قاضی کا انجام

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
ایک تاجر سلطان محمود غنویؒ کے دربار میں فریاد لیکر حاضر ہوا۔ فریادی نے کہا اے سلطان المعظم میں نے دوہزار بند تھیلی میں امانت کے طور پر آپ کے قاضی کو دیئے تھے۔ اور کہا تھا تم اسے اپنے پاس رکھو میں سفر سے واپس آکر لے لوں گا۔ قاضی نے تھیلی لے لی اور میں سفر پر چلا گیا۔ سفر کے دوران ہمارے قافلہ پر ڈاکہ پڑا جس میں میرا باقی بچا ہوا سامان بھی لوٹ لیا گیا۔ اب میں آپ کےقاضی سے تھیلی واپس لایا ہوں ۔ مگر یہ دیکھیے اس میں اشرفیوں کے بجائے پیسے بھرے ہوئے ہیں۔
سلطان محمود غزنویؒ: آپ نے قاضی سے اس کی شکایت نہیں کی؟
تاجر: جہاں پناہ!میں اس کے پاس گیا تھا۔ اُس نے کہا آپ نے مجھے بند تھیلی دی تھی، میں نے بند تھیلی واپس کردی ہے۔ علاوہ ازیں تم نے اپنی تھیلی خود ہی شناخت کی اور کہا تھا کہ میری تھیلی یہی ہے، اور ٹھیک حالت میں ہے۔
سلطان محمود غزنویؒ:کیا تھیلی ٹھیک حالت میں تھی؟
تاجر: جہاں پناہ!تھیلی بلکل ٹھیک حالت میں تھی۔
سلطان محمود غزنویؒ: بڑی عجیب بات ہے اچھا تم جاؤ میں کوئی تدبیر کرتا ہوں۔
تاجر کے جانے کے بعد سلطان نے تھیلی کا بغور جازہ لیا وہ کہیں سے پھٹی ہوئی نہیں تھی۔ پھر بھی سلطان اس نتیجہ پر پہنچا کہ تھیلی پھاڑی گئی ہے اور اس سے اشرفیاں نکال کر پیسے بھرے گئے ہیں اور پھر اسے فوراً رفو کردیا گیا ہے۔ اب یہ معلوم کرنا چاہیے کہ شہر میں ایسا کون سا رفو گر ہے، جو رفو کردے اور اصل اور نقل میں فرق ظاہر نہ ہو۔ سلطان جب تھیلی کی معاملہ پر غور کر رہا تھا ۔ تو اُس وقت سلطان ایک مسند زر نگاہ پر بیٹھا تھا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے سلطان نے چھری نکالی اور مسند کو چیر دیا۔ اور تین دن کے لیے شکار پر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد فراش سلطان کے کمرے میں داخل ہوا ۔ دیکھا تو مسند خاص پھٹی ہوئی ہے فراش نے داروغہ کواطلاع دی ۔ محل کے تمام ملازمین جمع ہو گئے۔ اس وقت فراش خوف سے کانپ رہا تھا ۔ آخر ایک بزرگ نے کہا کہ اے دوست!تم ڈرو مت ، تم ابھی احمد رفو گر کے پاس جاؤ ، وہ تمہیں اس مسند کو اس طرح رفو کردے گا کہ اگر سلطان اسے سو مرتبہ بھی دیکھے گا تو شناخت نہیں کر سکے گا۔فراش نے مسند اٹھائی اور ،رفوگر کے پاس پہنچ گیا۔
احمد رفوگر:اس کی اجرت دو اشرفی ہوگی۔
فراش:چار اشرفیاں حاضر ہیں ، مگر تین دن سے پہلے رفو کردو تاکہ سلطان کے آنے سے پہلے مسند پر بچھادی جائےاور یہ سمجھ لو یہ میری زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اگر سلطان نے اس کا عیب پہچان لیا تو میری سزا موت ہوگی۔
احمد رفوگر: توبہ کرو اے دوست!اگر سلطان نے پہچان لیا تو میرے ہاتھ کٹوادینا۔
احمد رفوگر نے دو دن میں مسند رفو کردی اور اس طرح مسند کو اس طرح ر فو کیا مسند ایک جان ہوگی۔ فراش نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے پہلے سلطان واپس آتا اس مسند کو پورے آب وتاب کے ساتھ مسند پر بچھا دیا گیا۔ سلطان محمود غزنویؒ شکار سے واپس آئے ۔ تو سلطان نے کئی مرتبہ پھٹی ہوئی جگہ کو پہچان نے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔
سلطان محمود غنویؒ : فراش!
فراش: جہاں پناہ میں حاضر ہوں!
سلطان محمود غزنویؒ: یہ مسند پھٹی ہوئی تھی۔
فراش: حضور بلکل نہیں۔
سلطان محمود غزنویؒ: کزاب! میں خود اسی چھری سے پھاڑا تھا۔ فراش ڈر کے مارے کانپنے لگا۔سلطان نے کہا ڈرو مت !صرف اس رفو گر کو بلاؤجس نے اسے رفو کیا ہے۔ سلطان کے حکم پر احمد رفو گر کو دربار میں حاضر کیا گیا۔
سلطان محمود غزنویؒ:یہ مسند تم نے رفو کی؟
احمد رفو گر:جی حضور اسی خادم نے رفو کی!
سلطان محمود غزنویؒ: شاباش! تم بڑے با کمال رفو گر ہو۔
احمد رفو گر: حضور کا اقبال بلند ہو۔
سلطان محمود غزنویؒ:یہ تھیلی دیکھو یہ بھی تم نے رفو کی؟
احمد رفو گر: جی حضور!
سلطان محمود غزنویؒ: اسے کس نے رفو کرایا تھا؟
احمد رفو گر:حضور کے قاضی صاحب نے اسے رفو کرایا تھا۔
سلطان محمود غزنویؒ: قاضی کو دربار میں حاضر کیا جائے، جب قاضی دربار میں حاضر ہوا تو سلطان نے قاضی سے کہا:
او ظالم تیرے بال سفید ہیں،میں نے اس شہر کی قضاء تیرے سپرد کی تھی اور تجھے مخلوق خدا کے جان و مال کا محافظ بنایا تھا۔ کیا میرےاعتماد کا یہی نتیجہ ہےکہ محافظ و امین کہلائے اور لوگوں کے مال میں خیانت کرے۔
قاضی: جہاں پناہ میں خیانت کے الزام سے پاک ہوں۔ میں نے سلطان کے اعتماد کو کبھی مجروح نہیں کیا۔ میرے مخالفین نے میرے خلاف غلط بیانی کی ہے۔
سلطان محمود غزنویؒ: تم نے اس تھیلی میں اشرفیوں کے بجائے پیسے بھر دیےاور پھر امانت دار کو دھتکار دیا۔
قاضی:جہاں پناہ!میں ابھی اس تھیلی کو دیکہ رہا ہوں۔
سلطان نے حکم دیا تاجر اور، رفوگر دونوں کو حاضر کیا جائے۔ سلطان کے حکم پر دونوں کو حاضر کردیا گیا۔ اب قاضی عرق ندامت میں غرق تھا۔ وہ سر سے پاؤں تک کانپ رھا تھا۔ اس نے کئی دفعہ معافی مانگنے کی کوشش کی مگر الفاظ اس کی زبان سے نہیں نکلتے تھے۔
سلطان نے حکم دیا اس بد دیانت کو پکڑ لو۔ اس آواز کے ساتھ ہی قاضی زمین پر گر پرا اور بیہوش ہو گیا۔ اسے وقت دوہزار مہریں لگائی گئیں۔ اور تاجر کے حوالہ کردی گئیں۔جب قاضی دربار سے نکل رہا تھااس کا چہرہ سیاہ تھا اور اس کا جسم پیسنے میں شرابور تھا، اور اس کے اعضاء کانپ رہے تھے۔ تمام لوگ اسے دیکہ رہے تھے اور لعنت برسا رہے تھے۔ قاضی بڑی مشکل اپنے گھر داخل ہوا ۔اور بستر پر لیٹ گیا۔ رات کو اس کے گھر والوں نے بہت کوشش کی کہ قاضی کچھ کھا پی لے ۔ مگر پانی کا ایک قطرہ بھی قاضی کے حلق سے نیچے نہیں اترا۔ جب صبح گھر والے بیدار ہوئے تو قاضی اپنے بستر پر اپنی زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔
 
Last edited:

ناصرنعمان

وفقہ اللہ
رکن
غیرت مند لوگ تھے ۔۔۔ جرم کے بعد احساس ندامت رکھنے والے ۔۔۔شیطان کے بہکاوے میں آکر جرم تو کیا ۔۔۔ لیکن احساس ندامت نے پانی کا قطرہ |حلق سے اترنے نہیں دیا
اور آج جرم پر پیشمانی یا احساس ندامت تو بہت دور کی بات ۔۔۔ جرم کھلے عام اور اپنا حق سمجھ کر کیا جاتا ہے
اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے۔آمین
 
Top