عہد بنو عباس کی چند مذہبی تحریکیں
تاریخ اسلام کے جھروکوں سے
احمد سلیم مظہر چغتائی
فرقہ اسماعیلیہ
اسماعیلیہ فرقہ کی ابتداء بہت دلچسپ ہے۔ محمد رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد ایک گروہ کاخیال تھا کہ خلافت صرف اہل بیت کا حق ہے۔ یہ صرف سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت کا صحیح حقدار تصور کرتے تھے۔ یہ لوگ آگے چل کر شیعانِ علی کہلائے۔ یہ حضرات سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ امامت یا خلافت انتخابی یا جمہوری ادارہ نہیں بلکہ ایک امام اپنے جانشین کو خود مقرر کرتا ہے، خلافت اہل بیت کا حق ہے کسی انتخاب کی ضرورت نہیں۔ یہ فرقہ وقت کے ساتھ مقبولیت حاصل کرتا رہا حتیٰ کہ جب اموی خلافت قائم ہوئی تو ان لوگوں نے اس کی کھل کر مخالفت کی اور خاندان بنوامیہ کے سخت دشمن بن گئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل بیت کی بہت عزت کرتے تھے لہٰذا انہوں نے ان لوگوں کے خلاف سخت اقدامات سے ہمیشہ گریز کیا۔
تاہم سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد یہ کیفیت باقی نہ رہی اور بالآخر سانحہ کربلا پیش آیا۔ اس سانحہ اور واقعہ کے بعد شیعانِ علی تین فرقوں میں منقسم ہو گئے۔ (1) امامیہ (2) زیدیہ (3) کیسانیہ
امامیہ فرقے کا موقف تھا کہ خلافت صرف سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاطمی اولاد کا حق ہے، لہٰذا یہ منصب صرف ان میں منتقل ہونا چاہیے تھا جبکہ زیدیہ اور کیسانیہ دونوں گروہوں کا نظریہ تھا کہ خلافت صرف سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حق ہے خواہ وہ فاطمی ہوں یا غیر فاطمی، لہٰذا سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے امام محمد بن حنفیہ بھی اس منصب کے جائز حقدار ہو سکتے ہیں۔ یہ تینوں گروہ اپنی اپنی جگہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے میں لگے رہے۔
امامیہ فرقہ کے نزدیک بارہ امام ہیں ۔ آخری امام مہدی موعود ہے اسی لیے ان کو فرقہ اثناء عشریہ بھی کہا جاتا ہے۔ امام جعفر صادق سلسلہ امامیہ کے چھٹے امام تھے لیکن ان کی وفات کے بعد امامیہ فرقہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ جس کی تفصیل تاریخ میں یوں کی جاتی ہے کہ امام جعفر صادق نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا مگر جب اس سے ایک گھنائونا غیرشرعی فعل سرزد ہوا تو امام سے اس کی جانشینی منسوخ کر دی اور اپنے دوسرے بیٹے کو جانشین مقرر کیا۔ اسماعیل کا اپنے والد کی زندگی میں ہی انتقال ہو گیا تاہم امامیہ فرقہ کا ایک گروہ بدستور اسی کو امام تسلیم کرتا رہا۔
ان کا موقف تھا کہ امام جعفر صادق کے بعد امامت کا حق بدستور اسماعیل کا قائم ہے، لیکن دوسرے فرقہ امام موسیٰ کو اپنا امام قرار دے دیا۔ اس طرح جو لوگ اسماعیل کے بیٹے محمد کو امام تسلیم کرتے تھے وہ اسماعیلیہ کہلائے، لیکن آگے چل کر اسماعیلیہ فرقہ کے بھی دو گروہ بن گئے۔
(1) اسماعیلی (2) دائودی (جو بوہرے بھی کہلاتے ہیں) پہلے فرقہ کی امامت بقول ان کے اب بھی جاری ہے اور کریم آغاخان ان کے غالباً 49ویں امام ہیں۔ جبکہ دوسرے فرقہ کے کچھ عرصہ پہلے تک سید سیف الدین ان کے امام تھے جن کا چند سال قبل انتقال ہوا ہے اور امامت ان کی اولاد میں منتقل ہوئی ہے۔
اسماعیلیہ فرقہ کے عقائد کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
(1) امام کا تقرر کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ یہ منصب اللہ کی طرف سے امام کے بڑے بیٹے کو خودبخود منتقل ہو جاتا ہے۔ گویا امام مامور من اللہ ہوتا ہے۔ لہٰذا امام جعفر صادق کو بھی اپنے بڑے بیٹے اسماعیل کی جانشینی منسوخ کرنے کا اختیار نہ تھا انہوں نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا، لہٰذا ان کے اعلانِ منسوخی کے با وجود امام اسماعیل کا بدستور حقِ امامت قائم رہا اور وہ برحق امام ہیں۔
(2) امام اسماعیل فوت نہیں ہوئے بلکہ مستور ہو گئے ہیں لہٰذا آئندہ ظہور کریں گے۔
(3) امام محمد بن اسماعیل آخری اور کامل امام ہیں ان کے بعد سلسلہ امامت منقطع ہو گیا۔
(4) امامت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد ان کے نائب مقرر ہوتے ہیں۔ اور ان نائبین میں امام کی روح حلول کر جاتی ہے۔ اس عقیدہ کے قائل شیعانِ عجم تھے جو مسئلہ تناسخ کے قائل تھے۔
(5) مذہبی عقائد کا صرف ظاہری مطلب ہی نہیں لینا چاہیے بلکہ احکامِ شریعت کے ظاہری مطلب کے ساتھ ایک باطنی مطلب بھی ہوتا ہے اور یہ مفہوم صرف امامِ وقت کو ہی معلوم ہوتا ہے۔
(6) اسماعیلی چونکہ ظاہر وباطن میں بھی فرق دیکھنے لگے لہٰذا وہ فرقہ باطنیہ بھی کہلائے۔
اسماعیلیہ کا عروج ابتداء میں اسماعیلی فرقہ کو شیعہ فرقہ کی ایک شاخ تصور کیا گیا اور اس فرقہ کو کوئی سیاسی اور مذہبی حیثیت حاصل نہ تھی، تاہم عبد اللہ بن میمون نامی ایک شخص نے اس فرقہ کو امتیازی حیثیت دی۔ یہ خوزستان کا باشندہ تھا اس کا باپ ایک غالی شیعہ تھا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ اماموں میں خود اللہ تعالیٰ کی روح موجود ہوتی ہے۔ عبد اللہ بن میمون نے بصرہ میں اپنے عقائد کا پرچار شروع کیا اور اپنی شعبدہ بازی اور سحربیانی سے ایک جمعیت بنالی۔ ان لوگوں کے نزدیک سات اور بارہ کے اعداد متبرک ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ ہفتہ کے دن کو متبرک خیال کرتے تھے اور اسی روز تمام مردوزن اکٹھے ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ ان کے خیال کے مطابق امام ظاہری اور باطنی چیزوں کو خوب جانتا ہے۔
عبد اللہ بن میمون کا سب سے بڑا حلیف عراق کا ایک شخص حمدان نامی تھا جس نے فرقہ قرامطہ کی بنیاد رکھی۔ عبد اللہ نے اپنے داعی اطرافِ ممالک میں روانہ کیے اور ظاہری عقائد کے علاوہ چند خفیہ عقائد بھی اسماعیلی مذہب میں داخل کیے۔ جب کوئی داعی خفیہ عقائد کو تسلیم کر لیتا تو اسے رفیق کا خطاب دیا جاتا۔ عبد اللہ کے بیٹے اور پوتے بھی اس فرقہ کے عقائد عام کرنے میں بہت کام کیا، چنانچہ افریقہ کے بربری قبائل بکثرت اسماعیلی بن گئے۔ جب عبد اللہ کے پوتے سعید نے افریقہ میں کامیابی کی خبر سنی تو وہاں جا پہنچا اور اپنے آپ کو امام محمد بن اسماعیل کی اولاد اور مہدی موعود ظاہر کر کے اپنا نام سعید کی بجائے ابومحمد عبید اللہ رکھا وہ اس قدر قوت حاصل کر پایا کہ اس نے وہاں کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور خلافتِ فاطمی کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد اس کے جانشینوں نے اسماعیلی عقائد کی اشاعت کے لیے حکومت میں ایک محکمہ قائم کیا جہاں سے ہر سال ہزاروں داعی تعلیم پا کر مختلف ممالک میں جاتے، وہ خفیہ طور پر فاطمی خلفاء کی بیعت حاصل کرتے اور اسماعیلی عقائد کی تبلیغ کرتے۔
حسن بن صباح مشرق ممالک میں حسن بن صباح نے اسماعیلی عقائد کو خوب پھیلایا۔ حسن بن صباح نہایت ذہین، صاحب تدبیر وفراست، جید عالم دین مگر انتہائی مکار شخص تھا۔ فاطمی خلفاء نے اسے مشرق میں اپنا داعی عظیم مقرر کیا۔ جس نے اپنی کوششوں اور تدبیروں سے ایک بہت بڑی متشدد جماعت بنائی اور مازندان کے دشوار گذار پہاڑی علاقہ میں ایک مضبوط قلعہ ’’الموت یاالتموت‘‘ کے نام سے بنا کر ایک چھوٹی سی ریاست قائم کر لی اور اسماعیلی دعوت کو از سر نو منظم کیا۔ حسن بن صباح نے ایک مضبوط جنت بھی بنائی جس میں دنیا کے ہر حصے سے خوبصورت دوشیزائیں اغواء کر کے لائی جاتیں۔ حسن بن صباح کے نوجوان فدائین کو بھنگ (حشیش) پلا کر جنتِ ارضی میں پہنچا دیاجاتا۔ چونکہ ان حورانِ جنت کے لیے ان فدائی نوجوانوں کی آتش شوق بھڑکی ہوئی ہوتی تھی اس لیے وہ بے چین ہو جاتے اور چاہتے کہ انہیں دوبارہ شربت جنت (بھنگ) بھی مل جائے اور لذت وصال بھی نصیب ہو جائے یہی وہ وقت ہوتا تھا کہ حسن بن صباح ان سے اپنے مطلب کا کام لے سکے۔ چنانچہ ان فدائین کو پیغام پہنچایا جاتا کہ اگر تم دوبارہ اس عشرت کدہ (جنت) میں جانا چاہتے ہو تو امام (حسن بن صباح)کے فلاں دشمن کو قتل کردو۔ اس پر وہ فدائین امام کے ہر دشمن کو بہرحال قتل کرنے پر آمادہ ہو جاتے۔ فدائین کی جماعت ایک دہشت پسند جماعت تھی جن کا عام پیشہ لوٹ مار، کشت وخون اور قتل وغارت گری تھی۔
اس طرح حسن بن صباح اور اس کے حواری اپنے مخالفین کو ان فدائین کے ہاتھوں مرواتے رہے، چنانچہ عالم اسلام کے سینکڑوں صالح بندے، علماء اور حکمران قتل ہوئے جس سے ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا حتیٰ کہ نظام الملک طوسی بھی ان لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اور خوف وہراس کی حالت پیدا ہو گئی۔ عربی زبان میں بھنگ کو حشیش کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ جماعت حشیش بھی کہلائی۔ حسن بن صباح 1124ء میں فوت ہوا مگر اس کے بعد سترہ سال تک اس کے جانشین قلعہ الموت اور نواح میں حکومت کرتے رہے۔
سلجوقی اور عباس حکمرانوں نے ان کی سرکوبی کی کوششیں کیں مگر ناکام رہے حتیٰ کہ ہلاکوخان نے قلعہ الموت کو فتح کر کے ان کا خاتمہ کیا تاہم اسماعیلیہ فرقہ آج بھی موجود ہے جس کا موجودہ امام کریم آغا خان ہے۔
فرقہ قرامطہ سرزمین کوفہ میں 278ھ میں حمدان نامی ایک شخص نے اس فرقہ کی بنیاد ڈالی۔ اس کے عقیدہ کی رو سے اماموں کی تعداد بارہ کی بجائے سات ہے۔ (1) امام حسین (2) علی زین العابدین بن حسین (3) امام جعفر صادق بن محمد باقر بن علی بن حسین (4) اسماعیل بن جعفر صادق (5) محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق (6) امام محمدباقر بن علی بن حسین (7) عبید اللہ بن محمدبن اسماعیل۔
وجہ تسمیہ اس فرقہ کی مختلف طور پر بیان کی گئی ہے۔
(1) حمدان کوفہ میں بیلوں کے ذریعہ غلّہ ڈھوتا تھا، لہٰذا اسے قرمیطہ (کرمیتہ) یعنی بیلوں پر وزن لادنے والا یا سوار، کہا گیا۔ اس نسبت سے فرقہ کو قرامطہ، قرمطہ وغیرہ کہا گیا۔
(2) قرمطوتا کے معنی ہیں مکار، فریب دینے والا، دغاباز، یہ نام اسے مخالفین نے دیا جو قرامطہ رہ گیا۔
(3) کرمیتہ یا قرموطہ جنوبی عراق میں کاشتکار کو کہتے تھے۔ چونکہ حمدان کے اہل خاندان کاشتکاری کرتے تھے لہٰذا یہ لوگ قرامطہ کہلائے۔
افکار وعقائد حمدان خود کو امام عبید اللہ بن محمد کا نائب کہتا تھا جبکہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے محمد بن الحنفیہ بن علی کو رسول کا درجہ دیتا تھا۔ چنانچہ اس نے اذان میں ان الفاظ کا اضافہ کیا۔ اشھد ان محمد بن الحنفیۃ رسول اللہ
٭ حمدان نے کعبۃ اللہ کی بجائے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا۔
٭ حمدان کے نزدیک جمعۃ المبارک کی بجائے پیر (سوموار) کا دن متبرک ہے۔ پیر کے دن کوئی بھی کام کرنا خلافِ شریعت قرار دیا گیا۔
٭ اس کے نزدیک شراب حلال تھی۔
٭ قرامطہ کے ہر مخالف کو قتل کر دینا واجب ہے۔
٭ اس نے اپنا لقب ’’قائم بالحق‘‘ اختیار کیا۔
٭ اس کے نزدیک نمازیں پانچ کی بجائے پچاس اور روزے تیس تھے۔ وہ کہتا تھا کہ اللہ نے اپنے رسول پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔
حمدان نے عبد اللہ المہدی (خلیفہ) سے سرکشی اختیار کی چنانچہ اسے ایک روایت کے مطابق سرکشی کے باعث کر دیا گیا۔
حمدان کے بعد اس کا بہنوئی عہدان اس کا جانشین ہوا جسے خلیفہ عبد اللہ المہدی نے قتل کرا دیا۔ تاہم اس وقت تک اس فرقہ کے عقائد کوفہ کے گردونواح کی وادیوں میں پھیل چکے تھے۔ کچھ عرصہ بعد ان لوگوں کے عقائد میں بڑی سرعت کے ساتھ تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ مثلاً پچاس نمازوں کی بجائے صرف چار رکعت نماز فرض رہ گئی۔ دو رکعت نماز طلوع آفتاب سے قبل اور دو رکعت غروب آفتاب کے بعد۔ اسی طرح جنسی بے راہ روی اور آزادی کو انہوں نے رواج دیا۔ بہن، بیٹی اور اماں کے رشتوں کا کوئی تقدس باقی نہ رکھا اور ہر شخص کو ہر عورت سے جنسی تعلق قائم کرنے کی آزادی دی اور اس بے ہودہ اصول کا نام ’’الفت‘‘ رکھ دیا۔ اور یہ تحریک محمد بن اسماعیل کے نام سے پروان چڑھی۔
شام اور عراق میں اس فرقہ کے لوگ آباد تھے جن کی قیادت اب ذکرویہ بن مہرویہ کر رہا تھا۔ اس کے چار بیٹے تھے۔ پہلا یحییٰ بن ذکرویہ جسے صاحب الناقہ کہا جاتا تھا اس کا دعویٰ تھا کہ اس کی ناقہ (اونٹنی) اللہ کی طرف سے بھیجی گئی ہے۔ یحییٰ کو الشیخ بھی کہتے تھے۔ یہ 390ھ میں ہلاک ہوا۔ دوسرا احمد بن ذکرویہ اور تیسرا محمد بن ذکرویہ۔ یہ دونوں اپنے عقائد کی تبلیغ کے دوران مارے گئے جبکہ چوتھا بیٹا حسین تھا جسے صاحب الشامہ کہا جاتا تھا۔ اس کے چہرے پر تِل کا نشان تھا یہ لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ یہ (خال) نشانِ الٰہی ہے۔ اس بنا پر لوگ اس کو صاحب الخال یا صاحب الشامہ (تِل والا) کہتے تھے۔ اپنے بڑے بھائی یحییٰ صاحب الناقہ کے ہلاک ہونے کے صرف ایک سال بعد 391ھ میں اسے بھی ہلاک کر دیا گیا۔ جہاں تک خود زکریہ ابن مہرویہ کا تعلق ہے وہ اچانک روپوش ہو گیا اور بارہ برس تک لاپتہ رہا، جبکہ اس کے چاروں بیٹے فرقہ قرامطہ کی تبلیغ کرتے رہے۔ آخرکار جب اس کا آخری بیٹا حسین صاحب الشامہ بھی قتل کر دیا گیا تو اس نے خود کو ظاہر کر دیا مگر صرف ایک سال بعد ہی اسے قتل کر دیا گیا۔
جنابیّہ 281ھ میں ایک شخص یحییٰ بن مہدی نے اعلان کیا کہ مہدی موعود کے ظہور کا وقت قریب ہے۔ انہوں نے مجھے اپنا داعی بنا کر بھیجا ہے۔ اس کا ایک پیروکار ابوسعید بن بہرام جو خلیج فارس کے ساحلی گائوں جنابیّہ کا رہائشی تھا نے یحییٰ بن مہدی کو ایک طرف کر کے قیادت سنبھالی۔ اس شخص نے اپنی طاقت اس قدر بڑھائی کہ 287ھ میں اس نے زیریں عراق کے اکثر علاقوں میں تسلط جما لیا۔ ابوسعید جنابی 301ھ میں اپنے ہی ایک خادم کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے سعید نے جانشینی کی مگر اس کے بھائی ابوطاہر سلیمان نے اسے شکست دے کر اپنے فرقہ کی قیادت خود سنبھال لی۔ ابوطاہر سلیمان نے قرامطہ کی اس شاخ جنابیّہ کی تحریک میں روح پھونک دی اور اس نے ایک اور دار الہجرت بنایا۔
ابوطاہر اور اس کے پیروکاروں نے کئی مرتبہ حاجیوں کے قافلوں کی راہ روکی، حاجیوں کا سامان لوٹا اور انہیں قتل کیا۔ اس نے قتل وغارت گری کا طوفان برپا کیا حتیٰ کہ 311ھ میں اس نے بصرہ میں داخل ہو کر جامع مسجد کو بھی آگ لگادی۔ ابوطاہر سلیمان حج اور حاجیوں کا دشمن تھا اس نے 307ھ میں نوسو افراد کی جمعیت کے ساتھ مکہ مکرمہ پر بھی حملہ کیا۔ بے شمار حاجیوں کا قتل عام کیا، شہر کو لوٹ لیا اور خانہ کعبہ کا دروازہ تک اکھاڑ دیا۔ اس ظالم نے غلافِ کعبہ کو تارتار کیا۔ کعبۃ اللہ اور مکہ مکرمہ کی اس قدر بے حرمتی پر عالم اسلام میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ حتیٰ کہ ایک سال ان علاقوں سے عازمین حج فریضہ حج بیت اللہ کی ادائیگی کے لیے بھی نہ جا سکے۔ مسلسل ومتواتر خانہ جنگیوں کے باعث عباسی خلفاء میں اتنی ہمت نہ تھی کہ قرامطہ کو مغلوب کر سکتے۔ بالآخر ابوطاہر سلیمان کی موت قرامطہ کا زور ٹوٹنے کی وجہ بنی۔ ابوطاہر کے بعد قرامطہ کے راہنماء اصم شاہ بحرین کو فاطمی خلفاء المعز اور العزیز نے پے در پے شکستیں دے کر ان کی کمر توڑ دی اور ان کا خاتمہ ہوا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قرامطہ ظالم اور دہشت گرد لوگ تھے۔ یہ لوگ بظاہر اصلاح کی تحریک کا پرچم تھام کر میدان میں آئے مگر مصلح ہونے کی بجائے وہ بے رحم ڈاکو، ملحد، بے دین اور غاصب تھے۔ ان کو دین سے کوئی سروکار نہ تھا ان کا کام محض دولت جمع کرنا اور فتنہ وفساد برپا کرنا تھا۔
تاریخ اسلام کے جھروکوں سے
احمد سلیم مظہر چغتائی
فرقہ اسماعیلیہ
اسماعیلیہ فرقہ کی ابتداء بہت دلچسپ ہے۔ محمد رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد ایک گروہ کاخیال تھا کہ خلافت صرف اہل بیت کا حق ہے۔ یہ صرف سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت کا صحیح حقدار تصور کرتے تھے۔ یہ لوگ آگے چل کر شیعانِ علی کہلائے۔ یہ حضرات سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ امامت یا خلافت انتخابی یا جمہوری ادارہ نہیں بلکہ ایک امام اپنے جانشین کو خود مقرر کرتا ہے، خلافت اہل بیت کا حق ہے کسی انتخاب کی ضرورت نہیں۔ یہ فرقہ وقت کے ساتھ مقبولیت حاصل کرتا رہا حتیٰ کہ جب اموی خلافت قائم ہوئی تو ان لوگوں نے اس کی کھل کر مخالفت کی اور خاندان بنوامیہ کے سخت دشمن بن گئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل بیت کی بہت عزت کرتے تھے لہٰذا انہوں نے ان لوگوں کے خلاف سخت اقدامات سے ہمیشہ گریز کیا۔
تاہم سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد یہ کیفیت باقی نہ رہی اور بالآخر سانحہ کربلا پیش آیا۔ اس سانحہ اور واقعہ کے بعد شیعانِ علی تین فرقوں میں منقسم ہو گئے۔ (1) امامیہ (2) زیدیہ (3) کیسانیہ
امامیہ فرقے کا موقف تھا کہ خلافت صرف سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاطمی اولاد کا حق ہے، لہٰذا یہ منصب صرف ان میں منتقل ہونا چاہیے تھا جبکہ زیدیہ اور کیسانیہ دونوں گروہوں کا نظریہ تھا کہ خلافت صرف سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حق ہے خواہ وہ فاطمی ہوں یا غیر فاطمی، لہٰذا سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے امام محمد بن حنفیہ بھی اس منصب کے جائز حقدار ہو سکتے ہیں۔ یہ تینوں گروہ اپنی اپنی جگہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے میں لگے رہے۔
امامیہ فرقہ کے نزدیک بارہ امام ہیں ۔ آخری امام مہدی موعود ہے اسی لیے ان کو فرقہ اثناء عشریہ بھی کہا جاتا ہے۔ امام جعفر صادق سلسلہ امامیہ کے چھٹے امام تھے لیکن ان کی وفات کے بعد امامیہ فرقہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ جس کی تفصیل تاریخ میں یوں کی جاتی ہے کہ امام جعفر صادق نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا مگر جب اس سے ایک گھنائونا غیرشرعی فعل سرزد ہوا تو امام سے اس کی جانشینی منسوخ کر دی اور اپنے دوسرے بیٹے کو جانشین مقرر کیا۔ اسماعیل کا اپنے والد کی زندگی میں ہی انتقال ہو گیا تاہم امامیہ فرقہ کا ایک گروہ بدستور اسی کو امام تسلیم کرتا رہا۔
ان کا موقف تھا کہ امام جعفر صادق کے بعد امامت کا حق بدستور اسماعیل کا قائم ہے، لیکن دوسرے فرقہ امام موسیٰ کو اپنا امام قرار دے دیا۔ اس طرح جو لوگ اسماعیل کے بیٹے محمد کو امام تسلیم کرتے تھے وہ اسماعیلیہ کہلائے، لیکن آگے چل کر اسماعیلیہ فرقہ کے بھی دو گروہ بن گئے۔
(1) اسماعیلی (2) دائودی (جو بوہرے بھی کہلاتے ہیں) پہلے فرقہ کی امامت بقول ان کے اب بھی جاری ہے اور کریم آغاخان ان کے غالباً 49ویں امام ہیں۔ جبکہ دوسرے فرقہ کے کچھ عرصہ پہلے تک سید سیف الدین ان کے امام تھے جن کا چند سال قبل انتقال ہوا ہے اور امامت ان کی اولاد میں منتقل ہوئی ہے۔
اسماعیلیہ فرقہ کے عقائد کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
(1) امام کا تقرر کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ یہ منصب اللہ کی طرف سے امام کے بڑے بیٹے کو خودبخود منتقل ہو جاتا ہے۔ گویا امام مامور من اللہ ہوتا ہے۔ لہٰذا امام جعفر صادق کو بھی اپنے بڑے بیٹے اسماعیل کی جانشینی منسوخ کرنے کا اختیار نہ تھا انہوں نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا، لہٰذا ان کے اعلانِ منسوخی کے با وجود امام اسماعیل کا بدستور حقِ امامت قائم رہا اور وہ برحق امام ہیں۔
(2) امام اسماعیل فوت نہیں ہوئے بلکہ مستور ہو گئے ہیں لہٰذا آئندہ ظہور کریں گے۔
(3) امام محمد بن اسماعیل آخری اور کامل امام ہیں ان کے بعد سلسلہ امامت منقطع ہو گیا۔
(4) امامت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد ان کے نائب مقرر ہوتے ہیں۔ اور ان نائبین میں امام کی روح حلول کر جاتی ہے۔ اس عقیدہ کے قائل شیعانِ عجم تھے جو مسئلہ تناسخ کے قائل تھے۔
(5) مذہبی عقائد کا صرف ظاہری مطلب ہی نہیں لینا چاہیے بلکہ احکامِ شریعت کے ظاہری مطلب کے ساتھ ایک باطنی مطلب بھی ہوتا ہے اور یہ مفہوم صرف امامِ وقت کو ہی معلوم ہوتا ہے۔
(6) اسماعیلی چونکہ ظاہر وباطن میں بھی فرق دیکھنے لگے لہٰذا وہ فرقہ باطنیہ بھی کہلائے۔
اسماعیلیہ کا عروج ابتداء میں اسماعیلی فرقہ کو شیعہ فرقہ کی ایک شاخ تصور کیا گیا اور اس فرقہ کو کوئی سیاسی اور مذہبی حیثیت حاصل نہ تھی، تاہم عبد اللہ بن میمون نامی ایک شخص نے اس فرقہ کو امتیازی حیثیت دی۔ یہ خوزستان کا باشندہ تھا اس کا باپ ایک غالی شیعہ تھا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ اماموں میں خود اللہ تعالیٰ کی روح موجود ہوتی ہے۔ عبد اللہ بن میمون نے بصرہ میں اپنے عقائد کا پرچار شروع کیا اور اپنی شعبدہ بازی اور سحربیانی سے ایک جمعیت بنالی۔ ان لوگوں کے نزدیک سات اور بارہ کے اعداد متبرک ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ ہفتہ کے دن کو متبرک خیال کرتے تھے اور اسی روز تمام مردوزن اکٹھے ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ ان کے خیال کے مطابق امام ظاہری اور باطنی چیزوں کو خوب جانتا ہے۔
عبد اللہ بن میمون کا سب سے بڑا حلیف عراق کا ایک شخص حمدان نامی تھا جس نے فرقہ قرامطہ کی بنیاد رکھی۔ عبد اللہ نے اپنے داعی اطرافِ ممالک میں روانہ کیے اور ظاہری عقائد کے علاوہ چند خفیہ عقائد بھی اسماعیلی مذہب میں داخل کیے۔ جب کوئی داعی خفیہ عقائد کو تسلیم کر لیتا تو اسے رفیق کا خطاب دیا جاتا۔ عبد اللہ کے بیٹے اور پوتے بھی اس فرقہ کے عقائد عام کرنے میں بہت کام کیا، چنانچہ افریقہ کے بربری قبائل بکثرت اسماعیلی بن گئے۔ جب عبد اللہ کے پوتے سعید نے افریقہ میں کامیابی کی خبر سنی تو وہاں جا پہنچا اور اپنے آپ کو امام محمد بن اسماعیل کی اولاد اور مہدی موعود ظاہر کر کے اپنا نام سعید کی بجائے ابومحمد عبید اللہ رکھا وہ اس قدر قوت حاصل کر پایا کہ اس نے وہاں کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور خلافتِ فاطمی کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد اس کے جانشینوں نے اسماعیلی عقائد کی اشاعت کے لیے حکومت میں ایک محکمہ قائم کیا جہاں سے ہر سال ہزاروں داعی تعلیم پا کر مختلف ممالک میں جاتے، وہ خفیہ طور پر فاطمی خلفاء کی بیعت حاصل کرتے اور اسماعیلی عقائد کی تبلیغ کرتے۔
حسن بن صباح مشرق ممالک میں حسن بن صباح نے اسماعیلی عقائد کو خوب پھیلایا۔ حسن بن صباح نہایت ذہین، صاحب تدبیر وفراست، جید عالم دین مگر انتہائی مکار شخص تھا۔ فاطمی خلفاء نے اسے مشرق میں اپنا داعی عظیم مقرر کیا۔ جس نے اپنی کوششوں اور تدبیروں سے ایک بہت بڑی متشدد جماعت بنائی اور مازندان کے دشوار گذار پہاڑی علاقہ میں ایک مضبوط قلعہ ’’الموت یاالتموت‘‘ کے نام سے بنا کر ایک چھوٹی سی ریاست قائم کر لی اور اسماعیلی دعوت کو از سر نو منظم کیا۔ حسن بن صباح نے ایک مضبوط جنت بھی بنائی جس میں دنیا کے ہر حصے سے خوبصورت دوشیزائیں اغواء کر کے لائی جاتیں۔ حسن بن صباح کے نوجوان فدائین کو بھنگ (حشیش) پلا کر جنتِ ارضی میں پہنچا دیاجاتا۔ چونکہ ان حورانِ جنت کے لیے ان فدائی نوجوانوں کی آتش شوق بھڑکی ہوئی ہوتی تھی اس لیے وہ بے چین ہو جاتے اور چاہتے کہ انہیں دوبارہ شربت جنت (بھنگ) بھی مل جائے اور لذت وصال بھی نصیب ہو جائے یہی وہ وقت ہوتا تھا کہ حسن بن صباح ان سے اپنے مطلب کا کام لے سکے۔ چنانچہ ان فدائین کو پیغام پہنچایا جاتا کہ اگر تم دوبارہ اس عشرت کدہ (جنت) میں جانا چاہتے ہو تو امام (حسن بن صباح)کے فلاں دشمن کو قتل کردو۔ اس پر وہ فدائین امام کے ہر دشمن کو بہرحال قتل کرنے پر آمادہ ہو جاتے۔ فدائین کی جماعت ایک دہشت پسند جماعت تھی جن کا عام پیشہ لوٹ مار، کشت وخون اور قتل وغارت گری تھی۔
اس طرح حسن بن صباح اور اس کے حواری اپنے مخالفین کو ان فدائین کے ہاتھوں مرواتے رہے، چنانچہ عالم اسلام کے سینکڑوں صالح بندے، علماء اور حکمران قتل ہوئے جس سے ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا حتیٰ کہ نظام الملک طوسی بھی ان لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اور خوف وہراس کی حالت پیدا ہو گئی۔ عربی زبان میں بھنگ کو حشیش کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ جماعت حشیش بھی کہلائی۔ حسن بن صباح 1124ء میں فوت ہوا مگر اس کے بعد سترہ سال تک اس کے جانشین قلعہ الموت اور نواح میں حکومت کرتے رہے۔
سلجوقی اور عباس حکمرانوں نے ان کی سرکوبی کی کوششیں کیں مگر ناکام رہے حتیٰ کہ ہلاکوخان نے قلعہ الموت کو فتح کر کے ان کا خاتمہ کیا تاہم اسماعیلیہ فرقہ آج بھی موجود ہے جس کا موجودہ امام کریم آغا خان ہے۔
فرقہ قرامطہ سرزمین کوفہ میں 278ھ میں حمدان نامی ایک شخص نے اس فرقہ کی بنیاد ڈالی۔ اس کے عقیدہ کی رو سے اماموں کی تعداد بارہ کی بجائے سات ہے۔ (1) امام حسین (2) علی زین العابدین بن حسین (3) امام جعفر صادق بن محمد باقر بن علی بن حسین (4) اسماعیل بن جعفر صادق (5) محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق (6) امام محمدباقر بن علی بن حسین (7) عبید اللہ بن محمدبن اسماعیل۔
وجہ تسمیہ اس فرقہ کی مختلف طور پر بیان کی گئی ہے۔
(1) حمدان کوفہ میں بیلوں کے ذریعہ غلّہ ڈھوتا تھا، لہٰذا اسے قرمیطہ (کرمیتہ) یعنی بیلوں پر وزن لادنے والا یا سوار، کہا گیا۔ اس نسبت سے فرقہ کو قرامطہ، قرمطہ وغیرہ کہا گیا۔
(2) قرمطوتا کے معنی ہیں مکار، فریب دینے والا، دغاباز، یہ نام اسے مخالفین نے دیا جو قرامطہ رہ گیا۔
(3) کرمیتہ یا قرموطہ جنوبی عراق میں کاشتکار کو کہتے تھے۔ چونکہ حمدان کے اہل خاندان کاشتکاری کرتے تھے لہٰذا یہ لوگ قرامطہ کہلائے۔
افکار وعقائد حمدان خود کو امام عبید اللہ بن محمد کا نائب کہتا تھا جبکہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے محمد بن الحنفیہ بن علی کو رسول کا درجہ دیتا تھا۔ چنانچہ اس نے اذان میں ان الفاظ کا اضافہ کیا۔ اشھد ان محمد بن الحنفیۃ رسول اللہ
٭ حمدان نے کعبۃ اللہ کی بجائے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا۔
٭ حمدان کے نزدیک جمعۃ المبارک کی بجائے پیر (سوموار) کا دن متبرک ہے۔ پیر کے دن کوئی بھی کام کرنا خلافِ شریعت قرار دیا گیا۔
٭ اس کے نزدیک شراب حلال تھی۔
٭ قرامطہ کے ہر مخالف کو قتل کر دینا واجب ہے۔
٭ اس نے اپنا لقب ’’قائم بالحق‘‘ اختیار کیا۔
٭ اس کے نزدیک نمازیں پانچ کی بجائے پچاس اور روزے تیس تھے۔ وہ کہتا تھا کہ اللہ نے اپنے رسول پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔
حمدان نے عبد اللہ المہدی (خلیفہ) سے سرکشی اختیار کی چنانچہ اسے ایک روایت کے مطابق سرکشی کے باعث کر دیا گیا۔
حمدان کے بعد اس کا بہنوئی عہدان اس کا جانشین ہوا جسے خلیفہ عبد اللہ المہدی نے قتل کرا دیا۔ تاہم اس وقت تک اس فرقہ کے عقائد کوفہ کے گردونواح کی وادیوں میں پھیل چکے تھے۔ کچھ عرصہ بعد ان لوگوں کے عقائد میں بڑی سرعت کے ساتھ تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ مثلاً پچاس نمازوں کی بجائے صرف چار رکعت نماز فرض رہ گئی۔ دو رکعت نماز طلوع آفتاب سے قبل اور دو رکعت غروب آفتاب کے بعد۔ اسی طرح جنسی بے راہ روی اور آزادی کو انہوں نے رواج دیا۔ بہن، بیٹی اور اماں کے رشتوں کا کوئی تقدس باقی نہ رکھا اور ہر شخص کو ہر عورت سے جنسی تعلق قائم کرنے کی آزادی دی اور اس بے ہودہ اصول کا نام ’’الفت‘‘ رکھ دیا۔ اور یہ تحریک محمد بن اسماعیل کے نام سے پروان چڑھی۔
شام اور عراق میں اس فرقہ کے لوگ آباد تھے جن کی قیادت اب ذکرویہ بن مہرویہ کر رہا تھا۔ اس کے چار بیٹے تھے۔ پہلا یحییٰ بن ذکرویہ جسے صاحب الناقہ کہا جاتا تھا اس کا دعویٰ تھا کہ اس کی ناقہ (اونٹنی) اللہ کی طرف سے بھیجی گئی ہے۔ یحییٰ کو الشیخ بھی کہتے تھے۔ یہ 390ھ میں ہلاک ہوا۔ دوسرا احمد بن ذکرویہ اور تیسرا محمد بن ذکرویہ۔ یہ دونوں اپنے عقائد کی تبلیغ کے دوران مارے گئے جبکہ چوتھا بیٹا حسین تھا جسے صاحب الشامہ کہا جاتا تھا۔ اس کے چہرے پر تِل کا نشان تھا یہ لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ یہ (خال) نشانِ الٰہی ہے۔ اس بنا پر لوگ اس کو صاحب الخال یا صاحب الشامہ (تِل والا) کہتے تھے۔ اپنے بڑے بھائی یحییٰ صاحب الناقہ کے ہلاک ہونے کے صرف ایک سال بعد 391ھ میں اسے بھی ہلاک کر دیا گیا۔ جہاں تک خود زکریہ ابن مہرویہ کا تعلق ہے وہ اچانک روپوش ہو گیا اور بارہ برس تک لاپتہ رہا، جبکہ اس کے چاروں بیٹے فرقہ قرامطہ کی تبلیغ کرتے رہے۔ آخرکار جب اس کا آخری بیٹا حسین صاحب الشامہ بھی قتل کر دیا گیا تو اس نے خود کو ظاہر کر دیا مگر صرف ایک سال بعد ہی اسے قتل کر دیا گیا۔
جنابیّہ 281ھ میں ایک شخص یحییٰ بن مہدی نے اعلان کیا کہ مہدی موعود کے ظہور کا وقت قریب ہے۔ انہوں نے مجھے اپنا داعی بنا کر بھیجا ہے۔ اس کا ایک پیروکار ابوسعید بن بہرام جو خلیج فارس کے ساحلی گائوں جنابیّہ کا رہائشی تھا نے یحییٰ بن مہدی کو ایک طرف کر کے قیادت سنبھالی۔ اس شخص نے اپنی طاقت اس قدر بڑھائی کہ 287ھ میں اس نے زیریں عراق کے اکثر علاقوں میں تسلط جما لیا۔ ابوسعید جنابی 301ھ میں اپنے ہی ایک خادم کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے سعید نے جانشینی کی مگر اس کے بھائی ابوطاہر سلیمان نے اسے شکست دے کر اپنے فرقہ کی قیادت خود سنبھال لی۔ ابوطاہر سلیمان نے قرامطہ کی اس شاخ جنابیّہ کی تحریک میں روح پھونک دی اور اس نے ایک اور دار الہجرت بنایا۔
ابوطاہر اور اس کے پیروکاروں نے کئی مرتبہ حاجیوں کے قافلوں کی راہ روکی، حاجیوں کا سامان لوٹا اور انہیں قتل کیا۔ اس نے قتل وغارت گری کا طوفان برپا کیا حتیٰ کہ 311ھ میں اس نے بصرہ میں داخل ہو کر جامع مسجد کو بھی آگ لگادی۔ ابوطاہر سلیمان حج اور حاجیوں کا دشمن تھا اس نے 307ھ میں نوسو افراد کی جمعیت کے ساتھ مکہ مکرمہ پر بھی حملہ کیا۔ بے شمار حاجیوں کا قتل عام کیا، شہر کو لوٹ لیا اور خانہ کعبہ کا دروازہ تک اکھاڑ دیا۔ اس ظالم نے غلافِ کعبہ کو تارتار کیا۔ کعبۃ اللہ اور مکہ مکرمہ کی اس قدر بے حرمتی پر عالم اسلام میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ حتیٰ کہ ایک سال ان علاقوں سے عازمین حج فریضہ حج بیت اللہ کی ادائیگی کے لیے بھی نہ جا سکے۔ مسلسل ومتواتر خانہ جنگیوں کے باعث عباسی خلفاء میں اتنی ہمت نہ تھی کہ قرامطہ کو مغلوب کر سکتے۔ بالآخر ابوطاہر سلیمان کی موت قرامطہ کا زور ٹوٹنے کی وجہ بنی۔ ابوطاہر کے بعد قرامطہ کے راہنماء اصم شاہ بحرین کو فاطمی خلفاء المعز اور العزیز نے پے در پے شکستیں دے کر ان کی کمر توڑ دی اور ان کا خاتمہ ہوا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قرامطہ ظالم اور دہشت گرد لوگ تھے۔ یہ لوگ بظاہر اصلاح کی تحریک کا پرچم تھام کر میدان میں آئے مگر مصلح ہونے کی بجائے وہ بے رحم ڈاکو، ملحد، بے دین اور غاصب تھے۔ ان کو دین سے کوئی سروکار نہ تھا ان کا کام محض دولت جمع کرنا اور فتنہ وفساد برپا کرنا تھا۔