سیرتِ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چند ایمان افروز واقعات
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلامی تاریخ کے ایک عظیم رہنما ہیں جن کی خدمات اسلام کے لیے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسلام کے لیے آپ کے کارنامے سورج کی کرنوں کی طرح تاریخ کے صفحات پر بکھرے پڑے ہیں۔ آپ نے اسلام کی ترویج کے لیے ہر قسم کی قربانی دی اور 64لاکھ مربع میل فتح کر کے نسل ِیہودیت کے چھکے چھڑا دیئے اور نسل ِابن سبا کے بخیے ادھیڑ دیئے۔ مومن لوگ تا قیامت آپ کی ذاتِ اقدس کو ہر طرح خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ آئیے! اسلامی تاریخ کے بکھرے ہوئے صفحات سے آپ کی سیرت کے چند نمایاں واقعات پڑھتے ہیں اور اپنے ایمان کو تازگی بخشتے ہیں۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سادگی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ہنس مکھ اور خوش اخلاق انسان تھے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ شخص بغیر کسی خوف کے آپ سے مل سکتا تھا اور آپ سے ہر قسم کی فرمائش کر دیتا تھا۔ آپ سے اگر ممکن ہوتا تو پورا کر دیتے ورنہ معذرت کر دیتے۔
ایک مرتبہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں ایک مکان بنا رہا ہوں آپ اس میں میری مدد فرمائیں اور بارہ ہزار درخت عنایت فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: گھر کہاں ہے؟ کہنے لگا بصرہ میں، آپ نے پوچھا لمبائی چوڑائی کتنی ہے؟ کہنے لگا دو فرسخ لمبائی ہے اور دو فرسخ چوڑائی ہے، پھر آپ نے مزاحاً فرمایا: پھر نہ کہو کہ میرا گھر بصرہ میں ہے بلکہ یہ کہو کہ بصرہ میرے گھر میں ہے۔ (البدایہ والنہایہ 141/8)
عبد الملک بن مروان نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے اوپر کھڑے ہو کر جو تبصرہ کیا تاریخ نے اسے محفوظ کیا ہے۔ کہا:
یہ اس شخص کی قبر ہے کہ جو بولتا تھا تو علم کے موتی رولتا تھا اور اگر خاموش رہتا تھا تو حلم اور حوصلے کی وجہ
سے خاموش رہتا تھا جسے دیتا اسے غنی کر دیتا جس سے لڑتا اسے فنا کر دیتا۔ (کامل ابن اثیر 5/4)
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق امام یونس بن جعفر نے جو تبصرہ کیا ہے وہ بھی لائق ِتعریف ہے۔ فرماتے ہیں:
میں نے اپنی آنکھوں سے سیدنا معاویہ کو دیکھا وہ معمولی سواری پر سوار تھے ان کا غلام ان کے پیچھے بیٹھا تھا
اور اس وقت اس کے بدن پر کپڑا تھا اس کا گربیان پھٹا ہوا تھا۔ (کتاب الزھد للامام احمد بن حنبل)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا خراجِ تحسین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ایک ایک دفعہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی مجلس میں تشریف لائے، تو لو آپ کے استقبال کے لیے کھڑے ہو گئے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا:
جو شخص اس سے خوش ہو کہ اللہ کے بندے اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں تو اس کا ٹھکانا
جہنم ہے۔ (الادب المفرد للامام البخاری)
ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ تطہیر الجنان میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
باوجود ایک مقتداء اور عظیم فرمانروا ہونے کے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزاج سادہ پایا تھا وہ تمام
حالات میں اپنے اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے خواہ کوئی کتنا ہی ادنیٰ درجہ کا انسان ہو
ہر شخص سے لطف وکرم سے پیش آتے تھے، یہ ہمدردی ایسے شخص کے ساتھ بڑھ جاتی تھی جب کوئی بے حیثیت
آدمی شکایت لے کر آتا وہ اسلامی مساوات کے بڑی سختی سے قائل تھے۔ (تطہیر الجنان ابن حجر مکی)
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور محبت ِرسولﷺ ایک صحابی سیدنا کابس بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بصرہ میں رہتے تھے جو ظاہری شکل وصورت میں بالکل نبی اکرمﷺ کے مماثل تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ اپنے زمانۂ خلافت میں سیدنا کابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دارالخلافہ دمشق میں بلوایا۔ چنانچہ جب سیدنا کابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تخت سے اترے اور استقبال کے لیے آگے بڑھے اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیا اور ازراہِ شفقت ایک موضع برغالب نامی انہیں ہبہ کر دیا۔
چنانچہ کنز العمال میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا کابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا تو بے اختیار لپٹ کر رونے لگے اور فرمایا کہ جو نبی اکرمﷺ کا ہم شکل دیکھنا چاہے تو وہ سیدنا کابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ لے۔
معلوم ہوا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی اکرمﷺ سے جو محبت تھی کہ آپ کی صورت کے مُحب تھے اور سیرت کے بھی ، یہاں تک کہ جو شکل وصورت میں نبی اکرمﷺ سے ملتا جلتا تھا آپ ان کی بھی بے حد عزت واحترام کرتے تھے۔ ایسی محبت کرنے والے جان نثاروں پر کروڑوں رحمتیں ہوں۔ آمین، (کنز العمال)
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیرتِ ایمانی امیر المومنین سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ایک مسلمان کو گرفتار کر کے رومیوں کے پایۂ تخت قسطنطنیہ پہنچا دیا گیا اور اس نے رومی بادشاہ کے سامنے جرأت سے باتی کی تو سپہ سالار نے اسے تھپڑ ما دیا جس سے مسلمان قیدی کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:
اے معاویہ! ہمارا تمہارا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرے گا کیونکہ آپ ہمارے امیر ہیں اور ہم اس طرح مصیبت
میں پھنسے ہوئے ہیں۔
جب یہ بات سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچی تو آپ نے فدیہ بھجوا کر اس مسلمان کو آزاد کرا لیا اور اس رومی جرنیل کے متعلق پوچھ لیا جس نے اسے تھپڑ مارا تھا۔ پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت غوروفکر کے بعد ایک نہایت بااعتماد اور صاحب ِفراست عسکری مسلمان جرنیل کو اس کام کے لیے راضی کیا اور اسے کہا کہ تم کسی تدبیر سے اس سپہ سالار کو پکڑ کر لے آئو۔ اس مسلمان جرنیل نے کہا اس کے لیے پہلے میں ایسی کشتی بنانا چاہتا ہوں جس کے چپو خفیہ ہوں اور وہ بے حد تیز رفتار ہو، سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: تمہیں جو سمجھ میں آئے اسے کرو اور آپ نے اسے بے شمار مال ودولت سے نوازا اور تحفے تحائف دے کر روانہ کیا اور فرمایا کہ تم ایک تاجر بن کر قسطنطنیہ جائو اور کچھ تجارت کرنے کے بعد بادشاہ کے وزیروں، سپہ سالاروں اور خصوصی درباریوں کو تحفے تحائف دینا مگر اس سپہ سالار کو کچھ نہ دینا، جب وہ تم سے شکوہ کرے تو کہنا کہ میں تمہیں پہچانتا نہیں تھا، اگلی بار آپ کے شایانِ شان تحفہ کے کر آئوں گا فی الحال آپ کے مناسب میرے پاس کچھ نہیں۔
چنانچہ اس مسلمان جرنیل نے ایسا ہی کیا اس کے بعد وہ واپس آگیا اور اس نے پورا قصہ سنایا تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے سے زیادہ تحفے تحائف دے کر اسے کہا کہ روم واپس جائو، تحفے تحائف دے چکنے کے بعد واپسی پر اسے کہنا کہ میں تم سے خصوصی مگر خفیہ ملاقات کرنا چاہتا ہوں اور خفیہ دوستی رکھنا چاہتا ہوں تمہیں جو چیز ضرورت ہو مجھے بتائو میں تمہارے لیے آئوں تاکہ پہلے والی تلافی ہو سکے۔ اس سپہ سالار نے ایک رنگ برنگی منقش چادر کی فرمائش کی اور اس کی لمبائی چوڑائی بھی بتائی۔
وہ مسلمان جرنیل واپس آگیا تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بہترین چادر بنوانے کا آڈر جاری فرما دیا۔ چنانچہ ایسی چادر تیار کرائی کہ دیکھنے والے اسے دیکھ کر حیران ہو جاتے تھے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ چادر اسے دے کر فرمایا کہ جب تم قسطنطنیہ کے ساحل پر پہنچنا تو اس چادر کو کشتی کے اوپر بچھا دینا اور اسے کسی طرح اپنی کشتی پر بلا لینا۔ جب وہ آجائے تو اسے یہ چادر اور دوسرے تحفے دے کر باتوں میں لگا دینا اور اپنے ساتھیوں سے کہنا کہ وہ خفیہ چھپو چلا کر کشتی کو کھلے سمندر میں لے آئیں وہاں آکر کشتی کے بادبان کھول دینا اور سپہ سالار کو باندھ کر میرے پاس لے آنا۔ وہ مسلمان جرنیل چادر لے کر روانہ ہو گیا۔ رومی سپہ سالار کو جب کشتی کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ اسے دیکھنے کے لیے نکل آیا جب وہ ریشمی چادر دیکھی تو اس کی عقل اُڑ گئی اور وہ خود اس کشتی پر جا پہنچاخفیہ چپو چل رہے تھے اور رومی کو کوئی پتہ نہیں تھا۔ جب کشتی کے بادبان کھلے تو اس کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی اور پوچھا یہ کیا ہوا؟ مسلمانوں نے اسے ساتھیوں سمیت باندھ دیا اورسیدنا معاویہ رضی اللہ تعالٰ عنہ کے پاس لے آئے۔ آپ نے اس مظلوم مسلمان کو بلایا اور فرمایا کہ اس نے تمہیں تھپڑ مارا تھا، اس نے کہا ہاں جی! سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تو پھر تم اُٹھو اسی طرح تھپڑ مارو مگر اس سے زیادہ نہیں، اس مسلمان نے اُٹھ اسے تھپڑ مار دیا۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمان جرنیل سے کہا کہ اب وہ چادر رومی کو دے کر واپس چھوڑ آئو اور اس رومی سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے کہنا کہ مسلمانوں کا خلیفہ اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ تمہارے تخت پر بیٹھے تمہارے سپہ سالاروں اور سرداروں سے اپنے کسی مسلمان کا بدلہ لے سکے۔
جب کشتی والے اسے لے کر قسطنطنیہ پہنچے تو دیکھا کہ رومیوں نے ساحل پر حفاظتی زنجیریں لگا دی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس رومی جرنیل کو وہیں پھینکا اور اسے چادر بھی دے دی۔ جب یہ واقعہ رومی بادشاہ تک پہنچا تو اس کے دل میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت وہیبت اور بڑھ گئی۔ (پچاس صحابہ، مصنف طالب الہاشمی)
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور قیصر ِروم کے پہلوان آمنے سامنے ایک مرتبہ روم کے بادشاہ نے اپنے ملک کے دو عظیم قسم کے پہلوان سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بھیجے۔ ایک بہت لمبا تڑنگا تھا، قد کی لمبائی حیرت انگیز تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے جنگل میں ایک لمبا درخت کھڑا ہے یا کوئی اونچا مینار ہے اور دوسرا شاہ زور تھا۔ اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوئی چیر پھاڑ کرنے والا درندہ کھڑا ہے۔ ان کے پاس شاہِ روم کا لکھا ہوا ایک خط تھا جس میں لکھا تھا کہ کیا تمہارے ملک میں لمبائی اور طاقت کے لحاظ سے ایسے لوگ ہیں؟
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ خط پڑھ کر فاتح مصر سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکہنے لگے: اتنا طویل آدمی بلکہ دوقدم آگے ہمارے پاس ہے اور وہ ہے قیس بن سعد، رہادوسرا شخص جیسا طاقتور تو آپ بتائیے وہ کون ہو سکتا ہے؟ سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہمارے ملک میں دو شخص اس سے طاقت میں بڑھ کر ہیں ایک محمد بن حنفیہ اور دوسرے عبد اللہ بن زبیر، لیکن یہ دونوں دار الحکومت سے دور رہتے ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا خیال ہے وہ اپنے مقام اور مرتبے کے لحاظ سے ان رومی پہلوانوں کے ساتھ لوگوں کے سامنے زور آزمائی کے لیے تیار ہو جائیں گے؟ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں! اسلام کی عزت کی خاطر وہ اس کے لیے تیار ہو جائیں گے پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قیس بن سعد اور محمد بن حنفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بلایا۔ جب مقابلہ کے لیے مجلس منعقد ہوئی تو جناب قیس بن سعد نے تہبند باندھ کر پائجامہ اتارا اور مدِ مقابل لمبے تڑنگے رومی کی طرف پھینکا اور بڑے طمطراق سے کہااسے پہنو اس نے پائجامہ پہنا جو اس کے گلے تک پہنچ گیا، اہل ِ مجلس یہ منظر دیکھ کر ہنس پڑے۔ سیدنا قیس بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قد اس رومی سے لمبا تھا، رومی یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔
محمد بن حنفیہ نے اپنے ترجمان سے کہا کہ میرے مدِ مقابل آنے والے رومی سے کہو چاہے وہ بیٹھ جائے اور کھڑا رہوں اور وہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے میں اسے بزور کھڑا کروں گا۔ اور وہ مجھے بٹھانے میں زور آزمائی کرے اور اگر وہ خود چاہے تو کھڑا ہو جائے میں بیٹھ جاتا ہوں وہ مجھے کھڑا کرے میں اسے بٹھانے کی کوشش کروں اسی طرح ہم دونوں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔
رومی نے بیٹھنے کو ترجیح دی۔ محمد بن حنفیہ نے آنِ واحد میں اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھڑا کر دیا لیکن رومی آپ کو بٹھانے میں ناکام رہا۔ رومی کے سینے میں قومی غیرت سرایت کرگئی اس نے کھڑا ہو کر مقابلہ کرنا چاہا اور محمد بن حنفیہ نے بیٹھ کر ایسا زوردار جھٹکا دیا کہ جس سے وہ زمین پر آلگا اور ایسے تڑپنے لگا جیسے بازو اس کے کندھے سے الگ ہو گیا ہو۔ مقابلہ ختم ہو گیا دونوں رومی پہلوان شرمندہ ہو کر اپنے بادشاہ کے پاس بُرا بنا کر لوٹ گئے۔ (حیات تابعین کے درخشندہ پہلو)
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلامی تاریخ کے ایک عظیم رہنما ہیں جن کی خدمات اسلام کے لیے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسلام کے لیے آپ کے کارنامے سورج کی کرنوں کی طرح تاریخ کے صفحات پر بکھرے پڑے ہیں۔ آپ نے اسلام کی ترویج کے لیے ہر قسم کی قربانی دی اور 64لاکھ مربع میل فتح کر کے نسل ِیہودیت کے چھکے چھڑا دیئے اور نسل ِابن سبا کے بخیے ادھیڑ دیئے۔ مومن لوگ تا قیامت آپ کی ذاتِ اقدس کو ہر طرح خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ آئیے! اسلامی تاریخ کے بکھرے ہوئے صفحات سے آپ کی سیرت کے چند نمایاں واقعات پڑھتے ہیں اور اپنے ایمان کو تازگی بخشتے ہیں۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سادگی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ہنس مکھ اور خوش اخلاق انسان تھے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ شخص بغیر کسی خوف کے آپ سے مل سکتا تھا اور آپ سے ہر قسم کی فرمائش کر دیتا تھا۔ آپ سے اگر ممکن ہوتا تو پورا کر دیتے ورنہ معذرت کر دیتے۔
ایک مرتبہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں ایک مکان بنا رہا ہوں آپ اس میں میری مدد فرمائیں اور بارہ ہزار درخت عنایت فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: گھر کہاں ہے؟ کہنے لگا بصرہ میں، آپ نے پوچھا لمبائی چوڑائی کتنی ہے؟ کہنے لگا دو فرسخ لمبائی ہے اور دو فرسخ چوڑائی ہے، پھر آپ نے مزاحاً فرمایا: پھر نہ کہو کہ میرا گھر بصرہ میں ہے بلکہ یہ کہو کہ بصرہ میرے گھر میں ہے۔ (البدایہ والنہایہ 141/8)
عبد الملک بن مروان نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے اوپر کھڑے ہو کر جو تبصرہ کیا تاریخ نے اسے محفوظ کیا ہے۔ کہا:
یہ اس شخص کی قبر ہے کہ جو بولتا تھا تو علم کے موتی رولتا تھا اور اگر خاموش رہتا تھا تو حلم اور حوصلے کی وجہ
سے خاموش رہتا تھا جسے دیتا اسے غنی کر دیتا جس سے لڑتا اسے فنا کر دیتا۔ (کامل ابن اثیر 5/4)
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق امام یونس بن جعفر نے جو تبصرہ کیا ہے وہ بھی لائق ِتعریف ہے۔ فرماتے ہیں:
میں نے اپنی آنکھوں سے سیدنا معاویہ کو دیکھا وہ معمولی سواری پر سوار تھے ان کا غلام ان کے پیچھے بیٹھا تھا
اور اس وقت اس کے بدن پر کپڑا تھا اس کا گربیان پھٹا ہوا تھا۔ (کتاب الزھد للامام احمد بن حنبل)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا خراجِ تحسین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ایک ایک دفعہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی مجلس میں تشریف لائے، تو لو آپ کے استقبال کے لیے کھڑے ہو گئے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا:
جو شخص اس سے خوش ہو کہ اللہ کے بندے اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں تو اس کا ٹھکانا
جہنم ہے۔ (الادب المفرد للامام البخاری)
ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ تطہیر الجنان میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
باوجود ایک مقتداء اور عظیم فرمانروا ہونے کے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزاج سادہ پایا تھا وہ تمام
حالات میں اپنے اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے خواہ کوئی کتنا ہی ادنیٰ درجہ کا انسان ہو
ہر شخص سے لطف وکرم سے پیش آتے تھے، یہ ہمدردی ایسے شخص کے ساتھ بڑھ جاتی تھی جب کوئی بے حیثیت
آدمی شکایت لے کر آتا وہ اسلامی مساوات کے بڑی سختی سے قائل تھے۔ (تطہیر الجنان ابن حجر مکی)
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور محبت ِرسولﷺ ایک صحابی سیدنا کابس بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بصرہ میں رہتے تھے جو ظاہری شکل وصورت میں بالکل نبی اکرمﷺ کے مماثل تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ اپنے زمانۂ خلافت میں سیدنا کابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دارالخلافہ دمشق میں بلوایا۔ چنانچہ جب سیدنا کابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تخت سے اترے اور استقبال کے لیے آگے بڑھے اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیا اور ازراہِ شفقت ایک موضع برغالب نامی انہیں ہبہ کر دیا۔
چنانچہ کنز العمال میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا کابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا تو بے اختیار لپٹ کر رونے لگے اور فرمایا کہ جو نبی اکرمﷺ کا ہم شکل دیکھنا چاہے تو وہ سیدنا کابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ لے۔
معلوم ہوا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی اکرمﷺ سے جو محبت تھی کہ آپ کی صورت کے مُحب تھے اور سیرت کے بھی ، یہاں تک کہ جو شکل وصورت میں نبی اکرمﷺ سے ملتا جلتا تھا آپ ان کی بھی بے حد عزت واحترام کرتے تھے۔ ایسی محبت کرنے والے جان نثاروں پر کروڑوں رحمتیں ہوں۔ آمین، (کنز العمال)
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیرتِ ایمانی امیر المومنین سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ایک مسلمان کو گرفتار کر کے رومیوں کے پایۂ تخت قسطنطنیہ پہنچا دیا گیا اور اس نے رومی بادشاہ کے سامنے جرأت سے باتی کی تو سپہ سالار نے اسے تھپڑ ما دیا جس سے مسلمان قیدی کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:
اے معاویہ! ہمارا تمہارا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرے گا کیونکہ آپ ہمارے امیر ہیں اور ہم اس طرح مصیبت
میں پھنسے ہوئے ہیں۔
جب یہ بات سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچی تو آپ نے فدیہ بھجوا کر اس مسلمان کو آزاد کرا لیا اور اس رومی جرنیل کے متعلق پوچھ لیا جس نے اسے تھپڑ مارا تھا۔ پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت غوروفکر کے بعد ایک نہایت بااعتماد اور صاحب ِفراست عسکری مسلمان جرنیل کو اس کام کے لیے راضی کیا اور اسے کہا کہ تم کسی تدبیر سے اس سپہ سالار کو پکڑ کر لے آئو۔ اس مسلمان جرنیل نے کہا اس کے لیے پہلے میں ایسی کشتی بنانا چاہتا ہوں جس کے چپو خفیہ ہوں اور وہ بے حد تیز رفتار ہو، سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: تمہیں جو سمجھ میں آئے اسے کرو اور آپ نے اسے بے شمار مال ودولت سے نوازا اور تحفے تحائف دے کر روانہ کیا اور فرمایا کہ تم ایک تاجر بن کر قسطنطنیہ جائو اور کچھ تجارت کرنے کے بعد بادشاہ کے وزیروں، سپہ سالاروں اور خصوصی درباریوں کو تحفے تحائف دینا مگر اس سپہ سالار کو کچھ نہ دینا، جب وہ تم سے شکوہ کرے تو کہنا کہ میں تمہیں پہچانتا نہیں تھا، اگلی بار آپ کے شایانِ شان تحفہ کے کر آئوں گا فی الحال آپ کے مناسب میرے پاس کچھ نہیں۔
چنانچہ اس مسلمان جرنیل نے ایسا ہی کیا اس کے بعد وہ واپس آگیا اور اس نے پورا قصہ سنایا تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے سے زیادہ تحفے تحائف دے کر اسے کہا کہ روم واپس جائو، تحفے تحائف دے چکنے کے بعد واپسی پر اسے کہنا کہ میں تم سے خصوصی مگر خفیہ ملاقات کرنا چاہتا ہوں اور خفیہ دوستی رکھنا چاہتا ہوں تمہیں جو چیز ضرورت ہو مجھے بتائو میں تمہارے لیے آئوں تاکہ پہلے والی تلافی ہو سکے۔ اس سپہ سالار نے ایک رنگ برنگی منقش چادر کی فرمائش کی اور اس کی لمبائی چوڑائی بھی بتائی۔
وہ مسلمان جرنیل واپس آگیا تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بہترین چادر بنوانے کا آڈر جاری فرما دیا۔ چنانچہ ایسی چادر تیار کرائی کہ دیکھنے والے اسے دیکھ کر حیران ہو جاتے تھے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ چادر اسے دے کر فرمایا کہ جب تم قسطنطنیہ کے ساحل پر پہنچنا تو اس چادر کو کشتی کے اوپر بچھا دینا اور اسے کسی طرح اپنی کشتی پر بلا لینا۔ جب وہ آجائے تو اسے یہ چادر اور دوسرے تحفے دے کر باتوں میں لگا دینا اور اپنے ساتھیوں سے کہنا کہ وہ خفیہ چھپو چلا کر کشتی کو کھلے سمندر میں لے آئیں وہاں آکر کشتی کے بادبان کھول دینا اور سپہ سالار کو باندھ کر میرے پاس لے آنا۔ وہ مسلمان جرنیل چادر لے کر روانہ ہو گیا۔ رومی سپہ سالار کو جب کشتی کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ اسے دیکھنے کے لیے نکل آیا جب وہ ریشمی چادر دیکھی تو اس کی عقل اُڑ گئی اور وہ خود اس کشتی پر جا پہنچاخفیہ چپو چل رہے تھے اور رومی کو کوئی پتہ نہیں تھا۔ جب کشتی کے بادبان کھلے تو اس کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی اور پوچھا یہ کیا ہوا؟ مسلمانوں نے اسے ساتھیوں سمیت باندھ دیا اورسیدنا معاویہ رضی اللہ تعالٰ عنہ کے پاس لے آئے۔ آپ نے اس مظلوم مسلمان کو بلایا اور فرمایا کہ اس نے تمہیں تھپڑ مارا تھا، اس نے کہا ہاں جی! سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تو پھر تم اُٹھو اسی طرح تھپڑ مارو مگر اس سے زیادہ نہیں، اس مسلمان نے اُٹھ اسے تھپڑ مار دیا۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمان جرنیل سے کہا کہ اب وہ چادر رومی کو دے کر واپس چھوڑ آئو اور اس رومی سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے کہنا کہ مسلمانوں کا خلیفہ اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ تمہارے تخت پر بیٹھے تمہارے سپہ سالاروں اور سرداروں سے اپنے کسی مسلمان کا بدلہ لے سکے۔
جب کشتی والے اسے لے کر قسطنطنیہ پہنچے تو دیکھا کہ رومیوں نے ساحل پر حفاظتی زنجیریں لگا دی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس رومی جرنیل کو وہیں پھینکا اور اسے چادر بھی دے دی۔ جب یہ واقعہ رومی بادشاہ تک پہنچا تو اس کے دل میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت وہیبت اور بڑھ گئی۔ (پچاس صحابہ، مصنف طالب الہاشمی)
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور قیصر ِروم کے پہلوان آمنے سامنے ایک مرتبہ روم کے بادشاہ نے اپنے ملک کے دو عظیم قسم کے پہلوان سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بھیجے۔ ایک بہت لمبا تڑنگا تھا، قد کی لمبائی حیرت انگیز تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے جنگل میں ایک لمبا درخت کھڑا ہے یا کوئی اونچا مینار ہے اور دوسرا شاہ زور تھا۔ اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوئی چیر پھاڑ کرنے والا درندہ کھڑا ہے۔ ان کے پاس شاہِ روم کا لکھا ہوا ایک خط تھا جس میں لکھا تھا کہ کیا تمہارے ملک میں لمبائی اور طاقت کے لحاظ سے ایسے لوگ ہیں؟
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ خط پڑھ کر فاتح مصر سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکہنے لگے: اتنا طویل آدمی بلکہ دوقدم آگے ہمارے پاس ہے اور وہ ہے قیس بن سعد، رہادوسرا شخص جیسا طاقتور تو آپ بتائیے وہ کون ہو سکتا ہے؟ سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہمارے ملک میں دو شخص اس سے طاقت میں بڑھ کر ہیں ایک محمد بن حنفیہ اور دوسرے عبد اللہ بن زبیر، لیکن یہ دونوں دار الحکومت سے دور رہتے ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا خیال ہے وہ اپنے مقام اور مرتبے کے لحاظ سے ان رومی پہلوانوں کے ساتھ لوگوں کے سامنے زور آزمائی کے لیے تیار ہو جائیں گے؟ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں! اسلام کی عزت کی خاطر وہ اس کے لیے تیار ہو جائیں گے پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قیس بن سعد اور محمد بن حنفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بلایا۔ جب مقابلہ کے لیے مجلس منعقد ہوئی تو جناب قیس بن سعد نے تہبند باندھ کر پائجامہ اتارا اور مدِ مقابل لمبے تڑنگے رومی کی طرف پھینکا اور بڑے طمطراق سے کہااسے پہنو اس نے پائجامہ پہنا جو اس کے گلے تک پہنچ گیا، اہل ِ مجلس یہ منظر دیکھ کر ہنس پڑے۔ سیدنا قیس بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قد اس رومی سے لمبا تھا، رومی یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔
محمد بن حنفیہ نے اپنے ترجمان سے کہا کہ میرے مدِ مقابل آنے والے رومی سے کہو چاہے وہ بیٹھ جائے اور کھڑا رہوں اور وہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے میں اسے بزور کھڑا کروں گا۔ اور وہ مجھے بٹھانے میں زور آزمائی کرے اور اگر وہ خود چاہے تو کھڑا ہو جائے میں بیٹھ جاتا ہوں وہ مجھے کھڑا کرے میں اسے بٹھانے کی کوشش کروں اسی طرح ہم دونوں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔
رومی نے بیٹھنے کو ترجیح دی۔ محمد بن حنفیہ نے آنِ واحد میں اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھڑا کر دیا لیکن رومی آپ کو بٹھانے میں ناکام رہا۔ رومی کے سینے میں قومی غیرت سرایت کرگئی اس نے کھڑا ہو کر مقابلہ کرنا چاہا اور محمد بن حنفیہ نے بیٹھ کر ایسا زوردار جھٹکا دیا کہ جس سے وہ زمین پر آلگا اور ایسے تڑپنے لگا جیسے بازو اس کے کندھے سے الگ ہو گیا ہو۔ مقابلہ ختم ہو گیا دونوں رومی پہلوان شرمندہ ہو کر اپنے بادشاہ کے پاس بُرا بنا کر لوٹ گئے۔ (حیات تابعین کے درخشندہ پہلو)