عموماً جن رواۃ پر جرح ہوتی ہے وہ مطلقاً جرح ہوتی ہے یعنی ان کی عام کیفیت کے بارے میں یہ جرح ہوتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔
البتہ بعض سندوں میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ راوی ثقہ ہوتا ہے لیکن اس کی کسی اور خاص راوی سے روایت صحیح نہیں ہوتی۔ اس کی مختلف وجوہات ممکن ہیں مثلاً ملاقات کم ہونا یا مزاج کا اختلاف وغیرہ۔
یہ ٹھیک ہے ابھی اس بارے میں بات نہیں کر رہا ۔
ابھی نارمل سے ہٹ کر جو صورت کم پیش آتی ہے اس کے بارے میں بات ہے ۔
اگر کسی راوی کی عام کیفیت تو ثقاہت کی ہو لیکن کسی ایک آدھ حدیث میں اسے وہم ہو تو اس سے اس کی ذات پر جرح نہیں ہوتی۔
جب کسی راوی کی خارج میں ثقاہت یا عدم ضعف ثابت ہو۔۔۔۔۔۔۔ اس کے پہلے مصداق مشہور ائمہ مجتہدین و مشہور محدثین وغیرہ ہیں ۔
مثلاََ ائمہ اربعہ جو جرح والے پل کو پار کر چکے ہیں ۔ان میں بھی ثقاہت سب سے زیادہ امام مالکؒ کی بیان کی جاتی ہے ۔
اور امام مالکؒ کے بعض وہم کا ذکر ان کے سب سے بڑے محدث ابن عبد البرؒ بھی کر جاتے ہیں ۔
ظاہر ہے اس سے امام مالکؒ کی امامت اور جلالت قدر پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
اسی طرح کوئی مسلکی جنگ میں (جس کا آج کل ہم بہت شکار ہیں) خطیب کی موضح اوہام اور ابن ابی حاتم کی بیان خطا فی تاریخ کو لے کر ایک امام المحدثین کو کثیر الخطا اور کثیر الاوہام کہہ دے تو یہ سراسر زیادتی اور تعصب ہے ۔
يامشہور روایت من کان لہ امام۔۔کے بارے میں یحیی بن معین ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث متصل روایت ۔۔لیس ھو بشئی ۔۔ہے بلکہ یہ روایت مرسل ہے ۔ اور ابن عبد البرؒ فرماتے ہیں کہ جنہوں نے اسے متصل روایت کیا ہے وہ سیئ الحفظ عند اہل الحدیث ہیں ۔
اور یہ جرح ایک ایسے امام کے بارے میں ہے ۔جو خود یحیی بن معین ؒ کے مطابق وہ ہیں ۔۔۔کہ جن کے بارے میں تضعیف انہوں نے کسی سے بھی نہیں سنی ۔ ما سمعت احدا ضعف۔
اور ابن عبد البرؒ نے ان امام کی تعدیل میں پوری کتاب لکھی ہوئی ہے ۔۔اسی طرح دوسری کتاب میں ان ائمہ کا ذکر کر کے ایک شعر کے ذریعے فرماتے ہیں کہ ان پر کلام کرنا ایسے ہے ۔۔۔جیسے ۔۔۔کوئی بکرا پہاڑ سے سر ٹکرائے ۔۔تو پہاڑ کا تو کچھ نہیں بگڑے گا ۔۔بکرا زخمی ہو جائے گا۔۔
پھر ظاہر ہے تشریح یوں ہوگی ۔۔۔۔کہ ۔۔صرف اس حدیث میں وہم ہے ۔
ابھی یہ حدیث کوئی زیر بحث نہیں ورنہ ۔۔وہم غلطی کوئی نہیں ہے ۔ بلکہ امام یحیی ؒ اور ابن عبد البرؒ غلطی پر ہیں ۔
ابھی صرف یہ بتانا ہے ۔۔۔ان کی اصطلاح ۔۔لیس ھو بشئی اور سیئ الحفظ۔۔۔صرف اس ایک حدیث پر ہے ۔ باقیوں میں ہر گز نہیں۔ اسی طرح امام مالکؒ کو تراویح والی روایت میں وہم ہونے کا کہنے پر بھی ابن عبد البرؒ سے اختلاف کیا گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں اس بارے میں کچھ لاعلمی سے زیادتی ہو جاتی ہے ۔
مثلاََ تقریب پر بھروسہ کرنے والے حضرات جب تقریب میں حافظ ابن حجرؒ کا امام حماد بن ابی سلیمانؒ کے بارے میں صدوق لہ اوہام پڑھتے ہیں تو ان کی ہزاروں روایات پر اوہام کا اثر ڈال دیتے ہیں ۔ اور اکثر جگہہ ان کی روایت کو ضعیف ہی کہہ دیتے ہیں ۔ کوئی بہت احسان کرے تو حسن کہہ دیتا ہے ۔ حالانکہ حافظ نے شاید ہی ان کی روایت کو ضعیف کہا ہو۔
ابھی جو بات زیر بحث ہے وہ ایسے راوی کے بارے میں ہے جو ائمہ ہیں جن میں حمادؒ جیسے ہیں ان کا ۔۔۔لہ اوہام ۔۔۔بہت کم روایات میں ہوگا ۔
یا مختلف فیہ راوی کے بارے میں زیادہ غور کرنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زور اس نکتہ پر ہے کہ کسی امام نے جرح کی ہو اور وضاحت ، تشریح ، یا تصریح نہ کی ہو ۔
تو پھر بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ راوی بعض روایات میں ضعیف ہے ۔ یعنی فلاں ضعیف ہے تو اس کا مطلب فلاں روایت میں ضعیف ہے ۔یعنی اس کی فلاں روایت صحیح نہیں۔ فلاں سیئ الحفظ ہے تو یعنی فلاں روایت میں اس سے غلطی ہوگئی ہے ۔
اس کے نظائر پیش کرنے پیش نظر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یحیی بن معینؒ کی جرح لیس بشیئ۔۔۔۔۔کے بارے میں ۲ تشریحات تو مشہور ہیں ۔۔اور دونوں بظاہر متعارض بھی ہیں ۔۔۔ایک یہ کہ اس سے مراد راوی کا قلیل الحدیث ہونا ہے ۔ یہ حاکمؒ ، ابن قطانؒ ، ابن حجرؒ نے نقل کی ہے ۔
الرفع والتکمیل میں بھی نقل کی گئی ہے ۔
دوسری تشریح ۔۔۔۔یہ کہ اس سے مراد جرح شدید ہے ۔ جو کہ ان کے اقوال کا تتبع کر کے شیخ ابوغدہؒ وغیرہ نے نکالا ہے ۔
اور یہ اوپر کی عبارت حافظؒ کی ۔۔۔۔۔سے ایک تیسری تشریح ثابت ہو گئی کہ (شاید) راوی بعض روایات میں مجروح ہے ۔
اوپر ایک بڑے امام کی مثال سے واضح بھی ہے ۔
فلاں شیخ سے روایت میں ضعیف ہے اور فلاں سے نہیں ۔۔۔کا اظہار ابن معینؒ وغیرہ کی ہر عبارت میں نہیں ہے ۔
حالانکہ کئی جگہہ وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ اور اسی بات کے اظہار کے لئے یہ موضوع شروع کیا تھا کہ جب محدث تصریح نہ بھی کرے تو کیا ہوتاہے ۔
حتی کے بعض اوقات تصریح کر بھی دیں تو یہ اظہار بھی مطلق نہیں ہوتا ۔۔
مثلاََ علی الصدر والی روایت میں مؤمل بن اسمعيل کے بارے میں ۔۔۔
۔ سفيان ثورىؒ سے اس کی روایت یحییؒ کے نزدیک کیسی ہے ۔
ایک روایت میں ابن معینؒ سے اس کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا۔
أي شيء حال المُؤَمَّل في سُفيان؟ فقال: هو ثِقَةٌ
بغیر کسی قید کے ثقہ کہا۔
لیکن کسی اور جگہہ ایک روایت میں انہوں نے فرمایا۔
سمعت يحيى يقول قبيصة ليس بحجة فى سفيان ولا ابو حذيفة ولا يحيى بن آدم ولا مؤمل
اب دونوں کو مان لیا جائے تو نتیجہ کیا نکالا جائے ۔؟
مومل ۔۔۔سفیان سے روایت میں ثقہ ہے لیکن حجت نہیں ہے ۔یعنی متابعت ، سیر ، فضائل میں ؟
۲۔ مومل کی سفیان سے بعض روایات صحیح بھی ہیں ۔۔۔لیکن مومل ویسے مجموعی حوالے سے سفیان سے روایت میں حجت نہیں۔؟
۳۔ یا کوئی ایک رائے بعد کی ثابت ہو جائے ۔؟
۳۔ حافظ ابن حجرؒ تو اس کے حامی ہیں کہ مومل کی روایت سفیان سے میں خطا ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیس بالقوی اور لیس بقوی۔
آج کل اکثر کتب میں آپ نے یہ بحث پڑھی ہو گی کہ لیس بالقوی سے مراد درجہ کاملہ کی نفی ہے ۔ اور یہ لیس بقوی کے علاوہ ہے ۔ یعنی القوی ۔اور ۔قوی
ذہبیؒ نے امام نسائیؒ سے اتنا نقل کیا ہے کہ ان کا لیس بالقوی کہنا جرح مفسد نہیں ۔۔
اور انہوں نے کئی ایسے راویوں سے سنن میں روایت اور احتجاج بھی کیا ہے ۔
اور کئی جگہہ یہ صحیح بھی ہے ۔
لیکن یہاں بھی کوئی پکا قاعدہ کوئی نہیں ۔۔۔بلکہ ایک بھائی کی تحریر میں نے پڑھی انہوں نے تتبع کیا تو معلوم ہوا کہ یہ فرق امام نسائی اور دوسرے بعد کے ناقلین کے سامنے نہیں ہے ۔ بلکہ امام نسائیؒ جن کو لیس بالقوی کہتے جاتے ہیں ۔۔۔ذہبیؒ وغیرہ اس کو لیس بقوی نقل کرتے جاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل میں یہ مسئلہ ۔۔۔میرے شروع کئے ہوئے دوسرے موضوع سے کچھ ملا ہوا ہے ۔ ۔۔جس میں آج کل اصول حدیث ، مصطلح الحدیث کا استعمال ہوتا ہے ۔۔۔
آج کل ہر مسلک کے ہر طبقے کے حضرات ۔۔۔۔۔۔خصوصاََ
نوجوان طلباء
اور ۔۔۔خود متعلقہ مقام پڑھنے سے زیادہ انٹرنیٹ ، ای بک شاملہ ، سرچ وغیرہ پر بھروسہ کرنے والوں میں دیکھا ہے ۔
اگر چہ میرے جیسے جاہل بھی یہ دوسری کیٹیگری کے ہی ہیں کہ اس میں جہلاء کے لئے آسانی ہے ۔ لیکن حقیقت جو ہو اس کا اظہار بھی تو ضروری ہے ۔
آج کل محدثین کے جملوں سے قواعد اور کلیہ بنا لیا جاتا ہے ۔اور احادیث پر حکم لگانے میں اس پر اعتماد کیا جاتا ہے ۔
اس کے لئے پی ایچ ڈی ، ماجیستر وغیرہ کے ضمن میں اقوال اکٹھے کر کے رسائل لکھے جاچکے ہیں ۔
اسی ضمن میں مناہج المحدثین پر مشتمل کتب وجود میں آئیں ۔ اگرچہ ان میں بہت فوائد بھی مل جاتے ہیں ۔ لیکن اس پر اس طرح کا اعتماد کر کے محدثین کے اقوال کو اصول بنا دیا گیا ہے ۔ حالانکہ قواعد اتنے اٹل نہیں ہوتے بلکہ اس فلاں محدث کا اجتہاد بھی ہوتا ہے ۔ اور یہ بالکل صحیح ہے ۔ کیونکہ یہ کوئی روبوٹ یا کمپیوٹر تو نہیں کہ ایک بات کہہ دی تو وہ ہر جگہہ مطلق نافذ ہو گی۔
واللہ اعلم۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔۔کچھ بے ترتیب خیالات آتے گئے اس لئے بیان کرتا گیا۔۔کوئی اصول کے خلاف بات ہو اور غلطی ہو تو ضرور بتائیے گا۔