اسلاف کی دعا ومناجات وخشیت
محمد ابن حسینؒ فر ماتے ہیں کہ مجھے ابو معمر تنوری نے خبر دی کہ انہیں ابو محمد ربیع نے خبر دی ، وہ فرماتے ہیں کہ یز ید رقاشی رات کو اللہ کے سامنے بہت کثرت سے روتے تھے ، روتے روتے گر پڑتے تھے ، پھر ہوش آتا تو پھر رونا شروع کر دیتے اور پھر روتے روتے بیہوش ہو کر گر پڑتے ، بیہوشی کی حالت میں انہیں گھر پہنچایا جاتا ۔وہ اپنی گفتگو میں فر مایاکرتے تھے ، میرے بھائیو! رونے کے دن سے پہلے رولو ، نوحہ کا دن آنے سے پہلے نو حہ کر لو ، تو بہ کا وقت ختم ہو نے پہلے تو بہ کر لو ۔
یحییٰؒ فر ماتے ہیں کہ ہمیں علا بن محمدؒ نے خبر دی ، وہ فرماتے ہیں کہ عطا سلمیؒ پُرانے چھاگل کی طر ح دکھائی دیتے تھے ، نیز فرمایا کی عطا ء کو دیکھ کر مجھے یہ گمان ہو نے لگتا ہے کہ یہ دنیا والوں میں سے نہیں ہیں ، میں ایک مر تبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کی بیوی کہنے لگیں دیکھو ! عطاء دن رات روتے ہیں مگر تھکتے نہیں ۔
مالکؒ بن ضیغم ایک مر تبہ شروع رات سے آخیر تک روتے رہے ، نہ کوئی سجدہ کیا نہ رکوع کیا ، خوف سے رات کے وقت اپنے جسم کو ہاتھ لگا کر دیکھا کر تے تھے کہ کہیں گناہوں کی نحوست کی وجہ سے میرا جسم مسخ تو نہیں کر دیا گیا۔
یحییٰؒ بن نصر کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب امام ابو حنیفہؒ کے دوست تھے جس کی بناء پر میں کبھی کبھی امام صاحب ؒکے یہاں رات کو سو جاتا تھا تو میں دیکھتا کہ امام ابو حنیفہؒ پوری رات نماز میں مشغول رہتے اور میں چٹائی پر ان کے ّنسوؤں کے گر نے کی اس طر ح سنا کر تا تا گو یا بارش ہو رہی ہو۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحبؒ نے حکایت صحابہ میں یہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت محمد بن المکندرؒ اپنے آنسوؤں کو اپنے چہرہ اور داڑھی پر مل لیتے تھے اور کہتے تھے کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ جہنم کی آگ اس جگہ کو نہیں چھوٹی جہاں یہ آنسو پہنچے ہیں ۔
مولانا جلا ل الدین رومیؒ فر ماتے ہیں :
چوں بکریم خلقہا گریاں شود ۔۔ چوں بنالم چرخ نالہ خواں شود
جب میں روتا ہوں تو ایک خلق میرے ساتھ روتی ہے اور جب میں نالہ کرتا ہوں تو آسمان میرے نالوں میں شریک ہو تے ہیں (کشکول)شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کی دعا ومناجات:
شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ بچپن ہی سے عبادت وریاضت میں دلچسپی تھی ،ان کو والد ماجد نے ہدایت کی تھی ۔
ملائے خشک ونا ہموار نہ با شی
چنا نچہ عمر بھر ان کے ایک ہاتھ میں جام شریعت رہا ، دوسرے ہاتھ میں سندانِ عشق ، عشق الٰہی کی لگن تو ان کا خاندانی ورثہ رہی، شیخ سیف الدین ؒ نے ان میں عشق حقیقی کے وہ جذبات پھو نک دیئے تھے جو آخر عمر تک ان کے قلب وجگر کو گر ماتے رہے ۔
ابتدائی زمانہ میں ان کا معمول تھا کہ وہ رات میں بیدار ہو کر عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے لکھتے ہیں "وبا وجود شوق وشغف تحصیل وتکرام علم در کثرت صلوٰۃ واوراد وشب خیزی ومناجات ہمدراں طفولیت بو جود می آمد " یعنی تحصیل علم میں اس قدر انہماک اور مشغولیت کے با وجود اس زمانۂ طفلی میں نماز ،اوراد ، اور شب خیزی ومناجات کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھے ۔
اس زمانے میں جس ذوق وشوق کے ساتھ وہ داعئیں ما نگا کر تے تھے اس کے تصور سے پیرانہ سالی اس کے گام ودھن لطف اندوز ہو تے تھے ، فر ماتے ہیں ۔ ہنوز ذوق آں اسھار واوقات در کام وقت پیدا است۔
حاجی امداد اللہ مہا جر مکیؒ کی دعا ومنا جات:
حضرت اقدس تھانویؒ فر ماتے ہیں کہ کبھی کبھی حضرت حاجی امدا داللہ مہا جر مکی ؒ عشاء کے بعد سجدہ میں تمام رات یہ شعر پڑھتے تھے۔
اے خد ایں بندہ را رسوا مکن
گر بدم من سر من پیدا مکن
ترجمہ: ائے خدا اس بندہ کو رسو نہ فر ما، اگر چہ میں سراپا برا ہوں لیکن آپ میرا عیب مخلوق پر ظاہر نہ فر مایئے۔گر بدم من سر من پیدا مکن
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ حضرت حاجی صاحب اس طرح روتے تھے کہ سننے والوں کا کلیجہ پھٹتا تھا ،اتنا رونے کے با وجود اس رونے کو کم سمجھتے تھے اور یہ شعر پڑھتے تھے َ
روتی ہے خلق میری خرابی کو دیکھ کر
روتا ہوں میں کہ ہائے میری چشم تر نہیں
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی دعا ومنا جا ت:روتا ہوں میں کہ ہائے میری چشم تر نہیں
حضرت گنگوہیؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ جس وقت اخیر شب میں تحریمہ ہاتھ با ندھ کر اپنے خدا کے سامنے کھڑے ہو تے اور دست بستہ عرض معروض فرماتے تو آپ پر وہ حالت نمایا ں ہو تی تھی جو شہنشاہ کے حضور میں حاضر ہو تے وقت غلام کی ہو تی ہے ، بسا اوقات آپ پر گر یہ طاری ہو جا تا آواز بھر ا جاتی ، ہچکی بندھ جاتی ،آنکھو ں سے آنسوؤں کے تار موتیوں کی لڑیا ں بن کربہتے اور سارے بدن پر ایک رعشہ پیدا ہو جاتا تھا ، شہنشاہی فر مان یعنی مقدس قرآن کی آیات آپ پڑھتے اور تغیر حال کے سبب رک جاتے تھے ، پھر شروع فر ماتے اور پھر ٹھر جاتے تھے، کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک آیت شریفہ پر آپ نے صبح کردی اس کو بار بار دہراتے اور اعادہ فر ماتے تھے ۔ ( تذکرۃ الرشید)
شیخ الحدیث حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کی دعا ومناجات:
شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحبؒ آب بیتی میں تحریر فر ماتے ہیں "میں نے اپنے اکابر میں اپنے والد صاحب اور حضرت مدنی قدس سرہ کو اخیرشب میں بہت ہی آواز سے روتے سنا، بسا اوقات ان اکابر کے رونے سے مجھ جیسے کی آنکھ بھی کھل جاتی جب کہ آنکھ سونے کے بعد بڑی مشکل سے کھلتی ہے ۔
حضرت مدنیؒ ہندی کے دوہے درد سے پڑھا کرتے تھے میں ہندی سے واقف نہیں ، اس لئے مضامین کا تو پتہ نہیں چلتا تھا ، لیکن رو نے کا منظر اب تک کانوں اور دل میں ہے جیسے کوئی بچہ کو پیٹ رہا ہو اور وہ رو رہا ہو ۔(آب بیتی )
حضرت اپنی مناجات میں یہ شعر بہت رو رو کر پڑھا کرتے تھے ۔
نہ کالی کو دیکھے نہ گوری کو دیکھے
پیا جس کو چاہے سہا گن وہی ہے ۔
حضرت شاہ عبد الغنی پھولپوریؒ کی دعا ومنا جات :پیا جس کو چاہے سہا گن وہی ہے ۔
حضرت شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوریؒ تہجدکی نماز میں ہر دو رکعت کے بعد استغفار میں دیر تک رو یا کرتے تھےاور اپنی مجلس میں جب اللہ تعالیٰ کی کوئی بات شروع کرتے تو اللہ کانام لیتے ہی آنسو نکل کر چہرۂ مبارک پر ٹھرے رہتے تھے ، پھر حضرت دونوں ہا تھوں سے آنسوؤں کو چہرے اور داڑھی پر مل لیتے تھے اور فر ماتے تھے کہ میں نےاپنے شیخ حکیم الامت نو ر اللہ مرقدہ کو اسی طرح عمل کر تے دیکھا ہے۔ اسلاف کی طالب علمانہ زندگی ۔مولانا حفظ الرحمٰن پا لنپوری۔