لکھنؤ کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟
ٹھیک کسی کو معلوم نہیں کہ لکھنؤ کی بنیاد کب پڑی اس کا بانی کون تھا اور وجہ تسمیہ کیا ہے ؟لیکن مختلف خاندانوں کی قومی روایتوںاور قیاسات سےکام لے کر ، جو کچھ کہا جا سکتا ہے ، یہ ہے ۔کہتے ہیں ،راجا رام چندر جی لنکا کو فتح کر کے اور اپنے بن باس کا زمانہ پورا کر کے جب سریرِ جہاں پنا ہی پر جلوہ افروز ہو ئے ، تو یہ سر زمین زانہوں نے جا گیر کےطور پر اپنے ہم سفر وہمدرد بھائی لچھمن جی کو عطا کر دی ، چنانچہ انہی کے قیام یا ورود سے سے یہاں دریا کے کنارے ایک اونچے ٹیکرے پر ایک بستی آباد ہو گئی جس کا نام اس وقت سے لچھمن پور قرار پایا ،اور وہ ٹیکرا لچھمن ٹیلا سے مشہور ہوا ۔اس ٹیلے میں ایک بہت ہی گہرا غار یا کنواں تھا ، جس کی کسی کو تھاہ نہ ملتی تھی اور لوگوں میں مشہور تھا کہ وہ سیش ناگ تکا چلا گیا ہے ،اس خیال نے جذباتِ عقیدت کو حرکت دی اور ہندو لوگ خوش اعتقادی سے جا جاکے اس میں پھول پانی ڈالنے لگے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہاراجا جودھستر کے پوتے ،راجا جیمؔ جے نے یہ علاقہ مرتاض بزرگوں ، رشیوں اور منیوں کی جا گیر میں دیا تھا ، جنہوں نے یہاں چپے چپے پر اپنے آشرم بنائے اور ہرؔ کے دھیان میں مصروف ہو گئے ،ایک مدت کے بعد ان کو کمزور دیکھ کے دو نئی قومیں ہمالیہ کی تارئی سے آکے اس ملک پر قابض ہو گئیں ،جو باہم ملتی جلتی اور ایک ہی نسل کی دو ساخیں معلوم ہو تی تھیں ایک بھرورؔ اور دوسری پانسیؔ۔
انہیں لوگوں سے سید سالار مسعود غازیؔ سے ۴۵۹ محمدی (۱۰۳۰) میں مقابلہ ہوا اور غالباً انہیں پر بختیار خلجی نے ۶۳۱ محمدی ( ۱۲۲۰ء) میں چڑھائی کی تھی ۔لہذا جو مسلمان خاندان پہلے پہل آکے آباد ہوئے ۔وہ انہیں دونوں حملہ آوروں خصوصاً سید سالار مسعود غازی کے ساتھ آنے والوں میں سے ہوں گے۔
بھرؔاور پانسیوں کے علاوہ ، بر ہمن اور کایستھ بھی یہاں سے پہلے موجود تھے ان سب لوگوں نے یہاں مل کے ایک چھوٹا ست شہر بسا لیا اور امن وامان سے رہنے لگے ۔لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس بستی کا نام
لچھمن پور سے بدل کر لکھنؤ کب ہو گیا ۔ اس آخری مروجہ نام کا پتا شہنشاہ اکبرؔ سے پہلے نہیں چلتا ۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندو اور مسلمانوں کی کا فی آبادی پہلے سے مو جود تھی ۔جس کا ثبوت اس واقعہ سے ہو سکتا ہے ، جو شیوخ لکھنؤ کی خاندانی روایتوں سے بہت پہلے مو جود ہے کہ ۹۶۹ محمدی ( ۱۵۴۰ء) میں جب ہمایوںؔ با دشاہ کو شیر شاہ کے مقابل جون پورؔ میں شکست ہو ئی تو وہ میدان چھوڑ کے شلطان پورؔ لکھنؤؔ پیلی بھیت ہوتا ہوا بھاگا تھا ۔لکھنؤ میں اس نے صرف چار گھنٹے دم لیاتھا اور گو کہ شکست کھانے کے بعد آیا تھا اور کوئی قوت وحکومت نہ رکھتا تھا مگر لکھنأ کے لوگوں نے محض انسانی ہمدردی اور مہمان نوازی کے خیال سے اُن چند گھنٹوں میں دس ہزار روپیا اور پچاس گھوڑے اس کے نذر کئے تھے ،اتنے تھوڑے زمانے میں اس سامان کے فراہم ہو جانے سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان دنوں یہاں معتد بہ آبادی موجود تھی ۔اور ان دنوں کا لکھنؤ آج کل کے اکثرقصبات سے زیادہ با رونق تھا ۔( گذشتہ لکھنؤ)