ق
قاسمی
خوش آمدید
مہمان گرامی
[size=x-large]
اس مضمون کے ترتیب کا واقعہ یہ ہے ایک صاحب کا۔قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے۔ شعرکے حوالے سے کہنا تھا "محمدعلی جوھرؒ" شیعہ تھے۔
نام کتاب: محمدعلی ذاتی ڈائری کے چند ورق
نام مصنف: مولانا عبدالماجد دریابادیؒ
672 صفحات
سنہ اشاعت۲۰۰۵
مذکورہ کتاب سے اقتباسات
میں عقیدتا مسلمان ہوں اور اسکے معنی یہ ہیں کہ عقیدہ اسلام کو اور تمام عقائد سے بہتر واعلی تر سمجھتا ہوں اوراس لحاظ سے ،یعنی جھاں تک عقائد ایمانی کا تعلق ہے ،میں اکیلے گاندھی جی ہی سے نہیں تمام ھندووں،تمام عیسائیوں، تمام غیر مسلموں کے مجموعہ سے ہر ادنی سے ادنی مسلمان، ہر بد عمل سے بد عمل کلمہ گو کو بہتر سمجھتا ہوں ۔اگر آج میں خدا نخواستہ اس کا قائل نہ رہوں تو مسلمان رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی، (ص ۱۳۴)
مولانا دریا بادی:یہ جرأت وہمت اللہ نے بس محمد علی کو دی تھی کہ عین اجلاس کانگریس کے قرب میں ،اس کا صدر منتخب ہو چکنے پر ہزارہا مجمع عام میں ہندوؤں،پارسیوں، عیسائیوں کے سامنے اپنے اسلام اور اپنی اسلام پرستی کا اعلان اس صفائ، اس دلیری سے کردیا ۔ (ص ۱۳۴
محمدعلی کا رجحان طبع اگر کچھ تھا تو عقائد فرنگی محلی ھی کی جانب(ص ۲۲۷)
(۲)شیعوں کو میں ضلالت پر سمجھتا ہوں۔(ص ۳۵۰)
(۳)اہل حدیث جہاں کہیں بھی،پنجاب میں ہوں یا بنگال میں،مولانا سے کد رکھے ہوئے تھے۔حالانکہ ان غریب کو تقلید وعدم تقلید کے مناقشوں سےدور کا بھی واسطہ نہ تھا۔(ص ۳۶۸)
(۴)جولائی ہی کی کوئی آخری تاریخ تھی کہ یہ دوسری جوان لڑکی بھی اللہ کو پیاری ہو گئی۔لوگوں کا بیان ہے فرط غم سے بیخود ہو رہے تھے لیکن اس بیخودی میں بھی اتنے حواس باقی تھے کہ کفن ودفن وغیرہ کے ایک ایک جزئیہ سے متعلق احکام شریعت مفتی کفایت اللہ صاحب سے دریافت کرتے جاتے تھے اور جہاں مفتی صاحب نرم پڑ جاتے تھے ،خود ہی اصرار کر کے مستحسن جزئیات کی ھدایات ان سے حاصل کرتے تھے ۔(ص ۴۸۶)
(۵)حالی کاایک لا جواب شعر ہےِ؎
تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یا سزا کے بعد
حالی بہر حال ایک مسلم استاد تھے ۔جوھر ان کے مقابلہ میں مبتدی اور نو آمیزمحض، پھر بھی شعر کچھ ایسا ہیٹا نہیں
دور حیات آئیگا قاتل قضا کے بعد ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
لذت ھنوز مائدہ عشق میں نہیں آتا ہے لطف جرم تمنا سزا کے بعد
اور یہ شعر تو اردو ادب میں گھل مل کر گویا ضرب المثل بن گیا ہے
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(ص ۵۹۸)
آخر میں یہ غزل سن لیجئے اور فیصلہ کیجئے کہ جوہر کیا تھا شیعہ، بریلوی، دیو بندی یا پھر ایک عاشق رسول، شیدایئے اسلام مؤحد ۔ناقل
میں کھو کے تری راہ میں سب دولت دنیا
سمجھا کہ کچھ اس سے سوا میرے لئے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہدے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
ائے شافع محشر جو کرے تو نہ شفاعت
پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لئے ہے
کیوں ایسے نبی پہ نہ فدا ہوں کہ جو فرمائے
اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لئے ہے
اسی آپ بیتی کا ایک شعر یہ بھی ہے
کیوں جان نہ دون غم میں تیرے جبکہ ابھی ہے
ماتم یہ زمانہ میں بپا میرے لئے ہے
بعد وفات جب ایک عالم ماتم وشیون سے گونجنے لگا تو صاحب معارف مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے تعزیعتی مقالہ کا عنوان ہی اسی دوسرے مصرعہ کو رکھا۔
ماتم یہ زمانہ میں بپا میرے لئے ہے
خدا جانے الہام شاعر کو ہوا تھا یا تعزیت نگار کو۔عجب نہیں کہ دونوں کو ہوا ہو۔ ( ص ۵۹۷۔۵۹۸)
[size=x-large][/size]نام کتاب: محمدعلی ذاتی ڈائری کے چند ورق
نام مصنف: مولانا عبدالماجد دریابادیؒ
672 صفحات
سنہ اشاعت۲۰۰۵
مذکورہ کتاب سے اقتباسات
میں عقیدتا مسلمان ہوں اور اسکے معنی یہ ہیں کہ عقیدہ اسلام کو اور تمام عقائد سے بہتر واعلی تر سمجھتا ہوں اوراس لحاظ سے ،یعنی جھاں تک عقائد ایمانی کا تعلق ہے ،میں اکیلے گاندھی جی ہی سے نہیں تمام ھندووں،تمام عیسائیوں، تمام غیر مسلموں کے مجموعہ سے ہر ادنی سے ادنی مسلمان، ہر بد عمل سے بد عمل کلمہ گو کو بہتر سمجھتا ہوں ۔اگر آج میں خدا نخواستہ اس کا قائل نہ رہوں تو مسلمان رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی، (ص ۱۳۴)
مولانا دریا بادی:یہ جرأت وہمت اللہ نے بس محمد علی کو دی تھی کہ عین اجلاس کانگریس کے قرب میں ،اس کا صدر منتخب ہو چکنے پر ہزارہا مجمع عام میں ہندوؤں،پارسیوں، عیسائیوں کے سامنے اپنے اسلام اور اپنی اسلام پرستی کا اعلان اس صفائ، اس دلیری سے کردیا ۔ (ص ۱۳۴
محمدعلی کا رجحان طبع اگر کچھ تھا تو عقائد فرنگی محلی ھی کی جانب(ص ۲۲۷)
(۲)شیعوں کو میں ضلالت پر سمجھتا ہوں۔(ص ۳۵۰)
(۳)اہل حدیث جہاں کہیں بھی،پنجاب میں ہوں یا بنگال میں،مولانا سے کد رکھے ہوئے تھے۔حالانکہ ان غریب کو تقلید وعدم تقلید کے مناقشوں سےدور کا بھی واسطہ نہ تھا۔(ص ۳۶۸)
(۴)جولائی ہی کی کوئی آخری تاریخ تھی کہ یہ دوسری جوان لڑکی بھی اللہ کو پیاری ہو گئی۔لوگوں کا بیان ہے فرط غم سے بیخود ہو رہے تھے لیکن اس بیخودی میں بھی اتنے حواس باقی تھے کہ کفن ودفن وغیرہ کے ایک ایک جزئیہ سے متعلق احکام شریعت مفتی کفایت اللہ صاحب سے دریافت کرتے جاتے تھے اور جہاں مفتی صاحب نرم پڑ جاتے تھے ،خود ہی اصرار کر کے مستحسن جزئیات کی ھدایات ان سے حاصل کرتے تھے ۔(ص ۴۸۶)
(۵)حالی کاایک لا جواب شعر ہےِ؎
تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یا سزا کے بعد
حالی بہر حال ایک مسلم استاد تھے ۔جوھر ان کے مقابلہ میں مبتدی اور نو آمیزمحض، پھر بھی شعر کچھ ایسا ہیٹا نہیں
دور حیات آئیگا قاتل قضا کے بعد ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
لذت ھنوز مائدہ عشق میں نہیں آتا ہے لطف جرم تمنا سزا کے بعد
اور یہ شعر تو اردو ادب میں گھل مل کر گویا ضرب المثل بن گیا ہے
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(ص ۵۹۸)
آخر میں یہ غزل سن لیجئے اور فیصلہ کیجئے کہ جوہر کیا تھا شیعہ، بریلوی، دیو بندی یا پھر ایک عاشق رسول، شیدایئے اسلام مؤحد ۔ناقل
میں کھو کے تری راہ میں سب دولت دنیا
سمجھا کہ کچھ اس سے سوا میرے لئے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہدے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
ائے شافع محشر جو کرے تو نہ شفاعت
پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لئے ہے
کیوں ایسے نبی پہ نہ فدا ہوں کہ جو فرمائے
اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لئے ہے
اسی آپ بیتی کا ایک شعر یہ بھی ہے
کیوں جان نہ دون غم میں تیرے جبکہ ابھی ہے
ماتم یہ زمانہ میں بپا میرے لئے ہے
بعد وفات جب ایک عالم ماتم وشیون سے گونجنے لگا تو صاحب معارف مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے تعزیعتی مقالہ کا عنوان ہی اسی دوسرے مصرعہ کو رکھا۔
ماتم یہ زمانہ میں بپا میرے لئے ہے
خدا جانے الہام شاعر کو ہوا تھا یا تعزیت نگار کو۔عجب نہیں کہ دونوں کو ہوا ہو۔ ( ص ۵۹۷۔۵۹۸)