اشاعتِ حدیث میں صوفیاءہند کا کردار :ابن محمد جی قریشی

qureshi

وفقہ اللہ
رکن
اشاعتِ حدیث میں صوفیاءہند کا کردار
(اس موضوع پر کتاب زیر طبع ہے )
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ
أعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم
بِسْمِ ٱللّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيمِ
خیر القرون میں تصوف کی ہیت وحثیت​
جو علوم انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام تقسیم فرماتے ہیں ،اس میں دو چیزیں ہو تی ہیں یا دوطرح کا فیض نصیب ہوتا ہے۔ ایک حصہ تعلیمات نبوت پر مشتمل ہوتا ہے اور دوسرا حصہ برکات نبوت کہلاتا ہے۔ انبیاء کی تعلیم میں اور دوسرےماہرین کی تعلیم میں ایک بنیادی فرق ہےتعلیم تو ہر فن کا استاد دیتا ہےہم دنیوی علم سیکھتے ہیں سائنس کا علم سیکھتے ہیں مابعد الطبیعات کا علم سیکھتے ہیں اور بے شمار جو علم ہم سیکھتے ہیں وہ علم نہیں ہوتا ،وہ خبر ہوتی ہے ہمارا سکھانے والا استاد ہم تک بہت سی خبریں پہنچاتا ہےوہ خبریں ہمارے ذہن میں جمع ہو جاتی ہیں ہم پی ایچ ڈی کر لیتے ہیں لیکن ان سب خبروں کا ہماری زندگی پر ،ہمارے دل میں ،ہماری روح پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔اس حقیقی علم نہیں کہنا چاہئے،یہ خبریں ہوتی ہیں ۔
انبیاء کی تعلیمات میں یہ فرق ہوتا ہےکہ نبی ؊جو فرماتے ہیں اس کے ساتھ ایک کیفیت ہوتی ہےجو شخص دل میں وہ کیفیت قبول کرتا ہے،وہ مر جاتا ہے ،کٹ جاتا ہےمگر اس سے ہٹتا نہیں کیونکہ وہ خبر نہیں ہوتی۔وہ بات تو اس کے کان سنتے ہیں ،دماغ میں پہنچتی ہے لیکن اس کے ساتھ جو کیفیات ہوتی ہیں وہ قلب میں اتر جاتی ہیں ۔یعنی آپ ﷺکی تعلیم کا ایک ظاہری پہلو تعلیمات نبوت ﷺہے۔تعلیماتِ نبوت ارشادات ظاہری، اقوال و افعال رسول اللہﷺ کا مرقع ہے۔ تعلیمات نبوتﷺ کا یہ پہلو حروف والفاظ کی شکل میں قلم بند ہوا اور سیکھا سکھایا جاتا ہے۔دوسرا پہلو جو علم کی اساس ہے وہ برکات نبوتﷺکہلاتا ہے ۔
آپ ﷺ کی تعلیمات ،ارشادات اور اس کے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کا فر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کیفیات کو حاصل کرتا ہے، جو آپ ﷺ کی صحبت میں بٹتی ہیں چنا نچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی۔صحابہ کرام کی صحبت میں آنے والے تابعین کہلائے اور ان سے تبع تابعین مستفید ہوئے پھر اہل اللہ نے اسی نعمت کو ان مقدس سینوں سے حاصل کیا اور خلق خدا کے دلوں کو روشن کرتے رہے، کرتے ہیں اور انشاء اللہ کرتے رہیں گے کہ اسی کی برکت سے کتاب وحکمت یا کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے یہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی اصول تعلیم کی اساس ہے۔ کتاب وحکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل آسان کر دے جو اس کی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھرمحض حروف کی شناخت رہ جائے گی اور اسے تعلیم کہنا درست نہ ہو گا۔
خیرالقرون میں اگر کوئی مفسرومحدث،مجاہدو غازی غرض جس کا تعلق بھی دین کے کسی شعبہ سے ہوا وہ برکات نبوت یعنی تصوف و احسان سے بھی ان کو وافر حصہ ملا تھا۔مثلا امام حسن بصری جہاں ہم ان کو امام الصوفیاء یعنی منبع ترسیل برکات مانتے ہیں وہی محدثین کی نظر میں ثقہ و صدوق ہیں ۔جہاں آپؒ کی علمی جلالت کا زمانہ ممدوح ہے وہی آپ رزم حق و باطل میں تلوار کے دھنی بھی نظر آتے ہیں۔ خیرالقرون میں تیغ و قلم ،لسان و سنان میں زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ خیر القرون شش جہت آئینہ ہےجس سے علم وعمل کی ہمہ جہت روشنیاں عالم اسلام میں پھیلیں۔(جاری ہے)
 
Top