چھ پرا ٹھے اور تیس سیر گھی
غازی الدین حیدرؔ ر پہلے شاہ اودھ کو پراٹھے بہت پسند تھے ،ان کا رکاب دار ہر روز چھ پراٹھے پکاتا ۔اور فی پراٹھا پانچ سیر کے حساب سے ۳۰ سیر گھی ہر روز لیا کرتا ایک دن وزیر سلطنت معتمد الدولہ آغا میرؔ نے شاہی رکاب دار کو بلا کر پو چھا ! ارے بھئی ،یہ تیس سیر گھی کیا ہوتا ہے ؟ کہا ! حضور ! پراٹھے پکاتا ہوں ۔کہا بھلا میرے سامنے پکاؤ ۔اس نے کہا ! بہت خوب۔ پراٹھے پکائے جتنا گھی کھپا کھپا یا ،اور جو باقی بچا، پھینک دیا معتمد الدولہ آغا میرؔ نے یہ دیکھ کر حیرت اور استعجاب سے کہا: پورا گھی تو خرچ نہیں ہوا ؟ اس نے کہا :اب یہ گھی تو با لکل تیل ہو گیا ،اس قابل تھوڑے ہی ہے کہ کسی اور کھانے میں لگایا جائے ، وزیر سے جواب تو نہ بن پڑا مگر حکم دے دیا کہ آئیدہ سے صرف پا نچ سیر گھی دیا جائے کرے ۔ فی پراٹھا ایک سیر بہت ہے ۔ رکاب دار نے کہا :بہتر ، میں اتنے ہی گھی میں پکایا کروں گا ۔ مگر وزیر کی روک ٹوک سے اس قدر نا راض ہوا کہ معمولی قسم کے پراٹھے پکاکے با دشاہ کے خاصے پر بھیج دیے ۔ جب کئی دن یہی حالت رہی تو بادشاہ نے شکایت کی کہ یہ پرا ٹھے اب کیسے آتے ہیں ؟ رکاب دار نے عرض کیا ! حضور ! جیسے پراٹھے نواب معتمد الدولہ ؔ بہادر کا حکم ہے ، پکاتا ہوں ۔بادشاہ نے اس کی حقیقت پو چھی تو اس نے سارا حال بیان کر دیا فورا معتمد الدولہ کی یاد ہوئی ، انھو نے عرض کیا ! جہاں پناہ ! یہ لوگ خواہ مخواہ کو لوٹتے ہیں ، با دشاہ نے اس کے جواب میں دس پانچ تھپڑ اور گھو نسے رسید کئے ، خوب ٹھونکا اور کہا : تم نہیں لوٹتے ہو، تم جوساری سلطنت اور ملک کو لوٹتے ہو ،اس کا خیال نہیں ۔ یہ جو تھوڑا سا گھی زیادہ لے لیتا ہے اور وہ بھی میرے خاصے کیلئے ، یہ تمہیں نہیں گوارا ہے ، بہ ہر حال معتمد الدولہؔ نے تو بہ کی ، کان اُمیٹھے ، تو خلعت عطا ہوا ، جو اس بات کی نشانی تصور کی جاتی کہ آج جہاں پناہ نے دستِ شفقت پھیرا ہے ،اور اپنے گھر آئے ، پھر اُنھوں نے کبھی اس رکاب دار سے تعرض نہ کیا اور اُسی طرح تیس سیر گھی روز لیتا رہا ۔(گذشتہ لکھنؤ)