدلتے ہوئے قدرتِ خداوندی کودیر نہیں لگتی ، اس لئے بے فکری ، بے خوفی سے زندگی نہ ہو پھر یہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے جو بہت جلد ختم ہو جانے والی ہے اس کے بعد ایک دن وہ آنے والا ہے جس میں سب کے سب رشتے، ناطے، تابعیت متبو عیت ، بادشاہت رعیت، احکم الحاکمین کی عدالت میں پیش ہو نگے وہاں سب بڑ ائیاں قلع قمع ہو کر اعلان ہو جائے گا ’’لِمَنِ الْمُلْکَ الْیَوْمَِ ﷲِ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ‘‘ کون ہے آج کہ اس کی کوئی حکومت وحاکمیت ہو ( اور کون ہے کہ اسکی تابعیت ہو ) کسی کے لئے نہیں آج دنیا کی چندروزہ اورمجازی وعارضی بڑائیاں اور حکومتیں حاکمیتیں سب ختم ہیں آج اللہ واحد قہار ہی کی طرح حکومت نہایاں ہے یعنی سب ہمارے ہی محکوم اور دست نگر اور ہماری عدالت میں حاضر اور سر نگوں ہیں. آج تمام مظلومین کو ان کے ظالموں سے بدلہ دلانے کا دن ہے ، پس وہاں ہر مظلوم، ظالموں اور حق تلفی کرنیوالوں کے خلاف بے دریغ اپنا مقدمہ پیش کر دیگا، اس وقت دنیا میں رہ کر ظلم کرنیوالوں کی کسی طرح بھی وہاں کوئی یاری ومددگاری نہیں ہو سکے گی۔یہاں کے دوست واحباب ، یار واصحاب با لکل کا م نہ آیئنگے ، صاف جواب دیدیں گے، بقول اہلِ محاورہ ہاتھ چھوڑ کر الگ ہو جائینگے ، حق تعالیٰ کا صاف ارشاد ہے ’’اَلْاَخِلَّاءُ یَوْمَءِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوًّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ ‘‘ کہ اس دن دوستیوں والے باہم ایک دوسرے کے خلاف اور دشمن ہو نگے کسی کی دوستی کام نہ آئے گی ، یہاں تقویٰ اور دینداری کی غرض سے تعلقات رکھنے والے، دینی حالت سدھارنے میں ایک دوسرے کے کام آنیوالے ایک دوسرے کیلئے مفید ہو سکیں گے اسلئے انسان کو اپنی عارضی طاقتوں خاندان اور یا رواصحاب ، گروہ بندی اورگروہی قوتوں کے بل بوتے پر کسی فریاد پارٹی کی اہانت، تحقیر واستہزا ء کرنا یا انکی کمزوریوں وکمیوں کا تذکرہ کرکے تکلیفیں پہو نچانا دلوں کو دکھانا نہیں چاہیے ان چیزوں سے پرہیز رکھنا بے حد ضروری ہے خدا کی گرفت اور اسکے قہر وغضب سے ہر وقت ڈرتے رہنا اور اپنی موت، قبر وقیا مت کا حساب وعذاب کا دھیان رکھے ، بغیر ایذا رسانی اور ظلم کرنے سے بچنا بے حد مشکل ہے۔

اَلّٰلھُمَّ ،کے معنیٰ ائے اللہ . حضور اکرم ﷺ جن کی شان میں کہا گیا ہے ع بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ اس سے زیادہ کوئی تعریف نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ ہی کا مقام ہے ، آپ ہی کا درجہ ہے، آپ ؐ نے پھر کیا کہا حق تعالی ٰ سے ’’ خاکسار بنا کر رکھئے گا‘ مجھے زندہ رکھئے گا خاکساری کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ خاکساری سے زیادہ برتر، بہتر، بلند، اعلیٰ ، افضل دوسری کوئی چیز نہیں ہے مطلب اس کا یہ کہ اے اللہ! میرے اندر خاکیت سرایت کرجائے خاک پنا سرایت کر جائے جم جاوے ، بیٹھ جاوے کہ تکبر کا نام ونشان تک بھی نہ رہے اپنی ذات کے خلاف کسی شخص کی طرف سے کسی بات کے ہوجانے پر غصہ کا نام بھی نہ آوے اور گو جزاءً سیءۃً سیءۃ میں بدلہ لینے کی اجازت دیدی ہے ، مگر اس دی ہوئی اجازت پر عمل کون کرسکتا ہے کیوں؟ اسلئے کہ اجازت ورخصت ہمارے لحاظ میں اللہ تعالیٰ نے د ے تو دی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جس نے تمھارے ساتھ جتنا کیاہے اتنا ہی کرلینا اس کے ساتھ اس سے زیادہ مت کرنا، ہے کوئی اپنے باپ کا پوت ایسا ہے کہ جیسا اس نے کیا ہو ویسا ہی کردے اس کے ساتھ،یا اس سے بڑھ کر کرے گا؟ اس نے ایک مکاّ مارا ہے تو وہ اگر طاقتور ہے تونیچے گرا کر پیروں سے روندے گا اور لٹھ بجاوے گا. اجازت تو دی کہ تم اگر کمزوری کا ثبوت دینا چاہتے ہو اپنی کم ظرفی کا ثبوت دینا چاہتے ہو خیر تم کو اجازت دیتا ہوں لیکن مثلاًبمثلِ، جیسا اس نے کیا ویسا کرو اس سے زیادہ مت کرنا ایک مکاّ تم بھی مارلو، شریعت پر عمل کرنے اجازت دیدی اس حد کے ساتھ ،بات خیالِ شریف میں آرہی ہے بھایؤ! اگر تم اعلیٰ حوصلگی والے نہیں ہو اعلیٰ ظرف نہیں ہو تو تمھاری رعایت سے تم کو اجازت دے رہا ہوں بس اتنا جتنا تمھارے ساتھ کیا ہے تم کرلو اس سے زیادہ نہیں اب تم دیکھ لو کہ اتنی اجازت پر تمھارا حوصلہ کیا کہتا ہے . اس پر رہ کر صبر کر لوگے یا آگے بڑھو گے، اگر آگے تو اجازت نہیں ہے چپ چاپ رہو کم ظرف ہو، چپ چاپ رہو کم حوصلے والو! خاموش رہو کمزورو!خاموش رہو اسلئے میں آگے ترقی کرکے کہہ رہا ہوں صبر کرو، جب تم ایسے حوصلے والے نہیں ہو تو تم کو اجازت نہیں ہے بلکہ پھر کیا ہے ؟۔
صبر !صبر کرنے کی حد تک درخواست کرو :
اور اس صبر کرلینے کے بعد بھی ہم سے درخواست کرو،تمھاری کیا مجال ہے کہ صبر کرسکو ،صبر کرنا اندر کی چیز ہے ، بدلہ لینا باہر کی چیز ہے، تمھارے ہاتھ پر کس نے ہاتھ مار دیا بدلہ لینے کے لئے تم نے بھی اس کے ہاتھ پر ہاتھ مار دیا یہ باہر کی چیز ہے اور صبر کرنا یہ اندر کی چیز ہے اور اندر کی چیز بڑھیا ہے باہر کی چیز سے جو کہ گھٹیا ہے . اللہ تعالیٰ مسلمان کو بڑھیا بنا کر رکھنا چاہتے ہیں بڑھیا ہو کر رکھنا چاہتے ہیں . لیکن مسلمان گھٹیا ہو کر رہنا چاہتا ہے کیا کیا جائے. اور صبر بھی حق تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا.
دیکھئے رسول اللہ ﷺکو صبر کا حکم دیا فاصبر، صبر کیجئے لیکن آگے یہ بھی فرمادیا ۔وَمَاصَبْرُکَ الِاَّ بِاللَِّہ اور صبر آپؐ اللہ کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتے ، تو جب حضور ﷺ بلا ذاتِ باری تعالیٰ کی مدد کے بغیر صبر نہیں کر سکتے تو ہم سے بلا اسکی مدد کے کہاں صبر ہو سکتا ہے ؟ سمجھ میں آیا خاک کے پتلے، ایسا صبر کہ پتھر برسا دیئے گئے کتے چھوڑ دیئے گئے ڈھیلے مار دیئے گئے ، اور نہایت ہی ذلیلانہ حرکتیں گالی گلوجتک کردی گئیں ، خون نکل گیا جوتوں میں بھر گیا اور حق تعالیٰ فرما رہے ہیں یہ دونوں طرف کے پہاڑ ہیں تم ذرا زبان ہلا دو ان کو پیس دوں گایہ فرشتہ بھیج رہا ہوں جسکے اختیار میں پہاڑوں کو دیدیاگیا ہے. پہاڑپر مقرر ہے . آپؐ ذرا اشارہ فرمادیجئے چکی کے دانہ کی طرح ان کو پیس دیا جائیگا ،فرشتہ نے آکر کہا کہ میں حق تعالیٰ کے فرمان کا تابع ہوں حضور ﷺ نے فرمایا واقعی آپ تابع ہیں آپ ایسا کرسکتے ہیں لیکن میری حق تعالیٰ سے ایک درخواست ہے کہ جب آپ ان کو ہلاک کرسکتے ہیں تو انکو آنکھیں بھی دے سکتے ہیں ان کوآنکھیں دیدیجئے یہ مجھکو پہچان لیں گے . دیکھا! حق تعالیٰ کو اپنے حبیبؐ کی طرف سے انتقام لینے کی اجازت دی جا رہی ہے کیو نکہ معا ملہ آپؐ کے ساتھ ہے اسلئے آپؐ کہدیں جب بدلہ لیا جائیگا معاملہ کی بات ہے براہ راست نہیں کام ترتیب سے کرنا چاہئے. آپؐ کے ساتھ معا ملہ ہے آپؐ مدعی ہوں تو میں بادشاہ ہوں فیصلہ کروں گا. اور جب تم مدعی ہو تو مدعی سست گواہ چست کا کیا قصہ. اسی طرح سے استنباطات ہو تے ہیں استخراجات ہو تے ہیں اور کیسے ہو تے ہیں . مسائل استخراجات کرکے بیان ہو تے ہیں؟ اور کیسے ہو تے ہیں؟ تو آپؐ نے منع کردیا. دیکھا خاکساری ! کتنی تکلیف اٹھائی جسمانی تکلیف، لہو لہان ہو گئے مگر حق تعالیٰ کے فرمانے کے باوجودکہ یہ سب ہو سکتا ہے ان کے ساتھ، لیکن آپؐ نے منظور نہیں فر مایا بلکہ ان کو ہدایت کی درخواست کی. اور یہاں مجھے ذرا سا قابو مل جائے اور ذرا سی طاقت ہو جائے تو پھر دیکھئے براہ راست میں کیا کرتا ہوں . یہ ہے خاکساری . حضور ﷺ نے ثبوت دیدیا خاکساری کا اور کیا ثبوت چاہتے ہو اس سے زیادہ. پس صبر کرو تا کہ خاکساری اندر آجائے ۔
اصل اتباع احکام نہ کیفیت واحوال:
فرمایا کہ لوگ کیفیات واحوال کے پیچھے پڑگئے حالانکہ مقصود اصلی اعمال با تقویٰ باتباع سنت منعم علیہم کے صراط کا اتباع ہے موسیٰ نے حق تعالیٰ سے درخواست فرمائی تھی ۔ رَبِّ اَرِ نِی اُنْظُرْ اٍلَیْکَ یہ ایک نوع کی کیفیت کی درخواست تھی کیونکہ محب کو محبوب کی رویت میں خاص حظ اور مزہ آتا ہے جب کی کیفیات واحوال میں لطف ہے لیکن حق تعالیٰ نے فرمادیا لَنْ تَرَانیْ، مجھکوہرگز نہ دیکھو گے . پھر موسی علیہ السلام نے اصرار نہیں فرمایا معلوم ہوا کیفیات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے۔
وقت مال سے بھی زیادہ قدر کی چیز ہے :
فرمایا کہ وقت کی قدر مال سے بھی زیادہ ہے اگر کسی کا مال گم ہوجائے یا فضول خرچی میں ختم ہوجائے اورپھر اس کو ضرورت پڑے تو کس قدر افسوس کرتا ہے اور کہتا ہے کاش کہ میرے پاس وہ مال ہوتا تو کام آتا تو وقت کی اس سے بھی زیادہ قدر ہونا چاہیے.وقت اللہ کے نزدیک بہت قدر کی چیز ہے جب ہی تو اس کی قسم کھائی ہے ۔ وَ الْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ قسم کسی عظیم الشان چیز کی کھائی جاتی ہے . دیکھو کی برف کی دوکان ہے تو وہ چا ہے گا کہ برف جلد فروخت ہو جائے کہ کہیں دیر لگنے میں گھل گھل کر ختم نہ ہوجائے ؟ اسلئے جلد فروخت ہوجانا چاہتا ہے اسی طرح وقت مثلِ برف پگھل رہا ہے . بعض تفسیروں میں وقت کی مثال برف کے ساتھ دی ہے تو وقت کی بہت قدر کرنا چاہئے۔
اَ نْ تَعَبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَتَرَاہُکی حقیقت:
فرمایا کہ حق تعالیٰ کی تین صفت ہیں ، سمیع، بصیر، علیم. اول کا تقاضا یہ ہے کہ جو بولے سو چ کر بولے کہ میرے بولنے میں کسی کی ایذا تو نہیں ہے ، بصیر کا تقاضا یہ ہے کہ جو کرے سوچ سمجھ کر کرے کہ نا جائز تو نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں اور علیم کا تقاضا یہ ہے کہ جو خیالات دل میں لائے دیکھ بھال کر لائے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال جانتے ہیں اِنََّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِذاتِ الصُدُوْرِ تو عقیدہ تو ہے کہا اللہ تعالیٰ سمیع ہیں، بصیر ہیں، علیم ہیں . لیکن مقصود اس کا استحضار ہے کہ وقت پر یاد آجائے اور برے کاموں اور خیالات سے رک جائے. یہ نہیں کہ ہر وقت یہ مستحضر رہے کہ اللہ سمیع ہیں، بصیر ہیں، علیم ہیں ، جیسے کہ اَ نْ تَعَبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکتَرَاہُ، اس کا مقصود یہ کہ جو عبادت کر رہا ہے مثلاً نماز اس کے جو آداب ہیں اس کی رعایت کرتا ہوا چلا جائے کہ کس طرح ہاتھ اٹھانا چاہئے ؟ کس طرح جھکنا چاہئے کس طرح قرأۃ وتسبیح چاہیے اور بالقصد غیر کی طرف خیال نہ جانا حقیقت ہے خشوع کی . بلا خشوع نماز صحیح تو ہو جائیگی مگر قبول نہ ہوگی تو خشوع تو یہ ہے کہ رکن کا خیال کرتا رہے کہ اب رکوع ہو رہا ہے اب سجدہ وغیرہ چاہے اللہ کا دھیان آئے یا نہ آئے ، اور میں نے تحقیق خشوع کیلئے کہدیا ورنہ دھیان نہ آنے کا کیا معنیٰ؟ کیونکہ نماز کا ہر رکن مذکور ہے اس لئے روزہ میں تو بھول معاف ہے مگر نماز میں معاف نہیں کیونکہ ہر حرکتِ صلوٰۃ محرک یاد ہے لہٰذا بھول کیوں ہوئی اس کی تلافی کرو، سجدۂ سہو کرو اور روزہ میں کوئی چیز مذکور اورمحرک نہیں ہے اسلئے بھول معاف ہے ، رسول اللہ ﷺ کو جو سہو ہوا وہ اعلیٰ کے دھیان کی وجہ سے ہوا لیکن اس کے باوجود آپؐ پر سجدۂ سہو واجب کیا گیاکہ حق تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ میں نے کب کہا تھا کہ میرا ایسا دھیان کرو کہ اصل کام میں بھول ہوجائے اسی لئے اگر کسی کو اللہ کی طرف زیادہ دھیان ہو کر سہو ہوجائے تو سجدۂ سہو کا عملی طریق سامنے نہ آتا تو طریقِ عملی سامنے لانے کے لئے رسو ل اللہ ﷺ سے سہو واقع ہوا ، اسی طرح خرید وفروخت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا دھیان کہ وہ دیکھ رہے ہیں ضروری نہیں البتہ یہ ضروری ہے کہ خرید وفروخت بالکل صحیح قاعدۂ شرعیہ کے موافق ہو. اگر کوئی محبوب دیکھ رہا ہے اسی وقت محبوب نے کہاکہ میری طرف نہ دیکھو بلکہ میری صورت جو آئینہ میں پڑ رہی ہے اس کو دیکھو، اگر اس وقت اس صورت کو نہ دیکھا بلکہ محبوب ہی کو دیکھتا رہا تو محبوب ناراض ہو جائیگا اور کہدے گا کہ میری مجلس سے اٹھ جاؤ . کیونکہ حکم نہیں مانا یہی مطلب ہے اس کا کہ مخلوق آئینہ ہے . بھلا اونٹ (اَفَلاَیَنْظُرُوْنَ اِلیَ الاِْبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ)کو دیکھنے کا حکم فرمایا یہ بھی کوئی بات ہے مطلب یہی ہے کہ اونٹ کو میری قدرت کے مشاہدۂ کا آئینہ بناؤ کہ کیا عجیب الخلقت جانور پیدا کیا ہے اور کس قدر اس سے کام لئے جاتے ہیں ۔
عشق کے آثار :
ایک مرتبہ حضرت مسیح الامت نے مجلس شریف میں بڑی لذت ولطافت اور سوز ودرد سے عارف رومیؒ کے یہ اشعار پڑھے ؂
عشق آں شعلہ است اوں چوں برفروخت
ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
تیغ لا دو قتلِ غیرِ حق براند درنگر آخر کہ بعد لا چہ ماند
ماند الا اللہ باقی جملہ رفت مرحباائے عشق شرکت سوز وزفت
عشق وہ شعلہ ہے کہ جب بھڑک جاتا ہے تو معشوق کے سوا جو کچھ ہے سب جلا کر راکھ کردیتا ہے . لا کی تلوار غیر اللہ کے قتل کیلئے چلا پھر دیکھ کہ لا کے بعدکیا رہا بس اِلاَّ اللہ رہ گیا باقی سب کچھ چلا گیا. ائے شرکت کو راکھ کردینے والے عشق ! تجھے مبارک باد اور شاباش، عشق پیدا کرو اللہ کے سوا سب کو جلا دیگا جس کا طریقہ ذکر اللہ کی کثرت ہے۔
احکام بلا حدود مقبول نہیں:
فرمایا کہ حق تعالیٰ نے احکام کیلئے حدود بیان فرمائی ہے. کچھ احکام بیان کر کے فرماتے ہیں تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فلا تَعْتَدُوْھَا، یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے متجاوز مت ہونا مثلاْ روزہ ہے بڑی اچھی عبادت ہے لیکن اگر کوئی عید کے دن کا روزہ رکھنے لگے تو کیا جائز ہوگا؟ میں ایک مقام پر تھا مجھ سے کہا گیا کہ آج عیدکا دن ہے اور فلاں صاحب روزہ سے ہیں میں نے کہا اچھا! آج روزہ سے ہیں میں ان کے پاس گیا اور کہاکہ آج تو عید کا دن ہے، اللہ کی طرف سے مہمانی ہے آج کیا روزہ ؟ اور میں نے گھر کے اندر سے پانی منگوایا اور ان کے سامنے پیا وہ بیچارے میرا لحاظ کرتے تھے انھوں نے بھی پانی پی لیا، تو دیکھئے! احکام نہ جاننے سے کیسی غلطی میں پڑ گئے اسی طرح آج ایک صاحب کا خط آیا ہے کہ میں نے دس ہزار مرتبہ درودشریف پڑھا مگر زوال کے وقت پڑھا اور اب معلوم ہوا کہ زوال کے وقت پڑھنا جائز نہیں. تو میرا دس ہزار مرتبہ درود شریف پڑھنا ضائع ہوگیا ، اس کا اسقدر دماغ پر بوجھ ہے کہ اب نماز پڑھنے ہی کو دل نہیں چاہتا .میں نے لکھ دیا ہے کہ آپ کو یہ بوجھ اور پریشانی مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ہے ، طلوع ،زوال وغروب کے وقت نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، وظیفہ درود شریف، تلاوتِ قرآن وغیرہ سب جائز ہے تو دیکھئے مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کس قدر غلطی میں مبتلا ہوگئے ، معلوم ہوا کہ مسئلہ معلوم ہونا بہت ضروری ہے . جہاں فضائل کے سننے سے عمل کی رغبت ہوتی ہے وہیں مسائل کے جاننے سے وہ عمل صحیح ہوتا ہے اور فضائل اس پر مرتب ہوتے ہیں جہاں فضائل ضروری ہیں وہیں مسائل اس سے زیادہ ضروری ہیں، دیکھئے! درسِ نظامی میں مشکوٰۃشریف سے پہلے ہدایہ،شرح وقایہ، قدوری وغیرہ مسائل کی کتابیں ہیں، اب جب مشکوٰۃ شریف میں آئے تو فضائل کا ذکر آیا . اس سے معلوم ہوا کہ مسائل کا جاننا کس قدر اہم ہے تعریف حقیقی موئثر کی ہے ، نہ کی اثر کی ۔
فرمایا۔ ایک کاغذ پر بہت خوبصورت جیم لکھا ہوا تھا، وہاں کچھ چیوٹیاں بیٹھی ہوئی تھیں، ان میں سے ایک نے کہا، کیا خوبصورت قابلِ تعریف جیم لکھا ہوا ہے . دوسری بولی بیوقوف جیم کی تعریف ہوتی یہ تو اس قلم کی تعریف ہے جس نے ایسا خوبصورت جیم لکھا ہے. تیسری بولی اری بے وقوف ! اس ہاتھ کی تعریف ہے جس میں قلم ہے ،. چوتھی بولی اری بے وقوف !نہ جیم کی تعریف نہ قلم کی نہ ہاتھ، بلکہ وہ ذات قابلِ تعریف ہے جس کے ہاتھ میں قلم ہے اور اس نے ایسا جیم لکھ دیا، اس چیوتٹی نے خوب بات کہی، قابل شاگرد کی تعریف نہیں ہے، بلکہ استاد کی تعریف ہے جس نے اپنی کوشش اورمحنت سے ایسا لائق شاگرد بنا دیا اسی طرح حضور ﷺ کی نعمت دراصل حضور ﷺ کی نعمت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تعریف ہے کہ اللہ تعالی نے حضور ﷺ کو ایسا صاحبِ کمال بنادیا۔
جس طرح نئے کے ساتھ اور معاملہ ہوتا اور پرانے کے ساتھ اور معاملہ ہوتا ہے:
فرمایا کہ جس طرح زنا حرام ہے ،غیبت بھی حرام ہے بلکہ زنا سے بھی اشد ہے،جسطرح شراب کو چھوڑا ہے جھوٹ کو بھی چھوڑے، پس اپنے اعمال واخلاق میں اپنا جائزہ لیتا رہے ، سلوک طئے ہوتا رہے گا اور مقرب بنتا رہے گا،دیکھئے! تھوک پاک ہے مگر مسجد نبوی میں کھنکار لگا دیکھاتو حضور ﷺ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا ، وجہ یہ کہ صحابہ کا سلوک طئے ہوگیا تھا تو ایسے مہذبین سے ایسی معزز جگہ کے ساتھ یہ معاملہ کیسے درست ہوگا اور ادھر غیرمہذب اعرابی کے پیشاب کردینے پر نکیر نہ فرمانا اس سے شبہ نہ کیا جائے کیونکہ وہ تو سلوک میں داخل ہی ہوئے تھے ، ابھی تو کچھ پہچانا بھی نہ تھا اور قدیم صحابہ اکرام تو منتہائے سلوک پہنچ چکے تھے ، مقام احسان طأ کئے ہوئے تھے ، اسلئے رسول اللہ ﷺکھنکار مسجد میں دیکھنے سے نا راض ہوئے ، یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نئے کے ساتھ اور معاملہ ہوتا ہے اور پرانے کے ساتھ اور معا ملہ ہو تا ہے۔ ایک واقعہ یاد آیا.
ایک بادشاہ تھا اس کا نام نصیر تھا اس کا ایک خاص غلام تھا جو نگرانی پر مقرر تھا، ایک دن دربار قائم تھا، امورِ سلطنت میں گفتگو ہورہی تھی ، بادشاہ کی نظر جو اس غلام پر پڑی تو دیکھا کہ وہ غلام بادشاہ کی طرف نہیں دیکھ رہا ہے ، بلکہ کسی دوسری طرف دیکھ رہا ہے، بادشاہ اپنے منصبِ بادشاہت پر آگیا. حکم دیدیا کہ اس غلام کی گردن ماردی جائے چنانچہ گردن ماردی گئی حالانکہ بہت چہیتا غلام تھا، ایک مرتبہ وزیر نے بادشاہ کا مزاج پہچان کر عرض کیا کہ حضور جان بخشی جائے وہ غلام نہایت چہیتا اور لائق غلام تھا ، حسین وخوبصورت تھا اس کو قتل کرادیا، بادشاہ نے کہا اس سے اعتماد جارہا تھا، رکھنے کے لائق نہیں تھا کیونکہ دربار قائم تھا، وہ ہمارا محافظ تھا اس کو اس وقت پورے حزم واحتیاط کے ساتھ ہماری طرف دیکھنا چاہئے تھا، اگر ہمارے ساتھ کوئی واقعہ پیش آجاتا تو کیا ہوتا ، اس نے فرائض غلامی ادا نہیں کئے اس لئے قتل کا حکم دیدیا. اس واقعہ کو نقل کرکے ناقل نے کہا ہے کہ ائے مسلمانو! تم بھی اللہ تعالیٰ کے غلام ہو،جب نماز پڑھتے ہو اور سجدہ میں پیشانی رکھی ہوئی ہے اور دل تمھارا کہیں کہیں ہوتا ہے تو تم غلامی سے نکل گئے، لہذا تم کو بھی اسی وقت ہلاک کردینا چاہیے تھا، مگر وہ کریم ہے ، اپنے کرم سے ایسا تو نہیں کرتا لیکن باطنی ہلاکت ہورہی ہے کہ نماز سے قلب میں جو طاقت آنا چاہئے تھی کہ مخلوق کا خوف قلب سیبالکل نکل جاتا وہ نہیں نکلا. تو بات یہ چل رہی تھی کہ جس کو قرب حاصل ہوتا ہے وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے، آنکھ کو بھی دیکھ کر اٹھائے گا، پاؤں کو شریعت کے موافق ہی اٹھائے گا، تو یہ معصیت سے محفوظ ہو جائیگا، اسی کو فرمایا گیا ہے۔
’’اَ لْاَنْبِیَاءُ معْصُوْمٌ وَالْاَوْلِیَاءُ مَحْفُوْظٌ ‘‘ اب ایسی طبیعت ہوجائیگی کہ اوامر کرنے اور نواہی سے بچنے کیلئے اس کو سوچنا نہیں پڑے گا، بلکہ بلا سوچے سنت پر عمل ہوتا رہیگا اس کو مسجد سے نکلتے وقت اب سوچنا کہ داہنا پاؤں نکالوں یا بایاں بلکہ بایاں ہی نکالے گا اور وہ نماز پڑھکر جب باہر نکلے گا تو ذکر میں لگا رہے گا جیسا کہ ارشاد ہے فَاِذَا قُضِیَتِ الَّصَلٰوۃَ فَانْتَشِرُوْ فِی الاْ رْضِ وَاذْکُرُو اللہَ کَثِیْراً پس جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور اللہ کی یاد کثرت سے کرو ، وہ خرید وفروخت میں بھی اس کا خیال رکھے گا کہ کس طرح خریدوں بیچوں، کیونکہ خرید وفروخت میں کمی کرنیوالوں کیلئے عذاب آچکا ہے۔
اپنے مسلک میں مضبوط رہو:
فرمایا۔ میرے حضرت حکیم الامت ؒ کا کیا عجیب پیارا ارشاد ہیکہ ’’ اپنے مسلک کو چھوڑو مت اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑو مت‘‘دشمن کو چھیڑا تو وہ اور دشمن بن گیا ،اچھے خاصے تم سکون میں تھے، پریشانی میں پڑگئے اسی لئے معاند سے گفتگو مت کرو، اسکی دشمنی اور بڑھ جاویگی اور تمھارا سکون جاتا رہیگا ، اسی پر حضرت عیسیٰ ؑ کی بات یاد آگئی کہ جو خالق ہے وہ رب ہے اور جو رب ہے وہ رازق ہے، اس پر یہ بھی عرض کیا گیا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی خدمت میں کوئی پہونچ گیا اصرار کرتا رہا اور حضر ت عیسیٰؑ انکار کرتے رہے، حضرت عیسیٰؑ نرم طبع تھے ایک افسوں سکھا دیا کہ اس طرح کرنا وہ زندہ ہوجائیگا ، بر خلاف کے کہ وہاں معجزہ بھی تھا . الغرض حضرت عیسیٰ ؑ نے اس شخص کو کچھ سکھادیا،اس نے جب سیکھ لیا تو گھر چلا ، خیال آیا کہ جو کچھ میں نے سیکھا ہے مجھ سے لوگ پوچھیں گے ذرا میں بھی اس کی مشق کر لوں، کہیں مردہ ملے تواس پر چھو کر کے دیکھوں آیا وہ زندہ ہوتا ہے یا نہیں ؟ چلتے چلتے ایک جگہ کچھ ہڈیاں ملیں بس ان پر دم کردیا ، اب جناب وہ تو شیر صاحب تھے زندہ ہوکر کھڑا ہو گیا ، اس کا کھڑا ہونا تھا کہ وہ شخص ڈرا ، اب نہ کہیں جا سکے نہ کھڑا رہ سکے اتنی ہیبت طاری ہو گئی کہ ایک قدم بھی آگے نہیں اٹھتا ، کھڑا ہے شیر صاحب بیٹھے ہیں ، تھوڑی دیر انتظار کے بعد شیر نے حملہ کردیا اور پنجہ مار کر اس کو گرا دیا اور جو کچھ کھانا تھا کھا لیا ، اب وہ مردہ پڑا ہوا ہے حضرت عیسیٰؑ سفر میں زیادہ رہتے تھے سفر کے درمیان جب اس جگہ پہونچے تو کیا دیکھا کہ شیر تو زندہ بیٹھا ہے اور جس کو میں نے کچھ سکھایا تھا وہ مردہ پڑا ہوا ہے حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا اے شیر! یہ کیا قصہ ہے شیر نے کہا حضور معاف کیجئے گا اس نے طریق ہی ایسا اختیار کیا کہ میں مجبور ہو گیا ،وہ کیا؟ میں تو مر چکا تھا، خواہ مخواہ اس نے مچھے چھیڑا تو گویا شیر نے کہا کہ میں تو مردہ تھا اس نے خواہ مخواہ چھیڑا (مثل مشہور ہے کہ سوئی بلا کو مت جگاؤ) کہ مجھے زندہ کرکے بٹھا دیا ، میں نہ معلوم کب سے بھو کا تھا . اب جب مجھے بھوک لگی تو میں انتظار کرتا رہا ، میں نے سوچا کہ میرا خالق ہے کیونکہ اس نے مجھے زندہ کیا ہے اورجو خالق ہوتا ہے وہ رب ہوتا ہے اور جو رب ہوتا ہے وہ رازق بھی ہوتا ہے میں انتظار میں بیٹھ گیا کہ میرے خالق سے مجھ کو رزق ملے گا، لیکن جب میں نے دیکھا کہ یہ عجیب قسم کا خالق ہے کہ رزق نہیں دیتا اور میں بھوکا ہوں تو اس لئے میں نے اسکو کھالیا، حضور اس میں میرا کیا قصور ہے؟ یہ میرا خالق بنتا نہ میں اس کو رب اور رازق سمجھتا اور نہ اس کو کھاتا ، اب اس میں میرا کیا قصور ہے؟ ۔
سلوک میں نفس بڑی کشمکش کرتا ہے:
فرمایا کہ بلا خوف لومۃ لائم عرض کرتا ہوں چاہے مدارس میں رہ کر دینِ کامل حاصل کریں یا چل پھر کر زندگی گذاریں ، امریکہ اور لندن پہونچ جائیں ، جب تک خانقاہ میں اپنی زندگی نہ گذاریں گے دین کامل نہیں آئیگا ۔
فرمایا کہ مرید ہونا آسان نہیں شیخ کی تعلیم کے اتباع میں بڑی کشمکش ہو تی ہے نفس بڑی کشمکش کرتا ہے کیونکہ تمام منہیات (ممنوع چیزوں) کو چھوڑنا پڑتا ہے اور طبعیات (کی رغبت کی چیزوں ) میں تقلیل کرنی پڑتی ہے جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْ اتَّقُوْ اللّٰہَ ،ائے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو۔
تقویٰ اور قوت کا مادہ ایک ہے:
بطور لطیفہ فرمایا کہ بظاہر تقویٰ اور قوت کا مادہ بظاہر ایک ہی نظر آتا ہے تو حاصل یہ ہوا کہ تقویٰ پیدا ہونے کے بعد تمھارے اندر ایک خاص قوت آجائیگی پھر جہاں چاہو پھرو، اسی واسطے حدیث میں آیا ہے کہ صاحبِ تقویٰ جنگل وبیابان میں جہاں چاہے پھرے اس کو کوئی ڈر نہیں، ہاں بتقا ضائے بشری با ضعفِ بدن واعصاب کی وجہ سے کچھ خوف ہو تو وہ خوف ان عوارض خارجیہ ( خارجی اسباب) کی وجہ سے ہے ، ایسا خوف تو انبیا کو بھی ہوا ہے ، چنانچہ موسیٰ ؑ نے جب اپنا عصا ڈالا اور سانپ بن گیا تو آپ ہی اس سے جھجھک کرپیچھے ہٹ گئے حالانکہ معلوم تھا کہ میری لاٹھی ہے تو یہ طبعی خوف تھا جوتقویٰ کے خلاف نہیں. ہاں تقویٰ کے لئے یہ لازم ہے کہ حق تعالیٰ کا خوف ہو جھجھک رہے ، ایک متحیرانہ زندگی ہواور راز اس کا یہ ہے کہ جب تقویٰ اس نے حاصل کیا تو حق تعالیٰ کی صفات کا تفصیلی علم حاصل ہوگیا تو اس کو حق تعالیٰ کا بو جہ معرفت خاصہ کے قربِ خاص حاصل ہوگیا اور قربِ خاص تحیر کو چاہتا ہے تو اس کی زندگی متحیرانہ ہوئی کہ ’’ نزدیکاں را بیش بود حیرانی‘‘ قریب والوں کو حیرانی زیادہ ہوتی ہے. یہیں سے بات ہوئی کہ ایک شخص یہ جاننا چاہتا ہے کہ مجھکو حق تعالیٰ کا قرب حاصل ہے یا نہیں، تو دیکھ لے کہ مجھکو حق تعالیٰ کا کتنا خوف اور جھجھک ہے؟ کتنی زندگی متحیرانہ ہے اس کو نبی ﷺ فرماتے ہیں اَناَ عَلَّمَکُمْ بِا اللہِ وَاَخْشَا کُمُ اللہُ، میں تمھارے مقابلہ میں اللہ کو زیادہ جانتا ہوں اور اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہوں.یہیں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم خشئیت کو چاہتا ہے اَعْلَمُ بِا اللہِ کے رسول ﷺ نے اَخْشَاکُمْ اللہُ فرمایا ہے یہ دیکھے کہ قرب کے لئے علم ہے یا نہیں ، خشیئت ہے یا نہیں اور کتنا علم اور کتنی خشیئت ہے، اگر خشیئت اور علم ہے تو شکر اللہ کرے نہ ناز نہ تفخر کے طور پر خوش ہووے کہ اس کو تقرب حاصل ہے، اور مراد تقویٰ سے خاص درجہ تقویٰ کا مراد ہے کہ فرائض وواجبات، سننِ مؤکدہ اور مستحبات ومندوبات کو بجا لائے اور محرمات ، مکروہا ت مستحبات،خلاف اولیٰ سب کو ترک کردے ظاہراََبھی اور باطناََ بھی مومن کی آنکھ سے جو قطرہ خوف میں نکلے گا:
فرمایا۔ مومن کی آنکھ سے جو قطرہ خوف میں نکلے وہ ہیرے جواہرات سے کہیں زیادہ قیمتی ہے . حدیث میں آیا ہے جس آنکھ سے خدا کے خوف میں ایک قطرہ نکل آئے وہ آنکھ دوزخ میں نہ جائیگی۔
ہر ولی کسی نہ کسی نبی کے قدم کے تحت ہو تا ہے :
فرمایا ۔یہ جو کہاجاتا ہے کہ ہر ولی کسی نہ کسی نبی کے قدم کے تحت تربیت پاتا ہے تو مطلب یہ ہے کہ ہر ولی نبی ﷺ کے تحت تربیت پاتا ہے کیونکہ آپ میں تمام شؤنِ انبیاء موجود ہیں، آپ ﷺ میں شان موسوؑ یت بھی ہے، شانِ عیسوؑ یت بھی ہے، شانِ ابراہیمیؑ بھی ہے آپﷺ کی اس شان کو قدمِ موسوی اور قدمِ عیسیٰؑ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، خوب سمجھ لیا جائے۔
ہر کام اس کے طریقہ سے کرناچاہیے فرمایاکہ ہر کام اس کے طریقہ سے کرتے رہنا چاہیے ، کامیابی کب ملے گی یہ ہم کو نہیں معلوم ، بس استقلال سے کام کرتا رہے بعض وقت جھنجھوڑدیا جاتا ہے ا ور کامیابی میں تاخیر ہوجاتی ہے ، انبیاء کو بھی یہ حالات پیش آئے ہیں . انبیاء بھی پکار اٹھتے ہیں مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ، اللہ کی مدد کب آئیگی ، کامیابی حق تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے اسی کو معلوم ہے کہ کامیابی کب ہو گی، بس کام کو مقصود سمجھے اور تدیجاََاسی کو کرتا رہے اسی میں سکون ہے واطمینان ہے۔
کمالِ عبدیت:
ارشاد فرمایا : آپ چاہے ایک لاکھ روپئے کا جوڑا پہنئے ! اگر اللہ تعالی نے آپ کو دیا ہے .آپ ایک لاکھ کا جوڑا پہنئے ،دو لاکھ روپئے کی کار پر سوار ہو جایئے ، تین لاکھ، چار لاکھ، پانچ لاکھ کی بلڈنگ میں رہئے اسکے باوجود بھی اندر خاک سرایت کئے ہے ایسی چیز میں اترانا یہ اوچھا پن ہے ،اترانے والا حقیقتاََ بڑا شخص نہیں ہے ،بڑا شخص بردبار ہوتا ہے مخالفین کی مخالف کو ٹالتا، رہتا ہے کہتا ہے کوئی بات نہیں ہے ،جو ویسے ہی خود بڑا بن بیٹھے گا وہ اوچھا پن دکھلاویگا اور جس کو اللہ بڑا بنا دے گا اس کے اندربڑا پن ہوگا اوچھا پن نہیں ہوگا ، تو ذاتِ باری تعالیٰ نے حضور ﷺ کو بڑا بنایا، اپنے بعد آپ ﷺ کا ہی درجہ رکھا .آپ ہر جگہ دیکھ لیجئے اس بڑے شان کی ہر جگہ خاکساری، ہرجگہ تواضع،ہر جگہ عاجزی، تو خاکساری کی بات سمجھ میں آئی؟ دل کو بناؤ، ایسا بناؤ !کہ اس میں خاک سرایت کر گئی، جم گئی، بیٹھ گئی، یعنی اپنے آپ کو دل میں تمام دنیا بھر سے کم تر جاننا، کسی پر حقارت اور نفرت کی ذرا سی نظر نہ ڈالنا، اس کو کہتے ہیں کمالِ عبدیت ،کمالِ غلامیت، غلامیت اس مضمون کیلئے کمالِ عبدیت سے بہتر وافضل کوئی دوسرا عنوان نہیں ہے اسی لئے ذاتِ باری تعالیٰ نے اپنے حبیب کو معراج کے اند ر بلایا دعوت دی،تو عبد کے نام سے بلایا،سُبْحَا نَ الَّذٍیْ اَسْرَیٰ بِرَسُوْلِہٖ بِحَبیِْہٖ بِنَبِیْیہٖ نہیں فرمایا بلکہ بِعَبْدِہٖ فرمایا جب کسی کو اعزاز کے طور پر بلایا جاتا ہے تو بڑے القاب وآداب ہو تے ہیں یا نہیں؟ بڑے شخص کو بلارہا ہے تو اس کے بڑے بڑے القاب وآداب لکھے جاتے ہیں، ذاتِ باری تعالیٰ نے سارے بڑے بڑے القاب وآداب داخل کر دئیے عبدیت میں،کہ معبود تو میں ہی ہوں میرے سوا اور کون ہے؟
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ، تم نے کہا ہے تو سارے کے سارے عبد ہو، وہ تو فرعون نکل گیا تھا مہرہ سے لَاِاِلٰہاِلَّا الّٰلہُوالے ہو، تم توبڑائی کی چیزیں اپنے اندر سے نکال چکے یہ تعلّی اور تکبر تو اسکی شان ہے. اور جب یہ تعلّی تم نے لے لی تو پھر تم عبد کہاں رہے ؟یہ تو تم نے اللہ کے برابر ہونا چاہا . جب تم نے تعلّی، تکبر، تفوّق اپنے اندر لے لیا، پھر تم تو اللہ کے ہمسر ہونا چاہ رہے ہو ، اس کے برابر رہنا چاہ رہے ہو ، تو پھر عبدیت کا کیا سوال؟ گویا معبود بننا چاہتے ہو مثلاََتمہیں کسی نے بلایا اور تمھارے لئے پھل فروٹ کا انتظام کردیا، کہ مہمان آرہاہے تم پہونچ گئے، دیکھا تو، وہاں معمولی دری چادر بچھی ہوئی ہے ، تم نے سوچا اوہو! صرف دری چادر بچھی ہوئی ہے میں تو اس لائق تھا کہ میرے لئے. بچھانے کیواسطے قالین لا یا جاتا ،اوہو! اس فرش کا انتظام کیا ہے؟ میرے واسطے تو بہترین قسم کی کرسی کا انتظام کرنا چاہیے تھا ، صرف دری کے فرش کا انتظام کردیا، یہ اندر تعلّی (بڑائی) ہے تکبر ہے، تفوق ہے کہ اندر یہ خیال کر رہا ہے ، گو کسی مصلحت سے ظاہراََنہیں کہتا ہے ، اور ایک وہ شخص ہے کہ کسی نے اس کو دعوت دی ، بلایا، فرش کا انتظام کردیا، واقعی اندر سے جو خدا کو حاضر وناظر جانتا ہے وہ کیا خیال کر رہا ہے؟ یہ تو ان کی کرم فرمائی ہے، یہ تو ان کی ذرہ نوازی ہے کہ میرے بیٹھنے کے لئے انھوں نے فرش وغیرہ کا انتظام کردیا ہے، ورنہ میں اس قابل تھا کہ زمین پر بٹھا دیا جاتا ، یہ اپنی پہچان ہو رہی ہے ، یہ اپنے کو پہچاننے کی بات ہو رہی ہے کہ اس کی اصلاح کہاں تک ہوئی ہے؟ تزکیہ کہاں تک ہوا؟ خاکساری واقعی کہاں تک آئی ہے؟ تو میں کہہ رہاتھا کہ ایک لاکھ روپیئے کا جوڑا پہنے ہوا ہے دو لاکھ کی کار پر سوار ہے اور دس لاکھ کے محل کے اندر رہتا ہے ، اور اندر باہر نوکر ہیں ، لیکن دل خاکساری ہے اس کا مقتضاء ظاہر میں نہیں ہے، اس کامقتضا دل پر ہے ،چاہے ایسا جوڑا پہن لے کہ بادشاہ بھی نہ پہن سکے. ایسا ہوا ہے؟
حضرت شاہ عبد القادر جیلانی ؒ کی خدمت میں ایک کپڑے کا تاجر ملاقات کیلئے آیا .آپ نے فرمایا کہ مجھے کوئی کپڑا دکھاؤ .اس نے چند تھان دکھا ئے، پھر ایک کپڑا اور دکھا یا اورکہا کہ حضرت یہ تو ایسا کپڑا ہے کہ اس کو بادشاہ بھی نہ خرید سکا بہت قیمتی ہے .حضرت نے قیمت معلوم کی اور خادم سے کہا اس کوقیمت ادا کردو. تاجر چلا گیا ، حضرت نے خادم سے فرمایا درزی سے کہو، ہمارے لئے چوغہ سی دے . درزی آیا اور ناپ کر کہا ،حضرت اس میں تو ایک آستین کی کمی ہے ، حضرت نے فرمایا کہ ہمارے کمرے میں ٹاٹ پڑا ہے آستین اس کی لگادو، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا نہ تاجر کو بلوایا کہ ایسا ہی کپڑا اس کے یہاں ہو تو خرید لیں ، نہ کسی دوسری جگہ تلاش کرایا ، بس اسی کو پہن لیا ، گویا کہ ریشم میں ٹاٹ کا پیوندلگا ہوا ہے . کیوں؟ اسلئے کہ طبیعت کے اندر نمائش نہیں تھی ، عبدیت تھی ، اسی لئے حق تعالیٰ نے معراج میں رسول اللہﷺ کو صفتِ عبدیت کی وجہ سے بلایا .سُبْحَا نَ الَّذٍیْ اَسْرَیٰ بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَیٰ۔
وسوسہ کا عجیب علا ج فرمایا دین دار وسوسوں سے پریشان ہوتا ہے اس کو سو چنا چاہیے کہ میرے ایمان کی گواہی تو شیطان بھی دے رہا ہے . یوں کہہ رہا ہے کہ تیرے پاس نعمتِ ایمان ہے جب ہی تو میں تیرے پاس آرہا ہوں ایک نئی بات آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہے اور میرے حضرت( تھانویؒ ) نے فرمایا کہ کچھ نہ کچھ وسوسے موت سے پہلے آجانا چاہیے کیونکہ موت کے وقت ہر مومن کے پاس شیطان آتا ہے اوروسوسہ ڈالتا ہے تو جس کواس سے پہلے وسوسہ آچکے ہیں اس کو تجربہ ہے اس لئے یہ مومن سوچ لے گا یہ تو وہی وسوسے ہیں جو کہ مجھے آچکے ہیں اور میں ان سے بے التفات ہو چکا ہوں.کتابوں میں لکھا ہے کہ غبی اور معاند سے کلام نہیں چاہیے۔غبی تو سمجھے گا نہیں بیکار وقت ضائع ہوگا اور معاند نے دشمنی پہلے سے ٹھان رکھی ہے ، گفتگو سے اس کی دشمنی اور بڑھے گی تو معاند سے کلام نہیں کرنا چاہیے۔اور شیطان معاند ہے لہذا اس سے کلام اور گفتگو نہیں کرنا چاہیے بس سرسری بات کرکے علٰحدہ ہوجائے ۔
مومن پر حقارت کی نظر کرنیوالا اشرار ہے:
فرمایا کہ کسی مومن پر گناہ کرنے پر حقارت کی نظر نہیں ڈالنا چاہیے اور حسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ اس نے توبہ کرلی ہوگی . اگر تو نے حقارت کی نظرڈالی تو اشرار میں سے ہو گیا ، تو اپنے نردیک تو سمجھتا ہے کہ ابرارمیں سے ہے مگر حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک تو تو اشرار میں سے ہے کہ مومن پر حقارت کی نظرڈالی۔
خانقاہِ مجدد ( حضرت تھانویؒ )کے آثار:
فرمایا کہ ایک تحصیل دارخان صاحب سے میری ملاقات ہوئی. انھوں نے کہا کہ آپ کے شیخ جیسی میں نے خانقاہ نہیں دیکھی اور آپ کے شیخ جیسا رعب نہیں دیکھا. میں بڑی بڑی خانقاہوں میں گیا ہوں لیکن اس خانقاہ کا تو یہ حال ہے کہ جنت کا مزہ آگیا ؂
بہشت آنجا کہ آزارے نباشد
کسے را با کسے کارِ نباشد
جنت وہ جگہ ہے کہ وہاں تکلیف کا نام نہ ہوگا، کسی کو کسی سے کوئی کام نہ ہوگا . بس یہی حال آپ کے شیخ کی خانقاہ کا ہے، ہر شخص اپنے کام میں لگا ہوا ہے، کسی کو کسی سے مطلب نہیں اور رعب کا یہ حال ہے کہ میں عوام کی جگہ بیٹھنا چاہتا تھا حضرت نے اپنی داہنی طرف آنے کا اشارہ فرمایا میں حضرت کے سامنے ہوکر گزر رہا تھا ، حضرت نے ذرا نظر اٹھاکر مجھے دیکھا بس حضرت کا دیکھنا تھا کہ میرے پیر کانپنے لگے ، بڑی مشکل سے خود کو سنبھال کر وہاں جاکر بیٹھا۔
بڑا ،خدمت کے لئے بنایا جاتا ہے :
فرمایا کہ ایک ایک حرف سونے کے پانی سے لکھنے کے لائق ہے. دیکھئے حضرت والا( حضرت تھانویؒ )کیا فرمارہے ہیں کہ تم جو بڑے بنائے گئے ہو وہ اس لئے کہ تمھیں موقع ملا ہے، دوسروں کی خدمت کرنے کا ، تم کو اس لئے بڑا نہیں بنایا گیا کہ دوسروں سے اپنی خدمتیں کراؤ۔
ع خاص کند بندۂِ مصلحت عام را
یعنی ایک بندہ کو خاص اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ عام لوگوں کو نفع پہونچائے کیا اپنی تعظیم ونفع کے لئے ہی بڑا بنایا جاتا ہے؟ ہر گز نہیں کیونکہ ایسی بڑائی تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے کہ ان کے ذمہ کسی کا کوئی حق نہیں۔
نسبت کا بھی اثر ہے :
فرمایا کہ نسبت کا بھی بہت بڑا اثر ہوتا ہے کسی بزرگ کا کوئی بیٹا ہے تو اس کی اس وجہ سے عزت ہوتی ہے کہ یہ فلاں بزرگ کی اولاد ہیں ، بزرگ کی عزت کی و جہ سے بیٹے کی عزت ہو رہی ہے ، ورنہ کون پوچھے ، اسی طرح کوئی بزرگ کا خلیفہ ہے چاہے کیسا ہی ہے اس مشہور بزرگ کی نسبت کی و جہ سے اس کی پوچھ ہورہی ہے اسی طرح کوئی کسی بزرگ کا عزیز ہے اس نسبت سے لوگ اس کی عزت کرتے ہیں ، نسبت عجیب وغریب چیز ہے پھر بعض نا شکرے مستقل ہو بیٹھتے ہیں۔
حالتِ قبض بھی نافع ہے:
فرمایا گو قبض (ذوق وشوق ، تلاوت میں دل لگنا، نماز میں حلا وت کا محسوس ہونا ، ذکر میں دل لگنا وغیرہ وغیرہ ان چیزوں کے انقطاع کا نام قبض ہے اور ان چیزوں کے حصول کا نام بسط ہے جو قبض کی ضد ہے) سے پریشانی کا ہونا تو طبعی اور لازمی امر ہے . مگر شیخِ کامل کی تسلی کے بعد بھی عقلاََپریشان رہنا یہ برا ہے یہ تسلی ان منافع اور مصالح پر ہوتی ہے جو اکثر فیض (کی کیفیت) پر مرتب ہو تے ہیں اور یہ قبض کا باقی رہنا نہ جائے تعجب ہے اور نہ منافی کمال۔
ہم اور آپ تو کیا چیز ہیں خود حضور اکرم ﷺ پر جب اول بار وحی نازل ہوئی تو پہلے دن شکلِ وحی سے یا خوف وعظمت الٰہی سے آپ پر لرزہ طاری ہوگیا ۔ گھبرائے ہوئے غارِحرا سے دولت کدہ پر تشریف لائے اور کمبل اوڈھ کر لیٹ گئے سکون کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو توریت وانجیل کے بڑے عالم تھے. انھوں نے وحی کا قصہ سن کر آپ ﷺ کو نبوت کی بشارت دی اور کہا کہ افسوس ایک دن آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کو مکہ سے نکالے گی۔ ا گر میں زندہ رہا تو آپ ﷺ کی پوری پوری مدد کروں گا . اس کے بعد تین سال تک وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا . اس وقت آپ ﷺ اس قدر پریشان ہو ئے کہ بعض دفعہ پہاڑ پر چڑھ کر ارادہ کرتے کہ یہاں سے گرکر اپنے آپ کو ہلاک کردوں . یہ کیا تھا؟ یہ قبض ہی تو تھا جس کی وجہ سے حضور ﷺ کی یہ حالت ہو جاتی تھی ۔نیز حضور ﷺ کی اس حالت سے ’’ قبض‘‘ کی سند ملتی ہے کہ یہ کوئی خلافِ شرع کیفیت نہ تھی ورنہ حضور ﷺ پر کیوں طاری ہو ئی، اسی کو مولانا رومؒ فرماتے ہیں ؂
بر دلِ سالک ہزاراں غم بود
گرزباغِ دل خلالے کم بود
سالک کے دل کے باغ سے اگر ایک تنکا بھی کم ہوجاتا ہے تو اس کے دل پر ہزاروں غم سوار ہو جاتے ہیں یہ اشتیاق وحی ہی تو تھا جس میں آپﷺبے چین ہوگئے تھے۔ اس بے چینی کی حالت میں جبرئیل ؑ ظاہر ہوئے اور آپ ﷺ کی تسلی فرماتے کہ ائے محمدآپ ؐ اس امت کے نبی ہیں. اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو رسول بنایا ہے، آپؐ گھبرائے نہیں، توجب حضور ﷺ کی یہ حالت تھی تو دوسرا کون ہے جو قبض پر خوش ہو، اور ذرا بھی پریشان نہ ہو البتہ اس کے منافع اور مصالح کے استحضار سے قلب کو گو نہ شگفتگی حاصل ہو جاتی ہے. پھر ان مصالح کا علم کبھی تو اجمالی ہوتا ہے جیسا کہ مولانا رومیؒ فرماتے ہیں ؂
چوں کہ قبضِ آیدت اے راہ رو
آں صلاحِ تست آید دل مشو
اے سالک جب تجھے قبض پیش آئے تو تو اس سے دل گرفتہ نہ ہو، کیونکہ یہ تیری اصلاح کا ذریعہ ہے اس شعر سے اجما لاًمعلوم ہو گیا کہ قبضمیں بھی مصالح ہو تے ہیں اور یہ کوئی بری حالت نہیں ہے، جس سے سالک (جو راہِ سلوک طئے کر رہاہے) اپنے کو مردود سمجھنے لگے. آگے فرماتے ہیں ؂
چوں کہ قبض آمد تو دروے بسط بیں
تازہ باش وچیں میفگن بر جبیں
جب قبض پیش آئے تو اس میں بسط (ذوق وشوق کی کیفیت)کا ملاحظہ کرو اورخوش وخرم رہو پیشانی پر بل نہ ڈالو. اس میں بتا دیا کہ حالتِ قبض کے بعد حالتِ بسط ( ذوق وشوق کی کیفیت ) بہت قوی ہو تی ہے اس شعر میں لفظ ذرا ایسا ہے جیسا کہ انََ مَعَ الْعُسْرِمیں لفظ مَعَ بمعنی بعد ہے( یعنی جیسے ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ایسے ہی ہر قبض کے بعد بسط بھی ہے ) تو مولانا رومیؒ کے اس شعر کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا خیال کرکے شاداں وفرحاں رہو کہ اس کے بعدکسی وقت بسط وانشراح کی کیفیت طاری ہوگی ۔یہ تو اجمالی مصلحتوں کا ذکر تھا اور کبھی بعض مصلحتوں کا علم تفصیلی بھی ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سالک کی پوری تسلی ہو جاتی ہے مثلاََ کبھی قبض میں یہ مصلحت ہوتی ہے کہ بعض اوقات سالک پر بسط وانشراح کی حالت میں کسی جدیدوارد کے عطا ہونے سے ایک ناز کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس سے یہ اپنے آپ کو بڑا عابد وزاہدسمجھنے لگتا ہے اس وقت اگر حق تعالیٰ اس کی دستگیری نہ فرمائیں تو یہ کبروعجب میں مبتلا ہوکر تباہ وبرباد ہو جائے اس وقت حق تعالیٰ اس کی دستگیری کی مختلف صورتیں پیدا فرمادیتے ہیں. بعض دفعہ قبض طاری فرما کر ذوق وشوق کی کیفیت سلب فرمالیتے ہیں اوربعض دفعہ سالک کی اصلاح کے لئے یا اسکو سنبھالنے کی خاطر ذوق وشوق کی کیفیت کو سلب فرمالیتے ہیں، تا کہ عجب وکبر میں مبتلا نہ ہو، اس وقت اسکی یہ حالت ہو تی ہے کہ بجائے نازوانداز کے اپنے آپ کو یوں خیال کرتا ہے کہ میں ساری دنیا سے ذلیل ہوں اس وقت سچ مچ اپنے سے ز یادہ ذلیل وحقیر کوئی نظر نہیں آتا اور سلوک وتصو ف کا اصل مقصد بھی یہی ہیکہ اپنے آپ کو کمتر جانے۔
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
قبض کی حکمتیں :
غرضیکہ جب بسط میں غلبۂ واردات سے ناز کی کیفیتیں پید اہو نے لگتیں ہیں ، سو اس وقت حق تعالیٰ اس پر قبض کی کیفیت طاری کردیتے ہیں تا کہ وہ اپنے اندر عبدیت کے آثار مشاہدہ کرے اپنے آپ کو سب سے بدتر سمجھے تو یہ اس کے حق میں کتنی بڑی رحمت ہے کہ یہ ذریعہ بن گیا ایک عظیم نعمت کے حصول کا . اگر قبض کی کیفیت طاری نہ کی جاتی تو بسط میں یہ تباہ ہوجاتا ۔
اس کے علاوہ قبض میں ایک مصلحت یہ بھی ہو تی ہے کہ سالک کے لئے انوار بعض دفعہ حجاب بن جاتے ہیں ذکر اللہ کے وقت جو اس پر تجلیا ت وانوار کا انکشاف ہوتا. یہ اسی کی سیر میں مشغول ہو کر اصل مقصد سے رہ جاتا حالانکہ اصل مقصد توجہ الی الحق ہے . حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی ؒ فرماتے تھے کہ حجاب دو قسم کے ہیں ایک ظلمانی دوسرے نورانی حجاب ظلمانی تو وساوس خطرات ہیں جو ذکر کے وقت دنیاوی امور کے متعلق قلب میں آیا کرتے ہیں ان پر توجہ کرنا ظاہر ہے کہ مضر ہے اور حجاب نورانی یہ ہے کہ عالمِ ملکوت کے انوار وتجلیات مکشوف ہوں ، اور چونکہ وہ بھی ایک عالم ہیں جو کہ غیر خدا ہے، اس لئے اسکی کیفیات پر توجہ کرنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں غیرِ حق کی طرف توجہ لازم آتی ہے جو قابلِ ترک ہے ، اس لئے فرماتے ہیں کہ حجاب نورانی حجابِ ظلمانی سے اشدہیں کیونکہ اسمیں بوجہِ نورانی کے زیادہ مشغولیت ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس پر اس وقت نئی نئی چیزوں کا مشاہدہ ہو تا ہے اس کو دیکھ کرسالک اپنے آپ کو کامل سمجھنے لگتا ہے حالانکہ ابھی تک غیرِ حق کے ساتھ مشغول اور الجھا ہوا ہے اور وہ انوار وتجلیات اس کے لئے حق کی طرف متوجہ ہونے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں . نیز سالک کو ان میں ایک قسم کی لذت بھی محسوس ہو تی ہے حتیٰ کہ وہ اگر کسی وقت محجوب ( پوشیدہ) ہو جائے تو اس کو بڑا رنج ہوتا ہے. اس وقت حق تعالیٰ قبض طاری کرکے ان انوار وتجلیات کو سلب فرما لیتے ہیں تاکہ سالک غیرِ حق سے ہٹ کر اصل مقصود سے رہ جائے. سو اگر کسی ذاکر شاغل کو کسی وقت ایسی حالت پیش آجائے تو اس وقت گھبرانا نہ چاہیے بلکہ اس کو حق تعالیٰ کی رحمت سمجھے (اوریہ سمجھے کہ ہو سکتا ہے کہ میرے لئے اسی میں بہتری ہے ) .
غرض یہ چند مثالیں تفصیلی حکمتوں کی ہیں ، ان کے علاوہ اور بھی مصلحتیں قبض میں ہوتی ہیں جو اکثر سالک کو وقت پر خود ہی معلوم ہوجاتی ہیں . ان اجمالی اور تفصیلی حکمتوں کے استحضار سے قبض میں تسلی ہو جاتی ہے اور قلب میں کچھ شگفتگی پیدا ہو جاتی ہے ورنہ خود نفس قبض تسلی کی چیز نہیں وہ تو موجبِ غم ہی ہو تا ہے در اصل تسلی تو جب ہوتی ہے جب کسی قسم کا بسط وانشراح ہو ۔
اہل اللہ کے کلام کو سمجھنے کے لئے سلوک سے گذرنا ضروری ہے:
فرمایا یہ بات کسی کی سمجھ میں اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک کہ وہ خود ہی ایسا نہ بن جائے اور نہ ہی اس وقت تک اہلِ دل کا کلام سمجھ میں آسکتا ہے ؂
پرسید یکے کہ عا شقی چیست
گفتم کہ چو ما شوی بدانی
کسی نے مجھ سے پوچھا کہ عشق کی کیا حقیقت ہے تو میں نے اس سے کہا کہ جب تم ہمارے جیسے ہو جاؤ گے تو تم خود عشق کی حقیقت سے واقف ہوجاؤگے حضرت مجدد الفِ ثانی ؒ فرماتے ہیں کہ عارف اس وقت تک عارف نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے آپ کو کا فر فرنگ سے بدتر نہ سمجھے . اگر کسی پر یہ حالت نہ گذری ہو اور اس کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ اس کلام کو انجام ہی کے اعتبار سے سمجھ لے . نہ معلوم میرا انجام کیا ہو، ممکن ہے کہ کافر فرنگ کا انجام مجھ سے اچھا ہو ، اپنے دل کو یہی سمجھنا چاہیے کہ انجام معلوم ہونے سے پہلے مجھکو کیا حق ہے کہ اپنے کو کسی سے اچھا اور افضل سمجھوں اور دوسرے کو حقیر ، گو سب سے بدتر ہونا بھی یقینی نہیں مگر احتمال تو ہے اور احتمال کی بناء پر اپنے کو افضل خیال کرنا کونسی عقل کی بات ہے . اس لئے اپنے آپ کو سب سے برا ہی سمجھنا چاہیے ہاں البتہ یاس (نا امیدی) کا درجہ نہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ کفر ہے . کسی نے خوب کہا ہے۔ ؂
نا امید ہم مباش کہ رندان بادہ نوش
ناگاہ بیک خروش بمنزل رسیدہ ام
حق تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ ہو (کیونکہ بعض دفعہ شراب میں مست ہونے والے رند لوگ اچانک ایک نعرے سے منزل مقصود پر پہونچ گئے )
خود کو مقدس نہ سمجھے :
فرمایا کہ سائل پر احسان نہ جتانا چاہیئے، حق تعالیٰ فرما رہے ہیں یاَ اَیُّھَالَّذِیْنَ اٰ مَنُوْ لاَ تُبْطِلُوْ اصَدَ قَا تِکُمْ بِا لْمَنِّ وَ الْأذٰی( سورہ بقرہ) ائے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف دے کر ضائع مت کرو ، بلکہ اس کا احسان ماننا چاہیے کہ اس کی وجہ سے ہمیں صدقہ کی توفیق ہو گئی اور حق تعالیٰ سے توفیق مانگتے رہنا چاہیے ’’
اَ للَّٰھُمَّ وَفِْقْنِْیْ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضیٰ مِنَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ و الْفِعْلِ وَالنِّیَۃِ والْھَدْيِ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شیءٍ قَدِیْر
ائے اللہ!مجھے ان چیزوں کی توفیق دیجئے جن کو آپ محبوب رکھتے ہیں اور پسند کرتے ہیں . قول ہو یا عمل، فعل ہو یا نیت ، یا طریقہ ہو، بلا شبہ آپ ہر چیز پر قادر ہیں) یہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ، تو حق تعالیٰ سے توفیق مانگتے رہنا چاہئے ، اور سائل کا احسان مند ہو نا چاہے ورنہ حدیث شریف میں آیا ہیکہ ایک زمانہ ایسا آئیگا کہ مسلمان زکوٰۃ لئے لئے پھرے گا مگر زکوٰۃ کوئی لینے والا نہ ملے گا۔
اسی لئے دوسری جگہ حق تعالیٰ نے اہلِ تقویٰ کو خطاب کرتے ہو ئے ارشاد فرمایا ہے ۔فَلَاتُزَکُّوْاَنْفُسَکُمْ ھُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ التَّقٰی(سورہ نجم)اپنے آپ کو مقدس مت سمجھو ، وہ اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کون مقدس ہے ، کیونکہ باوجود تقویٰ کرنے کے ممکن ہے کہ اس میں کوئی چیز شامل ہو جس کا تمھیں پتہ نہ چلتا ہو اور وہ حق تعالیٰ کے علم میں ہو جو تقویٰ کو مکدر کردیتی ہے. اخلاص معمولی چیز نہیں ہے جناب،بہت اونچی چیز ہے، اسی اخلاص کے خلاف ہو نے سے گو اعتقادی نہ ہو شرک آجاتا ہے چنانچہ حق تعالیٰ فرمارہے ہیں صو فیائے محقیقین ومدققین کے پاس اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لئے قرآن وحدیث سے دلائل موجود ہیں فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْ لِقَاءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحاً وَلَا یُشْرِکْ بِعبِاَدَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا(جو شخص اپنے پرورگار سے ملاقات کی امید رکھتا ہو تو چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے پرورگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائے) یہاں بِعِباَدَۃِ اللّٰہِ نہیں کہا، بِعبِاَدَۃِ رَبِّہٖ،فرمایا ہے، اس میں بھی ایک نکتہ ہے۔مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں شرک سے مراد ریاء ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ متقی کے عمل میں ریائے خفی ہو ۔ دیکھئے اس آیت میں اخلاص کی دعوت دی ہے، ترجمہ یہ ہے کہ جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امید وار ہو اس کو چاہیے کہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے . اس آیت میں بتلادیا کہ ہاں اس زندگی کے بعد مرنا ہے مر کرحشرمجموعی قیامت میں ہوتا ہے، اس کی ملاقات اللہ تعالیٰ سے ہوگی وہاں ایک ایک دانہ ، ایک ایک قطرہ کا سوال ہوگا ، تو اب مسلمان کو چا ہیے کہ مجھے اس عالم کے ا ندر کس طرح رہنا چاہیے؟ میرے ہر ہر سانس کا جائزہ لیا جائیگا، مجھ سے پوچھا جائیگا کہ کیا حق ادا کیا تھا اس سانس کا جو اندر جارہاتھا؟ اگر اندر نہ جاتا تو کیا ہوتا اور جو باہر آرہاتھا اگر نہ آتا تو کیا ہوتا؟ جب تو سورہا تھا تو کیا اپنے اختیار سے سانس لے رہا تھا اگر وہیں سانس گھٹ جاتا اور موت واقع ہو جاتی تو کیا ہوتا؟ بلا اختیار مجاہدہ اور بلا کاؤ کاوِش8 سانس کا آنا جانا رہتا ہے، اگر سونچ سونچ کر سانس کا آنا جانا ہوتا تو کیا ہوتا؟ یہ سونچنے کی باتیں ہیں، بچو! خیالات اغیار سے، کلمۂ طیبہ ایسا کلمہ ہے جس کے شروع میں ’’ لا ‘‘ ہے تمام سہولت، تمام لذات، تمام تعلقات، کو’’ لا‘‘ نے کاٹ دیا،من حیث المخلوق جو خالق سے مانع ہے سب کی نفی کردی. ہاں، جو مخلوق خالق کے ساتھ زیادت تعلق کا ذریعہ وسیلہ ہے اس کے تعلق، تعلق مع الخلق ہی ہے، وہ تعلق مع المخلوق ہے ہی نہیں کیو نکہ اس مخلوق کا تعلق خالقِ حقیقی سے زیادتِ تعلق کا سبب بن رہا ہے کہ ایسی مخلوق کو تو خدا سے مہیا کرنے کی درخواست ہے جس سے خالق کے تعلق میں زیادتی ہو، چنانچہ رسول اللہ ﷺ خود اس کی درخواست فرما رہے ہیں اَللّٰہُمّ َارْزُقْنِیْ حُبَّکَ وّحُبَّ مَن یَّنْفَعَنِیْ حْبّہُ عِنْدکَ، کہ ائے اللہ اپنی محبت عطا فرما اور اس شخص کی محبت جو آپ کے نزدیک آپ کی محبت کے لئے مجھے نافع ہو ، اس حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس مخلوق کی محبت خالق کی محبت میں نافع ہوو ہ مخلوق سے محبت نہیں خالق ہی سے محبت ہے اور اس محبت کو حدیث میں’’رزق‘‘ سے تعبیر کیا ہے ایسے ہی وہ عمل جس سے باری تعالیٰ کی محبت میں زیادتی ہو وہ عمل بھی خدا کے لئے ہے جیسا کہ ارشاد ہے اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَن یُّحِبُّکَ وَحُّبَّ عَمَلِْی یُقَرِّبُ اِلٰی حُبَّکَ، ائے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت رکھے اور ایسے عمل کی محبت کی توفیق مانگتا ہوں.جو تیری محبت کے قریب کردے ، اس کے بر خلاف ارشاد ہےَ واَعَوْ ذُ بِکَ مِنْ سَاعَۃِالسُّوْءِ وَمِنْ صَاحِبِ السُّوْءِ‘‘ اور آپ سے بری گھڑی سے اور برے ساتھی سے پناہ چاہتا ہوں۔
عالمِ برزخ مومن کا مہمان خانہ ہے :
برزخ مہمان مومن کے لئے مہمان خا نہ ہے اور جو اصل گھر ہے اس میں ذرا آرام کرکے، سکونی باتیں ہوکر عارضی دیدار ہوکر پھر اسکے بعد وہ جو تمھارا اصلی گھر ہے اب وہاں جاؤ یہ تو عارضی تھا تو برزخی مہمان خانہ نہایت عجیب وغریب ہوگا اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ شروع شروع میں بعض اپنے گھر میں آجاتے ہیں بعض دفعہ جہاں اپنا جسم ہے قبر میں وہاں بھی آجاتے ہیں مصلیٰ بچھا ہوا ہے نما ز پڑھ رہے ہیں، تلاوت بھی کررہے ہیں ،دیکھو یہ ترحم اللہ تعالیٰ کا مومن کے ساتھ ہے اور اپنوں سے ہی کہاجاتا ہے، غیروں سے نہیں کہا جاتا، طالب سے کہا جاتا ہے مستغنی سے نہیں کہاجاتا اور اس کے ساتھ ساتھ مزاج کو دیکھنا پڑے گا کہ مخاطب کیا ہے ؟ اس لئے ذاتِ باری تعالیٰ نے فرعون پر رحم فرمایا دو سال زندہ رہا یا ساڑھے چار سو سال اور باوجود اس سرکشی فرعون کی طرف کس کو بھیجا حضرت موسیٰ اورحضرت ہارون علیہم السلام کو۔
کا فر میں شیطنت ہے اور مومن میں ملکوتیت:
فرمایاکہحق تعالیٰ بھی نرمی فرماتے ہیں مومن پر اور طرح سے اور کافر پر اور طرح سے. لیکن کافر کے اندر جو کفر مرض ہے اس کو تو مریض مرض سمجھتا ہی نہیں وہ تو دل میں عناد حقارت لئے ہوئے ہے. اس کے باوجود بھی رحمت فرمائی جارہی ہے لیکن چونکہ اندر شیطنت ہے وہ مانتا ہی نہیں اور مومن کے اندر شیطنت نہیں بلکہ ملکوتیت ہے ناسوتیت کی نفی ہے اور ملکوتیت کا اثبات ہے خدا کرے اورسمجھ میں آجائے نفئ ناسوتیت اور اثبات ملکوتیت یعنی لا الہ الا اللہ کا ذکر کرنا ناسوتیت ہے اور الا اللّٰہ کا ذکر ملکوتیت ہے جب لا الہ کہدیا ناسوت نکل گیا اور جب الا اللّٰہ کہا ملکوتیت میں آگیا دونوں کو جمع کردیا تو مومن کی شان ملکوتی ہوئی یا نہیں۔
حکیم الا متؒ کی مسلمانوں کے لئے نصیحت:
فرمایا حضرت والا (مجدد الامت حضرت تھانویؒ )نوراللہ مرقدہ نے فرمایا تھا کہ دیکھو سرکاری آدمی چاہے کتنا ہی چھوٹا ہو اس کے ساتھ مڈبھیڑ نہ کرنا اس کے ساتھ مت جھگڑنا، نہ معلوم حکومت تم کو کون سے قانون میں جکڑلے ۔
کوئی کسی کامعتقد نہیں سب اپنے معتقد ہیں:
فرمایا ۔حضرت تھانویؒ نے فرمایا تھا کہ اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ کوئی کسی کا معتقد نہیں سب اپنے ہی معتقد ہیں اپنی رعایت، اپنی سہولت، اپنی راحت پر نظر رکھتے ہیں پس جب تک ہاں ہاں کرتے رہو ، رعایت وموافقت کرتے رہو تو اس وقت تک گویا محبت بھی ہے عقیدت بھی ہے اورجہاں ذرا اس میں فرق آیا بس پھر محبت بھی گئی اور عقیدت بھی گئی . اس لئے اب اجتماحی کام بہت دشوار ہوگیا ہے ذمہ دار کو بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے . بڑے سنبھل کر رہنے کی ضرورت ہے۔
لطیف المزاج اور کثیف المزاج:
فرمایا کہ احقر نے عرض کیا تھا کہ ایمان خو د لطیف المزاج ہے اپنی ذات میں اور لطیف المزاج والے کا تاثر اور ہے اور کثیف المزاج والے کا اور ہے تو ذاتِ باری تعالیٰ مومن کو لطیف المزاج چاہتا ہے تو مومن کو کیا بننا چاہئے لطیف المزاج؟ یا کثیف المزاج؟اور لطیف المزاج کا کیا اثر ہے کہ شرک کی بو توکیا معصیت کی بو تک نہ آویگی اگر آگئی تو فو ر اََتوبہ کے پانی سے دھو دے اللہ تعالیٰ ہم سب کوایمان کی جو لطا فت مزاجی ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ نے بنائی ہے اگر اس کے اندر کثافت آگئی تو توبہ کے پانی سے اس کوپورے طریقے سے دھوکر اور لطیف المزاج بنا کر اعمالِ حسنہ کی طرف چلتا رہے اور اعمالِ سیۂ سے بچتا رہے . اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق ارزانی طاعتِ کاملہ کی بلطافتِ ایمان قائم رکھیں۔
اللہ والے بادشاہوں کے بھی بادشاہ ہو تے ہیں :
حضرات اولیا ء اللہ جو باشاہوں کے بھی بادشاہ ہو تے ہیں اپنے نفس کو خوب کچلے ہوئے ہوتے ہیں. مجاہدہ کئے ہوئے ہیں اس لئے وہ طبیعت کے خلاف چیزوں کو برداشت کر تے رہتے ہیں اور بتاؤ کیوں کرتے ہیں ۔ یہ بادشاہ اللہ والے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے شور وشغب کو دیکھتے رہتے ہیں لیکن چونکہ خدا کی صفت ایک حلیم ہے لہذا یہ اللہ والے بھی کیا ہیں؟حلیم! اس لئے یہ بھی لوگوں کی چیخ وپکار کو چاہے گھر والے ہوں یا باہروالے برداشت کر رہے ہیں . ہاں البتہ گھر والوں میں جب اکثر وبیشتر شور وشغب کی بات دیکھیں گے تو بطور انتظام کے ان کو فہمائش کریں گے نہ کہ اپنی طبیعت کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ان حضرات کی یہی شان ہو تی ہے۔
علما ء اہلِ ظاہرکو اھل اللہ کی ضرورت ہے :
حدیث شریف میں آیا ہے کہ کلام کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن ہو تا ہے . کلام کے ظاہر کو علماء ظاہر نے لے لیا. اورکلام کے باطن کو اہلِ باطن اہل اللہ نے لے لیا اور جب تک اہلِ ظاہر علماء کے پاس علم حاصل کر کے ا ہلِ باطن اہل اللہ کے پاس نہیں جاؤگے تو تم اس کلام کی حقیقت تک نہیں پہنچو گے۔
نماز میں جلدی کرنے والا دنیا کا حریص ہے:
فرمایا ۔چوروں میں بڑا چور وہ ہے جو نماز میں چوری کرے دیکھ تو اس کی نظر کہاں کہاں جارہی ہے. جلدی جلدی کیوں کررہا ہے قیام میں، قرأۃ میں،رکوع میں، سجدہ میں، جلسہ میں،قومہ میں، قعدہ میں اور تسبیحات میں جلدی کیوں کر رہا ہے معلوم ہو تا ہے کہ نماز پڑھنے میں اس کی نگاہِ بد کہیں چلی گئی ہے جو جلدی کر رہا ہے، یہ نگاہِ بددنیا کی حرص میں چلی گئی کہ جلدی جاکر دوکان کھو لوں گا ، جلدی جاؤں کھیتی کا کام کروں گا، جلدی جاؤں فلاں کام پڑا ہوا ہے وہ جو دنیا کی ہوس دل میں رکھی ہوئی تھی وہ اس پر وار کر رہی ہے بدیوں کی طرف اس لئے جلدی کر رہا ہے، ورنہ جلدی کیوں کرتا، آئی بات ذہن شریف میں اس حریص دنیا کو بھیجا تھا نگاہیں نیچی رکھنے کے لئے، نگاہ کو ذاتِ حق پر رکھنے اور جمانے کے لئے لیکن یہ یہاں دنیا میں آکر کیا ہو گیا اور اس پر بھی بس نہیں کرتے شعر یاد آگیاتوفیق الٰہی سے ؂
اگرحریصوں کوخدا ساری خدائی دیدے
اس پہ بس نہی کرتے ہیں یہ دنیا والے کیاسمجھے؟کیسی اچھی بات کہی،یہ دنیا والے جو ہیں اگر اللہ تعالیٰ ساری خدائی دیدے تو ان کا پیٹ نہیں بھرتا اس پہ بس نہیں کرتے۔
۵
نگا ہ نیچی رکھنے کا حکم عام ہے:
دیکھو ! حق تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد فرمایا کہ آپ مومنین سے کہدیجئے قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضوُّ ا مِنْ اَبْصَارہِمْکا حکم کیا ہے اور ہم مولوی صاحبان کیا سمجھے؟ اور ہمارے طالب علم کیا سمجھے؟ کہ جب باہر نکلو اگر کوئی خوبصورت لڑکی یا لڑکا سامنے آجاوے تو نگاہ نیچی کر لو تو اس سے نگاہ بدہی کو مخصوص کرلیا.کیا یہاں کہیں لکھا ہوا ہے؟ آہ آہ بلکہ نظرِ بد کسی کی چیز پر، کسی کے منصب، اور کسی کی تجارت ومکان پر یا کسی کی بادشاہت پر نہ پڑے کیا یہاں خوبصورت لڑکی یا لڑکا لکھا ہوا ہے نہیں نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو بھی نظرِ بد کہلائی جاتی ہے وہی نظرِ بد ہے.نگاہ بھی نیچی رکھو تو کیا کسی کی دولت کسی کیثروت وجاہت پر یا اور جو اس نوعیت کی چیزیں ہوا کرتی ہیں ان پر اپنی نگاہ کیا کرو؟ نہیں بلکہ نیچی! حکم عام ہوگیا، ہم سمجھے کہ کسی لڑکے کی طرف مت دیکھو اور کسی لڑکی کی طرف مت دیکھ اور حسد کی نگاہ تواچھی نگاہ ہے؟ اور تکبر کی نگاہ اور حرص کی نگاہ اچھی ہے یہ ساری نگاہیں کیسی ہیں ؟ بد ہیں!حکم عام ہے کوئی بڑے عہدے پر ہے ہونے دو ہماری بلا سے ، یہ تمھاری نگاہ بری کیوں پڑ رہی ہے کسی کے پاس خزانہ پر خزانہ اور دولت پر دولت ہے.تمھاری نگاہ بد کیوں پڑرہی ہے، تم بازار میں نکلے بڑی بڑی شاندار قسم قسم کی دکانیں سونے چاندی اور عجیب عجیب کپڑوں کی دیکھیں ان پر تمھاری نگاہ بد کیوں پڑ رہی ہے، کسی کی تجارت بڑھتی بڑھتی چلی جارہی ہے، مٹی پہ ہاتھ ڈالے بن جائے سونا لیکن تمھاری نظر کیوں پڑ رہی ہے، خبر دار حکم عام ہو گیا یہ ہے نیچی نگاہ اب توآپ سمجھے،یا نہیں کیوں بس سر کی آنکھیں نیچی ہوں . یہ مطلب نہیں ۔
علم صحیح کا تقاضا اس پر عمل کرنا ہے
فرمایا یہ کون سی زندگی ہے، معلوم ہوا کہ علم تو ہے لیکن علم صحیح نہیں، عالم تو ہے لیکن علم صحیح جس کو کہتے ہیں وہ اس کے پاس نہیں ہے عالم ہوکر توبہ کے بھروسہ پر معصیت اور زندگی کے بھروسہ پر توبہ کو ملتوی کرتا ہے معلوم ہوا کہ علم صحیح اس کو حاصل نہیں ہے اور اگر اس کو علم صحیح ہوتا تو یہ حرکت نہ ہوتی ،تو میرے اور آپ کے نزدیک وہ عالم ہے چونکہ میزان سے لے کر دورۂ حدیث شریف تک پڑھا ہے، لیکن عند اللہ وہ عالم نہیں ہے اب اس آیت کو لے لواِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہُ مِنْ عِباَدِہِ الْعُلَمَاءُ میرے اور آپ کے نزدیک اور عرفی اور اصطلاحی حیثیت سے وہ علم ہے لیکن عند اللہ وہ علم نہیں. اَیُّھَا الطُّلَابُ فَتَفَکَرُوُ ا فَتَدَبَّرُ فَانْظُرُوْ، بات خیال شریف میں آئی تو کس طرح رہنا چاہئے، علم صحیح کا مصداق ہونا چاہئے یا نہیں اب کہا جائیگا کہ علیم کی طرف سے صحیح علم آیا، خلاصہ نکل گیا اور جس کا نتیجہ کیا ہوگا نگاہ نیچی کی ہر اس چیز سے جو بھی برایؤں کی طرف مائل کرنے والی ہو اور حق تعا لیٰ کی تسبیحات سے غفلت کی طرف لے جانیوالی ہو ، وہ چیز کیا ہے نظرِ بد ہے. اور آیت میں جو تلاوت کی گئی تھی (قْلْ لِلْمُوؤمِنِیْنَ یَغُضُّو مِنْ اَبْصَارِہِمْ ) نگا ہ نیچی کرنے کا حکم ہے لہذا ہر ایسے موقع پرنگاہ نیچی ،یہ عام خطاب ہو گیا۔
نماز میں نگاہ نیچی رکھنے کا حکم :
اب آجاؤ نماز کی طرف نماز کے ہر رکن میں نگاہ نیچی ،دیکھو جب کھڑے ہو تونگاہ سجدہ کی جگہ نیچی ہوئی یا اوپر؟ جب رکوع کرو توگھٹنوں کی طرف نگاہ نیچی، اور جب سجدہ کرو توپر�ۂبینی کی طرف ، اور جب بیٹھو تو سینہ اور گود میں نگاہ نیچی یا نگاہ اوپر ؟ اور ہم کیا سمجھے کہ نیچی نگاہ امرد اور امرأۃ سے ہو ،آیت عام ہو گئی یا نہیں؟
صحیح انسانیت کیا ہے :
فرمایا حضرت مسیح الامت ؒ نے فرمایا کہ صحیح انسان اور صحیح آدمی وہ ہے جو مردم شناش اور موقع شناس ہوورنہ بڑی بھاری بھرکم غلطیاں کرے گا عابد تو ہے وہ مگرمردم شناش اور موقع شناش نہیں ہے تو دشمنوں کو پال لے گا ، جان چھڑانا مشکل ہو جائیگا ، ان عابد صاحب کو، ان متقی صاحب کو۔
حقوق ضائع کرنے والا طالبِ حق نہیں:
فرمایا حضرت مسیح الامت ؒ نے اگر اتلافِ حق ہوگا حق تعالیٰ سے کیا تعلق ہوگا’’ سمجھ میں آئی بات یا نہیںآئی؟‘‘ اگر اتلافِ حق خلق ہوگیا تو حق تعالیٰ سے کیا تعلق ہوا ، ہوا تعلق یا نہیں ہوا؟ نماز پڑھتے رہو، ہدایت کرتے رہو بیوی کے پاس مت جاؤ، اتلافِ حق ہوگیا کہ نہیں ہوگیا؟ باپ بیمار ہے پوچھو ہی مت؟ ایک باپ نے مجھ سے ایسا ہی کہا تھا کہ بیٹے سے جب کہا گیا تمھارا باپ بیمار ہے ، تم کہاں جارہے ہو تو اس نے جواب دیا بیمار ہوگیا ہونے دو!یہ طالب حق ہے ؟ یہ طالب تزکیہ ہے’’خیال شریف میں بات آئی‘‘ اسی کے دوسرے معنیٰ یہ ہیں کہ جو طالِب حق ہوا کرتا ہے اس کے حق دل میں جمع ہوا ہوتا ہے لہذا خلافِ طبیعت جو بات پیش آتی ہے وہ اس سے پریشان دل نہیں ہوتا پریشان قلب نہیں ہوتا۔
روحانی غذا جسمانی سے زیادہ شفاف چاہیے:
فرمایا حضرت مسیح الامتؒ نے روحانی غذا کو بطریق اولیٰ صاف شفاف ہو نا چاہیے کہ مدارِ زندگی ہے صرف مدارِ صحت نہیں، جسم کی غذا جوچیزیں ہیں وہ تو مدارِ صحت ہیں مگر اندر کی جو چیز ہے وہ مدارِصحت نہیں بلکہ مدارِ حیات ہے تو اس کا اہتمام بطریق اولیٰ ہے کیونکہ اس کی اہمیت ز یادہ ہے اور جس کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اس اعتبار سے اس کا اہتمام کرنا ہو تا ہے تو وہ شخص بڑا بھولا ہوا اور غلطی میں ہے کہ ظاہر کے اہتمام میں بڑا چست وچالاک اور باطن کے اہتمام میں بڑا بھولا ہے۔
قلب میں مکان کا مکیں بس اللہ ہے:
فرمایا حضرت مسیح الا متؒ نے حق تعالیٰ نے ارشاد فرمادی کہ وہ ذکر اللہ ہے، وہ ذکر اللہ ہے. بس یہ ہے اور کچھ نہیں اس کو دل میں بٹھا لو، اس کو جما دو اس مکانِ قلب کے اندر اس مکیں کو رکھ لو جس کو اللہ کہتے ہیں دائماََاو رہمیشہ رہنے والی ذات ۔
تلاوتِ قرآن پاک بہارِ قلب ہے:
فرمایا حضرت مسیح الامتؒ نے حضور اکرم ﷺ نے حق تعالیٰ کے دربار میں عرض کیا تھا کیا عرض کیا تھا؟الَلَّھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ اَنْ تَجْعَلَ الَقُرْآنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَنُوْرَ بَصْرِیْ وَجِلَاءَ حُزْنٍیْ وَذِھَابَ ھَمِّیْ یوں کہہ رہا ہے کہ اے اللہ اس اپنے کلام کو میرے دل کی بہار بنا دیجئے ربیع قلبی موسم ربیع اور موسمِ خزاں پت جھڑ ہو تی ہے درختوں کی اور موسمِ ربیع میں ترو تازگی ہوتی ہے تو لفظِ ربیع استعمال فرمایا ، کیا مطلب ؟ میرا دل ہمیشہ بہار میں رہے اس پر خزاں نہ آوے . سمجھ میں بات نہیں آرہی شاید ؟ متضاد چیزیں ہوتی ہیں کہ نہیں؟ اب دن ہے یا رات؟ دن جب ربیع بہار کا زمانہ ہوتا ہے ترو تازگی ہر جگہ سبزی نظر آتی ہے . تو حضور ﷺ نے کہا عجیب بات فرمائی لَلَّھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ اَنْ تَجْعَلَ الَقُرْآنَ رَبِیْعَ قَلْبِی۔ اے اللہ اپنے اس کلام کو جب قرأۃ ہو تو کیا بنادے میری قلب کی بہار اب سمجھ لو جب دست بستہ قرأۃ شروع ہو تی ہے تو دل میں بہار آئی یا نہیں آئی؟ بہار آنی چاہیے یا نہیں آنی چاہیے؟ دو چار دن کے لئے نہیں؟ دوچار وقت کیلئے نہیں؟ بلکہ ہمیشہ کیلئے۔یہ تو واقعہ وقت قِرَأَۃٌ فِی الصَّلٰوۃِ کہیں؟ اطلاق بلا کس قید کے ہے. معلوم ہوا کہ ذاتِ با ری تعالیٰ سے حضور اکرم ﷺ درخواست کرکے ہمیشہ ہمیشہ اپنے قلب کو قرآن پاک کی بہار بنانا چاہتے ہیں میرا قلب ہمیشہ بہار والا ہے جہاں کہیں بھی رہوں کیا زمانے کی قید ہے؟ خیال فرمایئے گا مکان کی قید ہے؟ رفتار کی قید ہے ؟ اور گفتار کی قید ہے ؟ مشی کی قید ہے ۔
سلوک کا حاصل یہ ہے کہ شریعت طبیعت اور طبیعت طفولیت ہو جائے:
فرمایا شریعت طبیعت اور طبیعت طفولیت کا کیا مطلب؟ یعنی مخلوق سے نظر انداز اس سے نظر اندازکہ کوئی کیا کہے گا ، کیوں؟ کیا بچہ کی نظر دنیا پر ہوتی ہے کہ کوئی کیا کہے گا؟ خواہ مخواہ رو رہا ہے اور خواہ مخواہ گہوارہ میں ہنس رہا ہے کیا نہیں ہنستا ؟ہنستا ہے نہ معلوم کون ہنس رہا ہے تو ٹھیک اسی طرح سے طبیعت طفولیت ہو گئی ہے، کبھی ہنسا رہا ہے کبھی رو رہا ہے تو سالک صحیح معنیٰ میں صوفی کبھی ہنس رہا ہے کبھی رو رہا ہے. کوئی کیا کہے گا اس کی کچھ پرواہ نہیں،مخلوق سے نظر انداز بس شریعت لازم ہونا چاہیے طبیعت کیلئے اور طبیعت کیلئے لازم ہو نا چاہیے طفولیت اور لازم کا لازم ،لازم کو شریعت کے اندر ہوجانا چاہیے طفولیت یعنی مخلوق سے نظرانداز لہذا سلوک،بشوقِ مقتضاء ہرمخلوق سے نظر انداز . اللہ تعالیٰ ہمیں اس صحیح سلوک کے حصول میں طفولیت اس طرح پید ا فرمادیں. (آمین) یہ شوق آپ حضرات کا مبارک ہواور شوق میں شوق اللہ تعالیٰ دائمی قائم رکھے . مبارک ہو (آمین ثم آمین)
خانقا ہ میں کونسی تجارت ہے اور اس کا رأس المال :
ارشاد فرمایا کہ یہ افریقہ نہیں ہے یہ دنیوی کارو بار وتجارت کی جگہ نہیں ہے یہاں دنیوی تجارت نہیں ہوتی وہ افریقہ میں ہوگی یا بمبئ میں ہو گی یا لندن میں ہو گی وہ یہاں نہیں ہے .یہاں تو لندن سے امریکہ سے بمبئ سے،گجرات سے کسی دوسری تجارت کیلئے سفرکیا ہے اور اس دوسری تجارت کے اموال کیا ہیں؟ ان اموال کا نام اعمال ہیں. اس دوسری تجارت کے ا موال یہ دنیوی دولت نہیں ہیں بلکہ وہ دوسری دولت ہے جس کی تجارت کیلئے ہم گھر سے چلے ہیں. اپنے تجارتی کاروبار کو چھوڑ کر وہ دولت، صبح کی نماز، اسکے بعدتلاوت، تلاوت کے بعد اشراق، اس کے بھولنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ دوکان پر تھوڑا ہی جانا ہے کہ دیر لگے گی . یہاں تو یہ تجارت ہے جس کے اموال یہ اعمال ہیں جو بیان کئے گئے پھر اشراق کیوں چھو ٹے،چاشت کیوں چھوٹے اس کا کیا مطلب؟ ابھی یہ چھوٹتے رہنا ہے تو ادھر سے یہ بے حسی اور ادھرکا احساس ہے . اچھا اے سالک! تیری طلب معلوم ہوگئی بھلا ، طالب کو مطلوب کے حاصل کرنے میں کسل مندی کیسی؟ تساہل کیا! سہولت پسندی کیسی؟ لہذا ناشتہ وغیرہ کرکے چاشت پڑھ لی ، چاشت کے بعد مطالعہ اگر یہاں ( مجلس میں) آنے کا دن نہیں ہے . یہاںآنے کا دن اب مقرر نہیں ہے، یوں دس پانچ منٹ کو آگئے بیٹھ گئے تو مجھے انکار نہیں۔
حضرت مجدد تھانویؒ کا تصوف تر ہے :
اے خشک صوفیو! حضرت حاجی صا حبؒ (حاجی امداداللہؒ ) کے سلسلہ میں اور حضرت والا (تھانویؒ ) کے سلسلہ میں خشک صوفیائی نہیں ہے بلکہ تروتازہ بہار والا تصوف ہے، جی ہاں، باہر اسلئے نکلے تھے کہ بہار آجائے جس طرح ذات باری تعالیٰ نے اپنے کلام نفسی کو کلام لفظی کے اندر کر کے مومنوں کے واسطے باہربھیجدیا تا کہ بہار قلبی حاصل ہو. ابھی عرض کیا تھا کہ قرآن پاک قلب کی بہار ہے. رسول ﷺکی دعا ہے اللھم اجعل القرآن ربیع قلبی .اسی طرح جنابِ عالی! آپ حضرات بھی گھر سے باہر اسلئے آئے ہیں تا کہ بہار آجائے جب لوٹ کر جائیں تو بہار ہی بہار ہے خدا کرے سمجھ میں آجائے۔
کبھی سالک کی طبیعت پیچھے کی طرف لوٹتی ہے:
بعض دفعہ جی نہیں لگتا . نہ تلاوت میں لگتا ہے، نہ ذکر میں لگتا ہے، نہ نفلوں میں لگتا ہے نہ خاموش رہنے میں لگتا ہے ،طبیعت ابھرتی ہے پہلے کی طرف ،جلوت کی طرف، کلام کی طرف ،تقلیل نوافل کی طرف ،تقلیل تسبیحات وذکر کی طرف ۔ بعض دفعہ ترک کی طرف ۔مگر یہ جمع ہوا ہے ، لگا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ تراوٹ آگئی خشکی گئی۔جی لگنا شروع ہو گیا۔اس لگے ہوئے رہنے سے جی لگا ہوا ہو گیا، یہ ہیں مسائل سلوک جن کا جاننا سالکوں کو بہت ضروری ہے اس لئے جم کر بیٹھنے کی شیخ کو’’ اجازت‘‘ ہے اجازت ہی نہیں واجب ہے۔
ان صاحبوں کیلئے جو صبح وشام عبادت میں لگے ہوئے ہیں:
بلا واسطہ عبادت میں یا بالواسطہ معاش عبادت میں یایوں کہہ لیجئے بلا واسطہ معاد میں یا بالواسطہ معاش معادمیں ۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ باِلْغَدٰوَۃِ وَالْعَشِّی ، صبح وشام فرمایا یعنی ہمہ وقت تو ہر وقت کون نفلیں پڑھے گا، ہمہ وقت کون تسبیح لے کر بیٹھے گا یا تلاوت کرتا رہیگا . اور فرمایا ہے ہمہ وقت تو معلوم ہو گیاکہ معاش میں لگا ہوا بھی معاد میں لگا ہوا ہے جب کہ معاش کا کام بہ تحت حکمِ الٰہی کر رہا ہے. اسلئے سونا بھی استراحت وفرحت اور طبیعت کے نو بنو، تازہ بتازہ ہونے کے لئے ہے جب شرعی حد کے اندر ہے تو عبادت ہے۔بھلا یہ کونسی عبادت کر رہا ہے مگر یہ سونا طبیعت کے تازہبتازہ ہو نے کے لئے ہے اسلئے عبادت ہے۔
سالک ومرشد دونوں مقید ہیں:
فرمایا اللہ تعالیٰ نے سالکوں کی ذمہ داری بڑھا دی اور مرشد وہادی کی ذمہ داری بڑھادی ۔ اس کی حریت میں قید کہ اپنا ذاتی کام چھوڑدو . ان طالبان کی طرف متوجہ ہو ۔ذمہ داری بڑھ گئی ۔اور اس کو تعبیرکیا ہے صبر سے، قرآن پاک کا ایک ایک حرف ایک ایک نقطہ عجیب و غریب ہے تو اس تقید شیخ کو تعبیر کیا ہے صبر سے کہ فرمایاواصبر نفسک کہ اپنے آپ کو جمائے رکھئے۔جی ہاں۔طبیعت پر بوجھ پڑنے کا خیال مت کرنا ۔جی ہاںیہ، میں بوجھ یعنی سمجھ کی بات کر رہا ہوں۔جی ہاں! ائے مولوی صاحب، ائے، عالم صاحب جم کر بیٹھئے، جو وقت تمھارے پڑھانے کا ہے، تمھاری تدریس کا ہے پورے وقت جم کر بیٹھو! ائے مدرس صاحب اور ادھر سالک سے سلوک طؤ کر نیوالے سے کہا یہ عالم بھی سالک ہے. حدیث میں ہے مَنْ سَلَکَ طَرِیْقاً یَلْتَمُِسُ فِیْہِ عَالِماً سَھَّلَ اللّٰہُ لَہُ بٍہٖ طَرِیْقًااِلیٰ الْجَنَّۃِ ، تو یہاں طالب علم کیلئے سلوک کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔
علم اور عمل حال بن جا یءں:
فرمایا ۔کافر اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے اگر چہ وہ ایشور کہتا ہے بھگوان کہتا ہے اور کیا کیا کہتا ہے ۔تو پہلے عقیدہ کاعلم صحیح ہو جو کہ توحید کا تقا ضا ہے اور پھر اس وحدانیت کے عقیدہ کے ساتھ مداومت کے ساتھ عمل ہو اور پھر برابر عمل ہوتے حال بن جائے اور یہ حال ہو جائے کہ جب تک اس عمل کونہیں کرلیتا بے قرار اور بے چین رہتا ہے تو یہ درجہ عمل کا درجہ حا ل ہوگیا گویا تین حرکتیں ہو گئیں ایک حرکت صحیح العقید ہونا دوسری حرکت عمل کا عقیدہ کے مطابق ہونا ، تیسری حرکت حال کاہونا کہ قرار نہیں بلکہ بے قرار ہے جب تک کہ اس عمل کونہ کر لے،اسی کومولانارومؒ نے کہا قال رابگذارمردے حال شواور یہ کب آوے گا
پیش مردے کامل پامال شو کہ عمل کو حال بنا لو
یعنی علم صحیح العقیدہ کو عمل بنا ؤ۔ اور اس عمل کو حال بنا لو اور جب تک یہ حال نہیں آتا کہ کبھی عمل ہو جائے اور کبھی چھوٹ جائے اور جب عمل ہوگا تو جیسا ہوگا ہوگا کیونکہ درجہ حال میں تو ہے نہیں تو پھر کیسا ہوگا ۔
بیعت ہونے کے وقت اور بعد اللہ کی ذات کا تصور کرے :
جب بیعت ہوا تھا، دیکھنے میں تو اپنا ہاتھ ہے. حق تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ایسا مت سمجھو بلکہ وہ میرا ہاتھ ہے اور جو تم معاہدہ کر رہے ہو یہ ایسا ہے جیسا کہ مجھ سے معاہدہ کر رہے ہو، اس لئے بیعت ہونے والے کو بیعت ہوتے ہوئے کبھی کبھی اس کا تصور کرلینا چاہیے کہ میں اپنا ہاتھ کس کے ہاتھ میں دے رہا ہوں ،یا دینا چاہ رہا ہوں اور معاہدہ کر رہا ہوں تو کس سے کر رہا ہوں اور میں نے جب معاہدہ کیا اور ہاتھ میں ہاتھ دیا تو کس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا اور کس سے میں نے معاہدہ کیا تھا، اس کا کبھی کبھی تصور اور مراقبہ کرلینا چاہیے جو بفضلہ تعالی ٰنہا یت مفید ہوگا انشا ء اللہ تعالیٰ. مگر یہ کبھی نہیں سوچنا کبھی یہ خیال نہیں کیا ہو گا؟ بلکہ دور کا بھی یہ خیال نہیں۔آئی بات ذہن شریف میں، اس کو کبھی کبھی سوچ لیاکرو انشاء اللہ تعالیٰ توبۃ النصوح حاصل ہوگی. ارشاد باری تعالیٰ ہے یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا تُوْبُوْ اِلٰی اللّٰہِ تَوْ بَۃً النَّصوُحَ۔ائے ایمان والو تم اللہ کے آگے صحیح توبہ کرو کہ اس کے بعدپھر برایؤں سے منکرات سے بچنے کی توفیقات ہو تی چلی جائینگی . اور پھر انشاء اللہ ایمان کی مٹھاس اور زیادہ بڑھتی چلی جائیگی اور ذاتِ باری تعالیٰ کی صفات اپنے اندر آتی چلی جائینگی ۔
ہر کام کے لئے قابلیت شرط ہے :
یہ امر مسلم ہے کہ ہر کام ایک مخصوص قابلیت کو چاہتا ہے ، بلا اس قابلیت کو حاصل کئے ہوئے اگر اس کام کو انجام دیا جائیگا تو کام بننے کے بجائے بگڑ جائے گا مادیات میں اس بگاڑ کو ہر شخص دیکھ سکتا ہے، مثلاََکوئی شخص آٹا بھی گوندھنا نہ جانتا ہو، اور وہ روٹی پکانے کا شوق کرے تو ظاہر ہے روٹی بجائے پکنے کے بگڑ جائیگی ،اور اس بگاڑ کو ہر شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے گا، چونکہ یہ مادیات کا بگاڑ ہے. بخلاف اس کے غیر مادی اشیاء کا بگاڑ چونکہ محسوس ومشاہد نہیں ہوتا ، لہذا اس کا بگاڑ ہر شخص نہیں جان سکتا ، صاحبِ علم اس بگاڑ کو سمجھ سکتا ہے ۔
خواہشاتِ نفس کو تابع کرنے کی سعی:
آجکل حالاتِ زمانہ کا اس درجہ غلبہ ہوگیا کہ خواہشاتِ نفس اور حالاتِ زمانہ کو تو اصل قرار دیا جاتا ہے اور نعوذ باللہ دین کو اسکے تابع کیا جاتا ہے، اس سے ان کا مقصود یہ ہے کہ ہم زمانے کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں، ہر وہ چیز جس کو زمانہ کے حالات ہمار ی خواہشات کے مطابق ضروری قرار دیں حلال اور جائز ہو ، جہاں کہیں کسی حکمِ شرعی میں مشقت نظر آئے یا اپنی خواہشِ نفس کے خلاف واقع ہو وہ حکمِ شرعی ساقط کردیا جائے. اسی طرح اصل ہماری خواہشات ہوں،ان کے مطابق ہم زندگی گذاریں اور اسلام کا نام بھی ہمارے ساتھ لگا رہے. نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکْ . مقامِ غور ہے جب اصل تو حالات اور خواہشات ہوگی اور اسلام کو ان کے تابع بنا دیا جائے گا تو پھر انسان خدا کا بندہ کہاں رہا تو اپنی خواہشات کا بندہ ہوگیا۔
فناء کی حقیقت:
فنا کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمھارا نفس جو شیطان کے ساتھ مل کر کہ نفس بادشاہ شیطان وزیر ہے یہ دونوں مل کرحق تعالیٰ کے حکم کیخلاف سبق پڑھاتے ہیں. یہ مخالفت نہ رہے بس مر ضی حق تعالیٰ کی رہ جاوے اور کام کرنے اور کلام کرنے سے پہلے سوچ لے کہ اس کام اور کلام میں حق تعالیٰ کی مرضی ہے یا نہیں اگر ہو تو بولو اور کرو اور نہ ہوتو نہ بولو اور نہ کرو جب ایسا ہوگیا تو فناء آگئی . یہ ہے فناء کی حقیقت، ارے اسی فناء کو لینے کے لئے گھر سے آئے ہو،اسی کو توگھر لے کر جاؤگے ، اسی کے لئے تو گھر چھوڑکر آئے ہو اورکاہے کے لئے آئے ہو، اگرفناء نہیں آئی تو کاہے کو آئے ہو الغرض وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ سے اس طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ جو کچھ کماؤ اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھو اپنا کمال نہ سمجھو.تو حق تعالیٰ فرما رہے ہیں فَاانْتَشِرُوْ ا فِی ا لْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ ،زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے فضل یعنی روزی تلاش کرو۔
خانقاہوں کی ضرورت کیا ہے :
مدارس میں عملی حیثیت سے تربیت کی طرف التفات نہیں ہے کیونکہ تعلیم میں اہمیت کے ساتھ مشغولی ہو تی ہے اس لئے تربیت میں اہمیت کے ساتھ التفات نہیں ،لہذا تربیت کیلئے دوسری طرف جاؤ دوسری جگہ چلو جس کا نام خانقاہ ہے تو خانقاہ خواہ مخواہ نہیں ہے بلکہ وہاں اہتمام تربیت ہے . تعلیم مدارس سے لی ہے تو تربیت خانقاہ سے لو چنانچہ بڑے بڑے علماء تعلیم درسیاتی مدارس میں پاکر با اہتمام شانِ تربیت خانقاہ میں مقیم ہوئے اورمدتوں رہے۔
ایک اعتراض کا ازالہ:
یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اس وقت مربی تھے ہی ایسے کہ درسیات کے تعلیم یافتہ وہاں مقیم ہوتے۔ اب ایسے مربی کہاں ہیں کہ وہاں تربیت کیلئے جائیں تو وہ خانقاہی یہ کہہ سکتا ہے کہ پھر تعلیم گاہ درسیات کے اندر درس دینے والے کہاں ہیں ؟ کہاں ہیں مولانا گنگوہی جیسے؟ مولانا یعقوبؒ ، مولانا تھانویؒ ۔ اگر خانقاہ میں خانقاہی تربیت دینے والے ویسے نہیں جیسے متقدمین تھے تو درس گاہوں کے اندر دینے والے بھی ویسے نہیں ہیں جیسے پہلے تھے لہذا اس اعتبار سے اگر خانقاہ کے اندر اقامت اختیا رکر ناچھوڑتے ہو تو درس گاہوں کا درس دینا بھی چھوڑدو۔جب اس کو نہیں چھوڑتے تو اس کو کیوں چھڑاتے ہو اور کیوں خانقاہ میں نہ جانے کی ترغیب دیتے ہو اور کیوں اس طرح کہتے ہو کہ خانقاہ میں جاکر وقت برباد کرنا ہے وغیرہ۔اس انحطاط کے زمانے میں جیسے یہ کہنے والے ہمارے علم کے لئے کافی ہیں ایسے ہی اس انحطاط کے زمانے میں تربیت دینے والے مشائخ خانقاہ کے اندر موجود ہیں اگر اس کو ترک کرتے ہو اس کو بھی ترک کردو اس کو ترک نہیں کرتے تو اس کو ترک کرنا کیا؟ زمانہ خالی نہیں ہے۔
تربیتِ اخلاق مقدم ہے :
مدارس میں تعلیم کا انتظام ہے درسی حیثیت سے اور خانقاہ کے اندر تربیت کا اہتمام ہے اخلاقی حیثیت سے اور اخلاق مقدم ہیں ، تیرہ سال مکی زندگی میں تصحیح اخلاق کرائی گئی تھی اور وہ مشائخ کے یہاں خانقاہوں میں آئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ختم شدہ
 

شرر

وفقہ اللہ
رکن افکارِ قاسمی
مضمون واقعی ایمان افروز ہے.شکریہ[size=x-large]
 
Top