بعض اوقات کسی خاص راوی کو ضعیف کہنے سے مراد صرف کسی خاص حدیث میں ہی ضعیف مراد ہوتا ہے ۔؟

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ علم جرح و تعدیل میں کوئی جارح کسی راوی پر جرح کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔تو لگتا ہے کہ شاید اسی خاص حدیث میں یہ ضعیف ہے ۔
اگرچہ جارح نے تصریح نہ بھی کی ہو۔۔۔
اس کی مثال اور نظائر اگر آپ بھائیوں کی نظر سے گزرے ہوں تو ضرور شیئر کریں ۔

مثال کے طور پر ایک نظیر تو ہے لیکن ۔۔۔اس میں کچھ کھٹک بھی ہے ۔
امام بخاریؒ نے ایسا جز القرااۃ ۳۸میں ابن اسحاق پر امام مالکؒ کی جرح سے متعلق فرمایا ہے ۔
وَلَوْ صَحَّ عَنْ مَالِكٍ تَنَاوُلُهُ مِنِ ابْنِ إِسْحَاقَ فَلَرُبَّمَا تَكَلَّمَ الْإِنْسَانُ فَيَرْمِي صَاحِبَهُ بِشَيْءٍ وَاحِدٍ وَلَا يَتَّهِمُهُ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا

یہ مثال تو بڑی اچھی ہے لیکن جز القرااۃ کے امام بخاریؒ کے انتساب میں کچھ کھٹک ہے ۔بہرحال قابل قبول ہوسکتی ہے ۔
لیکن اگر کوئی اور نظائر بھی ملیں تو کیا ہی بات ہو ۔ اشماریہ بھائی ۔۔۔۔؟
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ علم جرح و تعدیل میں کوئی جارح کسی راوی پر جرح کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔تو لگتا ہے کہ شاید اسی خاص حدیث میں یہ ضعیف ہے ۔
اگرچہ جارح نے تصریح نہ بھی کی ہو۔۔۔
اس کی مثال اور نظائر اگر آپ بھائیوں کی نظر سے گزرے ہوں تو ضرور شیئر کریں ۔

مثال کے طور پر ایک نظیر تو ہے لیکن ۔۔۔اس میں کچھ کھٹک بھی ہے ۔
امام بخاریؒ نے ایسا جز القرااۃ ۳۸میں ابن اسحاق پر امام مالکؒ کی جرح سے متعلق فرمایا ہے ۔
وَلَوْ صَحَّ عَنْ مَالِكٍ تَنَاوُلُهُ مِنِ ابْنِ إِسْحَاقَ فَلَرُبَّمَا تَكَلَّمَ الْإِنْسَانُ فَيَرْمِي صَاحِبَهُ بِشَيْءٍ وَاحِدٍ وَلَا يَتَّهِمُهُ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا

یہ مثال تو بڑی اچھی ہے لیکن جز القرااۃ کے امام بخاریؒ کے انتساب میں کچھ کھٹک ہے ۔بہرحال قابل قبول ہوسکتی ہے ۔
لیکن اگر کوئی اور نظائر بھی ملیں تو کیا ہی بات ہو ۔ اشماریہ بھائی ۔۔۔۔؟
کچھ روز سے کام بہت زیادہ اور طبیعت اتنی مضمحل ہے کہ کسی علمی کام پر طبیعت مائل نہیں ہو رہی۔ ان شاء اللہ جلد عرض کرتا ہوں۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ علم جرح و تعدیل میں کوئی جارح کسی راوی پر جرح کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔تو لگتا ہے کہ شاید اسی خاص حدیث میں یہ ضعیف ہے ۔
اگرچہ جارح نے تصریح نہ بھی کی ہو۔۔۔
اس کی مثال اور نظائر اگر آپ بھائیوں کی نظر سے گزرے ہوں تو ضرور شیئر کریں ۔

مثال کے طور پر ایک نظیر تو ہے لیکن ۔۔۔اس میں کچھ کھٹک بھی ہے ۔
امام بخاریؒ نے ایسا جز القرااۃ ۳۸میں ابن اسحاق پر امام مالکؒ کی جرح سے متعلق فرمایا ہے ۔
وَلَوْ صَحَّ عَنْ مَالِكٍ تَنَاوُلُهُ مِنِ ابْنِ إِسْحَاقَ فَلَرُبَّمَا تَكَلَّمَ الْإِنْسَانُ فَيَرْمِي صَاحِبَهُ بِشَيْءٍ وَاحِدٍ وَلَا يَتَّهِمُهُ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا

یہ مثال تو بڑی اچھی ہے لیکن جز القرااۃ کے امام بخاریؒ کے انتساب میں کچھ کھٹک ہے ۔بہرحال قابل قبول ہوسکتی ہے ۔
لیکن اگر کوئی اور نظائر بھی ملیں تو کیا ہی بات ہو ۔ اشماریہ بھائی ۔۔۔۔؟
بسم اللہ الرحمان الرحیم
محترم بھائی امام بخاری کی جو بات آپ نے نقل فرمائی یہ بات امام بخاری کے ہی حوالے سے علامہ مزی نے یوں نقل فرمائی ہے:
قال : و قال لى إبراهيم بن حمزة : كان عند إبراهيم بن سعد عن محمد بن إسحاق نحو من سبعة عشر ألف حديث فى الأحكام سوى المغازى ، و إبراهيم بن سعد من أكثر أهل المدينة حديثا فى زمانه ، و لو صح عن مالك تناوله من ابن إسحاق فلربما تكلم الإنسان فيرمى صاحبه بشىء واحد و لا يتهمه فى الأمور كلها
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محمد بن اسحاق کسی خاص حدیث میں ضعیف ہیں اور کسی حدیث میں نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات کسی شخص پر جرح کسی خاص معاملہ میں مثلا کلام، تفسیر، مغازی، انساب وغیرہ میں ہوتی ہے، حدیث میں نہیں ہوتی۔ امام بخاری کے اس قول کی وجہ غالبا یہ ہے کہ محمد بن اسحاق انساب اور مغازی کے امام تھے۔ اور صاحب تہذیب الکمال کی صراحت کے مطابق امام مالک کے بارے میں بہت سخت تھے، تو عین ممکن ہے کہ انہوں نے امام مالک کے بارے میں کوئی ایسی بات کہہ دی ہو جس پر امام نے انہیں دجال من دجاجلہ کا لقب عنایت فرما دیا۔ (اس کی تفصیل غالبا الرفع و التکمیل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مجھے فی الحال مستحضر نہیں ہے۔)
یہ چیز کہ فلاں شخص پر حدیث کے بجائے کسی اور معاملہ میں جرح ہے یہ دیگر ائمہ کے کلام، تمسک اور کلام کی قوت کو دیکھ کر معلوم کی جاتی ہے اور یہ خود کسی "رجل جلیل" کا کام ہے۔ ہر کس و ناکس کا کام نہیں۔

باقی جزء کا اگرچہ راوی مجہول ہے لیکن محدثین کا قاعدہ ہے کہ جس کتاب کا انتساب کسی مصنف کی جانب مشہور ہو تو اس کے راوی کی جہالت قطعا مضر نہیں ہوتی۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
باقی جزء کا اگرچہ راوی مجہول ہے لیکن محدثین کا قاعدہ ہے کہ جس کتاب کا انتساب کسی مصنف کی جانب مشہور ہو تو اس کے راوی کی جہالت قطعا مضر نہیں ہوتی۔

جی بالکل صحیح فرمایا آپ نے ۔میں نے اسی لئے یہ کہا کہ یہ روایت قابل قبول ہو سکتی ہے ۔
بعض جملے خود بتا دیتے ہیں کہ وزنی شخصیت کے منہ سے نکلے ہیں ۔ جیسے میں نے مولانا انور شاہ صاحب ؒ کا آج کل کے اصول حدیث میں ایک قول نقل کیا تھا ۔ آپ نے بھی اس کا حوالہ نہیں پوچھا ۔ مجھے بھی شاید ڈھونڈنا پڑے کہاں پڑھا تھا۔۔لیکن وہ جملہ خود ہی اتنا وزنی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کسی جبل علم کے منہ سے ہی نکلا ہے ۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہیں کہا تھا کہ ۔۔۔کتاب کی سند ، سماعات وغیرہ ایک اضافی فضیلت کی چیز ہے ۔۔۔اس سے کوئی مشہور کتاب کی صحت پر اثر نہیں پڑتا ۔۔۔ہاں اگر کتاب مشہور نہیں تو پھر اور بات ہے ۔۔۔
لیکن میں نے جو جزء القرااة ،كے انتساب میں کھٹک کا کہا ہے وہ اس لئے کہا ہے کہ اس کا راوی کتاب کے اندر ہر سند میں موجود ہے ۔
اور اتفاق سے وہ بھی بخاری ہے ۔۔۔یعنی محمود بن اسحاق بخاری۔۔۔
اور آپ کے علم میں ہو گا کہ بعض باتیں اس میں امام بخاریؒ کے مقام سے بہت نیچے کی لگتی ہیں ۔
اور غالباََ نور الصباح میں مولانا حبیب اللہ ؒ نے اس کی غلطیاں امام بخاریؒ کی دوسری تصانیف سے موازنہ کر کے نکالی ہیں ۔۔۔
جیسے کتاب الآثار کی بروایت محمد ؒ میں سند امام محمد سے شروع ہوتی ہے ۔۔۔
اور انہوں نے کئی جگہہ اس میں اضافات کئے ہیں ۔۔۔
اسی طرح سنن شافعیؒ۔۔۔میں امام طحاویؒ نے کچھ اپنی باتیں نقل کی ہیں ۔۔
یا ابن ابی العوامؒ کی مناقب۔۔۔وغیرہ
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
جی بالکل صحیح فرمایا آپ نے ۔میں نے اسی لئے یہ کہا کہ یہ روایت قابل قبول ہو سکتی ہے ۔
بعض جملے خود بتا دیتے ہیں کہ وزنی شخصیت کے منہ سے نکلے ہیں ۔ جیسے میں نے مولانا انور شاہ صاحب ؒ کا آج کل کے اصول حدیث میں ایک قول نقل کیا تھا ۔ آپ نے بھی اس کا حوالہ نہیں پوچھا ۔ مجھے بھی شاید ڈھونڈنا پڑے کہاں پڑھا تھا۔۔لیکن وہ جملہ خود ہی اتنا وزنی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کسی جبل علم کے منہ سے ہی نکلا ہے ۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہیں کہا تھا کہ ۔۔۔کتاب کی سند ، سماعات وغیرہ ایک اضافی فضیلت کی چیز ہے ۔۔۔اس سے کوئی مشہور کتاب کی صحت پر اثر نہیں پڑتا ۔۔۔ہاں اگر کتاب مشہور نہیں تو پھر اور بات ہے ۔۔۔
لیکن میں نے جو جزء القرااة ،كے انتساب میں کھٹک کا کہا ہے وہ اس لئے کہا ہے کہ اس کا راوی کتاب کے اندر ہر سند میں موجود ہے ۔
اور اتفاق سے وہ بھی بخاری ہے ۔۔۔یعنی محمود بن اسحاق بخاری۔۔۔
اور آپ کے علم میں ہو گا کہ بعض باتیں اس میں امام بخاریؒ کے مقام سے بہت نیچے کی لگتی ہیں ۔
اور غالباََ نور الصباح میں مولانا حبیب اللہ ؒ نے اس کی غلطیاں امام بخاریؒ کی دوسری تصانیف سے موازنہ کر کے نکالی ہیں ۔۔۔
جیسے کتاب الآثار کی بروایت محمد ؒ میں سند امام محمد سے شروع ہوتی ہے ۔۔۔
اور انہوں نے کئی جگہہ اس میں اضافات کئے ہیں ۔۔۔
اسی طرح سنن شافعیؒ۔۔۔میں امام طحاویؒ نے کچھ اپنی باتیں نقل کی ہیں ۔۔
یا ابن ابی العوامؒ کی مناقب۔۔۔وغیرہ
امام بخاریؒ کی تمام تصنیفات صحیح بخاری کے پائے کی نہیں ہیں۔ بہت سی تصانیف میں کئی چیزیں ان کے مقام سے کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ممکن ہے کہ ہو سکتا ہے امام بخاریؒ نے یہ کتب پہلے لکھی ہوں۔ بعد میں وقت کے ساتھ انسان کا علم اور فکر دونوں بڑھتے رہتے ہیں۔ دوسرا الجامع الصحیح امامؒ نے کافی طویل عرصے میں لکھی ہے جب کہ ان کتب کے بارے میں قرین قیاس یہی ہے کہ عام کتب کی طرح کم وقت میں لکھی گئی ہیں۔ جب کسی کتاب کی تحریر میں مکمل غور و فکر کر کے طویل وقت میں لکھا جائے تو وہ بہت مضبوط ہو جاتی ہے بنسبت اس کتاب کے جسے مختصر وقت میں لکھا گیا ہو۔
نیز بعض اوقات جب کوئی کتاب املاء کرائی جا رہی ہو تو لکھنے والے کی فہم یا رفتار کی وجہ سے بھی کچھ خامیاں رہ جاتی ہیں جیسے عرف الشذی (علامہ انور شاہ کشمیریؒ) میں رہ گئی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
عرف الشذی (علامہ انور شاہ کشمیریؒ) ۔۔۔۔
اس كے تذکرے سے عرف الشذی کی طبع عرب۔۔۔یاد آگئی ۔۔۔
اس میں انہوں نے بغیر ذکر کئے تحفۃ الاحوذی کا کچھ مقدمہ ۔۔۔عرف الشذی کے شروع میں لگا دیا ہے ۔۔۔
گویا دودھ کی رکھوالی پہ۔۔۔۔۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
اس كے تذکرے سے عرف الشذی کی طبع عرب۔۔۔یاد آگئی ۔۔۔
اس میں انہوں نے بغیر ذکر کئے تحفۃ الاحوذی کا کچھ مقدمہ ۔۔۔عرف الشذی کے شروع میں لگا دیا ہے ۔۔۔
گویا دودھ کی رکھوالی پہ۔۔۔۔۔
ما شاء اللہ آپ کی کتب پر کافی نظر ہے۔
مجھے اس کا بالکل علم نہیں ہے۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
موضوع سے متعلق ایک جبل علم کی عبارت نظر سے گزری ہے ۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۔۔۔۔۔۔فتح الباری ۱۔۱۸۹۔ط دار المعرفۃ

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى مِمَّنْ تَفَرَّدَ الْبُخَارِيُّ بِإِخْرَاجِ حَدِيثِهِ دُونَ مُسْلِمٍ وَقَدْ وَثَّقَهُ الْعِجْلِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ أَبُو زُرْعَةَ وَأَبُو حَاتِمٍ صَالح وَقَالَ بن أبي خَيْثَمَة عَن بن مَعِينٍ لَيْسَ بِشَيْءٍ وَقَالَ النَّسَائِيُّ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ

قُلْتُ لَعَلَّهُ أَرَادَ فِي بَعْضِ حَدِيثِهِ

وَقَدْ تَقَرَّرَ أَنَّ الْبُخَارِيَّ حَيْثُ يُخَرِّجُ لِبَعْضِ مَنْ فِيهِ مَقَالٌ لَا يُخَرِّجُ شَيْئًا مِمَّا أُنْكِرَ عَلَيْهِ

وَقَول بن مَعِينٍ لَيْسَ بِشَيْءٍ أَرَادَ بِهِ فِي حَدِيثٍ بِعَيْنِهِ سُئِلَ عَنْهُ وَقَدْ قَوَّاهُ فِي رِوَايَةِ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْهُ

وَفِي الْجُمْلَةِ فَالرَّجُلُ إِذَا ثَبَتَتْ عَدَالَتُهُ لَمْ يُقْبَلْ فِيهِ الْجَرْحُ إِلَّا إِذَا كَانَ مُفَسَّرًا بِأَمْرٍ قَادِحٍ وَذَلِكَ غَيْرُ مَوْجُودٍ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ علم جرح و تعدیل میں کوئی جارح کسی راوی پر جرح کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔تو لگتا ہے کہ شاید اسی خاص حدیث میں یہ ضعیف ہے ۔
اگرچہ جارح نے تصریح نہ بھی کی ہو۔۔۔
اس کی مثال اور نظائر اگر آپ بھائیوں کی نظر سے گزرے ہوں تو ضرور شیئر کریں ۔

مثال کے طور پر ایک نظیر تو ہے لیکن ۔۔۔اس میں کچھ کھٹک بھی ہے ۔
امام بخاریؒ نے ایسا جز القرااۃ ۳۸میں ابن اسحاق پر امام مالکؒ کی جرح سے متعلق فرمایا ہے ۔
وَلَوْ صَحَّ عَنْ مَالِكٍ تَنَاوُلُهُ مِنِ ابْنِ إِسْحَاقَ فَلَرُبَّمَا تَكَلَّمَ الْإِنْسَانُ فَيَرْمِي صَاحِبَهُ بِشَيْءٍ وَاحِدٍ وَلَا يَتَّهِمُهُ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا

یہ مثال تو بڑی اچھی ہے لیکن جز القرااۃ کے امام بخاریؒ کے انتساب میں کچھ کھٹک ہے ۔بہرحال قابل قبول ہوسکتی ہے ۔
لیکن اگر کوئی اور نظائر بھی ملیں تو کیا ہی بات ہو ۔ اشماریہ بھائی ۔۔۔۔؟
عموماً جن رواۃ پر جرح ہوتی ہے وہ مطلقاً جرح ہوتی ہے یعنی ان کی عام کیفیت کے بارے میں یہ جرح ہوتی ہے۔ اگر کسی راوی کی عام کیفیت تو ثقاہت کی ہو لیکن کسی ایک آدھ حدیث میں اسے وہم ہو تو اس سے اس کی ذات پر جرح نہیں ہوتی۔ البتہ بعض سندوں میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ راوی ثقہ ہوتا ہے لیکن اس کی کسی اور خاص راوی سے روایت صحیح نہیں ہوتی۔ اس کی مختلف وجوہات ممکن ہیں مثلاً ملاقات کم ہونا یا مزاج کا اختلاف وغیرہ۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
عموماً جن رواۃ پر جرح ہوتی ہے وہ مطلقاً جرح ہوتی ہے یعنی ان کی عام کیفیت کے بارے میں یہ جرح ہوتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔

البتہ بعض سندوں میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ راوی ثقہ ہوتا ہے لیکن اس کی کسی اور خاص راوی سے روایت صحیح نہیں ہوتی۔ اس کی مختلف وجوہات ممکن ہیں مثلاً ملاقات کم ہونا یا مزاج کا اختلاف وغیرہ۔

یہ ٹھیک ہے ابھی اس بارے میں بات نہیں کر رہا ۔
ابھی نارمل سے ہٹ کر جو صورت کم پیش آتی ہے اس کے بارے میں بات ہے ۔

اگر کسی راوی کی عام کیفیت تو ثقاہت کی ہو لیکن کسی ایک آدھ حدیث میں اسے وہم ہو تو اس سے اس کی ذات پر جرح نہیں ہوتی۔

جب کسی راوی کی خارج میں ثقاہت یا عدم ضعف ثابت ہو۔۔۔۔۔۔۔ اس کے پہلے مصداق مشہور ائمہ مجتہدین و مشہور محدثین وغیرہ ہیں ۔

مثلاََ ائمہ اربعہ جو جرح والے پل کو پار کر چکے ہیں ۔ان میں بھی ثقاہت سب سے زیادہ امام مالکؒ کی بیان کی جاتی ہے ۔

اور امام مالکؒ کے بعض وہم کا ذکر ان کے سب سے بڑے محدث ابن عبد البرؒ بھی کر جاتے ہیں ۔

ظاہر ہے اس سے امام مالکؒ کی امامت اور جلالت قدر پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح کوئی مسلکی جنگ میں (جس کا آج کل ہم بہت شکار ہیں) خطیب کی موضح اوہام اور ابن ابی حاتم کی بیان خطا فی تاریخ کو لے کر ایک امام المحدثین کو کثیر الخطا اور کثیر الاوہام کہہ دے تو یہ سراسر زیادتی اور تعصب ہے ۔

يامشہور روایت من کان لہ امام۔۔کے بارے میں یحیی بن معین ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث متصل روایت ۔۔لیس ھو بشئی ۔۔ہے بلکہ یہ روایت مرسل ہے ۔ اور ابن عبد البرؒ فرماتے ہیں کہ جنہوں نے اسے متصل روایت کیا ہے وہ سیئ الحفظ عند اہل الحدیث ہیں ۔

اور یہ جرح ایک ایسے امام کے بارے میں ہے ۔جو خود یحیی بن معین ؒ کے مطابق وہ ہیں ۔۔۔کہ جن کے بارے میں تضعیف انہوں نے کسی سے بھی نہیں سنی ۔ ما سمعت احدا ضعف۔

اور ابن عبد البرؒ نے ان امام کی تعدیل میں پوری کتاب لکھی ہوئی ہے ۔۔اسی طرح دوسری کتاب میں ان ائمہ کا ذکر کر کے ایک شعر کے ذریعے فرماتے ہیں کہ ان پر کلام کرنا ایسے ہے ۔۔۔جیسے ۔۔۔کوئی بکرا پہاڑ سے سر ٹکرائے ۔۔تو پہاڑ کا تو کچھ نہیں بگڑے گا ۔۔بکرا زخمی ہو جائے گا۔۔

پھر ظاہر ہے تشریح یوں ہوگی ۔۔۔۔کہ ۔۔صرف اس حدیث میں وہم ہے ۔

ابھی یہ حدیث کوئی زیر بحث نہیں ورنہ ۔۔وہم غلطی کوئی نہیں ہے ۔ بلکہ امام یحیی ؒ اور ابن عبد البرؒ غلطی پر ہیں ۔

ابھی صرف یہ بتانا ہے ۔۔۔ان کی اصطلاح ۔۔لیس ھو بشئی اور سیئ الحفظ۔۔۔صرف اس ایک حدیث پر ہے ۔ باقیوں میں ہر گز نہیں۔ اسی طرح امام مالکؒ کو تراویح والی روایت میں وہم ہونے کا کہنے پر بھی ابن عبد البرؒ سے اختلاف کیا گیا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہیں اس بارے میں کچھ لاعلمی سے زیادتی ہو جاتی ہے ۔

مثلاََ تقریب پر بھروسہ کرنے والے حضرات جب تقریب میں حافظ ابن حجرؒ کا امام حماد بن ابی سلیمانؒ کے بارے میں صدوق لہ اوہام پڑھتے ہیں تو ان کی ہزاروں روایات پر اوہام کا اثر ڈال دیتے ہیں ۔ اور اکثر جگہہ ان کی روایت کو ضعیف ہی کہہ دیتے ہیں ۔ کوئی بہت احسان کرے تو حسن کہہ دیتا ہے ۔ حالانکہ حافظ نے شاید ہی ان کی روایت کو ضعیف کہا ہو۔

ابھی جو بات زیر بحث ہے وہ ایسے راوی کے بارے میں ہے جو ائمہ ہیں جن میں حمادؒ جیسے ہیں ان کا ۔۔۔لہ اوہام ۔۔۔بہت کم روایات میں ہوگا ۔

یا مختلف فیہ راوی کے بارے میں زیادہ غور کرنا پڑے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زور اس نکتہ پر ہے کہ کسی امام نے جرح کی ہو اور وضاحت ، تشریح ، یا تصریح نہ کی ہو ۔

تو پھر بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ راوی بعض روایات میں ضعیف ہے ۔ یعنی فلاں ضعیف ہے تو اس کا مطلب فلاں روایت میں ضعیف ہے ۔یعنی اس کی فلاں روایت صحیح نہیں۔ فلاں سیئ الحفظ ہے تو یعنی فلاں روایت میں اس سے غلطی ہوگئی ہے ۔

اس کے نظائر پیش کرنے پیش نظر ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یحیی بن معینؒ کی جرح لیس بشیئ۔۔۔۔۔کے بارے میں ۲ تشریحات تو مشہور ہیں ۔۔اور دونوں بظاہر متعارض بھی ہیں ۔۔۔ایک یہ کہ اس سے مراد راوی کا قلیل الحدیث ہونا ہے ۔ یہ حاکمؒ ، ابن قطانؒ ، ابن حجرؒ نے نقل کی ہے ۔

الرفع والتکمیل میں بھی نقل کی گئی ہے ۔

دوسری تشریح ۔۔۔۔یہ کہ اس سے مراد جرح شدید ہے ۔ جو کہ ان کے اقوال کا تتبع کر کے شیخ ابوغدہؒ وغیرہ نے نکالا ہے ۔

اور یہ اوپر کی عبارت حافظؒ کی ۔۔۔۔۔سے ایک تیسری تشریح ثابت ہو گئی کہ (شاید) راوی بعض روایات میں مجروح ہے ۔

اوپر ایک بڑے امام کی مثال سے واضح بھی ہے ۔

فلاں شیخ سے روایت میں ضعیف ہے اور فلاں سے نہیں ۔۔۔کا اظہار ابن معینؒ وغیرہ کی ہر عبارت میں نہیں ہے ۔

حالانکہ کئی جگہہ وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ اور اسی بات کے اظہار کے لئے یہ موضوع شروع کیا تھا کہ جب محدث تصریح نہ بھی کرے تو کیا ہوتاہے ۔

حتی کے بعض اوقات تصریح کر بھی دیں تو یہ اظہار بھی مطلق نہیں ہوتا ۔۔

مثلاََ علی الصدر والی روایت میں مؤمل بن اسمعيل کے بارے میں ۔۔۔
۔ سفيان ثورىؒ سے اس کی روایت یحییؒ کے نزدیک کیسی ہے ۔

ایک روایت میں ابن معینؒ سے اس کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا۔

أي شيء حال المُؤَمَّل في سُفيان؟ فقال: هو ثِقَةٌ
بغیر کسی قید کے ثقہ کہا۔

لیکن کسی اور جگہہ ایک روایت میں انہوں نے فرمایا۔

سمعت يحيى يقول قبيصة ليس بحجة فى سفيان ولا ابو حذيفة ولا يحيى بن آدم ولا مؤمل

اب دونوں کو مان لیا جائے تو نتیجہ کیا نکالا جائے ۔؟

مومل ۔۔۔سفیان سے روایت میں ثقہ ہے لیکن حجت نہیں ہے ۔یعنی متابعت ، سیر ، فضائل میں ؟

۲۔ مومل کی سفیان سے بعض روایات صحیح بھی ہیں ۔۔۔لیکن مومل ویسے مجموعی حوالے سے سفیان سے روایت میں حجت نہیں۔؟

۳۔ یا کوئی ایک رائے بعد کی ثابت ہو جائے ۔؟

۳۔ حافظ ابن حجرؒ تو اس کے حامی ہیں کہ مومل کی روایت سفیان سے میں خطا ہوتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیس بالقوی اور لیس بقوی۔

آج کل اکثر کتب میں آپ نے یہ بحث پڑھی ہو گی کہ لیس بالقوی سے مراد درجہ کاملہ کی نفی ہے ۔ اور یہ لیس بقوی کے علاوہ ہے ۔ یعنی القوی ۔اور ۔قوی

ذہبیؒ نے امام نسائیؒ سے اتنا نقل کیا ہے کہ ان کا لیس بالقوی کہنا جرح مفسد نہیں ۔۔

اور انہوں نے کئی ایسے راویوں سے سنن میں روایت اور احتجاج بھی کیا ہے ۔

اور کئی جگہہ یہ صحیح بھی ہے ۔

لیکن یہاں بھی کوئی پکا قاعدہ کوئی نہیں ۔۔۔بلکہ ایک بھائی کی تحریر میں نے پڑھی انہوں نے تتبع کیا تو معلوم ہوا کہ یہ فرق امام نسائی اور دوسرے بعد کے ناقلین کے سامنے نہیں ہے ۔ بلکہ امام نسائیؒ جن کو لیس بالقوی کہتے جاتے ہیں ۔۔۔ذہبیؒ وغیرہ اس کو لیس بقوی نقل کرتے جاتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اصل میں یہ مسئلہ ۔۔۔میرے شروع کئے ہوئے دوسرے موضوع سے کچھ ملا ہوا ہے ۔ ۔۔جس میں آج کل اصول حدیث ، مصطلح الحدیث کا استعمال ہوتا ہے ۔۔۔

آج کل ہر مسلک کے ہر طبقے کے حضرات ۔۔۔۔۔۔خصوصاََ

نوجوان طلباء

اور ۔۔۔خود متعلقہ مقام پڑھنے سے زیادہ انٹرنیٹ ، ای بک شاملہ ، سرچ وغیرہ پر بھروسہ کرنے والوں میں دیکھا ہے ۔

اگر چہ میرے جیسے جاہل بھی یہ دوسری کیٹیگری کے ہی ہیں کہ اس میں جہلاء کے لئے آسانی ہے ۔ لیکن حقیقت جو ہو اس کا اظہار بھی تو ضروری ہے ۔

آج کل محدثین کے جملوں سے قواعد اور کلیہ بنا لیا جاتا ہے ۔اور احادیث پر حکم لگانے میں اس پر اعتماد کیا جاتا ہے ۔

اس کے لئے پی ایچ ڈی ، ماجیستر وغیرہ کے ضمن میں اقوال اکٹھے کر کے رسائل لکھے جاچکے ہیں ۔

اسی ضمن میں مناہج المحدثین پر مشتمل کتب وجود میں آئیں ۔ اگرچہ ان میں بہت فوائد بھی مل جاتے ہیں ۔ لیکن اس پر اس طرح کا اعتماد کر کے محدثین کے اقوال کو اصول بنا دیا گیا ہے ۔ حالانکہ قواعد اتنے اٹل نہیں ہوتے بلکہ اس فلاں محدث کا اجتہاد بھی ہوتا ہے ۔ اور یہ بالکل صحیح ہے ۔ کیونکہ یہ کوئی روبوٹ یا کمپیوٹر تو نہیں کہ ایک بات کہہ دی تو وہ ہر جگہہ مطلق نافذ ہو گی۔

واللہ اعلم۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔۔کچھ بے ترتیب خیالات آتے گئے اس لئے بیان کرتا گیا۔۔کوئی اصول کے خلاف بات ہو اور غلطی ہو تو ضرور بتائیے گا۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
امام احمد ؒ سے بڑے ائمہ کے آپس میں تقابل کے سلسلے میں ایک روایت بہت مشہور ہے ۔
اگرچہ مجھے کوئی اتنی قوی نہیں لگتی ۔ اس کا متن عجیب سا منکر ساہے ۔ بہرحال ابھی اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے ۔۔۔
اس میں امام اوزاعیؒ جیسے بڑے امام کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا۔۔
فَالأَوْزَاعِيُّ؟
قَالَ: حَدِيْثٌ ضَعِيْفٌ، وَرَأْيٌ ضَعِيْفٌ.

امام ذہبیؒ نے سیر اعلام۷۔۱۱۳۔۱۱۴ پہ اس کو امام اوزاعیؒ کے ترجمہ میں نقل کرکے فرمایا ہے ۔
قُلْتُ: يُرِيْدُ: أَنَّ الأَوْزَاعِيَّ حَدِيْثُه ضَعِيْفٌ مِنْ كَوْنِهِ يَحتَجُّ بِالمَقَاطِيْعِ، وَبِمَرَاسِيْلِ أَهْلِ الشَّامِ،
وَفِي ذَلِكَ ضَعفٌ، لاَ أَنَّ الإِمَامَ فِي نَفْسِهِ ضَعِيْفٌ.
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
رفیع بن مھران ؒ۔بصرہ کے تابعی کبیر اور بڑے محدث مفسر قاری ہیں ۔
جو کہ ’’ ابو العالیۃ الریاحی‘‘ کی کنیت سے مشہور ہیں ۔
بقول حافظ ذہبیؒ ، انہوں نے نبیﷺ کا دور پایا ہے لیکن زیارت نہیں کی ۔ یعنی مخضرم ہیں ۔
حضرت ابوبکرؓ کے دور میں اسلام لائے ،
اور کبار صحابہ ۔عمر ، وعلي ، وأبي ، وأبي ذر ، وابن مسعود ، وعائشة ، وأبي موسى ، وأبي أيوب ، وابن عباس ، وزيد بن ثابت ۔رضی اللہ عنہم وغیرہ۔ سے روایات سنی ہیں ۔
صحاح ستہ کے راوی ہیں ۔
ان کے بارے میں ۔امام شافعیؒ نے کہا ہے کہ۔حديث أبي العالية الرّياحيّ رياح
یعنی ان کی حدیث ضعیف ہے ۔
اب اتنے بڑے تابعی مخضرم پر جرح ۔ تو امام شافعیؒ کے مقلدین بعض محدثین بھی اس کی مراد سمجھنے میں مختلف رائے ہو گئے ۔
- ابن حبانؒ جیسے متشدد محدث نے ابو العالیہؒ کو ثقات میں لکھنے کے ساتھ ۔ کہاکہ شافعیؒ کی رائے ان کے بارے میں بُری تھی ۔
اور دوسری کتاب۔ مشاہیر علماء ۔میں توامام شافعیؒ پر نام لئے بغیر تنقید ہی کردی کہ
ولم ينصف من زعم أن حديث أبي العالية الرياحي رياح ولم يجعل حديث إبراهيم بن أبي يحيى وذويه رياحاً تهب
یعنی جن کا خیال ہے کہ ابو العالیہ کی حدیث کمزور ہے تو انہوں نے انصاف نہیں کیا ۔ انہوں نے ابراہیم بن ابی یحیی کی حدیث کو کیوں کمزور نہیں کہا ۔(مفہوم)(ابراہیم کو امام شافعی ؒ ثقہ سمجھتے ہیں اور تقریباََ تمام ائمہ اس راوی کو ضعیف سمجھتے ہیں )
- امام بيهقيؒ نے خلافیات میں ۔ اس جملہ کے بعد حاکمؒ سے نقل کیا ہے کہ۔
قال الحاكم أبو عبد الله -رحمه الله-: إنما أراد الشافعي -رحمه الله- بقوله: ((حديث أبي العالية الرياحي رياح)) حديثه في القهقهة وحده، وأبو العالية ثقةٌ مأمونٌ، مجمعٌ على ثقته في التابعين.
امام شافعیؒ کی مراد صرف ایک حدیث (حدیث قہقہہ) ہے ۔اور ابو العالیہ تو ثقہ مامون ہیں۔اور تابعین میں ان کی ثقاہت پر اتفاق ہے ۔
- اسی طرح ابو حاتمؒ نے بھی آداب الشافعی، میں لکھا ہے کہ اس سے مراد صرف ایک حدیث ہے ۔
- امام ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں لکھا ہیے کہ چونکہ شافعیؒ کا مذہب مرسل کی عدم حجیت ہے اور یہ مذکورہ حدیث مرسل ہے تو صرف اسی حدیث کا ارادہ امام شافعیؒ نے کیا ہے ۔ ورنہ ابو العالیہؒ اگر مسند بیان کریں گے تو حجت ہو گا۔
فأما قول الشافعي رحمه الله: حديث أبي العالية الرياحي رياح.
فإنما أراد به حديثه الذي أرسله في القهقهة فقط.
ومذهب الشافعي أن المراسيل ليست بحجة، فأما إذا أسند أبو العالية فحجة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی موضوع کے حساب سے اتنی ہی عبارت کافی ہے ۔ لیکن بات کچھ تشنہ نہ رہ جائے ،ابو العالیۃ ؒ کی حدیث قہقہہ کے بارے میں کچھ عرض ہے کہ ۔
حدیث قہقہہ جن کے علاقے میں رائج عمل کے خلاف تھی ۔ اس لئے وہ ان کے نزدیک قابل قبول نہ ہوئی ہوگی ۔
ورنہ یہ کوفہ میں رائج بھی تھی اور ان کے نزدیک صحیح بھی تھی ۔ اور امام ابو حنیفہؒ اور دوسرے ائمہ ؒ کا عمل بھی تھا ۔ امام ذہبی ؒ ۔سیر اعلام ،میں ابو العالیۃؒ کے ترجمہ میں ہی فرماتے ہیں کہ
ومن مراسيل أبي العالية الذي صح إسناده إليه : الأمر بإعادة الوضوء والصلاة على من ضحك في الصلاة ، وبه يقول أبو حنيفة وغيره من أئمة العلم ۔
حافظ ابن عدیؒ کو بھی اقرار ہے کہ ان کی صرف اس حدیث پر اعتراض ہوا ہے ورنہ ان کی ساری احادیث مستقیم اور صالح ہیں ۔
ومن أجل هذا الحديث تكلموا في أبي العالية وسائر أحاديثه مستقيمة صالحة
اور چونکہ جن ائمہ کے مذہب کے خلاف ہے وہ اس روایت پر جرح کرتے ہیں ۔اس لئے امام ذہبیؒ نے صراحتاََ بھی اس کی تصحیح کی ہے ۔تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق ۱۔۷۴ پہ اس روایت کو ابن جوزیؒ سے نقل کر کے فرماتے ہیں ۔
فهذا مرسل جيد۔
آگے ابن جوزیؒ نے ابن عدیؒ کا کلام نقل کیا
وَقَالَ ابْن عدي: كل طرقه ترجع إِلَى أبي الْعَالِيَة، وَمن أجل هَذَا الحَدِيث تكلم فِيهِ.
اس پر ذہبیؒ نے پھر تنبیہ کی
قلت: مَا بِأبي الْعَالِيَة بأسٌ.
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
ورنہ یہ کوفہ میں رائج بھی تھی اور ان کے نزدیک صحیح بھی تھی ۔ اور امام ابو حنیفہؒ اور دوسرے ائمہ ؒ کا عمل بھی تھا ۔
اضافہ:
کوفہ میں رائج یہ روایت دیگر طرق سے بھی موجود تھی:
اخبرنا ابو حنيفة قال حدثنا منصور بن زاذان عن الحسن البصري عن النبي صلى الله عليه وسلم انه بينما هو في الصلاة اذا اقبل اعمى من قبل القبلة يريد الصلاة والقوم في صلاة الفجر فوقع في زبية فاستضحك بعض القوم حتى قهقه فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلاة قال من كان قهقه منكم فليعد الوضوء والصلاة۔۔۔
اخبرنا ابو معاوية الكوفي عن الاعمش عن ابراهيم النخعي قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس ذات يوم فجاء رجل مكفوف البصر فوقعت رجله في بيئر فضحك القوم فأمرهم النبي صلى الله عليه وسلم فأعادوا الوضوء والصلاة
(الحجۃ علی اہل المدینۃ لمحمد بن الحسن الشیبانی، 1۔207، ط: عالم الکتب)
یہ دونوں بھی مرسل ہی ہیں۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ خیرا۔

ابھی چونکہ امام ابی العالیۃؒ کے متعلق ہی بات ہو رہی تھی ۔ اس لئے انہی کے متعلق ذہبیؒ کے قول کا مفہوم بیان کیا تھا ۔

لیکن آپ نے صحیح تنبیہ فرمائی ۔۔اور عمدہ اضافہ کیا ۔
کیونکہ عبارت سے واقعی یوں لگ رہا ہے کہ جیسے امام ابوحنیفہؒ اور اہل کوفہ کا بھی دارومدار اسی ایک روایت پر ہے ۔ جیسا کہ مخالف محدثین یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ ہر روایت یا تو ضعیف ہے اور صحیح ہے تو گھوم کر ابوالعالیہ ؒ پر ہی آتی ہے ۔

حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے ۔

جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہؒ اس کو اپنی سند سے روایت کرتے ہیں جو کہ دوسری سند ہے ۔

اور آپ کی تنبیہ اس لئے بھی اہم ہے کہ میں بعض اردو شروحات میں دیکھتا ہوں کہ حنفی علماء بھی ضحک فی الصلاۃ کے مسئلہ میں یہ لکھتے ہیں کہ حنفیہ کی دلیل وہ روایت ہے جو کہ دار قطنی اور بیہقی میں ہے ۔ اور اصل اور عالی ماخذ کو چھوڑ دیتے ہیں ۔

اسی طرح بہت زیادہ ایک قول مشہور ہوگیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ضعیف حدیث بھی قیاس پر مقدم ہوتی ہے ۔
یہ صحیح ہے ۔ لیکن اس کی مثال میں سارے پہلی مثال حدیث قہقہہ کی دیتے ہیں کہ جیسے وہ امام صاحبؒ کے نزدیک ضعیف ہے لیکن امام صاحب نے اس کو قیاس پر مقدم کیا ہے ۔
حالانکہ یہ مسئلہ صحیح ہے لیکن مثال غلط ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے بھی اس کو دوسرے مسالک کے ائمہ ابن حزمؒ ، ابن قیمؒ ، ابن تیمیہؒ وغیرہ سے نقل کرتے ہیں ۔اور یہ حدیث ان کا خیال ہے کہ ضعیف ہے ۔کیونکہ وہ اس کو صرف ابوالعالیہؒ کے طریق سے سمجھتے ہیں ۔اور سمجھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ کی مستدل روایت بھی ابوالعالیۃؒ کی ہے ۔

اور وہ اپنے اصول میں متقدمین کے ائمہ کو بھی مقید کردیتے ہیں ۔اور بعض اپنے بغیر تحقیق ان کی تقلید کئے جاتے ہیں ۔

حالانکہ یہ حدیث کتاب الآثار کی ہے ۔ جس کی روایت ضعیف نہیں ہوسکتی ۔

بلکہ احناف کی پہلی دلیل بھی یہی روایت ہے ۔اور دیگر روایات بھی ۔

اور امام محمدؒ نے بظاہر مرسل روایت کی ہے ۔اسی طرح الآثار بروایت محمؒد ،اور بروایت حسن بن زیادؒ میں بھی مرسل ہے ۔
لیکن الآثار بروایت ابویوسف ؒ میں مسند بھی ہے ۔یعنی حضرت معبد ؓ سے ۔

يوسف عن ابيه عن ابي حنيفة عن منصور بن زاذان عن الحسن عن معبد رضى الله عنه عن النبي - صلى الله عليه وسلم -

بروایت اسد بن عمروؒ بھی مسند ہے ۔بعض دوسرے ائمہ کے طریق بھی ہیں ۔ جنہوں نے کتاب الآثار کو امام صاحب سے روایت کیا ہے ۔یہ طریق جامع المسانید وغیرہ میں ہیں ۔الغرض بعض نے اس کو مسند اور بعض نے مرسل روایت کیا ہے ۔

اور یہ بھی غالباََ امام حسن بصریؒ کی ان مراسیل میں سے ہے جو ان کی مسند سے اعلیٰ ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ ان سے منقول ہے کہ جب احادیث میں ۴ صحابہؓ ہوجائیں تو میں ان کا نام نہیں لیتا پھر براہ راست نبیﷺ سے روایت کرتا ہوں۔

جیسا کہ الجصاص ؒ نے الفصول ۳۔۱۴۹ میں نقل کیا ہے ۔

وَرُوِيَ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ: كُنْت إذَا اجْتَمَعَ لِي أَرْبَعُ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - تَرَكْتهمْ، وَأَسْنَدْته إلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ

۱۔ ایک روایت حسن ؒ کی حضرت معبدؓ سے ہے ۔
۲۔ایک روایت ان کی حضرت عمران بن حصینؓ سے ہے ۔
۳۔ ایک حضرت ابوہریرہؓ سے ہے ۔
۴۔ اگر مخالفین کی یہ بات مان لیں حسنؒ کی سند بھی ابو العالیۃؒ سے ہے ۔ تو اس کو بھی ایک الگ روایت مان لیتے ہیں ۔اور ابو العالیۃؒ کی روایت بالکل صحیح ہے اور ان کی کسی بھی روایت میں غلطی نہیں ہے ۔ چناچہ پھر طبرانی کے ایک طریق میں وہ بھی موصول بیان کرتے ہیں ۔ جو حضرت ابو موسی ؓ سے ہے ۔

ان سب پر مخالفین کلام کرتے ہیں ۔ لیکن سب کا جواب بھی دیا جاتا ہے ۔

ابھی بس یہ عرض کرنا ہے کہ یہ ۴ طریق اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ حسن ؒ کی انہی مرسل روایات میں سے ہوگی جو ان کی مسانید سے زیادہ قوی ہیں۔

اسی طرح ابراہیم ؒ کی مراسیل بھی ان کی مسند روایات سے افضل ہوتی ہیں جیسا کہ مخفی نہیں ۔
 
Top