حضرت عمر وبن عبسہ رضی اللہ عنہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عمر وبن عبسہ رضی اللہ عنہ​
رسول اللہ ﷺ۵۷۰ میں پیدا ہوئے ۶۱۰ میں وحی سے سرفراز کئے گئے ۶۲۲ میں مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی اور ۶۳۲میں مادی دنیا سے واپس تشریف لے گئے۔اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح اپنا انتظام فر مایا تھا کہ انسانوں کے دل ایک مقررہ مدت پر اقرار تو حید کے لئے خود بخود بے تاب ہو جائیں۔۔۔اقرا رتوحید کے لئے ان کے دل اس طرح بے چین ہو جائیں کہ گویا انہیں پیاس لگتی ہو۔۔۔۔۔۔ صحابہ کی اس پیاس کے سبب نتیجہ یہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو عظیم الشان کا میابی حاصل ہوئی ۔ایسی کا میابی نہ حضور ﷺ سے پہلے کسی کو مل سکی اور نہ بعد۔ بعد کے دور میں کسی کی نبوت کا سول ہی نہیں لیکن کسی انقلابی لیڈر ، قائد اور حکمران کو بھی نہ مل سکی ۔
دنیا کی تاریخ میں ساتویں صدی عیسوی ایسا یاد گار زمانہ ہے کہ اس دور کے لوگوں کی طرح لوگ پھر کبھی اس کرۂ عرض پر نہ پیدا ہو سکے ۔اس صدی کی سب سے زیادہ اعلیٰ اور شاندار ترین شخصیت رسول اللہ ﷺ تھے اور پھر آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ ، صحابیات اور اہل بیت ایسے مثالی لوگ تھے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہوتے تو اپنے زمانہ کے انبیاء ہوتے ۔السابقون الاولون من المھاجرین والانصار میں دین حق کی ایک ایسی پیاس تھی اور اس پیاس کی سیرابی کے لئے وہ بے چین اور بے قرار رہتے انہیں نا موافق حالات میں بھر پور کا میابی دلائی دین ودنیا کی نعمتوں سے سرفراز کیا اور سب سے بڑھ کر انہیں رسول اللہ ﷺ کی صحبت حاصل ہو ئی ۔آپ کا بیان ہے کہ آپؓ اس کرۂ ارض پر چو تھے مسلمان ہیں۔
حضرت عمر بن عبشہ رضی اللہ عنہ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلے بنو سُلیم سے تھا ۔ حضرت عمر وبن عبشہؓ نے اپنے حالات دوسرے صاحب سے اس طرح بیان فر مایا کہ میں ایام جا ہلیت ( یعنی اسلام سے پہلے زمانے) میں اپنی قوم کے معبودوں سے سخت نفرت کرتا تھا ۔اس لئے کہ وہ با طل تھے ۔ پھر اہل التیماء کے کا تبوں میں سے ایک شخص سے ملا ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو پتھر کو پو جتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کسی قبیلے میں اترتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے معبود نہیں ہو تے تو (ان میں کا ) ایک شخص نکل کر چار پتھر لا تا ہے ۔ تین کو تو وہ اپنی ہا نڈی کے لئے نصب کرتا ہے ( یعنی تین پتھر کا چو لھا بنا تا ہے )اور چار میں سے ایک اچھا پتھر دیک کر اپنا معبود بنا لیتا ہے ۔اور اس کی پر ستش شروع کر دیتا ہے ۔۔۔۔ پھر وہ کسی دوسری منزل پر اترتا ہے تو کو چ کرنے سے پہلے) اگر اس سے اچھا پتھر پا لیا تو پہلے پتھر کو چھو ڑ دیتا ہے اور اس نئے پتھر کو اپنا معبود بنا لیتا ہے ۔۔۔۔ میری رائے ہے کہ یہ معبود با طل ہیں جو ہم کو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان مجھے تم ایسا طریقہ بتاؤ جو اس سے بہتر ہو ۔
(اس کا تب) نے کہا کہ مکہ سے ایک شخص ظاہر ہو جو اپنی قوم کے معبودوں سے نفرت کرے گا اور کسی دوسرے معبود کی طرف دعوت دے گا جب تم اس شخص کو دیکھنا تو اس کی پیروی کرنا ۔۔۔ کیونکہ وہ سب سے زیادہ بزرگ دین لائے گا ۔۔۔
جب میں نے اہل التیماء کے اس کا تب سے یہ بات سن لی تو میرا سفرمکہ کے سوا کسی اور طرف نہیں ہو نے لگامیں بار بار اپنے وطن سے مکہ آتا اور وہاں کے لوگوں سے پو چھتا کہ کیا اس شہر میں کوئی نئی بات واقع ہوئی ہے ۔۔۔۔۔؟لوگ کہتے "نہیں"اور میں یہ سن کر پھر وطن واپس ہو جاتا ۔اسی طرح میں ایک بار لوگوں سے دریافت کیا ۔۔۔ تو اس بار جواب ملا۔۔ ہاں مکہ میں ایک شخص ظاہر ہوا ہے جو اپنی قوم کے معبودوں سے نفرت کرتا ہے اور ایک دوسرے معبود کی طرف دعوت دیتا ہے ۔۔۔ یہ سن کر میں اپنے متعلقین کے پاس آیا اونٹنی پر کجاوہ کسا اور مکہ میں اس منزل پر آیا جہاں میں اکثر ٹھیرا کرتا تھا ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کو دریافت کیا تو حضورﷺ کو پوشیدہ پا یا اور قریش کو دیکھا کی حضورﷺ کے تعلق سے بے حد سخت تھے(یعنی کوئی شخص قریش سے رسول ﷺ کا پتہ بھی نہیں پو چھ سکتا اور وہ پتہ پو چھنے والے کو بھی گوارا نہیں کر رہے ہیں پتہ پو چھنے والے کو سخت مار پیٹ کر رہے تھے۔
حضرت عمر و بن عبشہ رضی اللہ فر ماتے ہیں کہ میں اپنی منزل پر ٹھیرا رہا اورموقع تلاش کر کے ایک بہانے سے رسول اللہ ﷺکے پاس پہنچا ۔۔۔۔میں نے دریافت کیا کہ آپ کیا ہیں ۔۔۔۔؟ حضور ﷺ نے فرمایا ۔۔۔۔۔" میں نبی ہو ں"۔۔۔۔میں نے پو چھا ۔۔۔۔آپ کو کس نے بھیجا ہے ۔۔۔۔؟ آپ ﷺ نے فر مایا ۔۔۔اللہ نے ۔۔۔۔میں نے پھر پو چھا ۔۔۔ کہ اللہ نے آپ ﷺ کو کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے ۔۔۔۔؟ آپ ﷺ نے فرمایا ۔۔۔ "اللہ کی عبادت کے ساتھ جو واحد ہے جس کو کوئی شریک نہیں ۔۔۔ خونوں کی حفاظت ( یعنی قتل وغارت گری سے بچانے) بتو ںکو توڑنے ۔۔۔ قرابتداروں سے اچھا بر تاؤ سکھانے ۔۔۔۔ اور راستوں پر امن قائم کر نے کے لئے مبعوث ہوا ہوں
میں نے عرض کیا ۔۔۔۔ یہ تو بہت اچھی باتیں ہیں جن کے ساتھ آپ بھیجے گئے ہیں ۔۔۔ میں آپ ﷺ پر ایمان لاتا ہوں ۔۔۔آپﷺ
رسول اللہ ﷺ کے جواب پر غور کیجئے ایک بدوی عرب جو ریگستان میں رہتا ہے۔ جو بت پرستی ، خونریزی ،لوٹ اور غارتگری سے تنگ ہے اسے حضور اسلام کی تعلیم اس کے ذہن کے معیار سے کس قدر مناسب الفاظ میں سمجھا رہے ہیں کی تصدیق کرتا ہوں ۔۔۔۔کیا آپ مجھے حکم دیتے ہیں کہ آپ ﷺ کے ساتھ ٹھیروں ۔۔۔۔۔؟ یا واپس جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔۔۔۔میں جو کچھ لا یا ہوں کیا تم اس کے ساتھ لوگوں کی نا گواری نہیں دیکھتے ۔۔۔۔۔۔؟ ایسی صورت میں تمہارا یہاں ٹھیرنا ممکن نہیں ہے ۔۔۔۔تم اپنے متعلقین میں واپس جاؤ۔۔۔۔جب سننا کہ میں نے کسی طرف ہجرت کی ہے تو تم بھی میری طرف ہجرت کر نا ۔
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت عمر و بن عبشہ رضی اللہ عنہ اپنی ملاقات کا ذکر ایک اور موقعہ پر اس طرح بیان فرمایا کہ میں رسول اللہ سے ملاقات کے لئے مکہ آیا ۔آپ عکاظ میں آئے ہوئے تھے میں نے دریافت کیا کہ آپ جس دین کی تعلیم دیتے ہیں اس کی پیروی کس نے اختیار کی ہے ۔۔۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ایک آزاد اور ایک غلام نے ۔۔۔آزاد حضرت ابو بکر صدیقؓ اور غلم سیدنا بلا حبشیؓ تھے اعلان نبوت کے بالکل ابتدائی دور ہی میں رسول اللہ ﷺ کو یقین ہو چکا تھا کہ آپ کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑے گا۔
حضور ﷺ نے مزید فرمایا کہ جاؤ ۔یہاں تک کہ اللہ اپنے رسول کو قدرت دے۔۔۔۔حضرت عمر وبن عبسہؓ کا دعویٰ تھا کہ وہ اسلام قبول کر نے والوں میں تیسرے یا چو تھے شخص ہیں۔جاری ہے
 
Last edited:
Top