مال کی کثرت پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پریشانی

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عبدالرحمٰن بن عو ف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بلانے کے لیے میرے پاس ایک آدمی بھیجا۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب میں دروازے کے قریب پہنچا تو میں نے اندر سے ان کے زور سے رونے کی آواز سنی ۔ میں نے گھبرا کر کہا ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اللہ کی قسم ! امیر المومنین کوکوئی زبردست حادثہ پیش آیا ہے ، (جس کی وجہ سے اتنے زور سے رو رہے ہیں ) میں نے اندر جاکر ان کا کندھا پکڑ کر کہا اے امیر المومنین !پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ۔ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ۔ انہوں نےکہانہیں ۔ پریشان ہونے کی بہت بڑی بات ہے اور میرا ہاتھ پکڑ کر دروازے کے اندر لے گئے میں نے وہاں جاکر دیکھا کہ اوپر نیچے بہت سے تھیلے رکھے ہوئے ہیں ۔
انہوں نے فرمایا اب خطاب کی اولاد کی اللہ کے ہاں کوئی قیمت نہیں رہی ۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو میرے دونوں ساتھیوں یعنی نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی یہ مال دیتے اور وہ دونوں اسے خرچ کرنے میں جو طریقہ اختیار کرتے میں بھی اسے اختیار کرتا۔ میں نے کہا آئیں بیٹھ کر سوچتے ہیں کہ اسے کیسے خرچ کرنا ہے۔
چنانچہ ہم لوگوں نے امہات المومنین (حضور ﷺ کی ازواج مطہرات ) کے لیے چار ہزار اور مہاجرین کے لیے چار چار ہزار اور باقی لوگوں کے لیے دو دو ہزار درہم تجویز کیے اور یوں وہ سارا مال تقسیم کردیا ۔(اخرجہ ابوعبید والعدافی الکنز 2/318)۔

ماخوذ از: " آج کا سبق "صفحہ 395
تالیف : مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ
 
Top