مکتوب نبویﷺ بنامِ شاہِ روم

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
مکتوب نبویﷺ بنامِ شاہِ روم

( ابن سلطان )

امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب بخاری میں آپ کے اس مکتوب گرامی کا تذکرہ کیا جو آپ نے شاہِ روم ہرقل کے نام تحریر فرمایا تھا۔ اس مکتوب میں درج شدہ ارشاداتِ نبویہ کی تشریح ہم پچھلے شماروں میں قارئین تک پہنچا چکے ہیں۔ اس سلسلہ کے لیے دیکھیے ضیائے توحید ماہ اگست، ستمبر اور اکتوبر۔ اس دفعہ کا ضیائے توحید اسی سلسلہ کی آخری کڑی ہدیۂ قارئین ہے۔ (اس پیراگراف کے ارد گرد ڈبہ بناناہے)
(آل عمران:64)یہ آیت کریمہ امام الانبیاءﷺ کے اس مکتوب گرامی کا حصہ ہے جو آپﷺ نے شاہِ روم ہرقل کے نام تحریر فرمایا تھا۔ سب سے پہلے اس آیت کا ترجمہ پڑھ لیجیے۔

ترجمہ: اے اہلِ کتاب! ایک ایسی بات کی طرف آئو جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے یہ کہ ہم سب اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم اللہ کے سوا ایک دوسرے کو اپنا رب بنائیں پھر اگر وہ اہلِ کتاب (اس بات کو)قبول نہ کریں تو کہہ دو گواہ رہنا کہ ہم تو حکم کے فرمانبردار ہیں۔

تشریح: امام الانبیاءﷺ نے اپنے مکتوب گرامی میں جو ایک عیسائی بادشاہ ہرقل کے نام تحریر کیا گیا تھا اس آیت کو بطور دعوت کے پیش فرمایا، جس سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ یہود و نصاریٰ میں شرک کی جتنی اقسام پائی جاتی تھیں وہ سب کی سب ان کی من گھڑت اور خود ساختہ تھیں، ورنہ انہیں عطا ہونے والی آسمانی کتابوں میں بھی ٹھیک اسی توحید کی دعوت دی گئی تھی جو قرآن نے جگہ جگہ پیش کی ہے۔ ان کے مشرکانہ عقائد و اعمال کا ان کی اصل کتب میں دور دور تک نام و نشان تک نہیں ملتا تھا۔

ہرقل کا آپﷺ کے مکتوب گرامی سے متأثر ہونا اور اس کی تردید میں کچھ نہ کہنا بھی اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ منیب اور باخبر عیسائی خوب جانتے تھے کہ ان کی کتاب انجیل میں بھی فقط اللہ کی عبادت کا حکم اور شرک سے اجتناب کی تعلیم دی گئی ہے ورنہ تو ہر قل اس آیت کو پڑھ اور سن کر فوراً کہتا کہ یہ بات ہمارے اور مسلمانوں کے مابین مساوی کیسے ہے کہ اکیلے اللہ ہی کی بندگی کریں؟

عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اللہ ر ب العزت نے کسی بھی زمانے میں کسی بھی قوم کے پاس جو کتاب بھیجی ہو گی اس میں لازماً اس بات کا تقاضا کیا ہو گا کہ بندگی و عبادت کے لائق صرف اور صرف میں ہوں اور میرے علاوہ کوئی بھی تمہاری عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ یہ کسی طرح ممکن ہے کہ بعد والی کتاب (قرآن )میں تو اللہ تعالیٰ خالص توحید کی دعوت دے اور پہلی کتابوں میں اس کے بر عکس شرک کی اجازت دیتا رہا ہو۔
سورت آل عمران کی زیرِ بحث آیت کی طرح سورت التوبہ کی آیت نمبر 31میں ارشاد ہوا:
ترجمہ: ان لوگوں (یہود و نصاریٰ )نے اپنے علماء اور اپنے مشائخ کو رب بنا رکھا ہے ۔
اس آیت کی تفسیر حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی بیان کروہ حدیث سے بخوبی ہو جاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ سے یہ آیت سن کر تعجب سے عرض کیا کہ یہودو نصاریٰ میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنے مذہبی پیشوائوں اور درویشوں کو رب یا معبود مانتا ہو۔۔۔پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انہوں نے ان کو رب بنا لیا؟امام الانبیاءﷺ نے فرمایا: یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے ان کو زبان سے رب اور معبود نہیں کہا مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے مذہبی پیشوائوں کی حلال کردہ چیزوں کو حلال مان لیا اور جس چیز کو انہوں نے حرام کہہ دیا اس کو حرام سمجھ لیا، یہی ان کو معبود اور رب ماننا ہے۔ (ترمذی)

کیونکہ حلال و حرام کرنے کا اختیار صرف اللہ رب العالمین کو ہے یہی حق اگر کوئی شخص کسی اور کے اندر تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اسے اپنا رب بنالیا ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ علیہ نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ’’بل المراد انہم اطاعواہم فی اوامرہم و نواہیہم ‘‘
ترجمہ: رب بنانے سے مراد یہ ہے کہ ان کے اوامر و نواہی میں بلا دلیل ان کی پیروی کرتے ہیں۔

حکیم الامت کے خلیفہ مولانا دریا آبادی رحمہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: اس میں مسلمانوں کے لیے بھی بڑی عزت ہے۔ انہوں نے اپنے مشائخ کو مستقل مطاع قرار دے کر انہیں معصومیت بلکہ خدائی کے مرتبہ پر پہنچا دیا ہے۔ قرآن کی صریح آیت کو اپنے ضمیر کی صریح شہادت کو اور کھلے ہوئے مشاہدے کو سب چھوڑ دیں گے لیکن اپنے مشائخ کے قول کو نہ چھوڑیں گے۔

اربابا من دون اللہ کی تفسیر و تشریح اور توضیح میں مولانا ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ (کس پایہ کے عالم اور کس شان کے مفسر تھے اسے شرک و بدعات کے رسیا لوگ کیا جانیں؟ ہاں جن خوش نصیب لوگوں کو اللہ رب العزت نے خوش ذوقی، سلامتیٔ طبع اور علمی ذوق سے نوازا ہے وہ جانتے ہیںکہ موصوف بہت بلند درجہ عالم تھے اور تفسیر مظہری لکھتے ہوئے علمائے سلف کی معتبر تفسیریں ان کے سامنے رہی ہیں انہوں نے جو بات بھی تحریر فرمائی وہ کتبِ قدیمہ کی عرق ریزی کے بعد تحریر فرمائی) نے کیا تحریر فرمایا ہے؟ ذرا غور سے پڑھیئے: جو کچھ جاہل لوگ ولیوں اور شہیدوں کی قبروں کے ساتھ کرتے ہیں وہ جائز نہیں ہے۔ مثلاً:ان کے سجدے اور ان کے گرداگرد طواف کرنا اور ان پر چراغ جلانا اور وہاں مساجد بنانا اور عیدوں کی طرح ہر سال وہاں جمع ہونا اور اس کا نام عرس رکھنا، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ آخری مرتبہ بیمار ہوئے تو (اضطراب کی وجہ سے )کبھی چادر اپنے چہرۂ پر انوار پر ڈال لیتے تھے اور کبھی چادر چہرے سے ہٹا دیتے تھے اور فر ماتے تھے: یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی لعنت ہو قبروں پر جانے والی عورتوں پر اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے اور ان پر چراغ جلانے والوں پر۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ علیہ نے تصریح کی ہے کہ شاہِ روم ہرقل نے امام الانبیائﷺ کے اس خط کو بطورِ تعظیم سونے کی ایک ڈبیہ میں محفوظ کیا اور پھر یہ بادشاہوں میں وراثتاً بطورِ امانت منتقل ہوتا رہا۔
بعض محدثین رحمہ اللہ علیہم نے اس واقعہ میں کچھ غیر تحقیقی باتیں بھی اپنی کتابوں میں بلا سند درج کردی ہیں۔ مثلاً: قاصدِ رسول حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو ہرقل نے دوسرے دن اپنے محل میں بلایا وہاں بہت ساری تصویریں آویزاں تھیں(313)ہرقل نے کہا یہ سب تصویریں انبیاء کرام علیہم السلام کی ہیں تم بتا سکتے ہو کہ اس میں تمہارے نبی کی تصویر کونسی ہے؟ میں نے ایک تصویر کی نشاندہی کی تو ہرقل کہنے لگا یہی آخری نبی کی تصویر اور شبیہ ہے۔
یہ قصہ غیر مستند ہے مگر سابقہ کتب میں میرے نبیﷺ کے احوال و افعال، چال ڈھال، قد کاٹھ، نین نقش، خدو خال اور اخلاق و عادات کا تذکرہ اتنی وضاحت سے کیا گیا تھا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا: (البقرہ:146پوری )
ترجمہ: جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ انہیں (یعنی نبی اکرمﷺ )کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور ان میں کچھ لوگ دیدہ دانستہ حق چھپاتے ہیں۔
جو خط آپﷺ نے خیبر کے یہودیوں کے نام لکھوایا تھا اس میں آپ نے لکھ دیا: اے اہلِ تورات! کیا اللہ نے تورات میں یہ نہیں فرمایا کہ محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور کیا تورات میں مجھ پر ایمان لانے کا حکم لکھا ہوا نہیں ہے؟
مستند روایات میں یہ بات موجود ہے کہ انجیل و تورات میں نبی اکرمﷺ کا تفصیلی تذکرہ موجود تھا اور خود یہود و نصاریٰ تک کو (جو کتمان حق کے مرتکب تھے )اقرار تھا کہ آخری نبی کا تذکرہ ہماری کتب میں موجود ہے۔
نبی اکرمﷺ کا ذکرِ خیر تو اپنی جگہ رہا کتبِ سابقہ میں آپﷺ کے ساتھیوں کے تذکرے اور مثالیں موجود تھیں۔ سورت الفتح کی آخری آیت میں ہے: ان کی (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم)یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے۔
 
Top