ایک حدیث، جسکاسبق یاد نہیں
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ٌ*
یہ حدیث اکثر لوگوں کی سنی ہوئی ہوگی،گو اصطلاح حدیث کے اعتبار سے یہ مشہور کے درجے پر فائز نہ ہو، تاہم کثرت بیان کے لحاظ سے اسے بلا تردد مشہور کہا جا سکتا ہے،بر صغیر ہندوپاک میں بہت کم خطیب ایسے ہونگے جو اسکو اپنے ہر ایک خطبۂ جمعہ میں پڑھتے نہ ہوں ، الفاظ کوئی کسی روایت کے لیتا ہے کوئی کسی کے، لیکن مضمون ومفہوم ایک ہی ہے،میں نے بخاری کے الفاظ اختصار کے ساتھ نقل کئے ہیں ۔
یہ حدیث جہاں اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا زمانہ تمام زمانوں میں افضل تھا ،وہیں یہ ہمیں اپنے زمانے کی تعریف کا درس بھی دیتی ہے ،اس حدیث کا انداز ہمیں بتاتا ہے کہ تقابل پچھلے زمانے سے نہیں بلکہ اگلے زمانے سے کیا جانا چاہئے،اور جب ہم حدیث کے اس سبق پر غور کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ تابعین کے زمانے سے ہی لوگوں نے اگلے زمانے کے بجائے پچھلے زمانے کے ساتھ موازنہ کرنے کا نیا سلسلہ شروع کردیا تھا ،یہی سلسلہ آج تک چلا آتا ہے ،خرابی اس کی یہ ہے کہ اپنے زمانے کی ہر عالم ،ہر صوفی ،ہر مفکر ہر رہبر برائی کرتا نظر آتا ہے ،جو اس حدیث کی روشنی میں بالکل خلاف سنت ہے ،اس سے ہمیں دو بڑےنقصان ہوئے ہیں،پہلا یہ کہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو لگنے لگا ہے کہ اخلاف کے جو قصے بیان کئے جاتے ہیں ناقابل اعتبار ہیں ،اگر دین داری میں ایسی برکت وکرامت ہے تو اب کیوں نہیں ہے؟کیا دین داری اب بالکل ختم ہو گئی ہے؟
دوسرے ،اس سے حوصلہ پست ہوتا ہے ،کام کی ہمت نہیں ہوتی،بعد مرنے کے کسی کی تعریف ہو رہی ہو تو ہوا کرے ،اب یہ تعریف اس کے عمل کو متأثر تھوڑی نہ کرے گی؟
زید کی جو تعریفیں بعد میں کی جا رہی ہیں، اگر وہ سچ ہیں ،تو زندگی میں بھی کی جانی چاہئیں تاکہ اسے حوصلہ اور دوسروں کو ترغیب ہو۔
ہم یہ مانتے اور بیان کرتے ہیں کہ کوئی زمانہ بھی اہل اللہ سے خالی نہیں ہوتا ،پھر کیا وجہ ہے کہ اہل زمانہ صدیوں سے اپنے زمانے کو خالی اور بنجر مانتے چلے آرہے ہیں ؟فہل من مدکر ؟
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ٌ*
یہ حدیث اکثر لوگوں کی سنی ہوئی ہوگی،گو اصطلاح حدیث کے اعتبار سے یہ مشہور کے درجے پر فائز نہ ہو، تاہم کثرت بیان کے لحاظ سے اسے بلا تردد مشہور کہا جا سکتا ہے،بر صغیر ہندوپاک میں بہت کم خطیب ایسے ہونگے جو اسکو اپنے ہر ایک خطبۂ جمعہ میں پڑھتے نہ ہوں ، الفاظ کوئی کسی روایت کے لیتا ہے کوئی کسی کے، لیکن مضمون ومفہوم ایک ہی ہے،میں نے بخاری کے الفاظ اختصار کے ساتھ نقل کئے ہیں ۔
یہ حدیث جہاں اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا زمانہ تمام زمانوں میں افضل تھا ،وہیں یہ ہمیں اپنے زمانے کی تعریف کا درس بھی دیتی ہے ،اس حدیث کا انداز ہمیں بتاتا ہے کہ تقابل پچھلے زمانے سے نہیں بلکہ اگلے زمانے سے کیا جانا چاہئے،اور جب ہم حدیث کے اس سبق پر غور کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ تابعین کے زمانے سے ہی لوگوں نے اگلے زمانے کے بجائے پچھلے زمانے کے ساتھ موازنہ کرنے کا نیا سلسلہ شروع کردیا تھا ،یہی سلسلہ آج تک چلا آتا ہے ،خرابی اس کی یہ ہے کہ اپنے زمانے کی ہر عالم ،ہر صوفی ،ہر مفکر ہر رہبر برائی کرتا نظر آتا ہے ،جو اس حدیث کی روشنی میں بالکل خلاف سنت ہے ،اس سے ہمیں دو بڑےنقصان ہوئے ہیں،پہلا یہ کہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو لگنے لگا ہے کہ اخلاف کے جو قصے بیان کئے جاتے ہیں ناقابل اعتبار ہیں ،اگر دین داری میں ایسی برکت وکرامت ہے تو اب کیوں نہیں ہے؟کیا دین داری اب بالکل ختم ہو گئی ہے؟
دوسرے ،اس سے حوصلہ پست ہوتا ہے ،کام کی ہمت نہیں ہوتی،بعد مرنے کے کسی کی تعریف ہو رہی ہو تو ہوا کرے ،اب یہ تعریف اس کے عمل کو متأثر تھوڑی نہ کرے گی؟
زید کی جو تعریفیں بعد میں کی جا رہی ہیں، اگر وہ سچ ہیں ،تو زندگی میں بھی کی جانی چاہئیں تاکہ اسے حوصلہ اور دوسروں کو ترغیب ہو۔
ہم یہ مانتے اور بیان کرتے ہیں کہ کوئی زمانہ بھی اہل اللہ سے خالی نہیں ہوتا ،پھر کیا وجہ ہے کہ اہل زمانہ صدیوں سے اپنے زمانے کو خالی اور بنجر مانتے چلے آرہے ہیں ؟فہل من مدکر ؟