غزل
ہمیں ملال جفاوں ستم نہیں ہو گا
تم اپنا کہدو تو پھر اپنا غم نہیں ہوگا
حریف جلوہ دیرو حرم نہیں ہوگا
خدا پرست رقیب صنم نہیں ہو گا
جہاں دار ورسن میں جنوں کی عظمت ہے
بنام عقل کو ئی محترم نہیں ہو گا
چلاو تیغ مگر شرط ایک ہے یارو
ہمارے بعد کوئی سر قلم نہیں ہو گا
چارہ گری پر نہ کوئی ناز کرے
یہ درد درد مصائب سے کم نہیں ہو گا
میں رہ گذار انا کی طرف نہیں جاتا
یہ کیا خبر تھی کوئی ہم قدم نہیں ہو گا
نہ ٹوٹ جائیگا طلسم سود وزیاں
زوال آئینہ بیس وکم نہیں ہو گا
وہ باب مصلحت وقت ہو کر قصر عرش
سر شعور کسی درپہ غم نہیں ہوگا
امیر شہر قناعت جو گا اے ہمسر
فقیر کوچہ اہل کرم نہیں ہو گا
ہمسر
ہمسر