دسویں صدی کے فقہاء ہند

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دسویں صدی کے فقہاء ہند​
شیخ احمد بن زین الدین جو نپوری
شیخ احمد بن زین برونوی جونپوری، جونپور کے نواح میں ایک مقام "برونہ"کے رہنے والے تھے، صالح عالم دین اور فقیہ عصر تھے ۔بہت ہی نیک اور پر ہیز گار تھے شیخ معروف بن عبد الوسع جونپوری کے شاگرد تھے ،اور شیخ معروف مولانا اللہ داد کے تلمیذ ومرید تھے، جو مدرک التنزیل ،ہدایہ، کافیہ اورشافیہ کے شارح تھے ْ۔شیخ احمد نے اخذ طریقت بھی شیخ معروف سے کیا اورلمبی مدت تک ان سے وابسطہ رہے یہاں تک کہ مرتبہ کمال کو پہونچے۔ اکثر علوم مروجہ میں ماہر تھے متبع شریعت مطہرہ زہد وقانع بزرگ تھے ۔احتیاط کا یہ عالم تھا کہ لوگوں کے تحائف وہدایا قبول نہ کرتے اور اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے ۔ان کے شیخ نے کچھ رقم دی تھی اس سے تجارت کرتے اور جو نفع حاصل ہو تا ،اس سے گزر بسر کرتے تھے ۔ان کے یہ اقوال مشہور ہیں۔
کہ "فقراء سے وابسطہ رہو ،خیر ان ہی میں ہے "امور دینیہ میں سوال اس لئے کہ حق ان ہی کے ساتھ ہے۔"
یکم جمادی الاخریٰ ۹۶۳ ھ کو برونہ میں انتقال کیا ۔
شیخ احمد بن ضیاء الدین مندوی
شیخ احمد بن ضیاء الدین حسینی مندوی ،مشہور عالم وفیقہ تھے ،اور تصوف وطریقت سے بھی تعلق رکھتے تھے ۔سرا ج العاشقین کے لقب سے مشہور تھے ۔شیخ سلیمان بن عفان مندوی کے فیض یا فتہ تھے۔ عابد وزاہد ،قلیل الطعام ،قلیل النوم ،راضی برضائے الٰہی اور متوکل علی اللہ تھے ۲۹ محرم ۹۸۸ھ کو فوت ہو ئے۔
شیخ احمد بن عبد القدوس گنگوہی
شیخ احمد بن عبد القدوس گنگوہی حنفی المسلک وسلوک سے سے بھی گہرو لگاؤ تھا اورمشہور مشائخ وقت میں سے گردانے جاتے تھے ۔اپنے والد بزرگ وارشیخ عبد القدوس گنگوہی کے فیض یافتہ تھے،سماعِ غنا ،اثبات وحدۃ الوجود سے متعلق انہوں نے الگ الگ رسالےتصنیف کئے ۔لیکن ان مسائل میں ان کے بیٹے شیخ عبد الغنی محدث گنگوہی صدر الصدور نے ان کی مخالفت کی اور حرمت سماع ایک رسالہ تصنیف کیا ،جس میں اپنے والد اور شیخ عبد القدوس گنگوہی کے مسلک کی سخت تر دید کی۔اس پر شیخ عبد القدوس نے ان کو گھر سے نکال دیا اور وہ دہلی چلے گئے ۔بادشاہ ہند جلال الدین اکبر کو ان کی علمی رفعت کا پتہ چلا تو اس نے ان کو ہندی کی وزارت عظمیٰ پر متمکن کیا اور صدر الصدور کے منصب سے نوازا ۔شیخ احمد بن عبد القدوس نے ۹۷۲ھ میں وفات پائی۔
شیخ احمد بن عبد الملک لا ہوری
شیخ احمد بن عبد الملک لاہوری فقہی مسلک کے اعتبار سے حنفی تھے ۔ نہایت فاضل آدمی تھے اور حدیث فقہ کے ماہرین میں سے تھے ۔بعض درسی کتا بیں شیخ منصور لاہوری سے پڑھیں اور امہات الکتب کے لئے شیخ عبد اللہ بن شمس الدین سلطانپوری کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان ہی کے ساتھ لاہور آئے اور پھر یہیں سکونت پذیر ہو گئے ۔سراپا فقر ،فنا فی اللہ ، پیکر زہد اور بدرجہ غایت پا بند شریعت تھے ۔ہمیشہ تدریس وافتادہ میں مصروف رہے۔ جمعہ کے روز محرم ۹۶۶ھ کو فوت ہو ئے۔
شیخ احمد بن مجد الدین شیبانی
شیخ احمد بن مجد الدین بن تاج الدین شیبانی نار نولی ،امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد بن حسن شیابانی کے نسل سے تھے ۔ نار نول میں پیدا ہوئے اور وہیں پر پرورش پائی۔شیخ حسن بن خالد نو گوری اور شیخ با یزید بن قیام الدین اجمیری سے تحصیل علم کی اور عرصہ تک ان کی صحبت وملازمت میں رہے۔ شیخ وقت اور بہت بڑے عالم تھے ۔کتابوں پر عبور واستحضار کا یہ عالم تھا کہ اٹھارہ سال کی عمر میں مسند تدریس پر فائز ہوگئے تھے ۔نار نور سے اجمیر چلے گئے تھے ۔جب رانا سانگا اجمیر پر حملہ آور ہوا اور اس نے مسلمانوں کو قتل اور ان کے اموال ودولت کو لوٹنا شروع کیا تو ۹۲۲ھ کو وہاں سے نکلےاور نار نول چلےگئے ۔کچھ عرصہ وہاں ٹہرے پھر نا گور منتقل ہو گئے ۔وہیں سفر آخرت کو روانہ ہوئے۔
بڑے فاضل ،متقی اور متورع بزرک تھے ۔ہمیشہ امر با لمعروف ونہی عن المنکر میں مشغول رہتے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ۔ان کا معمول تھا کہ آدھی رات کو اٹھ جاتے اور ذکر وعبادت اور تہجد میں مصروف ہو جاتے ،چاشت کے وقت تک کسی سے بات نہ کرتے ۔اس کے بعد ظہر تک درس وتدریس کا سلسلہ جاری رہتا ۔ پھر عصر اوراد وظائف میں مشغول رہتے ،عصر کے بعد وعظ تذکیر کے انداز میں مدارک التنزیل کا درس دیتے ۔درس کے وقت ان پر رقت وبکا کا غلبہ طاری رہتا اور قلب کی دنیا بدلی ہو ئی نظر آتی ۔مدارک التنزیل کے درس کا وہی انداز تھاجو ان کے بزرگوں واساتذہ کا تھا۔
امر با لمعروف ونہی عن المنکر میں کسی بڑے سے بڑے کی پرواہ نہ کرتے اس کااندازہ اس واقعہ سے ہو سکتا ہے جو وہ خوبیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کم عمری کے دور میں طلب معاش کے سلسلے میں اپنے چند متعلقین کے ساتھ مانڈو گئے ۔محمود دہلوی وہاں کے شیخ الحدیث اور حکومت کی طرف سے علماء کے صدر الصدور تھے جماعت کھڑی ہوئی تو شیخ محمود نے اللہ اکبر کہہ کر امام سے پہلے ہی نماز کیلئے ہاتھ باندھ لئے نماز سے فارغ ہوئے تو شیخ الاسلام سے کہا ،آپ کی نماز نہیں ہوئی اس لئے کہ امام کے تکبیر کہنے سے پہلے ہی آپ نے اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لئے تھے ۔
مانڈو کی شاہی رسم یہ بھی تھی کہ لوگ پوری طرح زمین کی طرف جھک اور انگوٹھا زمین پر رکھ کر شیخ الاسلام کو سلام کرتے تھے لیکن شیخ احمد شیبانی اور قاضی ادریس دہلوی جو ایک زبر دست عالم تھے شاہی رسم کے مطابق سلام نہیں کرتے تھے وہ بر ملا کہتے تھے کہ یہ بدعت ہے ۔یہ دونوں شریعت کے مطابق السلام علیکم کہتے اور بادشاہ کے برابر بیٹھتے تھے ۔بادشاہ نے عدل وانصاف کے تقا ضوں کو بطریق احسن پورا کر نے کی غرض سے قاضی ادریس کو اجمیر کا قاضی مقرر کیا تھا اور چار گاؤں انعام میں دیئے تھے اور مسند افتاء شیخ احمد کے سپرد تھی ان کے اسلاف بھی اسی مسند پر فائز تھے ۔
اس عالم دین نے ۲۵ صفر ۹۲۷ھ کو انتقال کیا۔
شیخ احمد بن محمد نہر والا
شیخ احمد بن محمد بن قاضی خن عدنی خر قانی ان کی کنیت ابو العباس تھی اور لقب علاء الدین احمد نہر والی گجراتی کے نام سے معروف تھے ،مفتی قطب الدین محمد نہر والی کے نام کے والد تھے جو مکہ مکرمہ کے منصبِ افتاء پر فائز تھے ان کے جد امجد کا نام قاضی خان تھا ، مگر یہ وہ قاضی خان نہیں ہیں جو مشہور فتاویٰ ( قاضی خان) کےں سے مصنف ہیں ، بلکہ یہ علماء نہر والا میں سے ہیں ۔
شیخ احمد بن محمد ۸۷۰ھ میں پیدا ہو ئے اور نہر والا کے فاضل علماء سے علم حاصل کیا ۔پھر عازمِ حرمین شریفین ہوئے اور وہاں ائمہ حدیث کی ایک بڑی جماعت سے کتب احادیث پڑھیں ۔یہ صحیح بخاری کی مسند عالی کے حامل تھے ،جس کا سلسلہ صرف چھ واسطوں سے امام بخاری تک پہنچتا ہے۔ جو درج ذیل ہے۔
شیخ احمد بن محمد نے صحیح بخاری حافظ نور الدین ابو الفتوح احمد بن عبد اللہ طاؤسی نزیل گجرات سے پڑھی جو صلاح وتقویٰ سے متصف تھے ،انہوں شیخ یوسف سمر ہروی سے پڑھی جو سہ صد سالہ کے نام سے معروف تھے یعنی انہوں نے تین سو سالہ عمر پائی انہوں نے محمد بن شاد بخت فر غانی سے پڑھی جو ایک معمر بزرگ تھے ۔انہوں نے سمر قند ایک بہت بزرگ شیخ ابو لقمان یحییٰ بن عمار بن مقبل بن شاہان ختلانی سے پڑھی جنہوں نے ایک سو تینتالیس سال عمر پائی ۔انہوں نے خود جامع صحیح امام محمد بن اسمٰعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی ۔
شیخ ابو العباس احمد علاء الدین نہر والی نہایت صالح ،عالم دین اور اپنے دور کے معروف محدث تھے ۔مکہ مرمہ میں اقامت اختیار کرلی تھی ۔آخر عمر میں نا بینا ہو گئے تھے ۔
شیخ احمد کے بیٹے قطب الدین محمد کا بیان ہےکہ جب تک میرے والد کی بینائی قائم رہی وہ ہر سال قربانی کے دن رمی سے فوراً بعد جمرہ عقبہ سے مکہ مکرمہ آجاتے ،بیت اللہ کی طرف رخ کر کے حطیم میں بیٹھ جاتے اور طواف کر نے والوں کو دیکھتے رہتے ۔وہ نماز مغرب تک وہیں بیٹھتے ۔مغرب کے بعد بیت اللہ کا طواف اور سعی کرتے ۔ پھر منیٰ واپس چلے جاتے ۔فرمایا کرتے کہ اولیاء اللہ کیلئے ضروری ہے کہ ہر سال حج کریں اور افضل پر عمل پیرا ہوں ۔اور افضل یہ ہے کہ یوم النحر کو دن کے پہلے حصے میں طواف زیارت کیلئے آئیں ۔میں بھی یہی کرتا ہوں اور حطیم میں بیٹھ کر طواف کر نے والوں کو دیکھتا رہتا ہوں کہ شائد کہ میری نظر کسی اہسے نیک آدمی پر پڑ جائے یا اسکی نظر مجھ پر پڑ جائے جس کی وجہ سے میں اللہ کے نزدیک کامیاب قرار پایا جاؤں۔بینائی ختم ہو نے کے بعد بھی وہ معمول کے مطابق وہیں آکر بیٹھ جاتے اور فر ماتے میں تو کسی کو دیکھ نہیں سکتا لیکن ممکن ہے کسی مرد صالح کی نظر مجھ پر پڑ جائے اور میں اللہ کا صالح بندہ بن جاؤں ۔ان کی وفات ۹۴۹ھ کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
شیخ احمد بن محمد بہاری
شیخ احمد بن محمد بن طیب حنفی بہاری ،عالم وفقیہ تھے اور ان کا شمار اپنے زمانہ کے نامور فقہا میں ہوتا تھا قصبہ بہار کے قریب ایک قریہ میں پیدا ہوئے اور وہیں نشو ونما پائی ۔اپنے والد گرامی شیخ محمد بن طیب سے جو اُس دور کے عالم دین اور مشہور اساتذہ میں سے تھے اور شیخ بدھا طیب کے نام سے معروف تھے ،کسب علم کیا ۔
سر زمین ہند کے دسویں صدی ہجری کے اس فقیہ کی کسی تصنیف کا پتہ نہیں چل سکا
 
Top