بابا فرید گنج شکر:امن و محبت کے پیغامبر

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بابا فرید گنج شکر:امن و محبت کے پیغامبر
ایس اے ساگر

بزرگان دین نے اپنے حسن سلوک سے وہ عملی نمونہ پیش کئے جس سے غیر مسلموںنے اسلام کا پیغام سمجھا۔ان بزرگان دین میں سلسلہ چشتیہ کے معروف صوفی و روحانی بزرگ اور پنجابی ادب کے باوا آدم حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر سرفہرست ہیں جنہیں بابا فرید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بابا فریدگنج شکر نے بر صغیر میں اسلام کی شمع روشن کرنے اور امن و محبت کا پیغام پھیلانے میںاہم کردار ادا کیا۔بابا فرید الدین 1188 سن عیسوی (584 ہجری) کو ملتان کے علاقہ کھیت وال نزد ٹاٹے پورراواں میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اسم گرامی مسعود اور القابات فرید الدین اور گنج شکر ہیں۔ آپ کے والد جمال الدین سلمان پرشیا سے ہجرت کر کے کھیت وال (راواں) ٹاٹے پور ضلع ملتان جو کہ ملتان سے 25 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے تشریف لائے یہاں ان کو جاگیر الاٹ ہوئی۔ آپ کا سلسلہ خلیفہ دوئم حضرت عمر سے ملتا ہے آپ کی والدہ مولانا وجاہت دین خنجندی کی بیٹی بی بی قرسم خاتون تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان کے آباءو اجداد کابل کے فرخ شاہ کی اولاد میں سے تھے۔ سیرالعارفین (تصنیف 1311 ھ مطبوعہ رضوی دہلی) کے مصنف حامد بن فضل اللہ جمالی کہتے ہیں کہ بابا فرید کے والد شیخ شعیب سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے جو شہاب الدین غوری کے زمانے میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں آ کر آباد ہوئے۔بعض روایات کے مطابق ان کے دادا ہجرت کر کے لاہور آئے اور اس کے بعد کچھ وقت قصور میں گزار کر کھوتوال چلے گئے۔
بتدائی تعلیم آپ نے اپنے والد سے حاصل کی۔ بابا فرید الدین کی مادری زبان پنجابی اور سرائیکی تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے ملتان کے مولوی منہاج الدین ترمذی سے عربی، فارسی، قرآن، سنت، تفسیر، اصول، معانی، فلسفہ، منطق، ریاضی اور ہیت کی تعلیم حاصل کی۔ دینی و دنیوی تعلیم کے حصول کیلئے بلخ، بخارا، بیت المقدس، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، غزنی، بغداد، بدخشاں اور قندھار کا سفر طے کیا اور ظاہری و باطنی تعلیم مکمل کی اور وہاں کے علماءو مشائخ سے کسب فیض ہوئے۔ جونہی درجہ کمال کو پہنچے تو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی بیعت کی اور کئی سال ان کی محبت میں دہلی اور حصار میں رہے۔ مرشد نے آپ کو سند خلافت عطا کی۔ برصغیر پاک و ہند میں سلسلہ چشتیہ کی سعادت و رہنمائی کا کار عظیم حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے سپرد ہوا۔ آپ کی اسلام کی تبلیغ و دعوت پر قبائل کے قبائل نے اسلام قبول کیا۔ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کی شادی اس وقت کے سلطان غیاث الدین بلبن کی بیٹی ہزیرہ بانو سے ہوئی۔ اپنے مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے حکم پر پہلے ہانسی (بوریوالا) بعد ازاں اجودھن (پاکپتن) تشریف لائے اور رشد و ہدایت میں مصروف ہے۔ 5 محرم الحرام 679 ہجری 1280 سن عیسوی 92 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کا مزار شہنشاہ محمد تغلق نے تعمیر کروایا جو آپ کے مرید تھے۔
بابا فرید ملتان میں منہاج الدین کی مسجد میں زیر تعلیم تھے جہاں ان کی ملاقات جناب بختیار کاکی اوشی سے ہوئی اور وہ ان کی ارادت میں چلے گئے۔اپنے مرشد کے حکم پر بین الاقوامی اور سماجی تعلیم کے لیے قندھار اور دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلی پہنچ گئے۔مرشد کی وفات پر ان کو چشتیہ سنگت کا سربراہ بنایا گیا۔ وہ معین الدین چشتی اور بختیار کاکی کے بعد اس کے تیسرے سربراہ تھے۔ویسے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ان کو دلی کی شان و شوکت ہرگز پسند نہ تھی جس کی وجہ سے وہ پہلے ہانسی اور پھر اجودھن یا پاک پتن میں ڈیرہ نشیں ہو گئے لیکن کچھ روایات کے مطابق دلی اور اس کے گرد و نواح کی چشتیہ اشرافیہ ملتان کے ایک قصباتی نوجوان کو سربراہ ماننے کو تیار نہ تھی اور ان کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے وہ پاکپتن تشریف لے آئے۔شاید دونوں باتیں ہی درست ہوں کہ ان کے خلاف سازشیں بھی ہو رہی ہوں اور ان کو اپنے دیس کی عوامی زندگی بھی پسند ہو۔ وہ کہتے ہیں:
فریدا برے دا بھلا کر غصہ من نہ ہنڈاء
دیہی روگ نہ لگیے، پلے سب کجھ پائ
(فریدا، برے کا بھلا کر تاکہ تمہارا دل غصے کے تصرف میں نہ چلا جائے، غصے کی نظر نہ ہو جائے۔ اگر تم جسم کو روگ نہیں لگانا چاہتے ہو تو سب غصے والی چیزیں سمیٹ لو)۔
پاکپتن اس زمانے میں تجارتی شاہراہ پر ایک اہم مقام تھا۔ دریائے ستلج کو یہیں سے پار کیا جاتا تھا۔ یہ بات حادثاتی نہیں ہے کہ پنجابی کے دوسرے کلاسیکی دانشوروں نے تجارتی مقامات پر زندگی گزاری جہاں ان کو دنیا کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی تھیں۔بہت سی تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے عالم دور دراز سے گرائمر اور زبان دانی کے مسائل حل کرانے کے لیے بابا فرید کے پاس پاکپتن آتے تھے۔
حامد بن فضل جمالی کا کہنا ہے کہ بابا فرید نے پاکپتن میں ہی شادی کی حالانکہ بعض تاریخی حوالوں کے مطابق وہ دلی میں بادشاہ ناصرالدین محمود کے دربار میں گئے جہاں بادشاہ نے اپنی بیٹی ہزابارہ کی شادی ان سے کر دی۔ لیکن بعد میں ہونے والے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے عوامی رنگ میں رہتے ہوئے اپنے طبقے میں ہی شادی کی تھی۔
پاکپتن کی عوامی زندگی بھی کوئی آسان نہ تھی کیونکہ وہاں بھی مذہب کا ٹھیکیدار ’قاضی‘ موجود تھا جو ہر طرح سے ان کو تکالیف پہنچانے پر تیار رہتا تھا۔ اس کے اکسانے پر لوگ آپ کی اولاد کو آزار پہنچاتے تھے لیکن بابا فرید کچھ زیادہ توجہ نہ دیتے تھے۔قاضی کو اس پر بھی چین نہ آیا اور اس نے ملتان کے علماءکو اطلاع دی اور سوال کیا کہ کیا یہ جائز ہے کہ ایک شخص جو اہلِ علم ہے خود کو درویش کہلوائے، ہمیشہ مسجد میں رہے اور وہاں گانا سنے اور رقص کرے۔جب ان علماءنے بھی کچھ نہ کیا تو قاضی نے کسی کو دے دلا کر تیار کیا کہ وہ بابا فرید کو دوران عبادت ختم کر دے لیکن اس کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔
ان مشکلات کے باوجود بابا فرید نے زندگی کو ذاتیات سے بالاتر ہو کر عوام کے دکھوں کے حوالے سے دیکھا۔ میں جانیا دکھ مجھی کو دکھ سبھائے جگ اچے چڑھ کے ویکھیا گھر گھر ایہو اگ (میں سمجھا تھا کہ دکھ صرف مجھے ہی ہے لیکن دکھ تو سارے جہان کو ہے۔ اوپر چڑھ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ گھرگھر یہی آگ سلگ رہی ہے۔)
بابا فرید کی عوام کے ساتھ ذاتی اور نظریاتی دونوں ہی اعتبار سے محبت اور پیار تھا۔ وہ کہتے ہیں فریدا خالق خلق میں، خلق وسے رب مانہہ مندا کس نوں آکھیے، جاں تس بن کوئی نانہہ (فریدا خدا مخلوق میں اور مخلوق خدا میں جاگزین ہے۔ کس کو برا کہیں جب تمہارے بغیر کوئی نہیں ہے)۔ فریدا خاک نہ نندئیے خاکو جیڈ نہ کوئے جیوندیاں پیراں تھلے، مویاں اپر ہوئے (فریدا خاک کی ناقدری نہ کرو کیونکہ زندگی میں پاو¿ں اس پر کھڑے ہوتے ہیں اور مرنے پر یہ اوپر سے ڈھانپتی ہے)۔
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر 13 ویں صدی کے عظیم صوفی بزرگ تھے جنہوں نے جاگیر ہونے کے باوجود اجودھن (پاکپتن) قبرستان میں اگنے والی جھاڑی (کری) سے ڈیلے حاصل کر کے پانی میں ابال کر کھاتے لیکن کبھی کسی سے مستعار شے لے کر نہ کھائی۔ انہوں نے دیگر علماءکرام، صوفیاءکرام، مشائخ اور درویشوں کی طرح محبت، بھائی چارے، امن و امان اور باہمی میل جول کا درس دیا جس سے متاثر ہو کر لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کے خلفاءمیں حضرت مولانا بدر الدین اسحاق ،خواجہ نظام الدین اولیائ، حضرت علی احمد کلیر صابری شامل ہیں۔بابا فرید 93 سال کی عمر پا کر 1266 میں رخصت ہوئے۔ انہوں نے خود ہی کہا تھا: کندھی اپر رکھڑا کچرک بنھے دھیر کچے بانڈھے رکھیے کچر تائیں نیر (دیوار پر اگا درخت کب تک حوصلہ مند رہےگا۔ کچے برتن میں کب تک پانی سنبھالا جا سکتا ہے)۔
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کی وفات کے 150-200 سال بعد سکھوں کے گورو بابا گورو نانک اور شاہ حسین پیدا ہوئے۔ سکھوں کے گورو بابا گورو نانک نے ان کی شاعری کو اپنی کتاب گرنتھ صاحب میں محفوظ کیا۔ ان کی شاعری میں فارسی، عربی، سنسکرت کے الفاظ ملتے ہیں۔ وہ پنجابی شاعری کے پہلے شاعرشمار کئے جاتے ہیں
بشکریہ اردو تہذیب
 
Top