حضرت شیخ کے بارے میں بعض اکابر امت کی رائے
تمام مشائخ کرام کا آپ کی فضیلت پر اتفاق ہے۔حضرت شیخ کے متعلق شیخ معمر بیان کرتے ہیں:
’’ میری آنکھوں نے شیخ عبد القادر جیلانی کے سوا کسی کو اتنا خوش اخلاق، وسیع القلب، کریم النفس، مہربان، وعدوں اور دوستی کا نبھانے والا نہیں دیکھا۔لیکن اتنے بلند مرتبت اور وسیع العلم ہونے کے باوجود چھوٹوں کو شفقت سے بٹھاتے، بزرگوں کا احترام کرتے، سلام میں پہل کرتے اور درویشوں کے ساتھ حلم اور تواضع سے پیش آتے۔ کبھی کسی حاکم یا بڑے آدمی کے لیے کھڑے نہ ہوتے نہ کبھی بادشاہ یا وزیر کے دروازے پر جاتے۔‘‘ (قلائد الجواہر)
شیخ علی بن ادریس یعقوبی بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے شیخ علی بن الہیتی سے حضرت شیخ کے طرز عمل کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بتایا:
’’ان کا طرز عمل اللہ کی موافقت و سپردگی تھا۔ان کا طریقہ خالص توحید تھا۔ اور ان کا باطن حضوری کی وجہ سے مکمل توحید بن چکا تھا۔ان کو عبودیت کا وہ مقام حاصل تھا جہاں خدائے واحد کے سوا کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ ان کی عبودیت پوری طرح ربوبیت سے مدد حاصل کرتی تھی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مصاحبت و قرب سے کبھی جدا نہ ہونے کی وجہ سے بہت بلند مراتب حاصل کیے اور ان کے حصول کی وجہ آداب شریعت کو ملحوظ رکھنا ہے۔آپ قضا و قدر کے فیصلوں پر بالکل ساکت رہتے اور قلب و روح کو قضا و قدر کے فیصلوں پر راضی رہنے والا بنا چکے تھے۔آپ کا ظاہر و باطن یکساں تھا۔غیوبیت کا ایسا عالم طاری رہتا کہ نفسانی خواہشات سے جدا ہو کر سود و زیاں اور قرب و بعد سے یکسر بے گانہ ہو چکے تھے۔ آپ کے قول و فعل میں یگانگت تھی، اخلاص و تسلیم آپ سے ہم کنار تھے اور اللہ کے ساتھ ثابت قدم رہ کر اپنی واردات قلبی اور اپنے احوال کو ہر لمحہ کتاب و سنت کے سانچے میں ڈھالے رکھتے تھے۔اللہ تعالیٰ سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ فنا فی اللہ ہو کر رہ گئے تھے۔بڑے بڑے متقدمین اولیا آپ کے مقابلے میں کمزور معلوم ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تحقیق و تدقیق کے سلسلے میں آپ کا مقام بہت بلند کر دیا تھا۔‘‘ (قلائد الجواہر)
حضرت شیخ کے متعلق شیخ الاسلام شہاب الدین حجر سے سوال کیا گیا کہ کیا شیخ عبد القادر جیلانی سماع (قوالی) میں شریک ہوتے تھے اور کیا سماع میں فقرا دف یا دوسرے سازوں کا استعمال کرتے تھے؟ کیا شیخ نے کبھی سماع کے مباح یا حرام ہونے کے متعلق بھی کچھ فرمایا ہے؟
شیخ الاسلام نے جواب دیا:
’’جہاں تک ہمارے پاس شیخ کے صحیح حالات پہنچے ہیں وہ تو یہ ہیں کہ آپ فقیہ و زاہد اور عابد و واعظ تھے اور لوگوں کو زہد اختیار کرنے اور توبہ کرنے کا درس دیتے تھے۔ گناہ کی سزا سے لوگوں کو ڈراتے تھے۔ بے شمار لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کی۔آپ سے اس کثرت کے ساتھ کرامتیں منقول ہیں کہ آپ کے زمانے یا آپ کے بعد آنے والے اولیا سے منقول نہیں لیکن ہمیں مزامیر (موسیقی کے آلات) کے ذریعے سماع میں ان کی شرکت کا علم نہیں ہے۔‘‘ (قلائد الجواہر)
لیکن غنیۃ الطالبین میں حضرت شیخ نے اپنا نقطہ نظر واضح فرما دیا ہے۔ حضرت شیخ لکھتے ہیں:
’’سماع، قوالی مزامیر اور رقص کو ہم جائز نہیں جانتے۔‘‘
علامہ ابوالحسن مقری بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد موفق الدین بن قدامہ سے سنا:
’’جب میں بغداد میں داخل ہوا تو یہ وہ دور تھا جب شیخ عبدالقادر جیلانی علم و فضل، حال و قال کی انتہائی منزل پر تھے۔ کسی طالب علم کو دوسرے علما کے پاس جانے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔آپ کی ذات سرچشمہ علوم و فیض تھی۔ آپ کا طرز عمل طالب علموں کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ آپ صبر و تحمل اور وسیع النظری سے کام لیتے اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ آپ ان اخلاق کے حامل تھے کہ آپ کے بعد دوسرا کوئی شخص میری نظروں سے نہیں گزرا۔آپ اکثر خاموش رہتے۔ لیکن جب گفتگو فرماتے تو لوگوں کے ظاہری اور باطنی حالات پر اظہار خیال فرماتے۔نماز جمعہ یا خانقاہ جانے کے علاوہ کبھی مدرسے سے باہر نہ نکلتے۔ اہل بغداد کی بہت بڑی تعداد نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کی۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔‘‘ (قلائد الجواہر)
انہی موفق الدین کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت شیخ کے بالکل آخری ایام میں ان سے شرف ملاقات حاصل کیا۔آپ ان سے بہت شفقت سے پیش آئے۔ انہوں نے حضرت شیخ سے بعض کتابیں پڑھیں اسی قیام کے دوران حضرت شیخ کا انتقال ہوگیا۔ (قلائد الجواہر)
شیخ الاسلام عزالدین فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ نہایت درجہ حساس تھے اور شریعت پر سختی سے عمل پیرا تھے اور ان کی طرف تمام لوگوں کو متوجہ کرتے رہتے تھے۔مخالفین شریعت سے ہمیشہ اظہار تنفر کرتے۔ (قلائد الجواہر)
حافظ زین الدین نے لکھا ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی شیخ وقت، علامۃ الدہر، قدوۃ العارفین، سلطان المشائخ اور سردار اہل طریقت تھے۔آپ کو مخلوق میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔اہلسنت کو آپ کی ذات سے بڑی قوت حاصل ہوئی اور بدعتیوں کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ (قلائد الجواہر)
حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ آپ نے بغداد آنے کے بعد حدیث کی سماعت کی۔ پھر فقہ، علوم حقائق اور فن خطابت میں مہارت حاصل کی۔آپ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے علاوہ اکثر خاموش رہتے۔آپ کا زہد و تقوی اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ خوارق و کرامات و مکاشفات کا اکثر ظہور ہوتا تھا۔آپ برسر منبر ظالم امیروں اور سلطنت کے اہل کاروں پر گرفت فرماتے اور اللہ کی راہ پر عمل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی ذرا پرواہ نہ کرتے۔آپ کی صحبت میں بیٹھنے والا ہر فرد یہی محسوس کرتا کہ سب سے زائد شفقت آپ کی اسی پر ہے۔ غیر حاضر لوگوں کے حالات دریافت فرماتے۔ دوستی کو نبھاتے، لوگوں کی غلطیاں معاف فرماتے اور یہ جانتے ہوئے کہ اس شخص نے جھوٹی قسم کھائی ہے اس کی قسم کا یقین کر لیتے۔ (قلائد الجواہر)
حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ نے بھی جامعہ نظامیہ بغداد ہی میں تعلیم حاصل کی جہاں حضرت شیخ مدرس رہے تھے۔شیخ سعدی کی ولادت حضرت شیخ کی وفات سے ۱۴ سال بعد کی ہے۔ اپنی مشہور تصنیف گلستان میں حضرت شیخ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:
’’لوگوں نے عبد القادر جیلانی کو کعبہ میں دیکھا کہ کنکریوں پر چہرہ رکھے ہوئے عرض کر رہے تھے: اے مالک بخش دے اور اگر میں مستحق سزا ہوں تو قیامت میں مجھے نابینا اٹھانا تاکہ نیک لوگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔‘‘ (بحوالہ فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی)
آپ خود بھی اپنے مواعظ میں بار بار اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار فرماتے تھے۔ مثلا الفتح الربانی کی مجلس ۵۱ میں فرماتے ہیں:
’’بار الہا! میں تو گونگا بنا ہوا تھا پس تو نے ہی مجھے بلوایا لہذا میرے بولنے سے مخلوق کو نفع بخش اور میرے ہاتھوں ان کی درستی کامل فرما دے ورنہ مجھے پھر اسی گونگے پن کی طرف لوٹا دے۔‘‘
الفتح الربانی مجلس ۶۲ میں فرماتے ہیں:
’’یا اللہ! ہمارے ساتھ بھی سلامتی کا معاملہ فرما اگرچہ ہم مستحق نہیں۔ ہمارے ساتھ اپنے کرم کا برتاؤ فرما۔ ہماری جانچ مت کر نہ ہم کو اوجھل کر اور نہ مقام امتحان میں کھڑا کر۔‘‘
یہی عبدیت اور عاجزی بندگی کا حاصل ہے جو ہزاروں کرامتوں سے بڑھ کر ہے۔ اسی سے راہ کھلتی ہے اور بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرتا ہے۔یہ عبدیت اتنا بڑا مقام ہے کہ جنت میں داخلے سے پہلے اللہ اپنے نیک بندوں کو اپنے عبد ہونے کا اعزاز بخشیں گے۔ قرآن پاک میں میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْo وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْo (الفجر- ۲۹، ۳۰ )
ترجمہ: تو میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔
(جاری ہے)