ہم عقیدہ کے حوالہ سے اہل السنۃ والجماعۃ ہیں ،فقہی مذہب کے حوالہ سے حنفی ہیں، اور علمی مشرب و مسلک کے حوالہ سے دیوبندی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا دائرہ ہے، اپنا اپنا پس منظر ہے، اپنا اپنا تعارف ہے، اور یہ ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں ہونا چاہیے۔ اہل سنت کے بارے میں گزشتہ سال معروضات پیش کر چکا ہوں، حنفیت کے بارے میں آج گفتگو ہو گی، اور دیوبندیت کے بارے میں زندگی کے ساتھ صحت و توفیق شامل حال رہی تو اگلے سال اسی پروگرام میں انشاء اللہ تعالیٰ آپ حضرات سے مخاطب ہوں گا۔
حنفی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم فقہی احکام ،فقہی اصول اور فروعات میں حضرت امام ابو حنیفہؒ کے مقلد ہیں۔ یعنی ہم ان کے علم، ثقاہت، دیانت اور فراست پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے اقوال و فتاویٰ کو دلائل کی بحث میں پڑے بغیر قبول کرتے ہیں اور انہیں دوسرے ائمہ کرام ؒ کے اقوال و فتاویٰ پر ترجیح دیتے ہیں ۔ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ اس کو سمجھنے کے لیے چند اصولی باتوں کو پہلے سمجھ لینا ضروری ہے۔
نیک شخصیات کی اتباع
پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں قرآن کریم کے اس اسلوب سے واقف ہونا چاہیے کہ قرآن کریم میں ہدایت اور راہنمائی کے لیے صرف اصول و احکام اور قوانین و ضوابط کی بات نہیں کی گئی بلکہ ان اصول و احکام پر عملدرآمد کے لیے افراد و شخصیات کو بطور نمونہ اور آئیڈیل پیش کیا گیا ہے اور ان کی اقتدا و اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۃ فاتحہ میں جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہر روز اور بار بار صراط مستقیم پر چلائے رکھنے کی دعا کرنے کے لیے کہا گیا ہے وہاں صراط مستقیم کا تعارف اس طرح کر ایا گیا ہے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔ گویا صراط مستقیم کا تعین کرتے وقت ہمارے سامنے صرف راستے کے نشانات ہی نہیں بلکہ اس پر چلنے والے لوگ بھی ہونے چاہئیں اور ہم انہی کو دیکھ کر یہ طے کر سکیں گے کہ صراط مستقیم کون سا ہے؟
ان افراد و طبقات میں سب سے پہلا طبقہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا ہے جن میں سے چند بزرگوں کا ذکر کر کے سور ۃ الانعام کی آیت ۹۰ میں کہا گیا ہے فبھداھم اقتدہ کہ ان کی ہدایت پر چلو اور ان کی پیروی کرو۔ اس طرح ہدایت کا معیار شخصیات کو قرار دیا گیا ہے۔
دوسرا طبقہ حضرات صحابہ کرامؓ کا ہے جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور انہیں حق کا معیار بتایا گیا ہے۔ چنانچہ سورۃ البقرہ آیت ۱۳ میں کہا گیا ہے کہ
وَاِذَا قِيْلَ لَـهُـمْ اٰمِنُـوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْآ اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ ۗ اَلَآ اِنَّـهُـمْ هُـمُ السُّفَهَآءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ۔ (سورہ البقرہ ۲۲ ۔ آیت ۱۳)
’’اور جب انہیں کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح اور لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں، خبردار وہی بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے‘‘۔
یہاں ’’الناس‘‘ سے مراد صحابہ کرامؓ ہیں اور انہی کو ایمان کے لیے آئیڈیل اور مثال بتایا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ البقرہ کی آیت ۱۳۷ میں صحابہ کرامؓ سے خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ
فَاِنْ اٰمَنُـوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْـتُـمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۖ وَّاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُـمْ فِىْ شِقَاقٍ۔ (سورہ البقرہ ۲ ۔ آیت ۱۳۷)
’’پس اگر وہ بھی ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ بھی ہدایت پا گئے، اور اگر وہ نہ مانیں تو وہی ضد میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔
اس آیت کریمہ میں صحابہ کرامؓ کو ایمان کے لیے صرف مثال اور آئیڈیل نہیں کہا گیا بلکہ معیار بھی قرار دیا گیا ہے کہ ان کے طریقے سے پھر جانا گمراہی ہے۔ اسی طرح سورۃ النساء کی آیت ۱۱۵ میں فرمایا گیا ہے کہ
وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُ الْـهُدٰى وَيَتَّبِــعْ غَيْـرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُـوَلِّـهٖ مَا تَوَلّـٰى وَنُصْلِـهٖ جَهَنَّـمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيْـرًا۔ (سورہ النساء ۴ ۔ آیت ۱۱۵)
’’اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے دوزخ میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے‘‘۔
یہاں بھی اولین مصداق صحابہ کرامؓ ہیں اور ان کے راستے سے ہٹ جانے کو جہنم کے راستے پر چلنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پھر سورۃ لقمان میں حضرت لقمان حکیم ؒ کی اپنے بیٹے کیلئے وصیت کا ذکر کرتے ہوئے یہ بات فرمائی گئی ہے کہ
وَاتَّبِــعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَـىَّ۔ (سورہ لقمان ۳۱ ۔ آیت ۱۵)
’’اور ان لوگوں کی راہ پر چل جو میری طرف رجوع ہوگئے‘‘۔
ان آیات کریمہ کا حوالہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کریم نے صرف اصول و ضوابط اور احکام و قوانین کی پیروی کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کے لیے کچھ طبقات اور افراد کو معیار اور آئیڈیل قرار دے کر ان کی اتباع کی تلقین فرمائی ہے۔
دوسری اصولی بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا ارشاد گرامی ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ جو شخص کسی شخصیت کو اپنا مقتداء اور پیشوا بنانا چاہتا ہے تو اس کے لیے ان لوگوں میں سے انتخاب کرے جو فوت ہو چکے ہیں، اس لیے کہ زندہ شخص کسی وقت بھی فتنہ میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا یہ ارشاد گرامی مشکوٰۃ شریف میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔
من کان مستنا فلیستن بمن قدمات فان الحی لا تؤمن علیہ الفتنۃاولَئک اَصحاب محمد کانوا اَفضل ھذہ الأمۃ اَبرھا قلوبا واعمقھا علما وأقلھا تکلفا اختارھم اللّٰہ لصحبۃ نبیہ ولا قامۃ دینہ فاعرفوا الھم فضلھم واتبعوھم علی اثرھم و تمسکو ا بمااستطعتم من اخلاھم و سیرھم فانھم کانوا علی الھدی المستقیم۔
’’جو شخص کسی کی پیروی کرنا چاہتا ہے تو ان کی کرے جو فوت ہو چکے ہیں اس لیے کہ زندہ آدمی فتنہ سے محفوظ نہیں ہے اور وہ لوگ اصحاب محمدؐ ہیں جو سب سے زیادہ نیک دل تھے ،سب سے زیادہ گہرے علم والے تھے اور سب سے کم تکلف والے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت اور اپنے دین کی اقامت کے لیے چنا تھا پس ان کے فضل کو پہچانو اور ان کے نقش قدم پر چلو اور جہاں تک تمہارے بس میں ہو ان کے اخلاق و عادات کو مضبوطی سے تھام لو کیونکہ وہی لوگ سیدھے راستے پر ہیں ‘‘۔
چنانچہ طبقات کے حوالہ سے حضرات انبیاء کرامؑ اور حضرات صحابہ کرامؓ واجب الاتباع ہیں اور ہم اسی وجہ سے اہل السنۃ والجماعۃ کہلاتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ کی سنت اور حضرات صحابہ کرامؓ کی جماعت ہماری علمی اور فکری اساس ہیں۔حضرات صحابہ کرامؓ کے بعد اتباع و اقتداء اور پیروی کے لیے شخصیات کا چناؤ اس بنیاد پر ہو گا کہ کس کے پاس دین کا علم زیادہ ہے ،کون دینی تفقہ کی دولت سے مالا مال ہے اور کس کے تقوٰی و دیانت پر امت کو زیادہ اعتما د ہے۔ یہاں میں جناب رسول اللہؐ کا ایک ارشاد گرامی پیش کرنا چاہوں گا جو مسند دارمی میں حضرت جبیر بن معطمؓ سے روایت ہے کہ
نضر اللّٰہ عبد ا سمع مقالتی فوعاھا ثم اداھا الی من لم یسمعھا فرب حامل فقہ لافقہ لہ ورب حامل فقہ الی من ھو افقہ منہ۔
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ رکھے جس نے میری بات سنی اسے یاد رکھا ار پھر اسے آگے ایسے شخص تک پہنچا دیا جس نے اسے نہیں سنا۔ اس لیے کہ بعض سننے والے ایسے ہوتے ہیں جنہیں اس کی سمجھ نہیں ہوتی اور بعض سننے والے اسے خود سے زیادہ سمجھنے والے تک پہنچا دیتے ہیں‘‘۔
اس ارشادنبویؐ کی روشنی میں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ حدیث اور چیز ہے اور فقہ اس سے مختلف چیز ہے اور دونوں دین کا مطلوب ہیں۔ قرآن کریم بھی لِیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ کے تحت اس کی اہمیت بیان کرتا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے بھی ایک اور حدیث میں فرمایا ہے کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کاارادہ فرماتے ہیں یفقھہ فی الدین اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں۔
حدیث محض سننے، یاد کرنے اور آگے پہنچا دینے سے پوری ہو جاتی ہے لیکن اسے سمجھنے کے لیے عقل درکار ہے، درایت کی ضرورت ہے اور دانش مطلوب ہے۔ اور اس عقل و دانش کے درجات مختلف ہیں جن میں سے اَفقہ منہ کی تلاش دینی ضروریات میں سے ہے۔ اس لیے ہمارا طریق کار یہ ہے کہ ہم خالی روایت پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کے بعد تفقہ کی ناگزیر ضرورت کی طرف بھی توجہ دیتے ہیں اور ہم حدیث و فقہ کے امتزاج کو اپنے فقہی مذہب کی اساس سمجھتے ہیں۔
یہاں ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا کہ خالی روایت حدیث کہلاتی ہے جبکہ اس کے ساتھ درایت اور تفقہ شامل ہو جائے تو اس سے سنت مستنبط ہوتی ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’سنت‘‘ کو واجب الاتباع قرار دیا ہے جو کہ حدیث و فقہ کے امتزاج سے وجود میں آتی ہے، اور یہی اہل السنۃ والجماعۃ کی بنیاد ہے۔
اتباع کے لیے امام ابوحنیفہؒ کی شخصیت ہی کیوں؟
صحابہ کرامؓ کے بعد فقہاء کرام ؒ کی پیروی کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر فقہاء کرامؒ کی اتنی بڑی جماعت میں سے ہم نے امام ابو حنیفہؒ کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کی ترجیح کی وجوہ میں دو تین باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا۔
پہلی بات وہی کہ حدیث نبوی میں من ھو افقہ منہ فرمایا گیا ہے اور حضرات فقہاء کرامؒ میں سے حضرت امام ابو حنیفہؒ کا ’’اَفقہ‘‘ ہونا ایک ایسی متفقہ علیہ بات ہے جس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ان کے بارے میں حضرت امام شافعی ؒ کا ارشاد گرامی ہے کہ
من اراد الفقہ فھو عیال علی ابی حنیفۃ۔
’’جوشخص بھی فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہؒ کے سامنے بچوں کی طرح ہے ‘‘۔
اور حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ اَفقہ الناس ابو حنیفۃ لوگوں میں سے بڑے فقیہ ابوحنیفہؒ ہیں وما ریت فی الفقہ مثلہ اور میں نے فقہ میں ان جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
ہماری دوسری وجہ ترجیح یہ ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے عقل و قیاس کو اس کے صحیح مقام پر رکھا ہے۔ نہ اس سے انکار کیا ہے اور نہ ہی اتنا سر چڑھا دیا ہے کہ نصوص پر حکومت کرنے لگے۔ عقل اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جس کے استعمال سے گریز اس نعمت کی نا شکری ہے لیکن اس کی حدود متعین ہیں جن سے آگے اس کو بڑھانا بھی جائز نہیں ہے۔
اس بارے میں حضرت امام ابو حنیفہؒ کی ترتیب ملاحظہ فرمائیے کہ وہ دلیل میں سب سے پہلا درجہ قرآن کریم کو دیتے ہیں اور اس کے بعد حدیث نبویؐ کو۔ اور حدیث نبویؐ کے بارے میں ان کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو وہ اس کے مقابلہ میں قیاس نہیں کریں گے اور حدیث کو ترجیح دیں گے۔ بلکہ وہ تو صحابہ کرامؓ کے اقوال کو بھی قیاس سے مقدم رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے کسی مسئلہ میں اقوال مختلف بھی ہوں تو وہ انہی میں سے ایک کا انتخاب کریں گے اور صحابہؓ کے اقوال سے باہر نہیں نکلیں گے۔ گویا وہ صحابی کے قول کو بھی قیاس پر مقدم قرار دیتے ہیں اور وہ ان سب کے بعد قیاس کا درجہ تسلیم کرتے ہیں۔ اور عقل کا صحیح مقام بھی یہی ہے کہ وہ نصوص کی تفہیم اور استنباط و استدلال میں معاون ہے۔ اور نصوص کے درجات ختم ہو جانے کے بعد وہ اس پوزیشن میں آتی ہے کہ اسے کسی فیصلے یا حکم کی بنیاد بنایا جائے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے وحی اور عقل کے درمیان حقیقی توازن قائم کیا ہے اور ان کی فقہ کی مقبولیت کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے۔
ہماری تیسری وجہ ترجیح یہ ہے کہ اما م ابوحنیفہؒ کی فقہ شخصی نہیں بلکہ شورائی ہے۔ یعنی اس فقہ کی بنیاد کسی ایک شخصیت کے استدلال و استنباط پر نہیں بلکہ پورے ایک شورائی نظام پر ہے جس میں فقہاء کرام کی ایک بڑی جماعت نے اجتماعی غور و خوض اوربحث و مباحثہ کے بعد ہزاروں مسائل مستنبط کیے ہیں۔ اور ان ہزاروں مسائل میں ایک بڑی تعداد ان مسائل و احکام کی ہے جن میں ہم امام ابو حنیفہؒ کی بجائے ان کی مجلس مشاورت کے دوسرے شرکاء کے اقوال کو قبول کرتے ہیں۔ اس بنا ء پر مجھے ان حضرات کی بات سے اتفاق نہیں ہے جو احناف کو تقلید شخصی کا طعنہ دیتے ہیں۔ مجھے تقلید شخصی سے بھی انکارنہیں ہے کیونکہ دیگر فقہی مذاہب مثلاً مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کی بنیاد تقلید شخصی پر ہی ہے۔ لیکن احناف کے بارے میں یہ بات قبول کرنے میں مجھے تامل ہے اس لیے کہ ہمارے پورے فقہی نظام کی بنیاد صرف حضرت امام ابو حنیفہؒ کے اقوال و فتاویٰ پر نہیں بلکہ ان کے ساتھ شریک دوسرے فقہاء کرام کے اقوال و فتاویٰ بھی ہمارے فقہی احکام کی بنیاد ہیں ۔ چنانچہ فقہ حنفی اجتماعی اور شورائی ہے جس میں حضرت امام ابو حنیفہؒ کو اس شورائی نظام کے سر براہ اور علمی و فکری راہ نما کی حیثیت حاصل ہے اور اسی وجہ سے یہ فقہ ان کی طرف منسوب ہے لیکن عملی طور پر یہ فقہ شخصی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔
ہماری چوتھی وجہ ترجیح یہ ہے کہ فقہ حنفی عملی اور پریکٹیکل ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں قبولیت عطا فرمائی ہے۔ خلافت عباسیہ میں اسے ملکی قانون کا درجہ حاصل رہا ہے اور خلافت عثمانیہ میں بھی یہی ملک کا عام قانون تھی۔ اسی طرح مغل حکمرانوں کے دور میں جنوبی ایشیا میں بھی اسے دستور و قانون کی حیثیت حاصل تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فقہ متوازن ہے، قابل عمل ہے اور سوسائٹی کی ضروریات کا لحاظ رکھتی ہے۔
حضرات محترم! وقت کی قلت کے باعث میں اس عنوان پر تفصیلی گفتگو نہیں کر سکا البتہ اصولی طور پر میں نے چند اشارات میں یہ بات عرض کی ہے کہ ہم حنفی کیوں کہلاتے ہیں اور فقہی احکام و مسائل میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ اور ان کی جماعت و رفقاء کو ترجیح کیوں دیتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح باتوں پر عمل کی توفیق سے نوازیں ،آمین یا رب العالمین۔
(ماہنامہ نصرۃ العلوم، اکتوبر 2009ء)
بشکریہ مولانا زاہدالراشدی فیس بک پیج