نواسۂ رسول سیدنا عبد اللہ بن عثمان اموی رضی اللہ عنہ
( ابو مروان معاویہ واجد علی ہاشمی)
یہ آقا مدنی ﷺ کی لختِ جگر سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہیں ۔ بنتِ رسول سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح امام مظلوم مدینہ ، ناشر قرآن ، خالوئے حسین کریمین رضی اللہ عنہما ، ہم زلف حیدر کرار رضی اللہ عنہ، مجسمہ جود و سخا، حلیم امت، شرف انسانیت، قتیل سازشِ ابن سبا، جامع القرآن ، امیر المومنین خلیفہ ثالث سیدنا عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبوت کے پہلے سال ہو گیا تھا اور بعض کے نزدیک 4نبوی میں ہوا ۔ (اہل بیت رسول کون ،ص:128)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے ایک ہم عصر علامہ مخدوم محمد ہاشم سندھی نے سیرت کی ایک کتاب جس کا ترجمہ مولانامحمد یوسف لدھیانوی ؒ نے (عہد نبوت کے ماہ و سال )کے نام سے کیا ہے میں 2نبوی میں اس نکاح کی تصدیق کی ہے ۔ (عہد نبوت کے ماہ و سال ،ص:41فصل:2نبوی کے واقعات)
ابھی آپﷺ کے دعویٰ نبوت کو چار پانچ برس ہی گزرے تھے کہ قریشِ مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے ۔ سیر کی تمام کتب اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ مسلمانوں پر ان مظالم کی انتہا کردی گئی تو 5نبوی میں انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت مل گئی۔ یہ اسلام میں پہلی ہجرت تھی اور سب سے پہلے جس نے ہجرت اختیارکی وہ بنی امیہ بن عبد شمس میں سے حضرت عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے اپنی بیوی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی صاحبزادی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔(سیرت النبی ابن ہشام ،جلد :۱ص:207)
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد: 8ص:181پر لکھتے ہیں کہ ابن ہشام فرماتے ہیں’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور ان کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی وہاں ان کے ہاں عبد اللہ پیدا ہوئے جن سے ان کی کنیت ہے ۔‘‘ علمائے تاریخ نے لکھا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حبشہ ہجرت کے قیام کے دوران سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ایک بچہ پیدا ہو ا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا جو بعد میں عبد اللہ الاکبر کے نام سے مشہور ہوا اور اسی کی نسبت سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی کنیت ابو عبد اللہ رکھی۔ (اسد الغابہ ۔ تفسیر قرطبی، جلد: 14 ص: 242۔ طبقات ابن سعد، جلد:4حصہ ہشتم، ص:42۔ البدایہ و النہایہ ،جلد:7ص:429۔ طبری، جلد:3ص:478۔ الاستیعاب، جلد:3ص:70۔ حیات القلوب، جلد:2ص:871باب 51حضورﷺ کی اولاد کا تذکرہ )
اس عبد اللہ اکبر رضی اللہ عنہ کے بارہ میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ چھ برس کی عمر میں ایک روز ایک مرغ نے ان کو ٹھونک ماری جس سے زخم ہو گیا اور ان کا چہرہ متورم ہو گیا پھر اسی مرض میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کا انتقال جمادی الاولیٰ 4ھجری میں ہوا ،اس کے بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ (طبری، جلد: سوم، حصہ اول، ص: 478۔اسد الغابہ، جلد دوم، حصہ ہشتم، ص: 517۔ طبقات ابن سعد حصہ سوم، جلد:2ص:131) روایت کا یہ حصہ سبائی اور مجوسی ذہن نے ایک خاص سازش سے بنایا ہے تصور پنجتن کو مضبوط بنانے اور اولادِ فاطمہ ہی کو سادات شمار کرنے کے لیے رسالت مآب ﷺ کی تین بیٹیوں ہی کا انکار کردیا گیا۔ سبائی اور مجوسی مؤرخین نے یہاں گرگٹ کی طرح کئی رنگ بدلے ۔ کبھی کہا گیا کہ حضور اکرم ﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا ہے ۔ کبھی سیدہ زینب ، رقیہ ، کلثوم صلوۃ اللہ و سلام اللہ علیہا کو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پہلے خاوندوں کی اولاد کہا گیا ۔ حضور ﷺ کی سوتیلی بیٹیاں ثابت کیا گیا کیونکہ آقامدنی ﷺ کی یہ تینوں بیٹیاں خاندان بنو امیہ میں بیاہی گئیں تھیں ۔ سب سے بڑی صاحبزدی سیدہ زینب ؓبنت رسول ﷺ کی شادی ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھا نجے خالوئے حسن و حسین ؓ ، ہم زلف حیدر کرارؓ، شیر مجاز، شہید یمامہ ، شہید ختم نبوت سیدنا ابو العاص رضی اللہ عنہ (قاسم ،مقسم )بن الربیع سے ہوئی۔ (اسد الغابہ، جلد دوم، حصہ ہفتم،ص:806)
حضور اکرم ﷺ کے دوسرے نواسے علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہما کے حالات زندگی سبائی و مجوسی مؤرخین نے مسخ کرنے کی کوشش کی ۔ اسی طرح عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما کو بھی تاریخ کے صفحات سے مٹانے کی ناکام کوشش جاری رہی۔
علامہ سلیمان ندوی ؒ لکھتے ہیں: علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہما کی نسبت ایک روایت ہے کہ بچپن میں وفات پائی لیکن عام روایت یہ ہے کہ سن رشد (عمر بلوغت )کو پہنچے۔ ابن عساکر ؒ نے لکھا ہے کہ یرموک کے معرکے میں شہادت پائی۔ (سیرت النبیؐ، جلد دوم،زیر عنوان: اولاد رسول ،ص:465)
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد: 4صفحہ :139پر ابن عساکر کا قول نقل کیا ہے کہ علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہما جنگ یرموک (15ہجری ) میں شہید ہوئے۔ اسی طرح زبیر بن بکار کا قول بھی نقل کیا ہے کہ مجھ سے عمر بن ابی بکرالموصلی نے بیان کیا ہے :علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہما کی وفات بلوغت میں ہوئی اور فتح مکہ کے روز رسول اکرم ﷺ نے انہیں ساتھ سوار کیا تھا۔ الاصابہ کی اس روایت سے اس بات کی بھی تصدیق ہو گئی کہ فتح مکہ کے روز دوشِ مصطفی ﷺ پہ سوار ہو کر بیت اللہ کے بتوں کو توڑنے والے یہی نواسہ رسول علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہ ہی تھے، نہ کہ علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب۔ نام ایک جیسا(علی) ہونے کی وجہ سے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف یہ روایت سبائی اور مجوسی مؤرخین نے منسوب کردی ۔ اسی طرح اس روایت کو یہ سیدنا عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما چھ سال کی عمر (4ہجری ) میں انتقال کرگئے ۔ ہر سنی مؤرخ نے بھی یہی نقل کیا ہے اور ایک نے دوسرے کے لکھے پہ مکھی پر مکھی ماری ہے اور یہ بالکل خیال نہیں کیا کہ جب سیدنا عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما کا انتقال 4ہجری میں ہوا تو ان کی عمر چھ سال کیسے بنتی ہے؟
اس پر سب مؤرخین کا اتفاق ہے کہ سیدنا عبد اللہ کی ولادت حبشہ میں ہوئی جب سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ وہاں ہجرت کرکے گئے۔ علامہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ سیرت النبی پر اپنی معرکہ الآراء کتاب زاد المعاد صفحہ نمبر 686حصہ دوم میں رقمطراز ہیں کہ جب ایذائیں شدت اختیار کرگئیں تو اللہ تعالیٰ نے پہلی بار حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی، پہلے مہاجرین میں سے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ان کی بیوی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ تھیں۔ان لوگوں نے بعثت کے پانچویں سال رجب کے مہینے میں ہجرت کی۔ علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی رحمہم اللہ نے بھی اپنی شہرۂ آفاق کتاب سیرت النبی میں ہجرتِ حبشہ 5نبوی کا عنوان نقل کیا ہے۔ (صفحہ:118)
استاذ المحدثین مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ سیرت المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جلد اول فصل نمبر:3صفحہ :264پر ہجرت اولیٰ بجانب حبشہ ماہ رجب 5نبوی لکھتے ہیں کہ اس میں گیارہ مرد اور پانچ عورتیں تھیں۔ علامہ مخدوم محمد ہاشم سندھی رحمہ اللہ جو کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے ہم عصر ہیں۔ اپنی سیرت کی کتاب میں 5 نبوت کے واقعات میں ہجرت حبشہ اولیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح الاستیعاب جلد :4صفحہ:299، الاصابہ فی تمیز الصحابہ میں بھی ہجرت حبشہ ہی میں سیدنا عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی پیدائش کا ذکر ہے اور تما م اہلِ سیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہجرت حبشہ 5 نبوی میں ہوئی۔ اس طرح عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی عمر 4 ہجری میں 12سال بنتی ہے نہ کہ چھ سال۔ سید رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات 2 ہجری میں اس دن ہوئی جب زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ غزوۂ
بدر میں مسلمانوں کی فتح کی بشارت لے کر مدینہ منورہ پہنچے اس وقت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی تدفین ہو رہی تھی۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت ان کے بیٹے عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی عمر دس سال بنتی ہے۔ ( قیامِ حبشہ میں پہلے سال ولادت ہوئی) ہجرتِ حبشہ کا سال 5نبوت ہے۔ ہجرتِ مدینہ 13نبوی تک آٹھ سال اور 4 ہجری تک چار سا ل (8+12=4سال ) اس طرح سیدنا عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ نواسۂ رسول کی عمر مبارک 4 ہجری تک بارہ سال بنتی ہے نہ کہ چھ سال۔ معلوم نہیں کہ ان مؤرخین نے ان کی عمر چھ سال کیسے لکھ دی؟ سید رقیہ رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے سیدنا عبد اللہ کا 4 ہجری میں چھ سال کی عمر میں انتقال کر جانا تمام سنی مؤرخین اور اہلِ سیر نے لکھا ہے جس میں ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور ابن کثیر رحمہ اللہ جیسے بھی شامل ہیں۔
واقدی کے شاگرد ابن سعد نے طبقات میں عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی عمر دو سال بیان کی ہے کہ یہ بچہ عبداللہ دو سال کا ہوگیا تھا کہ ایک مرغ نے اس کے چہرے پر ٹھونگ ماری جس سے چہرہ متورم ہوگیااور بچہ فوت ہو گیا۔ ایک شیعہ مؤرخ سعودی جس کو شیعہ عالم عبد اللہ المامقانی اور شیخ عباس قمی نے اسے شیعہ علماء میں لکھا ہے۔ (تنقیح المقال فی احوال الرجال،جلد:2ص: 283)
مسعودی نے اپنی کتاب مروج الذہب جلد 2صفحہ نمبر 341طبع مصر میں لکھا ہے:
’’وکان لہ من الولد عبد اللہ الاکبر و عبد اللہ الاصغر امھما رقیۃ بنت رسول اللہﷺ‘‘اور آپ کی اولاد میں ایک عبد اللہ الااکبر اور دوسرے عبد اللہ الاصغر تھے ان دونوں کی والدہ سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ تھیں۔
عبد اللہ الااکبر کے بارے میں مسعودی لکھتا ہے: ’’عبد اللہ الااکبر کا لقب اس کے حسن و جمال کی وجہ سے مطرف تھااور انہوں نے بہت شادیاں کی تھیں اور بہت عورتوں کو طلاق دی تھی۔‘‘
(مروج الذہب،جلد: 2صفحہ: 341)
مسعودی کے ذہن میں مرغ کے ٹھونگے سے انتقال کرنا تھااس لیے اس نے لکھ دیا: ’’عبد اللہ الاصغر جب 76برس کے ہوئے تو مرغ نے ان کی آنکھ میں ٹھونگا مارا جو ان کی موت کا سبب بنا‘‘۔
مسعودی کے اس بیان سے یہ صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ چھ ، چار یا دو سال کی عمر میں فوت نہیں ہوئے بلکہ بلوغت کی عمر کو پہنچے۔ انہوں نے شادیاں کیں، طلاقیں دیں، ان کی نسل بھی چلی اور آج تک موجود ہے، لیکن ہمارے اہلِ سیر اور مؤرخ سبائی مجوسی سازش کو نہ سمجھ سکے ۔ ان کو بچپن ہی میں مار دیا تاکہ نواسۂ رسول کی نسل کو ختم کردیا جائے۔
اب ہم یہ دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ زندہ رہے ان کی نسل آج تک موجود ہے۔
حوالہ نمبر:1یہ وہی عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ تھے جن کی شاگردی زین العابدین نے کی۔ ابن تیمیہ رحمہ نے لکھا ہے کہ زین العابدین کبار تابعین اور علمِ دین کے لحاظ سے اہم شخصیتوں مین سے تھے۔ انہوں نے اپنے باپ سیدنا حسین ، ابن عباس، سیدہ عائشہ ، ام سلمہ، صفیہ، سیدنا مروان بن حکم، سعیدبن مسیب، ذکوان اور عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہم سے علم حاصل کیاتھا۔ (منہاج السنہ جلد دوم، ص: 123)
حوالہ نمبر:2حضرت شاہ رکن عالم (بہائو الدین زکریاملتانی کے پوتے ) کے نانا حضرت شیخ جمال فرغانی انہی عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں۔ (مرآۃ المناقب ، قلمی نسخہ، مؤلفہ شیخ عماد الدین نبیرہ حضرت زکریاملتانی )دوسرا نسخہ حضرت زکریا ملتانی مخدوم حسن بخش صاحب قریشی مؤلف انوارِ غوثیہ کے پاس ہے۔ تیسرا نسخہ مخدوم محمدعارف شاہ قریشی قادر پور راواں کے کتب خانے میں ہے۔
حوالہ:نمبر3آزاد کشمیر کے دار السلطنت مظفر آباد کے بانی سلطان مظفر خان کا شجرۂ نسب بھی چوبیس واسطوں سے عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ تک جا پہنچتا ہے۔ (شجرہ خاندان اولادِ ذوالنورین )
(مرتبہ: خدا بخش نقشہ یونس مطبوعہ شاہی پریس راولپنڈی 1338ہجری )
حوالہ: نمبر4عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی نسل اریٹیریا اور حبشہ میں موجود ہے ۔ جسے سپنرٹری منگھم اپنی کتاب’’ اسلام اِ ن ایتھوپیا‘‘ صفحہ نمبر 151اکسفورڈ یونیورسٹی پریس 1952میں لکھتا ہے: خانوادہ جبرتی کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ وہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ رقیہ بنت رسول رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہیں جو حبشہ کی طرف اولین ہجرت کر کے جانے والوں میں شامل تھے۔ (فقہ القرآن از مولانا عمر احمد عثمانی بن شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی جلداول، ص:15)
حوالہ نمبر:5مولانا مفتی محمد طاہر مکی صاحب لکھتے ہیں: برصغیر پاک و ہند میں نواسۂ رسول عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی زیادہ نسل آباد ہے جن کا انتقال مشہور مؤرخ سعودی کی تحقیق کے مطابق 76برس کی عمر میں ہوا۔ (مسعودی جلد:2ص: 341)
حوالہ نمبر: 6 مولانا سلیمان احمد عباسی لکھتے ہیں: دیوان عثمان غنی رضی اللہ عنہ (مؤلفہ عبد الستار نووی مدرس دار العلوم دیوبند ) میں تصریح ہے کہ شیخ رکن عالم ملتانی حضرت عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں۔ دیوان عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر شیخ العرب والعجم حضرت مدنی مولانا اعزازی علی امروہی اور مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کی تقاریظ موجود ہیں۔ گویا یہ بات ان سب حضرات کی مصدقہ ہے۔ (اہلِ بیت ، ص: 84)
حوالہ نمبر: 7 ایک کتاب آل رقیہ الزاہر ارضی اللہ عنہا مصنف پیر سید محمد عبد الستار شاہ ملتانی ( 1338ھ ) میں طبع ہوئی اس پر علامہ سید احمد شاہ کاظمی، شبیر احمد عثمانی، السید انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ کی تقاریظ ہیں۔ اس کتاب میں عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی اولاد کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ (سادات بنو رقیہ از حکیم فیض عالم صدیقی رحمہ اللہ صفحہ:101)
ان حوالہ جات کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا اور کب کیا گیا؟ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ ساداتِ بنی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے سبائی مجوسی مؤرخین نے سب سے پہلے نبی اکرم ﷺ کی تین سگی بیٹیوں (سیدہ زینب، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہن) کے وجود کا انکار کیا گیالیکن جب ان کے بڑوں نے اپنی کتب میں آقا مدنی ﷺ کی ان تین بیٹیوں کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حقیقی بہنیں تسلیم کر لیا تو سبائی مجوسی ذہن نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد کے علاوہ اولادِ زینب و رقیہ (علی بن ابو العاص اور عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہم ) کے بارے میں یہ خطرناک سازش تیار کی اور ان کو چھوٹی ہی عمر میں مارنے کی پوری کوشش کی، جوکہ الحمد للہ دلائل و براہین سے جھوٹی ثابت ہو چکی ہے۔
( ابو مروان معاویہ واجد علی ہاشمی)
یہ آقا مدنی ﷺ کی لختِ جگر سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہیں ۔ بنتِ رسول سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح امام مظلوم مدینہ ، ناشر قرآن ، خالوئے حسین کریمین رضی اللہ عنہما ، ہم زلف حیدر کرار رضی اللہ عنہ، مجسمہ جود و سخا، حلیم امت، شرف انسانیت، قتیل سازشِ ابن سبا، جامع القرآن ، امیر المومنین خلیفہ ثالث سیدنا عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبوت کے پہلے سال ہو گیا تھا اور بعض کے نزدیک 4نبوی میں ہوا ۔ (اہل بیت رسول کون ،ص:128)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے ایک ہم عصر علامہ مخدوم محمد ہاشم سندھی نے سیرت کی ایک کتاب جس کا ترجمہ مولانامحمد یوسف لدھیانوی ؒ نے (عہد نبوت کے ماہ و سال )کے نام سے کیا ہے میں 2نبوی میں اس نکاح کی تصدیق کی ہے ۔ (عہد نبوت کے ماہ و سال ،ص:41فصل:2نبوی کے واقعات)
ابھی آپﷺ کے دعویٰ نبوت کو چار پانچ برس ہی گزرے تھے کہ قریشِ مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے ۔ سیر کی تمام کتب اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ مسلمانوں پر ان مظالم کی انتہا کردی گئی تو 5نبوی میں انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت مل گئی۔ یہ اسلام میں پہلی ہجرت تھی اور سب سے پہلے جس نے ہجرت اختیارکی وہ بنی امیہ بن عبد شمس میں سے حضرت عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے اپنی بیوی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی صاحبزادی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔(سیرت النبی ابن ہشام ،جلد :۱ص:207)
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد: 8ص:181پر لکھتے ہیں کہ ابن ہشام فرماتے ہیں’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور ان کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی وہاں ان کے ہاں عبد اللہ پیدا ہوئے جن سے ان کی کنیت ہے ۔‘‘ علمائے تاریخ نے لکھا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حبشہ ہجرت کے قیام کے دوران سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ایک بچہ پیدا ہو ا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا جو بعد میں عبد اللہ الاکبر کے نام سے مشہور ہوا اور اسی کی نسبت سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی کنیت ابو عبد اللہ رکھی۔ (اسد الغابہ ۔ تفسیر قرطبی، جلد: 14 ص: 242۔ طبقات ابن سعد، جلد:4حصہ ہشتم، ص:42۔ البدایہ و النہایہ ،جلد:7ص:429۔ طبری، جلد:3ص:478۔ الاستیعاب، جلد:3ص:70۔ حیات القلوب، جلد:2ص:871باب 51حضورﷺ کی اولاد کا تذکرہ )
اس عبد اللہ اکبر رضی اللہ عنہ کے بارہ میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ چھ برس کی عمر میں ایک روز ایک مرغ نے ان کو ٹھونک ماری جس سے زخم ہو گیا اور ان کا چہرہ متورم ہو گیا پھر اسی مرض میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کا انتقال جمادی الاولیٰ 4ھجری میں ہوا ،اس کے بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ (طبری، جلد: سوم، حصہ اول، ص: 478۔اسد الغابہ، جلد دوم، حصہ ہشتم، ص: 517۔ طبقات ابن سعد حصہ سوم، جلد:2ص:131) روایت کا یہ حصہ سبائی اور مجوسی ذہن نے ایک خاص سازش سے بنایا ہے تصور پنجتن کو مضبوط بنانے اور اولادِ فاطمہ ہی کو سادات شمار کرنے کے لیے رسالت مآب ﷺ کی تین بیٹیوں ہی کا انکار کردیا گیا۔ سبائی اور مجوسی مؤرخین نے یہاں گرگٹ کی طرح کئی رنگ بدلے ۔ کبھی کہا گیا کہ حضور اکرم ﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا ہے ۔ کبھی سیدہ زینب ، رقیہ ، کلثوم صلوۃ اللہ و سلام اللہ علیہا کو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پہلے خاوندوں کی اولاد کہا گیا ۔ حضور ﷺ کی سوتیلی بیٹیاں ثابت کیا گیا کیونکہ آقامدنی ﷺ کی یہ تینوں بیٹیاں خاندان بنو امیہ میں بیاہی گئیں تھیں ۔ سب سے بڑی صاحبزدی سیدہ زینب ؓبنت رسول ﷺ کی شادی ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھا نجے خالوئے حسن و حسین ؓ ، ہم زلف حیدر کرارؓ، شیر مجاز، شہید یمامہ ، شہید ختم نبوت سیدنا ابو العاص رضی اللہ عنہ (قاسم ،مقسم )بن الربیع سے ہوئی۔ (اسد الغابہ، جلد دوم، حصہ ہفتم،ص:806)
حضور اکرم ﷺ کے دوسرے نواسے علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہما کے حالات زندگی سبائی و مجوسی مؤرخین نے مسخ کرنے کی کوشش کی ۔ اسی طرح عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما کو بھی تاریخ کے صفحات سے مٹانے کی ناکام کوشش جاری رہی۔
علامہ سلیمان ندوی ؒ لکھتے ہیں: علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہما کی نسبت ایک روایت ہے کہ بچپن میں وفات پائی لیکن عام روایت یہ ہے کہ سن رشد (عمر بلوغت )کو پہنچے۔ ابن عساکر ؒ نے لکھا ہے کہ یرموک کے معرکے میں شہادت پائی۔ (سیرت النبیؐ، جلد دوم،زیر عنوان: اولاد رسول ،ص:465)
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد: 4صفحہ :139پر ابن عساکر کا قول نقل کیا ہے کہ علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہما جنگ یرموک (15ہجری ) میں شہید ہوئے۔ اسی طرح زبیر بن بکار کا قول بھی نقل کیا ہے کہ مجھ سے عمر بن ابی بکرالموصلی نے بیان کیا ہے :علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہما کی وفات بلوغت میں ہوئی اور فتح مکہ کے روز رسول اکرم ﷺ نے انہیں ساتھ سوار کیا تھا۔ الاصابہ کی اس روایت سے اس بات کی بھی تصدیق ہو گئی کہ فتح مکہ کے روز دوشِ مصطفی ﷺ پہ سوار ہو کر بیت اللہ کے بتوں کو توڑنے والے یہی نواسہ رسول علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہ ہی تھے، نہ کہ علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب۔ نام ایک جیسا(علی) ہونے کی وجہ سے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف یہ روایت سبائی اور مجوسی مؤرخین نے منسوب کردی ۔ اسی طرح اس روایت کو یہ سیدنا عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما چھ سال کی عمر (4ہجری ) میں انتقال کرگئے ۔ ہر سنی مؤرخ نے بھی یہی نقل کیا ہے اور ایک نے دوسرے کے لکھے پہ مکھی پر مکھی ماری ہے اور یہ بالکل خیال نہیں کیا کہ جب سیدنا عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما کا انتقال 4ہجری میں ہوا تو ان کی عمر چھ سال کیسے بنتی ہے؟
اس پر سب مؤرخین کا اتفاق ہے کہ سیدنا عبد اللہ کی ولادت حبشہ میں ہوئی جب سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ وہاں ہجرت کرکے گئے۔ علامہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ سیرت النبی پر اپنی معرکہ الآراء کتاب زاد المعاد صفحہ نمبر 686حصہ دوم میں رقمطراز ہیں کہ جب ایذائیں شدت اختیار کرگئیں تو اللہ تعالیٰ نے پہلی بار حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی، پہلے مہاجرین میں سے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ان کی بیوی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ تھیں۔ان لوگوں نے بعثت کے پانچویں سال رجب کے مہینے میں ہجرت کی۔ علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی رحمہم اللہ نے بھی اپنی شہرۂ آفاق کتاب سیرت النبی میں ہجرتِ حبشہ 5نبوی کا عنوان نقل کیا ہے۔ (صفحہ:118)
استاذ المحدثین مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ سیرت المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جلد اول فصل نمبر:3صفحہ :264پر ہجرت اولیٰ بجانب حبشہ ماہ رجب 5نبوی لکھتے ہیں کہ اس میں گیارہ مرد اور پانچ عورتیں تھیں۔ علامہ مخدوم محمد ہاشم سندھی رحمہ اللہ جو کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے ہم عصر ہیں۔ اپنی سیرت کی کتاب میں 5 نبوت کے واقعات میں ہجرت حبشہ اولیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح الاستیعاب جلد :4صفحہ:299، الاصابہ فی تمیز الصحابہ میں بھی ہجرت حبشہ ہی میں سیدنا عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی پیدائش کا ذکر ہے اور تما م اہلِ سیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہجرت حبشہ 5 نبوی میں ہوئی۔ اس طرح عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی عمر 4 ہجری میں 12سال بنتی ہے نہ کہ چھ سال۔ سید رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات 2 ہجری میں اس دن ہوئی جب زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ غزوۂ
بدر میں مسلمانوں کی فتح کی بشارت لے کر مدینہ منورہ پہنچے اس وقت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی تدفین ہو رہی تھی۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت ان کے بیٹے عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی عمر دس سال بنتی ہے۔ ( قیامِ حبشہ میں پہلے سال ولادت ہوئی) ہجرتِ حبشہ کا سال 5نبوت ہے۔ ہجرتِ مدینہ 13نبوی تک آٹھ سال اور 4 ہجری تک چار سا ل (8+12=4سال ) اس طرح سیدنا عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ نواسۂ رسول کی عمر مبارک 4 ہجری تک بارہ سال بنتی ہے نہ کہ چھ سال۔ معلوم نہیں کہ ان مؤرخین نے ان کی عمر چھ سال کیسے لکھ دی؟ سید رقیہ رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے سیدنا عبد اللہ کا 4 ہجری میں چھ سال کی عمر میں انتقال کر جانا تمام سنی مؤرخین اور اہلِ سیر نے لکھا ہے جس میں ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور ابن کثیر رحمہ اللہ جیسے بھی شامل ہیں۔
واقدی کے شاگرد ابن سعد نے طبقات میں عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی عمر دو سال بیان کی ہے کہ یہ بچہ عبداللہ دو سال کا ہوگیا تھا کہ ایک مرغ نے اس کے چہرے پر ٹھونگ ماری جس سے چہرہ متورم ہوگیااور بچہ فوت ہو گیا۔ ایک شیعہ مؤرخ سعودی جس کو شیعہ عالم عبد اللہ المامقانی اور شیخ عباس قمی نے اسے شیعہ علماء میں لکھا ہے۔ (تنقیح المقال فی احوال الرجال،جلد:2ص: 283)
مسعودی نے اپنی کتاب مروج الذہب جلد 2صفحہ نمبر 341طبع مصر میں لکھا ہے:
’’وکان لہ من الولد عبد اللہ الاکبر و عبد اللہ الاصغر امھما رقیۃ بنت رسول اللہﷺ‘‘اور آپ کی اولاد میں ایک عبد اللہ الااکبر اور دوسرے عبد اللہ الاصغر تھے ان دونوں کی والدہ سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ تھیں۔
عبد اللہ الااکبر کے بارے میں مسعودی لکھتا ہے: ’’عبد اللہ الااکبر کا لقب اس کے حسن و جمال کی وجہ سے مطرف تھااور انہوں نے بہت شادیاں کی تھیں اور بہت عورتوں کو طلاق دی تھی۔‘‘
(مروج الذہب،جلد: 2صفحہ: 341)
مسعودی کے ذہن میں مرغ کے ٹھونگے سے انتقال کرنا تھااس لیے اس نے لکھ دیا: ’’عبد اللہ الاصغر جب 76برس کے ہوئے تو مرغ نے ان کی آنکھ میں ٹھونگا مارا جو ان کی موت کا سبب بنا‘‘۔
مسعودی کے اس بیان سے یہ صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ چھ ، چار یا دو سال کی عمر میں فوت نہیں ہوئے بلکہ بلوغت کی عمر کو پہنچے۔ انہوں نے شادیاں کیں، طلاقیں دیں، ان کی نسل بھی چلی اور آج تک موجود ہے، لیکن ہمارے اہلِ سیر اور مؤرخ سبائی مجوسی سازش کو نہ سمجھ سکے ۔ ان کو بچپن ہی میں مار دیا تاکہ نواسۂ رسول کی نسل کو ختم کردیا جائے۔
اب ہم یہ دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ زندہ رہے ان کی نسل آج تک موجود ہے۔
حوالہ نمبر:1یہ وہی عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ تھے جن کی شاگردی زین العابدین نے کی۔ ابن تیمیہ رحمہ نے لکھا ہے کہ زین العابدین کبار تابعین اور علمِ دین کے لحاظ سے اہم شخصیتوں مین سے تھے۔ انہوں نے اپنے باپ سیدنا حسین ، ابن عباس، سیدہ عائشہ ، ام سلمہ، صفیہ، سیدنا مروان بن حکم، سعیدبن مسیب، ذکوان اور عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہم سے علم حاصل کیاتھا۔ (منہاج السنہ جلد دوم، ص: 123)
حوالہ نمبر:2حضرت شاہ رکن عالم (بہائو الدین زکریاملتانی کے پوتے ) کے نانا حضرت شیخ جمال فرغانی انہی عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں۔ (مرآۃ المناقب ، قلمی نسخہ، مؤلفہ شیخ عماد الدین نبیرہ حضرت زکریاملتانی )دوسرا نسخہ حضرت زکریا ملتانی مخدوم حسن بخش صاحب قریشی مؤلف انوارِ غوثیہ کے پاس ہے۔ تیسرا نسخہ مخدوم محمدعارف شاہ قریشی قادر پور راواں کے کتب خانے میں ہے۔
حوالہ:نمبر3آزاد کشمیر کے دار السلطنت مظفر آباد کے بانی سلطان مظفر خان کا شجرۂ نسب بھی چوبیس واسطوں سے عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ تک جا پہنچتا ہے۔ (شجرہ خاندان اولادِ ذوالنورین )
(مرتبہ: خدا بخش نقشہ یونس مطبوعہ شاہی پریس راولپنڈی 1338ہجری )
حوالہ: نمبر4عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی نسل اریٹیریا اور حبشہ میں موجود ہے ۔ جسے سپنرٹری منگھم اپنی کتاب’’ اسلام اِ ن ایتھوپیا‘‘ صفحہ نمبر 151اکسفورڈ یونیورسٹی پریس 1952میں لکھتا ہے: خانوادہ جبرتی کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ وہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ رقیہ بنت رسول رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہیں جو حبشہ کی طرف اولین ہجرت کر کے جانے والوں میں شامل تھے۔ (فقہ القرآن از مولانا عمر احمد عثمانی بن شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی جلداول، ص:15)
حوالہ نمبر:5مولانا مفتی محمد طاہر مکی صاحب لکھتے ہیں: برصغیر پاک و ہند میں نواسۂ رسول عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی زیادہ نسل آباد ہے جن کا انتقال مشہور مؤرخ سعودی کی تحقیق کے مطابق 76برس کی عمر میں ہوا۔ (مسعودی جلد:2ص: 341)
حوالہ نمبر: 6 مولانا سلیمان احمد عباسی لکھتے ہیں: دیوان عثمان غنی رضی اللہ عنہ (مؤلفہ عبد الستار نووی مدرس دار العلوم دیوبند ) میں تصریح ہے کہ شیخ رکن عالم ملتانی حضرت عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں۔ دیوان عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر شیخ العرب والعجم حضرت مدنی مولانا اعزازی علی امروہی اور مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کی تقاریظ موجود ہیں۔ گویا یہ بات ان سب حضرات کی مصدقہ ہے۔ (اہلِ بیت ، ص: 84)
حوالہ نمبر: 7 ایک کتاب آل رقیہ الزاہر ارضی اللہ عنہا مصنف پیر سید محمد عبد الستار شاہ ملتانی ( 1338ھ ) میں طبع ہوئی اس پر علامہ سید احمد شاہ کاظمی، شبیر احمد عثمانی، السید انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ کی تقاریظ ہیں۔ اس کتاب میں عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی اولاد کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ (سادات بنو رقیہ از حکیم فیض عالم صدیقی رحمہ اللہ صفحہ:101)
ان حوالہ جات کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا اور کب کیا گیا؟ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ ساداتِ بنی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے سبائی مجوسی مؤرخین نے سب سے پہلے نبی اکرم ﷺ کی تین سگی بیٹیوں (سیدہ زینب، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہن) کے وجود کا انکار کیا گیالیکن جب ان کے بڑوں نے اپنی کتب میں آقا مدنی ﷺ کی ان تین بیٹیوں کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حقیقی بہنیں تسلیم کر لیا تو سبائی مجوسی ذہن نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد کے علاوہ اولادِ زینب و رقیہ (علی بن ابو العاص اور عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہم ) کے بارے میں یہ خطرناک سازش تیار کی اور ان کو چھوٹی ہی عمر میں مارنے کی پوری کوشش کی، جوکہ الحمد للہ دلائل و براہین سے جھوٹی ثابت ہو چکی ہے۔