سب تباہ ہوگیا
*
فرض کریں کوئی شخص صبح کام پر گیا رات کو آیا تو دیکھتا ہے کہ اس کا گھر گر گیا ہے جس کے ملبے تلے اس کے تمام گھر والے دب کر وفات پا چکے ہیں۔وہ افسوس کرتا ہو روتا ہوا اپنے پیاروں کے بچھڑنے پر غمزدہ ہوتا ہے ,آج نہ اسے کوئی بیٹا کہ کر بلانے والا باپ ہے نہ لعل کہ کر سینے سے لگانے والی ماں,نہ اس کے ناز اٹھانے والی بیوی رہی نہ اس کو پاپا پاپا کہ کر لپٹ جانے والے بچے رہے ,اس کا کوئی نہیں رہا وہ اسی دکھ کے عالم میں ان سب کے کفن دفن کا انتظام کرنے کے لئے پرس نکالتا ہے تو پرس میں پیسے نہیں ہوتے,وہ بینک جاتا ہے تو پتا چلتا ہے اس کے بزنس اور اکاؤنٹ پر اس کا پارٹنر قبضہ کر چکا ہے اور اس کی ساری دولت لٹ چکی ہے ,
ذرا اس بندے کے نقصان کا اندازہ لگائیں ,کتنا بڑا نقصان ہوگیا اس کا نہ مال رہا نہ دولت ,اس کے دکھ کا اندازہ لگائیں کہ کتنے دکھ میں ہوگا وہ یہ سب جان کر کہ اس کا سب کچھ تباہ ہوگیا,یقیناً اس کا دکھ بہت بڑا ہے,
مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ آج ہم میں سے اکثر مسلمان اپنا اتنا بلکہ اس سے بڑھ کر نقصان کرلیتے ہیں مگر انہیں دکھ تو دور کی بات احساس تک نہیں ہوتا کہ انہوں نے کتنا نقصان کرلیا,کیا آپ جانتے ہیں وہ نقصان کیا ہے؟
حضرت عبدﷲ بن عمر رضیﷲعنہ سے روایت ہے کہ رسولﷲ صلیﷲعلیہ وسلم نے فرمایا"جس کی عصر کی نماز فوت ہوجائے گویا اس کے اہل اور مال کو ہلاک کردیا گیا"
(صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوہ حدیث نمبر 552)
جبکہ ایک روایت میں ہے کہ
"جس کی کوئی نماز فوت ہوگئی گویا اس کے اہل و عیال اور مال چھین لیا گیا"
(الترغیب و الترہیب جلد 1 بحوالہ صحیح ابن حبان)
کیا ہمیں آج اس نقصان کا احساس ہے؟
کیا ہمیں نماز چھوڑ کر افسوس یا دکھ ہوتا ہے؟
ہمارے نزدیک دنیا کی اہمیت زیادہ کیوں ہے؟ دنیا کا ذرا سا مال چلا جائے کوئی عزیز بچھڑ جائے تو نیند اڑ جاتی,بھوک اڑ جاتی ,دکھ میں ہم افسردہ ہوجاتے مگر نماز جان بوجھ کر قضا کردیتے بلکہ چھوڑ دیتے اور ہمیں ذرا بھی دکھ نہیں ہوتا؟
یہ دل کی سختی ہے یا دنیا کی محبت یا ہماری غفلت؟
سوچیے گا ضرور۔
طالب دعا:صادق
*
فرض کریں کوئی شخص صبح کام پر گیا رات کو آیا تو دیکھتا ہے کہ اس کا گھر گر گیا ہے جس کے ملبے تلے اس کے تمام گھر والے دب کر وفات پا چکے ہیں۔وہ افسوس کرتا ہو روتا ہوا اپنے پیاروں کے بچھڑنے پر غمزدہ ہوتا ہے ,آج نہ اسے کوئی بیٹا کہ کر بلانے والا باپ ہے نہ لعل کہ کر سینے سے لگانے والی ماں,نہ اس کے ناز اٹھانے والی بیوی رہی نہ اس کو پاپا پاپا کہ کر لپٹ جانے والے بچے رہے ,اس کا کوئی نہیں رہا وہ اسی دکھ کے عالم میں ان سب کے کفن دفن کا انتظام کرنے کے لئے پرس نکالتا ہے تو پرس میں پیسے نہیں ہوتے,وہ بینک جاتا ہے تو پتا چلتا ہے اس کے بزنس اور اکاؤنٹ پر اس کا پارٹنر قبضہ کر چکا ہے اور اس کی ساری دولت لٹ چکی ہے ,
ذرا اس بندے کے نقصان کا اندازہ لگائیں ,کتنا بڑا نقصان ہوگیا اس کا نہ مال رہا نہ دولت ,اس کے دکھ کا اندازہ لگائیں کہ کتنے دکھ میں ہوگا وہ یہ سب جان کر کہ اس کا سب کچھ تباہ ہوگیا,یقیناً اس کا دکھ بہت بڑا ہے,
مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ آج ہم میں سے اکثر مسلمان اپنا اتنا بلکہ اس سے بڑھ کر نقصان کرلیتے ہیں مگر انہیں دکھ تو دور کی بات احساس تک نہیں ہوتا کہ انہوں نے کتنا نقصان کرلیا,کیا آپ جانتے ہیں وہ نقصان کیا ہے؟
حضرت عبدﷲ بن عمر رضیﷲعنہ سے روایت ہے کہ رسولﷲ صلیﷲعلیہ وسلم نے فرمایا"جس کی عصر کی نماز فوت ہوجائے گویا اس کے اہل اور مال کو ہلاک کردیا گیا"
(صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوہ حدیث نمبر 552)
جبکہ ایک روایت میں ہے کہ
"جس کی کوئی نماز فوت ہوگئی گویا اس کے اہل و عیال اور مال چھین لیا گیا"
(الترغیب و الترہیب جلد 1 بحوالہ صحیح ابن حبان)
کیا ہمیں آج اس نقصان کا احساس ہے؟
کیا ہمیں نماز چھوڑ کر افسوس یا دکھ ہوتا ہے؟
ہمارے نزدیک دنیا کی اہمیت زیادہ کیوں ہے؟ دنیا کا ذرا سا مال چلا جائے کوئی عزیز بچھڑ جائے تو نیند اڑ جاتی,بھوک اڑ جاتی ,دکھ میں ہم افسردہ ہوجاتے مگر نماز جان بوجھ کر قضا کردیتے بلکہ چھوڑ دیتے اور ہمیں ذرا بھی دکھ نہیں ہوتا؟
یہ دل کی سختی ہے یا دنیا کی محبت یا ہماری غفلت؟
سوچیے گا ضرور۔
طالب دعا:صادق