سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انداز حکمرانی

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انداز حکمرانی
وہ مصر کا باسی تھا۔ دیہات میں رہنے والا ایک عام باشندہ۔ اپنی آنکھوں میں آنسو لیے فریاد لیکر خلیفہ کی دربار میں حاضر ہوا۔اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر داد رسی کے لیے کہنے لگا:
اے امیرالمؤمنین!مجھ پر ظلم ہوا،میں اس سے بچنے کے لیے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا:مطمئن ہو جاؤ آپ کو پناہ دی جاتی ہے، اور تجھے ظلم کا بدلہ دلوایا جائے گا۔ وہ شخص رونے لگا اور گویا ہوا: مصر کے حاکم کے بیٹے سے میرا دوڑ میں مقابلہ ہوا،میں اس سے آگے نکل گیا، اس پر وہ مجھے کوڑے مارنے لگا۔ امیرالمؤمین نے اسی وقت حاکم اور اس کے بیٹے کو دربار میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا۔ جب وہ حاضر ہو گئے تو امیرالمؤمنین نے اس مظلوم کے ہاتھ میں کوڑا دیا اور فرمایا اپنا بدلہ لے لو،اس نے مارنا شروع کیا، یہاں تک کہ اس نے اپنا بدلہ لے لیا۔ پھر امیرالمؤمنین نے حاکم کو مخاطب کرتے ہوئے ایک ایسا تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے فرمایا:’’ آپ نے کب سے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد جنا تھا۔‘‘
یہ ہیں امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جن کے عہد خلافت میں عدل و انصاف کی ایک لازوال داستان۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حکومت سے الگ مستقل طور پر عدلیہ کے شعبہ کی بنیاد ڈالی ۔ مختلف اضلاع میں عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے۔ عدلیہ کے قوانیں و اصول مرتب کیے اور عدالتوں کو ارسال فرمائے۔ ایسے قاضی منتخب کیے جو پورے عرب میں قضاء کے لحاظ سے شہرت رکھتے تھے۔ ان سب کی شہرت کے باوجود ذاتی تجربے اور امتحان کے بعد ان سب کا تقرر کیا۔ قاضی کی اتنی تنخواہ مقرر فرمائی جس سے اس کی بآسانی ضروریات پوری ہو سکتی تھیں۔ ساتھ یہ اصول تھا کہ ایسا قاضی مقرر کیا جائے جو غریب نہ ہو تاکہ رشوت کی طرف راغب نہ ہو اور معزز ہو تاکہ فیصلہ کرتے وقت کوئی اس پر دباؤ اور رعب نہ ڈال سکے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی عدالتوں کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہاں سب عام و خاص برابر تھے۔ شہر کا حاکم ہو یا وقت کا خلیفہ ، سب عدالت کے رو برو پیش ہونے کے پابند تھے۔امیر و غریب۔ عربی و عجمی، قریشی و حبشی، شاہ و گدا سب کو برابر کا مرتبہ دیا جاتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ خود کئی بار فریق مقدمہ بن کر عادلت پیش ہوئے۔ عدالت کے لیے الگ عمارت تعمیر نہیں کی جاتی تھی بلکہ قاضی صاحب مسجد میں ہی بیٹھا کرتے تھے۔ عدالت کے دروازے پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی ۔ فقیر اور کمزور شخص کو بھی انصاف کے حصول میں کوئی دقت و دشواری پیش نہیں آتی تھی ہر شخص کو بآسانی انصاف میسر تھا۔
آپ رضی اللہ عنہ مختلف علاقوں کا دورہ فرماتے، کھلی کچہری لگاتے عوام کے مسائل سنتے اور موقع پر احکامات جاری فرماتے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حکمرانوں کے دروازے پر دربان مقرر کرنے پر پابندی لگائی ۔ ساری رات بازاروں گلیوں میں پہرہ دیتے ۔ بھوکھوں،پیاسوں اور ضرورت مندوں کے پاس خود چل کر تشریف لے جاتے اور ان کی ضروریات کو پورا فرماتے تھے۔ دشمن بھی آپ رضی اللہ عنہ کے انصاف کی تعریف کرتے تھے۔
موجودہ حالات میں ہماری حکومتوں کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا طرز حکمرانی ایک بہترین نمونہ ہے۔​
 
Top