رمضان سے کچھ عرصہ قبل ہم اپنے کمرے میں بیٹھے کتاب کے مطالعہ میں مشغول تھے۔ بڑے بھائی اندر داخل ہوئے اور کہا ملتان جانا ہے کیا۔ میں نے یکدم جواب دیا بھائی جی وہاں تو سخت گرمی ہوتی ہے یہاں (لاہور) میں اتنی سخت گرمی ہے اور ملتان کی گرمی بھی مشہور ہے ۔ اس کے بعد میں نے کچھ انکار اور کچھ جانے کا اقرار کرلیا۔ میرے پر کافی دباؤ بڑھ رہا تھا کہ تم اس وقت چلے جاؤ آپ کا گزارہ ہو جائے گا۔عید پر اگر گئے تو رہنا مشکل ہوگا۔ اور تم پچھلے چند سالوں سے نہیں گئے تو اب چلے جاؤ اور ایک شادی اٹینڈ کرلو۔سچ پوچھیں کئی سال نہیں گیا تو دل اندر سے مچل رہا تھا۔ کہ کب وہاں پہنچوں اور تازہ تازہ پھل توڑ کر خوب کھاؤں۔ خیر بعد میں بڑے بھائی اور والدہ بھی جانے کو تیار ہو گئیں۔ خوب مکمل تیاری کی اور سب سے بڑے بھائی کے ساتہ بس اسٹینڈ کی طرف روانہ ہوئے ۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ جناب ٹکٹ ختم ہو گئی ہیں رش کافی تھا۔ بس اسٹینڈ سے پتہ کیا لیکن بے سود۔ بھائی نے مشورہ دیا چلو گھر چلتے ہیں صبح نماز کے بعد آپ روانہ ہو جائے گا۔ واپس بھائی کے گھر آئے اور سو گئے۔صبح نماز ٹائم بیدار ہوئے ۔ نماز کے بعد ناشتہ کیا اور بس اسٹینڈ کی طرف روانہ ہوئے۔وہاں پہنچ کر پتہ چلا ماموں زاد بھائی@محمد شعیب نواز بھی ساتھ جا رہا ہے ۔ خیر ٹکٹ لی اور علی ایکسپریکس سے ملتان روانہ ہونے کے لیے سوار ہو گئے۔ بھائی جان کو دوسری بس کی ٹکٹ ملی ۔ خیر ہم روانہ ہوگئے۔ ٹھوکر نیاز بیگ لاہور پر بس نے کچھ دیر قیام کیا اور براستہ ساہیوال و خانیوال ملتان روانہ ہوگئے۔ کچھ دیر کے بعد ہمیں بس میں سادہ پانی دیا گیا۔ اس کے بعد کمپنی کی طرف سے ایک پیکٹ تھمایا گیا۔ جس میں بسکٹ ،نمکو و غیرہ تھے ۔ اس کے بعد ہمیں بوتل پیش کی گئی ۔ تقریباً آدہے گھنٹے بعد بھائی کی کال آئی کہ میں بھی روانہ ہو رہا ہوں ۔ خیر سفر کاٹنے کے لیے میں شعیب نواز سے گپ شپ میں مشغول ہو گیا۔ یہ کمپنی بس نان سٹاپ تھی اور یہ ملتان5 گھنٹے کے لگ بھگ پہنچاتی ہے۔ اگر لوکل بس کا سفر کریں تو وہ سات سے آٹھ گھنٹے بھی لگا دیتے ہیں۔ بس نے ساہیوال صرف 10 منٹ کا سٹاپ کیا۔ہم نیچے اترے تھورا گھومے پہرے اور پہر 10 منٹ بعد ہمارا اگلا سفر شروع ہوا۔ بھائی جان سے مکمل رابطہ میں تھا۔ ہم اپنے وقت مقررہ پر ملتان پہنچ گئے۔ آگے بڑھنے سے قبل کچھ ملتان کے بارے میں آپ کو آگاہ کردوں۔
ملتان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ بہت سے شہر آباد ہوئے مگر گردش ایام کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ، لیکن شہر ملتان ہزاروں سال پہلے بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے ۔ ملتان کو صفحہ ہستی سے ختم کر نے کی کوشش کرنے والے سینکڑوں حملہ آور خود نیست و نابود ہو گئے آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں مگر ملتان آج بھی اپنے پورے تقدس کے ساتھ زندہ ہے اور مسجود ملائک بنا ہوا ہے ، شیخ الاسلام حضرت بہائو الدین زکریا ملتانی(رح) نے ایسے تو نہیں کہا تھا
ملتان ما بجنت اعلیٰ برابراست
آہستہ پابنہ کہ ملک سجدہ می کنند
ملتان کے بارے جس ہستی نے یہ لافانی شعر کہا، وہ ہستی خود کیا تھی؟ اس کا اپنا مقام اور مرتبہ کیا تھا؟ اور اس نے انسانیت کیلئے کیا کیا خدمات سرانجام دیں؟ اس بات کی تفصیل کیلئے ایک مضمون نہیں بلکہ کئی کتب کی ضرورت ہے، حضرت بہاؤ الدین زکریا کی شخصیت اور خدمات بارے کچھ کتب مارکیٹ سے مل جاتی ہیں مگر اس میں مذکور مضامین کی حیثیت سطحی ہے، زکریا سئیں کو نئے سرے سے جاننے اور نئے سرے سے دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ غوث العالمین، شیخ الاسلام حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی 27 رمضان 566ھ حضرت مولانا وجیہہ الدین محمد قریشی کے ہاں پیدا ہوئے، صغیر سنی میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا، یتیمی کی حالت میں تعلیم اور تربیت کے مراحل طئے ہوئے اور عین جوانی میں عازم سفر سلوک بنے، بغداد پہنچ کر حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ سے روحانی فیض حاصل کیا، سہروردی سئیں نے خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ کو ملتان پہنچ کر دین کیلئے کام کرنے کی تلقین فرمائی، ملتان میں ان دنوں ہندوؤں کا غلبہ تھا اور پرہلاد جی خود تو موحد تھے اور خدا کا انکار کرنے والے اپنے بادشاہ باپ سے جنگ بھی کی مگر پر ہلاد جی کی وفات کے سینکڑوں سال بعد ان کے مندر پر بت پرست غالب آ گئے اور پرہلاد جی کا مندر ہندو مذہب کا مرکز بنا ہوا تھا، ملتان پہنچ کر آپ نے تبلیغ شروع کر دی، پرہلاد مندر کے متولیوں کے غیر انسانی رویوں سے نالاں لوگ جوق در جوق حضرت کی خدمت میں پہنچ کر حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے، آپ نے شروع میں مدرستہ الاسلام قائم کیا اور بعد میں اسے دنیا کی سب سے بڑی پہلی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت دیدی، آپ نے تعلیم کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا،
حضرت نے اپنی اقامتی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ مختلف عالمی زبانوں مثلاً سنسکرت ،پنجابی ، بنگالی ، سندھی ، فارسی ، عربی ، جادی ، برمی ، مرہٹی اور انڈونیشی وغیرہ کے شعبے قائم کیے ، اور مذکورہ زبانوں کے طلبہ کو تعلیم سے آراستہ کر کے گروپ تشکیل دئیے اور ان گروپوں کو جماعتوں کی شکل میں کو تجارت اور تبلیغ کی غرض سے مختلف ممالک کیلئے روانہ کیا ۔ تجارت کیلئے ہزاروں اشرفیوں کی صورت میں خود سرمایہ مہیا فرماتے اور ہدایت فرماتے رزق حلال کے حصول کیلئے تجارت کرنی ہے اور خدا کی خوشنودی کیلئے تبلیغ بھی ، وفود کو روانگی سے پہلے پانچ باتوں کی نصیحت فرماتے۔
مشہوراولیاءکرام کے مزارات:
اس شہر کو اولیاء کا شہر کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کافی تعداد میں اولیاء اور صوفیاء کے مزارات ہیں۔ مشہور مزارات میں حضرت شاہ شمس تبریزرحمہ اللہ ، حضرت بہاوالحق رحمہ اللہ، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمہ اللہ کے مزارات سر فہرست ہیں۔
آموں کا گھر ملتان:
ملتان کو آموں کا گھر بھی کہا جاتا ہے۔ چند ایک نام یہاں عرض کر دیتا ہوں۔
قلعہ ملتان، افواج پاکستان کا ملتان میں ایک اڈہ، جو کہ برصغیر پاک و ہند کے طرز تعمیر اور دفاعی لائحہ عمل کا شاہکار ہے۔ یہ قلعہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان میں ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا تھا جو کہدریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ یہ قلعہ، برطانوی سامراجی دور میں برطانوی افواج کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
یہ قلعہ اپنے اندر موجود دفاعی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ طرز تعمیر میں بھی یگانگت رکھتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق، اس قلعہ کی دیواریں تقریبا 40 سے 70 فٹ (21 میٹر) اونچی اور 6،800 فٹ (2 کلومیٹر) کے علاقے کا گھیراؤ کرتی تھیں۔ اس کی دیواریں برج دار تھیں اور اس کی ہر داخلی دروازے کے پہلو میںحفاظتی مینارے تعمیر کیے گئے تھے۔ اس قلعہ کے چار داخلی دروازے تھے، جن میں قاسمی، سکی، حریری اور خضری دروازے شامل ہیں۔ قلعے کی حفاظت کے لیے اس کے ارد گرد 26 فٹ گہری اور 40 فٹ چوڑی خندق بھی کھودی گئی تھی، جو کہ بیرونی حملہ آوروں کو روکنے میں مددگار ثابت رہتی تھی۔
قلعہ کی بیرونی فصیلوں کی حصار میں اندر کی جانب ایک مورچہ نما چھوٹا قلعہ تعمیر کیا گیا تھا، جس کے پہلو میں 30 حفاظتی مینار، ایک مسجد، ہندؤں کا مندر اور خوانین کے محل تعمیر کیے گئے تھے۔ 1818ء میں رنجیت سنگھ کی افواج کے حملے میں اندرونی چھوٹے قلعے کو شدید نقصان پہنچا۔
اس قلعہ کو کاٹوچگڑھ بھی کہا جاتا تھا، جو کہ کاٹوچوں یعنی راجپوتوں کی شہنشاہی کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔
ملتان اُترنے کے بعد میں نے بھائی سے رابطہ کیا کہ بتائیں کہ ہم کیا کریں کیونکہ ہم نے آگے شجاع آباد کی طرف روانہ ہونا تھا۔کیونکہ شادی شجاع آباد میں تھی ۔ بھائی نے کہا آپ چلے جاؤ میں آجاوں گا۔ اب ملتان سے شجاع آباد کا سفر تقریباً ایک گھنٹہ کا ہے۔ ہم نے سامان اٹھایا اور وین کی طرف لپکے تاکہ شجاع آباد روانہ ہو سکیں۔ جیسے ہی ہم وین پر بیٹھے تو اس وقت تک میرا گرمی سے برا حال ہو چکا تھا۔ وین چلی تو کچھ سکون ملا۔ کچھ دیر بعد اس نے وین روک دی سواریاں زیادہ تھیں گرمی برداشت سے باہر ہو رہی تھی سب نے احتجاج کیا تو اس نے وین چلا دی اور ہم نے کچھ سُکھ کا سانس لیا۔ تقریباً ایک گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہم ملتان سے شجاع آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔پسینےسے اور گرمی سے برا حال ہو چکا تھا۔ شجاع آباد اتر کر بھائی کو کال کی تو کہنے لگے میں آپ سے پہلے پہنچ چکا ہوں ۔ جلدی آپ کو تھی پہنچنے کی پر پہنچ میں گیا ہوں۔میں کہنے لگا پہلے بس نے ہمیں رُلایا۔ اور اب وین والے نے بچا کچا کچومر نکال دیا ہے۔ بس آپ یہاں اڈے پر آجائیں تو آگے جو تین سے چار کلو میٹر کا سفر ہے وہ اکھٹے کرینگے۔ بھائی نے کہا وہیں رُکو اور میں آرہا ہوں۔ ہم نے وہیں سامان رکھا اور ساتھ بیٹھ کر بھائی کا انتظار کرنے لگے۔کچھ دیر بعد بھائی آئے تو ہم اگلے سفر پر روانہ ہو گئے۔ بازار سے شجاع آباد کے مشہور سموسے کھائے اور آگے بڑھ گئے۔ گھر پہنچے تو دیکھا کوئی نہیں ہے سب شادی کے گھر روانہ ہو گئے تھے۔ کیر جلدی سب کو ملے سب بہت ہی خوش تھے کہ داؤد بڑے عرصہ بعد آیا ہے۔ سب کی خوشی دیدنی تھی۔ اور میں پسینے میں شرابور تھا۔ کچھ دیر بعد شادی کے گھر روانہ ہوئے۔ یہ راستہ کچا پکا تھا آگے نہر تھی اسے پار کر کے جنگل میں داخل ہوئے۔ یہاں ہر طرف گندم اور لہلہاتے کھیت نظر آ رہے تھے۔ دل بہت خوش ہوا بس منظر ہی کچھ ایسا تھا۔ کہیں آم کے باغ۔ کہیں کھجور کے باغ کہیں فصلیں۔ کہیں کیا اور کہیں کیا ۔ یہ سب مناظر دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ان حسین لمحات کو دیکھتے دیکھتے ہم شادی گھر پہنچ گئے۔ ہمارا شاندار استقبال ہوا جیسے کسی شہنشاہ کا ہوتا ہے ۔ بچے بوڑھے نوجوان سب کے سب ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ خیر نماز مغرب کا وقت ہو چلا تھا جلدی سے نماز ادا کی نماز کے بعد نکاح ہوا ۔ اس کے بعد ہم وہیں ایک چارپائی پر تھکاوٹ کے لحاظ سے ڈھیر ہو گئے۔ رات آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہو گئی اور مجھ پر نیند کا غلبہ آگیا۔ کچھ دیر بعد روایتی طریقہ سے کھانا پیش کیا گیا اس طریقے سے رات 12 بج گئےمیں واپس گھر آگیا آرام کیا۔ اگلے دن گرمی شدت سے تھی ہم لوگ ٹھنڈے پانی سے غسل پر غسل کر رہے تھے۔ او پر سے وہاں لائٹ بھی نہ تھی میرا برا حال تھا۔ خیر جلدی سے کپڑے پہنے اور ولیمہ کھانے پہنچ گئے۔ وہاں گرمی نے مزید چہرہ دکھایا تو چھکے چھوٹ گئے۔ وہیں قریب کھیت اور دریائے چناب تھا۔ ہم کھیتوں میں گھس گئے ایک درخت کے نیچے بیٹھے تو سکون ملا ۔ وہاں سے واپسی پر ہمیں عشاء ہو گئی ۔ تیسرے دن میں جنگل کی طرف روانہ ہوا جہاں ہمارے مختلف باغات تھے۔ اس وقت وہاں امرود۔ گنے، بیریاں، وغیرہ کے خوب باغات پھلے اور پھولے تھے۔ لوجی ہم نے تازہ بتازہ پھلوں پر خوب ہاتھ صاف کیے یہاں تک کہ رات ہو گئی ۔ رات وہیں جنگل میں قیام کیا۔ تو مچھروں نے جو ہمیں ٹیکے لگایے آئے ہائے کیا بتائیں آپ کو۔ جیسے تیسے رات کٹ گئی ۔صبح پہر ہم نے باغات کا رخ کیا اور امرود خوب کھائے۔ چوتھے دنپھر جنگل روانہ ہوئے تو وہاں ٹیوب ویل چل رہا تھا۔ کھیتوں کو پانی لگایا جا رہا تھا۔ لو جی ہم نے دھوتی باندھی جو مجھے باندھنا نہیں آرہی تھی وہیں کسی سے بندھو وائی اور پانی میں کود گئے۔ خوب سے خوب مزے کیے ٹھنڈا اور تازہ پانی تھا ہم بھی جم کے نہا ئے۔ اس کے بعد وہیں رک گئے۔ پانچویں دن صبح جمعہ تھا ۔ ہم نے شہر آکر جمعہ پڑھا اور گھر والوں سے اجازت لیکر گھر والوں کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر میں کئی حسین یادیں ، اور کچھ مزاحیہ پل بھی رہے ۔ جو اس تحریر میں ذکر نہیں کیے۔ موقع ملا تو پھرکبھی ان یادوں کو آپ سے شئیر کروں گا۔ رات کو لاہور پہنچے اور یوں یہ گرمی ،حسین یادیں، مزاحیہ پَل ، اور کھٹی میٹھی یادیں لیے مکمل ہوا اور ہم بخیرو عافیت گھر پہنچے۔
٭٭٭٭٭٭
پاکستان کا شہر ملتان
تاریخ ملتان:پاکستان کا شہر ملتان
ملتان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ بہت سے شہر آباد ہوئے مگر گردش ایام کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ، لیکن شہر ملتان ہزاروں سال پہلے بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے ۔ ملتان کو صفحہ ہستی سے ختم کر نے کی کوشش کرنے والے سینکڑوں حملہ آور خود نیست و نابود ہو گئے آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں مگر ملتان آج بھی اپنے پورے تقدس کے ساتھ زندہ ہے اور مسجود ملائک بنا ہوا ہے ، شیخ الاسلام حضرت بہائو الدین زکریا ملتانی(رح) نے ایسے تو نہیں کہا تھا
ملتان ما بجنت اعلیٰ برابراست
آہستہ پابنہ کہ ملک سجدہ می کنند
ملتان کے بارے جس ہستی نے یہ لافانی شعر کہا، وہ ہستی خود کیا تھی؟ اس کا اپنا مقام اور مرتبہ کیا تھا؟ اور اس نے انسانیت کیلئے کیا کیا خدمات سرانجام دیں؟ اس بات کی تفصیل کیلئے ایک مضمون نہیں بلکہ کئی کتب کی ضرورت ہے، حضرت بہاؤ الدین زکریا کی شخصیت اور خدمات بارے کچھ کتب مارکیٹ سے مل جاتی ہیں مگر اس میں مذکور مضامین کی حیثیت سطحی ہے، زکریا سئیں کو نئے سرے سے جاننے اور نئے سرے سے دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ غوث العالمین، شیخ الاسلام حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی 27 رمضان 566ھ حضرت مولانا وجیہہ الدین محمد قریشی کے ہاں پیدا ہوئے، صغیر سنی میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا، یتیمی کی حالت میں تعلیم اور تربیت کے مراحل طئے ہوئے اور عین جوانی میں عازم سفر سلوک بنے، بغداد پہنچ کر حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ سے روحانی فیض حاصل کیا، سہروردی سئیں نے خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ کو ملتان پہنچ کر دین کیلئے کام کرنے کی تلقین فرمائی، ملتان میں ان دنوں ہندوؤں کا غلبہ تھا اور پرہلاد جی خود تو موحد تھے اور خدا کا انکار کرنے والے اپنے بادشاہ باپ سے جنگ بھی کی مگر پر ہلاد جی کی وفات کے سینکڑوں سال بعد ان کے مندر پر بت پرست غالب آ گئے اور پرہلاد جی کا مندر ہندو مذہب کا مرکز بنا ہوا تھا، ملتان پہنچ کر آپ نے تبلیغ شروع کر دی، پرہلاد مندر کے متولیوں کے غیر انسانی رویوں سے نالاں لوگ جوق در جوق حضرت کی خدمت میں پہنچ کر حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے، آپ نے شروع میں مدرستہ الاسلام قائم کیا اور بعد میں اسے دنیا کی سب سے بڑی پہلی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت دیدی، آپ نے تعلیم کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا،
حضرت نے اپنی اقامتی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ مختلف عالمی زبانوں مثلاً سنسکرت ،پنجابی ، بنگالی ، سندھی ، فارسی ، عربی ، جادی ، برمی ، مرہٹی اور انڈونیشی وغیرہ کے شعبے قائم کیے ، اور مذکورہ زبانوں کے طلبہ کو تعلیم سے آراستہ کر کے گروپ تشکیل دئیے اور ان گروپوں کو جماعتوں کی شکل میں کو تجارت اور تبلیغ کی غرض سے مختلف ممالک کیلئے روانہ کیا ۔ تجارت کیلئے ہزاروں اشرفیوں کی صورت میں خود سرمایہ مہیا فرماتے اور ہدایت فرماتے رزق حلال کے حصول کیلئے تجارت کرنی ہے اور خدا کی خوشنودی کیلئے تبلیغ بھی ، وفود کو روانگی سے پہلے پانچ باتوں کی نصیحت فرماتے۔
- تجارت میں اسلام کے زریں اصولوں کو فراموش نہ کرنا۔
- چیزوں کو کم قیمت منافع پر فروخت کرنا
- خراب چیزیں ہرگز فروخت نہ کرنا بلکہ انہیں تلف کر دینا ۔
- خریدار سے انتہائی شرافت اور اخلاق سے پیش آنا۔
- جب تک لوگ آپ کے قول و کردار کے گرویدہ نہ ہو جائیں ان پر اسلام پیش نہ کرنا۔
مشہوراولیاءکرام کے مزارات:
اس شہر کو اولیاء کا شہر کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کافی تعداد میں اولیاء اور صوفیاء کے مزارات ہیں۔ مشہور مزارات میں حضرت شاہ شمس تبریزرحمہ اللہ ، حضرت بہاوالحق رحمہ اللہ، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمہ اللہ کے مزارات سر فہرست ہیں۔
آموں کا گھر ملتان:
ملتان کو آموں کا گھر بھی کہا جاتا ہے۔ چند ایک نام یہاں عرض کر دیتا ہوں۔
- انور ریٹول آم
- چونسہ آم
- دوسہری آم
- کا لا چونسہ آم
- دیسی آم
- سندھڑی آم
قلعہ ملتان، افواج پاکستان کا ملتان میں ایک اڈہ، جو کہ برصغیر پاک و ہند کے طرز تعمیر اور دفاعی لائحہ عمل کا شاہکار ہے۔ یہ قلعہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان میں ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا تھا جو کہدریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ یہ قلعہ، برطانوی سامراجی دور میں برطانوی افواج کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
یہ قلعہ اپنے اندر موجود دفاعی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ طرز تعمیر میں بھی یگانگت رکھتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق، اس قلعہ کی دیواریں تقریبا 40 سے 70 فٹ (21 میٹر) اونچی اور 6،800 فٹ (2 کلومیٹر) کے علاقے کا گھیراؤ کرتی تھیں۔ اس کی دیواریں برج دار تھیں اور اس کی ہر داخلی دروازے کے پہلو میںحفاظتی مینارے تعمیر کیے گئے تھے۔ اس قلعہ کے چار داخلی دروازے تھے، جن میں قاسمی، سکی، حریری اور خضری دروازے شامل ہیں۔ قلعے کی حفاظت کے لیے اس کے ارد گرد 26 فٹ گہری اور 40 فٹ چوڑی خندق بھی کھودی گئی تھی، جو کہ بیرونی حملہ آوروں کو روکنے میں مددگار ثابت رہتی تھی۔
قلعہ کی بیرونی فصیلوں کی حصار میں اندر کی جانب ایک مورچہ نما چھوٹا قلعہ تعمیر کیا گیا تھا، جس کے پہلو میں 30 حفاظتی مینار، ایک مسجد، ہندؤں کا مندر اور خوانین کے محل تعمیر کیے گئے تھے۔ 1818ء میں رنجیت سنگھ کی افواج کے حملے میں اندرونی چھوٹے قلعے کو شدید نقصان پہنچا۔
اس قلعہ کو کاٹوچگڑھ بھی کہا جاتا تھا، جو کہ کاٹوچوں یعنی راجپوتوں کی شہنشاہی کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭
جیسے ہی ہم ملتان اترے تو گرمی کے ایک شدید جھونکے نے ہمارا بھر پور استقبال کیا۔ اوپر سے میں نے ویسکوٹ پہنی تھی ۔ ایسا لگا جیسے جان نکل رہی ہو دومنٹ وہاں ٹھرا تو پسینےمیں شرا بور ہو گیا تھا۔ کیونکہ بس میں مکمل5 گھنٹے اے سی میں بیٹھا تھا اس لیے گرمی ڈبل لگ رہی تھیملتان اُترنے کے بعد میں نے بھائی سے رابطہ کیا کہ بتائیں کہ ہم کیا کریں کیونکہ ہم نے آگے شجاع آباد کی طرف روانہ ہونا تھا۔کیونکہ شادی شجاع آباد میں تھی ۔ بھائی نے کہا آپ چلے جاؤ میں آجاوں گا۔ اب ملتان سے شجاع آباد کا سفر تقریباً ایک گھنٹہ کا ہے۔ ہم نے سامان اٹھایا اور وین کی طرف لپکے تاکہ شجاع آباد روانہ ہو سکیں۔ جیسے ہی ہم وین پر بیٹھے تو اس وقت تک میرا گرمی سے برا حال ہو چکا تھا۔ وین چلی تو کچھ سکون ملا۔ کچھ دیر بعد اس نے وین روک دی سواریاں زیادہ تھیں گرمی برداشت سے باہر ہو رہی تھی سب نے احتجاج کیا تو اس نے وین چلا دی اور ہم نے کچھ سُکھ کا سانس لیا۔ تقریباً ایک گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہم ملتان سے شجاع آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔پسینےسے اور گرمی سے برا حال ہو چکا تھا۔ شجاع آباد اتر کر بھائی کو کال کی تو کہنے لگے میں آپ سے پہلے پہنچ چکا ہوں ۔ جلدی آپ کو تھی پہنچنے کی پر پہنچ میں گیا ہوں۔میں کہنے لگا پہلے بس نے ہمیں رُلایا۔ اور اب وین والے نے بچا کچا کچومر نکال دیا ہے۔ بس آپ یہاں اڈے پر آجائیں تو آگے جو تین سے چار کلو میٹر کا سفر ہے وہ اکھٹے کرینگے۔ بھائی نے کہا وہیں رُکو اور میں آرہا ہوں۔ ہم نے وہیں سامان رکھا اور ساتھ بیٹھ کر بھائی کا انتظار کرنے لگے۔کچھ دیر بعد بھائی آئے تو ہم اگلے سفر پر روانہ ہو گئے۔ بازار سے شجاع آباد کے مشہور سموسے کھائے اور آگے بڑھ گئے۔ گھر پہنچے تو دیکھا کوئی نہیں ہے سب شادی کے گھر روانہ ہو گئے تھے۔ کیر جلدی سب کو ملے سب بہت ہی خوش تھے کہ داؤد بڑے عرصہ بعد آیا ہے۔ سب کی خوشی دیدنی تھی۔ اور میں پسینے میں شرابور تھا۔ کچھ دیر بعد شادی کے گھر روانہ ہوئے۔ یہ راستہ کچا پکا تھا آگے نہر تھی اسے پار کر کے جنگل میں داخل ہوئے۔ یہاں ہر طرف گندم اور لہلہاتے کھیت نظر آ رہے تھے۔ دل بہت خوش ہوا بس منظر ہی کچھ ایسا تھا۔ کہیں آم کے باغ۔ کہیں کھجور کے باغ کہیں فصلیں۔ کہیں کیا اور کہیں کیا ۔ یہ سب مناظر دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ان حسین لمحات کو دیکھتے دیکھتے ہم شادی گھر پہنچ گئے۔ ہمارا شاندار استقبال ہوا جیسے کسی شہنشاہ کا ہوتا ہے ۔ بچے بوڑھے نوجوان سب کے سب ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ خیر نماز مغرب کا وقت ہو چلا تھا جلدی سے نماز ادا کی نماز کے بعد نکاح ہوا ۔ اس کے بعد ہم وہیں ایک چارپائی پر تھکاوٹ کے لحاظ سے ڈھیر ہو گئے۔ رات آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہو گئی اور مجھ پر نیند کا غلبہ آگیا۔ کچھ دیر بعد روایتی طریقہ سے کھانا پیش کیا گیا اس طریقے سے رات 12 بج گئےمیں واپس گھر آگیا آرام کیا۔ اگلے دن گرمی شدت سے تھی ہم لوگ ٹھنڈے پانی سے غسل پر غسل کر رہے تھے۔ او پر سے وہاں لائٹ بھی نہ تھی میرا برا حال تھا۔ خیر جلدی سے کپڑے پہنے اور ولیمہ کھانے پہنچ گئے۔ وہاں گرمی نے مزید چہرہ دکھایا تو چھکے چھوٹ گئے۔ وہیں قریب کھیت اور دریائے چناب تھا۔ ہم کھیتوں میں گھس گئے ایک درخت کے نیچے بیٹھے تو سکون ملا ۔ وہاں سے واپسی پر ہمیں عشاء ہو گئی ۔ تیسرے دن میں جنگل کی طرف روانہ ہوا جہاں ہمارے مختلف باغات تھے۔ اس وقت وہاں امرود۔ گنے، بیریاں، وغیرہ کے خوب باغات پھلے اور پھولے تھے۔ لوجی ہم نے تازہ بتازہ پھلوں پر خوب ہاتھ صاف کیے یہاں تک کہ رات ہو گئی ۔ رات وہیں جنگل میں قیام کیا۔ تو مچھروں نے جو ہمیں ٹیکے لگایے آئے ہائے کیا بتائیں آپ کو۔ جیسے تیسے رات کٹ گئی ۔صبح پہر ہم نے باغات کا رخ کیا اور امرود خوب کھائے۔ چوتھے دنپھر جنگل روانہ ہوئے تو وہاں ٹیوب ویل چل رہا تھا۔ کھیتوں کو پانی لگایا جا رہا تھا۔ لو جی ہم نے دھوتی باندھی جو مجھے باندھنا نہیں آرہی تھی وہیں کسی سے بندھو وائی اور پانی میں کود گئے۔ خوب سے خوب مزے کیے ٹھنڈا اور تازہ پانی تھا ہم بھی جم کے نہا ئے۔ اس کے بعد وہیں رک گئے۔ پانچویں دن صبح جمعہ تھا ۔ ہم نے شہر آکر جمعہ پڑھا اور گھر والوں سے اجازت لیکر گھر والوں کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر میں کئی حسین یادیں ، اور کچھ مزاحیہ پل بھی رہے ۔ جو اس تحریر میں ذکر نہیں کیے۔ موقع ملا تو پھرکبھی ان یادوں کو آپ سے شئیر کروں گا۔ رات کو لاہور پہنچے اور یوں یہ گرمی ،حسین یادیں، مزاحیہ پَل ، اور کھٹی میٹھی یادیں لیے مکمل ہوا اور ہم بخیرو عافیت گھر پہنچے۔
Last edited by a moderator: